پروفیسر محمد نصر اللہ معینی

وضو کے اسرار اور حکمتوں کے متعلق ایک معلوماتِ افزا اور ایمان افروز تحریر

میرے شیخ سیدی حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مجلس میں متوسلین کی تربیت اور اصلاح کے لئےگفتگو فرماتے تو بزرگان دین کے بعض نصیحت آموز ارشادات کو بھی بیان فرماتے۔ اس حوالے سے دو شعر اکثر آپ کی زبان مبارک سے سننے میں آئے جن کے بارے میں آپ کا ارشاد گرامی تھا کہ ان شعروں میں بیان کی گئی آٹھ باتیں تصوف کا خلاصہ ہیں۔

آج سے پینتیس چالیس سال پہلے بیربل شریف میں روحانیت کے یہ بدرِ منیر جب اپنی خنک روشنی سے دلوں کو منور فرما رہے تھے، تو میں غفلت کی چادر تانے علم ظاہر کی لذت میں منہمک تھا۔ مجھے ان اشعار میں بیان کردہ روحانی حقائق کی نہ کچھ خبر تھی اور نہ کوئی خاص دلچسپی۔ وقت گزرتا رہا اور یہ اشعار طاقِ نسیاں کی نذر ہوگئے۔ کچھ عرصہ پہلے حضرت خواجہ کے ملفوظات پر مبنی ایک مضمون میں ان اشعار کا ذکر آیا تو ان باتوں پر غور و تدبر اور کتب صوفیا کا مطالعہ شروع کیا، تو یہ حقیقت مزید واضح ہوگئی کہ یہ آٹھ باتیں نہ صرف تصوف کا خلاصہ اور روح ہیں بلکہ یہ معارف، راہ حق کے مسافر کے لئے دلیلِ راہ اور سالک کے لئے دستورِ حیات ہیں۔ شاعر نے بڑی خوبصورتی سے تعلیمات نبوی کو ان دو شعروں میں سمو دیا ہے۔ چنانچہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ قارئین مجلہ کو بھی اس روحانی ضیافت میں شامل کرلیا جائے تاکہ وہ اس چراغ راہ سے اپنی منزل کا سراغ پالیں۔ اشعار یہ ہیں:

با وضو رہ، بول تھوڑا، کر ذکر
ربط دل رکھ پیر سے، کھو دے خطر
رہ جدا لوگوں سے، تھوڑا کھا طعام
اعتراضی چھوڑ، آٹھوں ہیں تمام

ان اشعار میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا دم بھرنے اور اس کی راہ پر چلنے والوں کے آداب میں سے پہلا ادب با وضو رہنا بتایا گیا ہے۔ چنانچہ صوفیاء کرام کے ہاں ہمیشہ با وضو رہنے کا اہتمام رہتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کے ہمیشہ با وضو رہنے میں کیا فکر کارفرما ہے، حضرت ابو نصر سراج طوسی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’صوفیا کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ وہ خواہ سفر میں ہوں خواہ مقیم ہوں، ہر وقت با وضو رہتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ معلوم نہیں کہ کب موت آجائے کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَهم لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ.

(يونس، 10:49)

’’جب ان کی (مقررہ) میعاد آ پہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔

(کتاب اللمع فی التصوف، ص: 227)

چنانچہ اہل اللہ کا ہمیشہ با وضو رہنے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر اچانک موت آجائے تو دنیا سے باوضو جائیں۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲعلیہ ہمیشہ باوضو رہنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اگر وہ بے وضو ہوجاتے اور انہیں نیا وضو کرنے کے لئے قریب ہی دریا پر جانا ہوتا تو پہلے تیمم کرلیتے، اس اندیشہ سے کہ کہیں دریا پر پہنچتے پہنچتے انہیں موت نہ آجائے۔

باوضو موت کی خواہش کیوں؟

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے تو میری عمر آٹھ سال تھی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اگر تم سے ہو سکے تو ہمیشہ با وضو رہا کرو کیونکہ اگر کسی شخص کو (با وضو ہونے کی) حالت میں موت آجائے تو اسے شہادت کا درجہ حاصل ہوگا۔

(عوارف المعارف، ص: 311)

