اداریہ : اٹھ کہ بزمِ جہاں کا رنگ بدلیں!

ایڈیٹر

سیاسی و سماجی بحرانوں نے پاکستانی قوم اس جگہ لاکھڑا کیا ہے جہاں درد دل رکھنے والا ہر فرد اصل بیماری کی تشخیص چاہتا ہے۔ خرابی کے اصل اسباب وجوہات جان کر اس کا تدارک کرتے ہوئے بہتری کی جانب گامزن ہونا چاہتا ہے۔ طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والی مایوس تر عوام سب کے احساسات یہی ہیں۔ یہ سب کچھ چاہنے اور احساس رکھنے کے باوجود اسے من حیث القوم کچھ معلوم نہیں کہ اصل راستہ اور طریقہ کیا ہے؟ پاکستانی اپنی ذات میں بکھرے ہوئے ہیں، بیک وقت اسلامی بھی کہلانا چاہتے ہیں اور لادینی خیالات کو بھی اپنے ساتھ چپکائے رکھنا چاہتے ہیں۔ 21 ویں صدی میں اقوام عالم کے ساتھ ایک باوقار تعلق بھی قائم کرنا چاہتے ہیں اور دہشت گردانہ و انتہا پسندانہ خیالات و افکار سے مکمل اظہارِ لاتعلقی بھی نہیں کرپا رہے۔ مستقبل میں عالم اسلام اور اقوام عالم کی قیادت کے خواب بھی دیکھ رہے اور طرز کہن کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔

پاکستانی قوم اس وقت نیم مدہوشی کے عالم میں ہے۔ کوئی حادثہ، کوئی سانحہ، کوئی انکشاف اسے چند لمحات کے لئے ہوش میں لاتا ہے مگر اس کے بعد پھر یہ واپس اسی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ صوبائی تعصب، قتل و غارت گری، فرقہ واریت، دہشت گردی، اندرونی و بیرونی سازشیں، اداروں کی باہم لڑائی، کرپشن کے ریکارڈ، نااہل قیادت، اقرباء پروری، میرٹ کی پامالی، معاشی بدحالی، بنیادی حقوق سے محرومی الغرض بڑے سے بڑا جھٹکا (Shock) بھی اسے ہوش میں نہیں لارہا۔ شومئی قسمت اس قوم کی نیم مدہوشی کو ختم کرنے کے لئے ’’فرسودہ انتخابی نظام‘‘ کی صورت میں جو دوا دی جاتی رہی وہ مزید اس سیاسی بیمار قوم کی خرابی و تباہی کا باعث بنی۔ اس لئے کہ اسی فرسودہ انتخابی نظام نے ایک طرف جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے حقوق کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا اور دوسری طرف عوام کو ان کے آئینی و قانونی بنیادی حقوق سے محروم کیا۔

ملک و قوم کو اس نیم مدہوشی کی کیفیت سے نجات دلانے، خواب غفلت سے بیدار کرنے اور انہیں لٹنے کا احساس دلانے کے لئے پہلے قدم پر اس سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف پرامن جمہوری و آئینی بغاوت کرنا ہوگی۔ اس قوم کے جملہ امراض کا علاج اس فرسودہ اجارا دارانہ انتخابی نظام کو رد کرنے میں ہے۔ ہمارے ہاں محض انتخابات کے ڈھونگ رچائے جانے کو جمہوریت تصور کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات، جمہوریت کے دیگر بہت سے مشمولات میں سے ایک ہے۔ 1990ء کے انتخابات میں کون کون سی نادیدہ قوتوں نے ’’اپنا کمال‘‘ دکھایا؟ کس کس نے حصہ بقدر جثہ کے مصداق اپنا ’’حق‘‘ وصول کیا؟ قوم عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں حقائق سے آگاہ ہوچکی ہے۔ 2002ء کے الیکشن میں کنگ پارٹی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی تشکیل اور ’’کامیابی‘‘ کن قوتوں کی مرہون منت تھی یہ بھی اب کوئی راز نہیں ہے۔ ان حالات میں کون عقل مند اور ذی شعور شخص اس انتخابی نظام پر مزید اعتماد و یقین کرتا ہوا اپنا مستقبل ایک مرتبہ پھر اس نظام کے ذریعے سالہا سال سے برسراقتدار آنے والے نااہل حکمرانوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہوگا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 1989ء سے اس فرسودہ انتخابی نظام کو بدلنے کے لئے صاحبان اقتدار اور عوام کی ضمیر کو جھنجھوڑتے رہے مگر سیاسی بے شعوری کی شکار قوم اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی بازیگروں کے نت نئے ہتھکنڈوں کی وجہ سے اپنی روش میں مست رہی۔ اب جبکہ حالات اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، ہر ادارہ اپنی ساکھ اور وقار کھو بیٹھا، بڑے بڑے ’’مقدس‘‘ نام بھی بے ستر ہوگئے۔ ان حالات میں شیخ الاسلام نے قوم و ملت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اس نقار خانے میں ایک مرتبہ پھر ’’سیاست نہیں۔ ریاست بچاؤ‘‘ کا علم بلند کرتے ہوئے اس فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف پرامن جمہوری بغاوت کی کال دی ہے اور 23 دسمبر کو پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے۔

