اسلام جوڑنے کے لئے آیا ہے، توڑنے کے لئے نہیں، نکاح اور شادی بابرکت اور کامیاب زندگی کے ضامن ہیں۔ طلاق دینا اسلام کی نظر میں انتہائی معیوب اور قابلِ مذمت فعل گردانا گیا ہے۔ اس کی مثال سرجری کی سی ہے کہ اعضاء کو کاٹنا، چیرنا، پھاڑنا ہرگز قابلِ تحسین نہیں ہے تاہم کبھی مجبوری ہوتی ہے کہ جسم میں کوئی ایسا کینسر پیدا ہو جاتا ہے اور بروقت آپریشن کرکے زہریلا مواد ضائع نہ کیا جائے تو زہر کا پورے بدن میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے، جس سے زندگی کے ختم ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے، اس لئے باقی اعضاء کو بچانے کے لئے اُس عضو کو کاٹنا لازم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناگزیر حالات میں طلاق دینا جائز تو ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اسے پسند نہیں فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللهِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ.
’’حلال کاموں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل طلاق ہے۔‘‘
(أبی داود، السنن، کتاب الطلاق تفریع أبواب الطلاق، باب فی کراهیة الطلاق، 2: 255، 2178)
نکاح ایک عمرانی، معاشرتی اور سماجی معاہدہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا مظہر ہے۔ جس سے مرد و عورت ذہنی سکون پاتے ہیں اور فطری جذبات و احساسات کو جلا بخشتے ہیں لیکن کبھی انسانوں کی حماقتوں یا اذہان کے نہ ملنے یا زبردستی شادی کے رسم و رواج آڑے آنے کی وجہ سے یہ رشتے ختم کرنے کا وقت بھی آجاتا ہے کیونکہ نفرت اس حد تک آجاتی ہے کہ جس سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ سے کسی بڑے حادثے کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لئے طلاق کی سرجری کی جاتی ہے تاکہ فریقین اپنی رضا مندی کے مطابق زندگی کا بڑا فیصلہ کرکے نئی حکمت عملی اپنائیں۔
اس معاملے میں جہاں تک ممکن ہو، ذمہ دار بندوں، معاشرے کے مؤثر افراد، رشتہ داروں اور دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی خرابی نہ ہو اور رشتہ بچ جائے۔ اس لیے پہلے ثالثی کونسل میں پیش ہو کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی جائے، اگرپھر بھی نباہ کی کوئی صورت نہ نکلے تو طہر کی حالت میں صرف ایک بار طلاق دے کر جدا ہو جانا چاہئے۔ اس طرح عدت پوری ہو جانے پر ایک طلاق سے ہی نکاح ختم ہوجائے گا یعنی طلاق رجعی کی عدت کے بعد عورت آزاد ہو جائے گی اور جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی حقدار ہوگی۔
طلاق کا یہ طریقہ اپنانے سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر دونوں کو اپنے مستقبل کا خیال آجائے، ندامت ہو جائے یا اپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو عدت کے اندر بھی واپسی کا راستہ کھلا رہے گااور اگر عدت گزر بھی جائے تو صرف دوبارہ نکاح کر کے واپسی ممکن رہے گی۔ لہٰذا تین طلاقیں کسی صورت بھی قابلِ تحسین نہیں ہیں کیونکہ واپسی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا ہے جو کہ شرعاً اور طبعاً ہرگز پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
لہٰذا اس کا سد باب پہلے تو والدین، خاندان والوں اور دوست احباب کو کرنا چاہئے کہ میاں بیوی میں اگر اس طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں توان کی غلط فہمیوں کو دور کرکے طلاق کی نوبت سے بچا لیا جائے لیکن اگر تمام تر کوششوں کے باوجود میاں بیوی کی علیحدگی ناگزیر ہوجائے تو صرف ایک طلاق رجعی دے کر عدت ختم ہونے کا انتظار کیا جائے کیونکہ اس صورت میں واپسی کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔
اگر کوئی تین طلاقیں دے کر قرآن و سنت اور عقل و نقل کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جرمانہ اور تعزیراً سزا دینا عدالت کی صوابدیدہے کہ کتنی قید اور کتنا جرمانہ ہونا چاہیے کیونکہ بیک وقت طلاق ثلاثہ دینے پر حضور نبی کریم ﷺ نے بھی ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللهِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ؟
رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ غصہ سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ کی کتابِ مقدس کی صریح تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں۔
(نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعة وما فیه من التغلیظ، 6: 104، رقم: 3401)
ہماری پرزور اپیل ہے کہ حکومت طلاق دینے، طلاق لکھنے و لکھوانے اور طلاق مؤثری کا سر ٹیفکیٹ جاری کرنے جیسے تمام امور پر قانون سازی کرے۔ اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو قید و بند اور جرمانہ کی سزاملنی چاہئے تاکہ طلاق کی شرح کم ہو اور تین طلاقوں کی جو بدعت عام ہو گئی ہے، اس کی روک تھام ہوسکے۔ اس بل کا پاس ہونا بہت ضروری ہے تاکہ مزید بچیوں کا مستقبل خراب نہ ہو اورعورتیں دربدر کی ٹھوکریں کھا کر ذلیل نہ ہوں۔
قانون سازی کے لیے تجاویز
اس قانون کو مؤثر اور پائیدار بنانے کے لئے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
1۔ اگر میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے اس قدر بڑھ جائیں کہ نوبت طلاق تک آن پہنچے تو پہلے انہیں ثالثی کونسل میں پیش کر کے مصالحت کی کوشش کی جائے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَهْلِهَا ج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللهُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا.
