ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
سہ روزہ دورئہ علوم الحدیث کی دوسری نشست میں حدیث ضعیف اور سند کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔ میں نے اُس نشست میں یہ امر واضح کیا تھا کہ سلف صالحین کے دور سے لے کر متاخرین تک ہر زمانہ میں ائمہ علم، علمائے اعلام، محدثین، فقہاء، نقاد اور جرح و تعدیل کے متخصصین کا بلا اختلاف اِس امر پر اجماع رہا ہے کہ جملہ کتبِ حدیث کے مصنفین و مؤلفین اپنے اپنے زمانوںمیں حدیث ضعیف کی روایت کرتے رہے ہیں۔ دوسری نشست میں اِس امر کی بھی تصریح کر دی گئی تھی کہ امام بخاری نے صرف الجامع الصحیح میں حدیث ضعیف روایت نہیں کی، اس کے علاوہ اپنی دیگر تمام کتب میں احادیث ضعیفہ کو روایت کیا ہے۔ حدیثِ ضعیف کی حجیت کے حوالے سے بنیادی چیز یہ ہے کہ تمام ائمہ کرام فضائلِ اعمال، قصص، ترغیب وترہیب، زہد و رقائق اور ثواب وعقاب کے موضوعات پر حدیث ضعیف کا نہ صرف روایت کرنا بلکہ اِسے قبول کرنا اور اِس پر عمل کرنا جائز اور مستحب مانتے رہے ہیں۔
ائمہ کے نزدیک حدیثِ ضعیف سے استدلال
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حدیث ضعیف سے استدلال کے حوالے سے ائمہ کے بے شمار اقوال ہیں، اِن تمام اقوال کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ تاہم مناسب حد تک اقوال اور تصریحات کو بیان کریں گے، جس سے یہ چیز طے ہو جائے گی کہ اس موضوع پر اکابر کا اجماع ہے۔ لہذا اب اس پر اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔
اس دورۂ حدیث کی دوسری نشست میں حدیثِ ضعیف سے استدلال پر سلف صالحین اور قدماء میں سے امام عبدالرحمن بن مہدی، امام سفیان الثوری، امام عبداللہ بن المبارک، امام سفیان بن عیینہ، امام یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اقوال اور تصریحات بیان کرچکا ہوں۔ اس حوالے سے چند مزید اقوال ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
1۔ امام ابو زکریا العنبریؒ
امام ابو زکریا العنبری کا ایک قول علامہ خطیب بغدادی نے الکفایۃ میں روایت کیا ہے کہ:
الخبر إذا ورد لم یحرِّم حلالا، ولم یُحِلَّ حراما، ولم یُوْجِبْ حُکمًا، وکان فی ترغیبٍ أو ترهیبٍ، أو تشدیدٍ أو ترخیصٍ، وجب الإِغماضُ عنه، والتساهلُ فی روایته.
(خطیب بغدادی، الکفایة فی علم الرویة: 134)
جب کوئی خبر (حدیث) حکمِ شرعی کے طور پرحلال اور حرام ثابت کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ ترغیب وترہیب کے مسائل میں یا دین کے معاملات میں شدت اختیار کرنے یا رخصت کے معاملات میں وارد ہو اور اس کے رواۃ میں عوارضِ بشریہ کی وجہ سے اگر ضعف ہے تو واجب ہے کہ اُس ضعف سے اغماض برتا جائے، صرفِ نظر کیا جائے اور تساہل (نرمی) برتا جائے۔
معلوم ہوا حدیث ضعیف کے حوالے سے ایساطرزِ عمل اختیار کرنا ائمہ حدیث کے ہاں واجب ہے۔
2۔ امام ابن ابی حاتم الرازیؒ
امام ابن ابی حاتم الرازیؒ نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں طبقات الرواۃ کے عنوان کے تحت مراتب الرواۃ کا ذکر کرتے ہوئے چوتھا مرتبہ یہ بیان کیا ہے کہ:
ومنهم: الصدوق الورع المغفل، الغالب علیه الوهم والخطأ والغلط والسهو.
وہ تمام راوی جو ضعیف ہیں، صادق بھی ہیں، صاحبِ ورع بھی ہیں مگر مغفل ہیں (یعنی ان پر غفلت کا قول ہے) یا اُن پر وہم غالب ہے یا اُن سے خطا ہوتی ہے یا وہ غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں یا سہو ہوتا ہے تو:
فهذا یکتب من حدیثه الترغیب والترهیب والزهد والآداب، ولا یُحتَجُّ بحدیثه فی الحلال والحرام.
(ابن ابی حاتم الرازی، الجرح والتعدیل، 1: 6-10)
اِن کی احادیث کو ترغیب وترہیب، زہد اور آداب میں لکھا جائے گا اور حلال و حرام میں اِن کی روایات سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔
امام ابن ابی حاتم الرازیؒ نے وہ سارے اسباب اور وجوہ شمار کرا دی ہیں جن سے ضعف پیدا ہوتا ہے، راوی ضعیف کہلاتا ہے اور جس بناء پر اس کی روایت کردہ حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگتا ہے۔
- امام ابن ابی حاتم الرازیؒ الجرح وتعدیل کے مقدمے میں بھی لکھتے ہیں کہ
فی الآداب والمواعظ أنها تحتمل الروایة عن الضعاف.