شہادت کا مرتبہ ایک عظیم مرتبہ ہوتا ہے اس کے لئے اہل ہمت ہمیشہ مستعد رہتے ہیں اور اس کی خاطر کسی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے۔

سیدنا امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:

عبادات اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت دلانے اور آمادگی پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور انعام کی امید دلائی جائے۔ ۔ ۔ کیونکہ جب امید پیدا ہوتی ہے تو نیک اعمال کے لئے تکلیف اٹھانا آسان ہوجاتا ہے مثلاً جو شخص چھتّے میں موجود شہد حاصل کرنا چاہتا ہے تو مکھیوں کے ڈنگ کا خوف اُسے شہد کشید کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا، کیونکہ اسے شہد کی مٹھاس اور اس کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے، اور شہد ملنے کی امید ہوتی ہے۔ اسی طرح مزدور کو دن بھر شدید دھوپ اور گرمی میں مشقت اٹھانا اور بوجھ اٹھا کر سیڑھیوں پر چڑھنا مشکل نہیں لگتا کیونکہ اُسے مزدوری ملنے کی امید ہوتی ہے۔

امام غزالی مزید فرماتے ہیں کہ میرے شیخ رحمۃ اللہ کا قول ہے:

الرّجاءُ يَقَوِّیُ عَلَی الطّاعات.

(منهاج العابدين)

’’امید انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیلئے تقویت پہنچاتی ہے۔‘‘

اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ گناہوں کی بخشش اور رحمت الٰہی کی امید سے سکون قلب ملتا ہے اور روحانی قوت مضبوط ہوتی ہے جس سے اعمال صالحہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور اس کے لئے تکلیف اور مشقت اٹھانا آسان بلکہ مرغوب ہوجاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ ناگوار حالات میں بھی وضو کو مکمل (آداب کے ساتھ پورا) کرنا اور قدموں کا مسجد کی طرف اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری کے انتظار میں رہنا تمام خطاؤں کو دھو ڈالتا ہے‘‘۔

(مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب فضل السياغ الوضوء علی المکاره، 1:219 رقم:251)

شدید سردی کے موسم میں جب سرد پانی میں ہاتھ ڈالنا بھی سخت ناگوار ہوتا ہے۔ مومن کا تمام آداب کا خیال رکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ وضو کرنا اور وضو کے اعضا کو پورا پورا دھونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ یہ تکلیف اللہ تعالیٰ کی محبت میں گوارا کر رہا ہے اور اسے اس کی رحمت اور بخشش کی پوری پوری امید ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ

اَنَا عند ظَنِّ عَبْدِی بِيْ.

(بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول الله تعالیٰ: يريدون ان يبدلوا کلام الله، 6:2725،رقم:70663)

میرے بندے کو جیسا مجھ سے گمان ہوتا ہے، میں ویسا ہی کرتا ہوں۔ چنانچہ مغفرت کی امید رکھتے ہوئے ناگوار حالات میں بھی وضو کرنے والے کو اللہ رب العزت محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔ اسی طرح نیند قربان کرتے ہوئے آرام دہ بستر کو چھوڑ کر یا اپنی دنیاوی مصروفیات اور کاروبار ترک کر کے نماز کے لئے اللہ کے گھر حاضر ہوجانے والے کا دامن مراد بھی بخشش و رحمت سے بھر دیا جاتا ہے۔

حدیث مذکور میں بخشش و رحمت کا تیسرا مستحق اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو ایک نماز ادا کرنے کے بعد اگلی نماز کے انتظار میں رہتا ہے۔ گویا اس کا دھیان ہر وقت اپنے رب کی طرف رہتا ہے، وہ ’’ہتھ کار ول دل یار ول کا مصداق ہوتا ہے۔ وہ کام میں مصروف ہوتا ہے لیکن دل کی تار مسجد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے کہ کب بلاوا آئے اور وہ اپنے مولا کی بارگاہ میں حاضر ہوجائے۔

سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

إنَّ احَدَکُمْ إذَا تَوَضَّاَ فَاحْسَنَ الْوُضُوْئَ ثُمَّ اتَی الْمَسْجِدَ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إلَّا رَفَعَهُ اﷲُبِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيْئَةً حَتَّی يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ.

(سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، باب ثواب الطهور، 1: 103، رقم: 281)

’’جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر مسجد میں جائے اور مسجد میں جانا صرف نماز کیلئے ہو، تو مسجد میں داخل ہونے تک اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘

وضو ایک نفسیاتی علاج

یہ حقیقت ہے کہ جب گناہوں کا احساس اور ضمیر کی خلش شدید ہوتی ہے۔ اور سکونِ قلب کا سامان نظر نہیں آتا تو انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور اس سے خطاکاری کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔ حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طبیب امت ہیں اس لئے آپ کی تعلیمات میں جہاں اخلاقی و روحانی تربیت کا سامان ہے وہاں نفسیاتی قلق و اضطراب کا علاج بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی موقع پر خطاکار کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونے دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے فضل و کرم کی نوید سناتے اور اعمال صالحہ پر حوصلے بڑھاتے۔ ذیل میں چند ارشادات درج کیئے جا رہے ہیں جن میں احسن وضو کرنے والے کو بخشش کا مژدہ سنایا گیا ہے۔

٭ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

مَن تَوَضّاَ فَاَحْسَنَ الوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِه حَتَّی تَخْرُجُ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِه.

(مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء، 1:216، رقم:245)

’’جس شخص نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے وضو کیا اس کے جسم سے اس کی خطائیں نکل جاتی ہیں حتیٰ کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتی ہیں‘‘۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ قیامت کے روز تم اس حال میں اٹھوگے کہ تمہارے چہرے اور ہاتھ پاؤں وضو کی وجہ سے سفید اور چمک رہے ہوں گے تم میں سے جو شخص طاقت رکھے وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرے کی روشنی کو زیادہ کرلے‘‘۔

(مسلم، الصحٰح، کتاب الطهارة، باب الستحياب اطالة العزة والتحيل فی الوضوء ، 1:216، رقم:246)

٭ وضو کا پانی جس طرح ظاہری آلودگیوں کو جسم سے دور کرتا ہے اسی طرح اعضاء کو گناہوں کی آلودگیوں سے بھی پاک کردیتا ہے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی مسلمان وضو کرتا ہے اور اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو

خَرَجَ کَلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ اِلَيْها بِعَيْنِه مَعَ الْمَاءِ

اس کی آنکھوں سے سرزد ہونے والی تمام خطائیں پانی سے دھل جاتی ہیں اور جب وہ دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو

خَرَجَ مِنْ يَدَيهِ کُلّ خطِئةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاه، مَعَ الماء.

اس کے ہاتھوں سے سرزد ہونے والی خطائیں پانی کے ساتھ ہی نکل جاتی ہیں۔ اور جب کانوں کا مسح کرتا ہے تو کانوں کی خطائیں نکل جاتی ہیں اور جب دونوں پاؤں دھوتا ہے تو جن گناہ کے کاموں کی طرف وہ چل کر گیا ہے اس کے پاؤں سے ان گناہوں کی آلودگی صاف ہوجاتی ہے۔

حتّی يَخْرُج نَقِيًّا مِن الذّنوب.

حتی کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

(مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء، 1:215، رقم:244)

وضو میں سات اعضا ہیں جن میں دو ہاتھ، دو پاؤں، چہرہ، منہ اور ناک دھوئے جاتے ہیں اور سر اور کانوں پر مسح کیا جاتا ہے۔ یہ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں پر اپنے خاص فضل سے تخفیف کی گئی ہے۔ تخفیف اس لئے کہ اگر وہ ہر دفعہ وضو کے وقت سارے جسم کے دھونے کا حکم دے دیتا تو یہ ایسی پابندی ہوتی جس پر عمل پیرا ہونا ممکن نہ ہوتا۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پانی انتہائی کم مقدار میں میسر ہوتا ہے یا سخت سردی میں بار بار غسل تکلیف اور بیماری میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

جن اعضاء کا دھونا فرض قرار دیا گیا ہے یہ وہ اعضا ہیں جو کھلے ہوتے ہیں جبکہ باقی سارا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ کھلے اعضا گرد و غبار اور جراثیم سے آلودہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان سے اکثر گناہ کا ارتکاب بھی ان کھلے اعضا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے اب چونکہ ان اعضا نے بارگاہِ ربوبیت میں پیش ہونا ہے اور انہی اعضا نے نماز کے وقت نماز کے ارکان ادا کرنے میں حصہ لینا ہے اس لئے حکم دیا گیا کہ ان اعضاء کو آلودگیوں سے پاک کرو۔ تاکہ یہ صاف اور طاہر ہو کر اپنے مولا کے حضور پیش ہونے کے قابل ہوسکیں۔