(النساء، 4: 35)
’’اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بے شک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔‘‘
جبکہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق لوگ پہلے تین تین اکٹھی طلاقیں دیتے ہیں اور پھر اُن کو ثالثی کونسل میں طلب کر کے صلح کی کوششیں کی جاتی ہیں جو قرآن و حدیث کے منافی عمل ہے۔
2۔ اگر ثالثی کونسل، میاں بیوی کے درمیان مصالحت کروانے میں ناکام ہو جائے تو پھر شوہر کو طلاقِ اَحسن دینے کی اجازت دی جائے تاکہ واپسی کا دروازہ کھلا رہے۔ دو یا تین طلاقیں دینے کا حق کسی کو نہ دیا جائے۔ جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ.
(البقرة، 2: 229)
’’طلاق (رجعی صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (رجوع کر کے بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا (رجوع نہ کر کے) بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘
نوٹ: طلاقِ اَحسن وہ طلاق ہوتی ہے جس کے مطابق شوہر اپنی زوجہ مدخولہ کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے مباشرت نہ کی ہو۔ پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اس میں دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی ہو سکتا ہے۔
3۔ طلاق مؤثری کے سر ٹیفکیٹ کے حصول کے لیے تین طلاقیں لازمی دینے کی شرط ختم کی جائے اور طلاقِ اَحسن کی عدت پوری ہونے پر عورت کو طلاق مؤثر ہونے کا سر ٹیفکیٹ جاری کر کے اُسے دستور کے مطابق کہیں اور نکاح کرنے کی اہل قرار دیا جائے۔
4۔ شریعت کے مطابق مطلقہ حائضہ کی عدت تین حیض، حاملہ کی وضع حمل اور آئسہ (ایسی عورت جس کو بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ماہواری کا خون نہ آتا ہو) کی عدت تین ماہ شمار کی جائے جوکہ قرآن و سنت کے صریح احکامات ہیں جبکہ اس وقت ہماری عدالتیں، ججز، وکلاء، عرضی نویس اور یونین کونسل وثالثی کونسل وغیرہ ہر عورت کے لیے نوے (90) دن عدت شمار کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْٓءٍ.
(البقرة، 2: 228)
’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت میں واضح ہے کہ مطلقہ حائضہ کی عدت تین حیض ہے۔ جبکہ حاملہ اور آئسہ کی عدت کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَۃُ اَشْهُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا.
(الطلاق، 65: 4)
’’اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔‘‘
5۔ عرضی نویس، وکلاء اور اشٹام فروش وغیرہ کو اکٹھی تین طلاقیں لکھنے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ طلاق لکھنے کا باقاعدہ لائسنس جاری ہونا چاہیے، جو قانون کی خلاف ورزی کرے اُس کا لائسنس ختم کر دینا چاہیے۔ اکٹھی تین طلاقیں لکھنے، لکھوانے اور گواہ بننے والوں کو تعزیراً سزا وجرمانہ ہونا چاہیے۔
6۔ عرضی نویس، وکلاء اور ججوں کو طلاق کے حوالے سے سپیشل کورسز کروائے جائیں تاکہ ان سب کو طلاق کا پیپر لکھنے سے لے کر فیصلہ ہوجانے تک کے مرحلہ کی تمام معلومات ہوں اور طلاق لکھوانے والے سے پوچھا جائے کہ ابتدائی مرحلہ (ثالثی کونسل)طے کیا گیا ہے کہ نہیں؟ مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعدثالثی کونسل کی طرف سے بھجوائی گئی صرف ایک طلاق ہی لکھنے اور نافذ کرنیکی اجازت ہو اور جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے جرمانہ و سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے۔