ابوابِ آداب اور مواعظ میں ضعیف روایات کو قبول کیا جاتا ہے۔
3۔ امام عبداللہ بن المبارکؒ
امام عبداللہ بن المبارک حدیث ضعیف سے استدلال کے حوالے سے فرماتے ہیں:
فی أدب، فی موعظة، فی زهد أو نحو هذا.
(ابن ابی حاتم الرازی، الجرح والتعدیل، 2: 30)
ادب، موعظت، نصیحت، زہد اور اِس جیسے موضوعات میں احادیثِ ضعیفہ کو قبول کیا جائے گا۔
4۔ امام بیہقیؒ
حدیث ضعیف سے استدلال کے حوالے سے امام بیہقی کے الفاظ غور طلب ہیں، فرمایا:
اتفق أهلُ العلم بالحدیث علی ضعف مُخَرِّجها، وهذا النوع علی ضربین.
(بیهقی، دلائل النبوۃ، 1: 33)
اُن کی مراد یہ ہے کہ اگر کوئی راوی (مخرج) ضعیف ہے تو اُس کی روایت کو قبول کرنے کے موضوع پر اہل علم کا اتفاق ہے (یعنی اِس میں اختلاف کیا ہی نہیں گیا)۔ اُس کی دو قسمیں ہیں کہ ضعیف راوی کو کس روایت میں قبول نہیں کرنا اورکس روایت میں قبول کرنا ہے۔فرمایا:
1۔ ضرب: رواہ من کان معروفا بوضع الحدیث والکذب فیه. فهذا الضرب لا یکون مستعملاً في شيء من أمور الدین.
پہلی قسم یہ ہے کہ وہ شخص جو وضاع ہو (حدیث وضع کرے، اپنی طرف سے گھڑے) اور کذاب ہو تو ائمہ اور اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ اُس کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اب یہ خبر ’’موضوع‘‘ ہو جاتی ہے، عام ضعیف نہیں رہتی۔ لہذا اُس سے امور دین میں کسی چیز پر عمل نہیں کیا جاتا۔
2۔ وضرب: لا یکون راویه متهمًا بالوضع، غیر أنه عُرف بسوء الحفظ، وکثرۃ الغلط فی روایاته، أو یکون جهولا لم یثبت من عدالته وشرائط قبول خبره ما یوجب القبول. وقد یستعمل فی الدعوات، والترغیب والترهیب، والتفسیر، والمغازی، فیما لا یتعلق به حکم.
(بیهقی، دلائل النبوة، 1: 34)
(دوسری قسم یہ ہے کہ) وہ راوی جو متہم بالوضع نہیں ہے (جس کے اوپر جھوٹ بولنے کا اتہام نہیں ہے) صرف سوئے حفظ کا قول ہے یعنی اِس کے حافظے میں کمزوری ہے یا کثرت غلط کی کمزوری ہے یا مجہول ہے (مجہول الحال، مجہول العین) یا اُس کی عدالت اور اس کی خبر/روایت کو قبول کرنے کی شرائط ثابت نہیں ہیں تو ایسے ضعفاء کی روایات؛ دعاؤں، ترغیب وترہیب، زہد ورقائق، تفسیر، مغازی، فضائل میں قبول کی جائیں گی۔ صرف احکام کے اثبات میں ایسے ضعیف راوی کی روایات قبول نہیں ہوں گی۔
یہ ذکر کرنے کے بعد امام بیہقی فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن مہدی، یحییٰ بن سعید القطان اور دیگر ائمہ کی بھی اسی قول پر توثیق ہے۔
5۔ امام یحییٰ بن سعید القطانؒ
امام یحییٰ بن سعید القطانؒ نے حدیثِ ضعیف سے استدلال کے حوالے سے اسی اصول کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
تساهلوا في التفسیر عن قوم لا یوثقونهم في الحدیث.
(البیهقی، دلائل النبوة، 1: 35)
یعنی حدیث میں غیر ثقہ رُواۃ سے تفسیر کے باب میں احادیث نقل کرنے میں تساہل برتا۔
6۔ حافظ ابن عبد البرؒ
حافظ ابن عبدالبر حدیثِ ضعیف سے استدلال کے حوالے سے جامع بیان العلم وفضلہ میں بیان کرتے ہیں:
أهل العلم بجماعتهم یتساهلون في الفضائل.
تمام اہلِ علم کی جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ فضائل میں احادیث ضعاف کو روایت کرنا، قبول کرنا اور اُس پر عمل کرنا جائز ہے۔
- مزید فرماتے ہیں:
وإنما یتشددون في أحادیث الأحکام.