گناہوں کے اثرات

وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے جسم کے ظاہری اعضاء یعنی ہاتھ پاؤں اور چہرے پر موجود گرد و غبار اور جراثیم پانی کے ساتھ خارج ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب کہا جاتا ہے کہ پانی گناہوں کو بھی بہا لے جاتا ہے تو بعض ذہنوں میں سوالات کا اٹھنا بعید از قیاس نہیں مثلاً

1۔ کیا گناہوں اور خطاؤں کے اثرات بھی جسم انسانی پر موجود ہوتے ہیں؟

2۔ کیا پانی بھی عقل و شعور رکھتا ہے اور گناہوں کی آلودگی دھونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر گناہ کی ایک خاص آلودگی ہوتی ہے جس کے اثرات اور نشانات اس عضو پر موجود ہوتے ہیں جس سے وہ خطا اور گناہ سر زد ہوتا ہے چنانچہ اہل بصیرت کی نگاہوں سے وہ نشانات و اثرات پوشیدہ نہیں رہتے۔

امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا، اس سے پہلے وہ کسی غیر محرم خاتون کو تکتا رہا تھا۔ آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا کہ کوئی آدمی میرے پاس آتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے۔ اس آدمی نے کہا: کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی وحی آتی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وحی نہیں بلکہ فراست مومنانہ ہے۔

حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت اقدس میں لاہور سے دو آدمی حاضر ہوئے لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے یہ دونوں دوست غیر محرم عورتوں کے حسن سے اپنے دلوں کو بہلاتے رہے۔ شرقپور شریف پہنچ کر حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے مجلس میں بڑے مؤدب ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور ان دونوں کے پاس کھڑے ہوکر ان کی آنکھوں کو دیکھ کر فرمایا: وہاں کیا تھے اور یہاں کیا ہو؟ یعنی وہاں غیر عورتوں سے نظروں کی حفاظت نہیں کی لیکن یہاں ادب سے نظریں جھکا رکھی ہیں۔

مندرجہ بالا دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہر گناہ کی ایک خاص قسم کی آلودگی ہوتی ہے جس کے اثرات جسم پر موجود رہتے ہیں اور یہ اہل اللہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہتے۔ وضو کا پانی اُن آلودگیوں کو بھی دھو ڈالتا ہے۔

پانی بھی عقل و شعور رکھتا ہے

2۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ پانی کو باطنی آلودگی کا پتہ کیسے چلتا ہے۔ کیا پانی بھی عقل اور شعور رکھتا ہے اور گناہوں کی آلودگی صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

اس سوال کا بنیادی جواب تو قرآن مجید نے دے دیا ہے کہ

يُسَبِّحُِ ﷲ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.

’’ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے‘‘۔

(التغابن،64:1)

اور فرمایا:

وَاِنْ مِّنْ شَيْئٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِه وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ.

(بنی اسرائيل،17:44)

’’اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے‘‘۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

بذکرش ہرچہ بینی درخروش است
ولے داند دریں معنی کہ گوش است

’’کائنات کی ہر چیز جو تجھے نظر آرہی ہے ذکر الٰہی میں مصروف ہے لیکن یہ وہی جانتا ہے جس کے باطنی کان ہیں‘‘۔

حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مثنوی میں کئی مقامات پر اس موضوع کے حوالے سے حقائق بیان فرمائے ہیں ایک جگہ فرماتے ہیں۔

باد و خاک و آب و آتش بندۂ اند
بامن وتو مردہ، باحق زندہ اند

’’ہوا، مٹی، پانی اور آگ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مطیع اور غلام ہیں۔ یہ میرے تیرے سامنے تو مردہ ہیں لیکن حق تعالیٰ کے سامنے زندہ ہیں‘‘۔

نیز قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعہ مردہ ہوجانے والی زمین کو زندہ کردیا:

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.