ان کی مخاطب پاکستان کی مجبور، مقہور، غریب، پسے ہوئے طبقات اور بنیادی حقوق سے محروم عوام ہے۔ قوم نے اس فرسودہ نظام انتخابات اور اس پر قابض اجارہ داروں پر مسلسل اعتماد سے خود کو دھوکے میں مبتلا کررکھا ہے۔ ہر بار یہی سوچ کر دوبارہ ان کا انتخاب کرتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں بار بار دھوکے دیئے شاید اس بار نہیں دیں گے۔ غوروفکر کی زحمت نہ کرنے کی روش نے ہمیں تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ وہی قومیں اپنا اجتماعی تشخص بحال رکھ سکتی ہیں جو نہ صرف اپنی خرابیوں کی اصلاح کی طرف مائل ہوتی ہیں بلکہ مزید ذلت سے بچنے کے لئے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ مردہ قومیں دوبارہ زندگی پاسکتی ہیں اگر اس کے لئے کوشش کریں لیکن ہم نے سب کچھ قدرت کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے جبکہ فطرت کے قوانین بلاامتیاز سب کے لئے برابر ہیں۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ان حالات میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود قوم کا ہے جو اپنے ہاتھوں ان نااہل حکمرانوں کو خود پر مسلط کرتے ہیں جنہیں مختلف حیلوں اور عجیب و غریب توجیہات سے قوم کو خود فریبی کے دھوکے میں مبتلا کرکے فائدہ اٹھانے کا ملکہ حاصل ہے۔ قوم کی اکثریت خاموش ہے اور حالات سے سمجھوتہ کررکھا ہے مگر کیا اس خاموش اکثریت نے کبھی یہ سوچا کہ ان کا خاموشی پر مبنی یہ عمل ملک و قوم کو کن خطرات سے دوچار کررہا ہے۔ اس اکثریت کو اپنی خاموشی توڑنا ہوگی اور اس نظام انتخابات کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے شیخ الاسلام کی تائید کرنا ہوگی وگرنہ ’’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ اور کوئی مورخ اپنے قلم کو ہماری اس روایتی بے حسی اور خاموشی کے پیش نظر ہماری تباہی کی سب سے بڑی وجہ لکھنے سے نہ روک سکے گا۔

آیئے! ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان بچائیں۔ ایک اسلامی و فلاحی اور جمہوری پاکستان چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس مسافت کو طے کرنے کا عزم کرلیں یا آئندہ بھی اسی قسم کی زندگی کو قبول کرلیں، ایک مضبوط قوت ارادی اور قوت فیصلہ درکار ہے۔ بعض اوقات قوموں کی زندگی کا ایک قدم ان کی تقدیر بدلنے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ 23دسمبر اسی قدم کو اٹھانے کا دن ہوگا جب مینار پاکستان کے سائے تلے ملینز کی تعداد میں پاکستانی ’’سیاست نہیں۔ ریاست بچاؤ ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے پاکستانی پرچم کے سائے تلے جمع ہو کر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا استقبال کریں گے اور شیخ الاسلام ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے قومی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ایک آزاد، خود مختار، مستحکم اور خوشحال اسلامی مملکت پاکستان۔

اٹھ کہ بزم جہاں کا رنگ بدلیں
 فلک بھی تیور بدل رہا ہے