’’اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ (یعنی بنجر) ہونے کے بعد زندہ (یعنی سرسبز و شاداب) کر دیا۔ ‘‘

(النحل،16:65)

اور فرمایا کہ

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَيْئٍ حَیٍّ.

’’اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی‘‘۔

(الانبياء،21:30)

پس اگر پانی بحکم الٰہی حیات بخش ہے کہ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے تو کیا وہ خود زندہ نہیں ہوگا؟ دوسروں کو وہی زندگی دے سکتا ہے جو خود زندگی اور عقل و شعور رکھتا ہے۔ یہاںان صفحات میں گنجائش نہیں ورنہ تاریخ کے صفحات پر تابندہ ایسے بے شمار واقعات بیان کیئے جاسکتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ پانی نے اللہ کے بندوں کی بات سنی اور ان کا کہا مانا۔ جن میں سے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ

دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

واقعہ یوں ہوا کہ لشکر اسلام کے سپہ سالار جب اپنی فوج کے ساتھ دریا کے کنارے پہنچے تو وہ طغیانی پر تھا سپہ سالار نے دریا سے کچھ بات کی اور گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ دریا نے راستہ دیا اور تمام لشکر سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پہنچ گیا۔ کنارے پہنچ کر سپہ سالار نے پوچھا کسی کی کوئی چیز تو دریا میں نہیں گر گئی۔ ایک سپاہی نے کہا میرا پیالہ گر گیا ہے۔ آپ نے دریا کو مخاطب کر کے پیالہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ اچانک ایک لہر اٹھی اور اس نے پیالہ کنارے پر ڈال دیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کے لئے دریا کے پانی کا دو حصوں میں تقسیم ہوکر راستہ دے دینا تو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ ان واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پانی نہ صرف زندگی بلکہ عقل و شعور اور سماعت و بصارت بھی رکھتا ہے۔

سائنسی تصدیق

حال ہی میں جاپان کے ایک سائنسدان ڈاکٹر ایماٹو کی کتاب The Message From Water منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے پانی کے متعلق حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پانی نہ صرف شعور بلکہ احساسات کا بھی حامل ہے۔ ڈاکٹر ایماٹو کو مختلف تجربات سے ثابت ہوا کہ اگر پانی کے سامنے محبت، دوستی، شکر گزاری پر مبنی باتیں کی گئیں تو انجماد کے بعد اس کی قلمیں بڑی خوبصورت ساخت کی نظر آئیں اور جب بری باتیں کی گئیں اور گندے الفاظ استعمال کیئے گئے تو انجماد کے بعد اس کی قلمیں بے ڈھب اور بدصورت تھیں۔ طاقتور خوردبینوں سے یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ اگر اللہ کا نام پانی پر لیا گیا تو اس کے مالیکیول کھل اٹھے، جبکہ کفریہ اور ناشکری کے کلمات سے ان کے مالیکیولز میں انقباض کی کیفیت پیدا ہوگئی۔

تمام مستند روایات اور سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پانی زندگی، شعور اور احساسات رکھتا ہے چنانچہ یہ بعید نہیں کہ جب وضو کرنے والا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اعضا دھونے شروع کرتا ہے تو پانی بڑی نشاط سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے اور مسلمان کی خطائیں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔

صاحبان بصیرت کے مکاشفات

صوفیا کرام کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صاحبان بصیرت اور اہل مکاشفہ کو وضو کے پانی میں دھلی ہوئی گناہوں کی آلودگی نظر بھی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے وضو کے استعمال شدہ پانی کو ناپاک قرار دیا ہے کہ اس استعمال شدہ پانی سے دوبارہ وضو نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو صاحب کشف بزرگ قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد گرامی حضرت علی الخواص رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ اگر آدمی کو کشف ہو اور وہ وضو اور غسل میں استعمال شدہ پانی کو دیکھے تو اسے نہایت خراب اور بدبودار پائے گا۔ جس طرح تھوڑے پانی میں بلی یا کتا مر جائے تو اس پانی سے وضو جائز نہیں ہوتا اسی طرح وضو اور غسل میں استعمال شدہ پانی سے دوبارہ وضو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ طاہر نہیں رہا۔

امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ پانی کو دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ یہ دھوون گناہ کبیرہ کا ہے یا گناہ صغیرہ کا۔ امام شعرانی لکھتے ہیں کہ

ایک دفعہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کوفے میں ایک حوض پر تشریف لے گئے جہاں ایک نوجوان وضو کر رہا تھا۔ امام صاحب کی نظر اس جوان کے استعمال شدہ پانی پر پڑی تو فرمایا: میرے بیٹے! ماں باپ کو دکھ دینے سے توبہ کرو۔ اس نے فوراً آپ کے سامنے توبہ کی۔ اسی طرح ایک شخص کے وضو کا دھوون دیکھ کر فرمایا: بھائی زنا سے توبہ کرلو۔ اس نے بھی فوراً توبہ کرلی۔

صاحبان بصیرت کے مکاشفات ان روایات کی تصدیق کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وضو کے پانی سے نہ صرف ظاہری آلودگیوں سے نجات ملتی ہے بلکہ اس پانی سے گناہ بھی دھل کر بہہ جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ جن گناہوں کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس سے مراد انسان کی خطائیں اور اس کے صغیرہ گناہ ہیں۔ حقوق العباد کے متعلقہ گناہ اس زمرے میں نہیں آتے کیونکہ بندوں کے حقوق بندوں کے معاف کرنے سے ہی معاف کیئے جائیں گے۔

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وضو مومن کا ہتھیار ہے اور با وضو شخص شیطان کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔

(عوارف المعارف)

وضو عبادت کی چابی

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

اَلْوُضُوْءُ مِفْتَاحُ الصَّلٰوة

’’وضو نماز کی چابی ہے‘‘۔

(ابونعيم، مسند ابی حنيفة، 1:130)

جس طرح چابی کے بغیر تالہ نہیں کھلتا اسی طرح وضو کے بغیر نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ گویا وضو سے عبادت اور نیکی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

یہ بات ہر مومن کے تجربے اور مشاہدے میں ہے کہ جب وہ با وضو ہوتا ہے اور اسے اپنا با وضو ہونا یاد رہتا ہے تو اس کی زبان ذکر الٰہی میں متحرک رہتی ہے اور خیالات میں پاکیزگی آجاتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک مجلس میں بیان کیا کہ ایک دفعہ خواتین کے اجتماع میں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ کہا گیا کہ آپ پردے کی ضرورت پر گفتگو کریں لیکن میں نے اس موضوع کی بجائے طہارت ظاہری و باطنی کو موضوع سخن بنایا اور وضو کی فضیلت و برکت پر گفتگو کرتے ہوئے خواتین سے عہد لیا کہ آج سے وہ ہمیشہ باوضو رہنے کا اہتمام کریں گی اور نہ صرف باوضو رہیں گی بلکہ اپنے با وضو ہونے کو یاد بھی رکھیں گی۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا میں نے براہ راست پردے پر بات کرنے کی بجائے اُنہیں پردے کی بنیاد بتا دی کیونکہ جب وہ ہمیشہ با وضو رہیں گی اور یہ بھی یاد رکھیں گی کہ وہ وضو سے ہیں تو دل ذکر کی طرف مائل ہوگا اور جب ذکر الٰہی اور درود پاک سے روحانی لذت نصیب ہوگی تو آنکھوں میں حیا اور سر پر دوپٹہ اور چادر بھی آجائے گی۔

دنیاوی مشاغل میں انہماک پر وضو

حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں جب تقوی اختیار کرنے والاشخص اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا عادی ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے مواقع پر تازہ وضو کرلیا کرے، جب لوگوں سے میل جول ہو یا وہ ایسے کاموں میں مصروف ہو جس سے ہمت اور عزیمت کی گرہیں ڈھیلی پڑنے کا اندیشہ ہو یعنی (ان فضول مصروفیات اور غیر محتاط گفتگو کی وجہ سے) تقوی میں کمی کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں وضو کرلیا جائے تو قلب کی طہارت بحال ہوجاتی ہے۔

(عوارف المعارف)

ایک دفعہ میں نے اپنے مرشد کریم حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے عرض کیا کہ بعض اوقات طبیعت ذکر اور عبادت کی طرف راغب نہیں ہوتی اور نیکی کے کاموں میں جی نہیں لگتا۔ تو آپ نے فرمایا جب ایسی کیفیت ہو تو وضو یا غسل کرلیا کرو۔ گویا عبادت سے بے رغبتی اور بے ذوقی کا علاج آپ نے وضو اور غسل کو قرار دیا۔ چنانچہ یہ بات کئی دفعہ تجربے میں آچکی ہے کہ آداب کا خیال رکھتے ہوئے تازہ وضو اور غسل کرنے سے طبیعت میں ایک نشاط اور ذوق پیدا ہوجاتا ہے اور دل ذکر الٰہی اور عبادت کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔

حضرت سہروردی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

’’اگر ممکن ہو تو طالب حق کو ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا چاہیے اور غسل کرے تو اور بھی زیادہ مناسب ہے کیونکہ باطن کی روشنی اور تکمیل نماز میں ان چیزوں (وضو اور غسل) کے اثرات بہت واضح اور نمایاں ہیں۔‘‘

ایک عجیب نکتہ

حضرت خواجہ سہروردی ایک عجیب اور قابل غور نکتہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر وضو بصیرت (باطنی نگاہ) کو پاک اور صاف رکھنے میں وہی کام کرتا ہے جو پلکیں اپنی ہلکی پھلکی حرکات سے بینائی کو برقرار رکھنے میں کام کرتی ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے اہل علم ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر اس نکتہ پر غور کیا جائے تواس کی برکات کا اثر ضرور ہوگا۔

(عوارف المعارف، ص: 561)

حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان فرمودہ اس نکتہ کی حقیقی وضاحت تو علم حقیقت والے ہی کرسکتے ہیں، میرے خیال میں اس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جس طرح پلکیں آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں اور بینائی پر اثر انداز ہونے والی چیزوں اور ہوا میں اڑنے والے حشرات کو آنکھ میں داخل ہونے سے روک دیتی ہیں، اسی طرح وضو قلب کو شیطانی وساوس سے تحفظ عطا کرتا ہے کیونکہ وضو مومن کا ہتھیار ہے۔

نماز میں قہقہ لگانے سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے؟

امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق نماز کے دوران قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز باطل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز احکم الحاکمین کے دربار کی حاضری ہے۔ اس حاضری کا ادب یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے قلب اور روح سے اپنے مولا کی طرف متوجہ رہے۔ اس پر احکم الحاکمین کے دربار کی ہیبت اور دل پر خشیت کی کیفیت طاری رہے۔ اس حاضری کے دوران قہقہ لگانا اس بات کی علامت ہے کہ اس کو اس عظیم بارگاہ کے ادب کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ بے ادبی کسی شیطانی خیال کے القاء کی وجہ سے ہوتی ہے اور بے ادبی پر اکسانے والا شیطانی خیال قلب کے لئے نجاست کا درجہ رکھتا ہے، اس لئے امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک اس نمازی کو نیا وضو کرنا ہوگا۔ چنانچہ آداب وضو کا خیال رکھتے ہوئے جب نیا وضو کرے گا تو وہ شیطانی خیال کی نجاست سے پاک ہوکر بارگاہِ ایزدی میں حضوری کے قابل ہوجائے گا۔

نیند سے بیدار ہونے پر وضو کی حکمت

اللہ تعالیٰ کی محبت کا دم بھرنے والوں کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ سوکر اٹھتے ہیں تو فوراً وضو کرلیتے ہیں۔

حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں کہ نیند چونکہ ایک قسم کی غفلت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان ذکر الٰہی سے غافل اور محروم ہوجاتا ہے، جس سے اس کا دل مُکَدّر ہوجاتا ہے لہٰذا وضو کا نور اس کے تکدّر اور تاریکی کا ازالہ کردیتا ہے۔

(عوارف المعارف)

قابل غور

جن احادیث مبارکہ میں وضو کی فضیلت اور برکات بیان کی گئی ہیں وہاں رسمی وضو مراد نہیں کیونکہ من توضّا (جس نے وضو کیا) کے بعد فاحسن الوضوء کے الفاظ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اسی وضو میں برکت ہے جس میں اس کا حسن بھی موجود ہو۔ اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وضو کا حسن اسے مسنون طریقے سے پورے آداب کے ساتھ انجام دینے میں ہے۔ وضو کے مسنون آداب اور ان میں پوشیدہ حکمتیں کیا ہیں؟ (آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)