(ابن عبد البر، جامع بیان العلم و فضله، 1: 103)
وہ (اہلِ علم) احکام کو ثابت کرنے کے لیے حدیث کی سند میں سختی کیا کرتے تھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ فضائل کو ثابت کرنے کے لیے ایسے راویوں کی ضرورت نہیں ہوتی جو اُونچے درجے کے ہوں کہ جن سے احتجاج کیا جائے۔
7۔ امام نوویؒ
امام نووی کا قول بیان کرنے سے پہلے امام نووی کا علمی مقام و مرتبہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ کا علمی مقام یہ ہے کہ مکہ معظمہ، حرمِ کعبہ، مسجد نبوی اور پوری دنیائے عرب میں فرض نماز کے بعد عام طور پر علماء اور ائمہ آپ کی کتب ’’ریاض الصالحین‘‘ اور ’’کتاب الاذکار‘‘ کا درس دیتے ہیں۔ امام نووی محدثین اور علماء میں حجت ہیں۔ اُنہوں نے ’’مقدمۃ الاذکار‘‘ میں حدیثِ ضعیف سے استدلال کے حوالے سے بیان فرمایا کہ:
قال العلماء من المحدثین و الفقهاء وغیرهم. یجوز ویُستَحَبُّ العمل في الفضائل والترغیب والترهیب بالحدیث الضعیف، ما لم یکن موضوعًا.
محدثین اور فقہاء میں سے کثیر علماء نے کہا ہے: ’’موضوع‘‘ کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث ضعیفہ پر فضائل اور ترغیب وترہیب میں عمل کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے۔ (یعنی اِس پر بین المحدثین والفقہاء اختلاف نہیں ہے۔)
- امام نووی نے ایک اور بڑی نفیس بات کی ہے۔ فرماتے ہیں:
وأما الأحکام؛ کالحلال والحرام والبیع والنکاح والطلاق وغیر ذلک: فلا یعمل فیها إلا بالحدیث الصحیح أو الحسن.
احکام جیسے حلال وحرام، بیع، نکاح اور طلاق وغیرہ میں حدیث صحیح یا حدیث حسن پر عمل ہوگا۔ ان کے علاوہ باقی جتنے مسائل ہیں، ان میں حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے گا۔
- مزید فرماتے ہیں:
إلا أن یکون فی احتیاط فی شیء من ذلک.
حتیٰ کہ اگر احکام کے اندر بھی کوئی حدیث صحیح اور حدیث حسن موجود نہ ہو تب احکام میں بھی احتیاط کے پیش نظر حدیث ضعیف پر عمل کر لیا جائے گا۔
(نووی، مقدمة الاذکار، 1: 22)
8۔ علامہ خطیب بغدادیؒ
خطیب بغدادی نے الکفایۃ میں درج ذیل عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے:
باب التشدد فی أحادیث الأحکام والتجوّز فی فضائل الأعمال.
(خطیب بغدادی، الکفایة: 133)
احکام کی احادیث میں سختی کرنا اور فضائلِ اعمال کی احادیث میں نرمی کرنے کا باب
خطیب بغدادی کا اس عنوان سے باب قائم کرنا، حدیث ضعیف سے استدلال کے جواز کو ثابت کررہا ہے۔
9۔ علامہ ابن قدامہ الحنبلیؒ
علامہ ابن قدامہ المقدسی الحنبلیؒ نے فقہ حنبلی پر اپنی کتاب المغنی میں فرمایا:
النوافل والفضائل لا یُشترط صحةُ الحدیث لها.
نوافل اور فضائل کے باب میں صحیح حدیث کی شرط نہیں ہے۔ حدیث ضعیف سے بھی حکم لیا جا سکتا ہے۔
(ابن قدامه، المغنی، 2: 98)
10۔ علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
علامہ ابن رجب الحنبلیؒ شرح علل الترمذي میں بیان کرتے ہیں:
فقد رخّص کثیرٌ من الأئمة فی روایة الأحادیث الرقاق ونحوها عن الضعفاء.
(ابن رجب حنبلی، شرح علل الترمذي، 1: 371۔372)
کثیر تعداد میں ائمہ نے فضائل اور رقائق اور اس جیسے (ترغیب وترہیب کے) مسائل میں احادیث ضعیفہ سے استدلال کرنے اور اُن پر عمل کرنے کی رخصت اور اجازت دی ہے۔
اس کتاب میں علامہ ابن رجب الحنبلیؒ نے اس مؤقف کے حاملین ائمہ کے نام بھی درج کئے ہیں۔
خلاصۂ بحث
ائمہ کی درج بالا تصریحات اور اقوال سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حدیث ضعیف سے استدلال جائز ہے۔ اس حوالے سے صرف یہ امر ذہن نشین رہے کہ صرف ’’موضوع‘‘ اور ’’متروک‘‘ سے استدلال جائز نہیں، اس کے علاوہ حدیث ضعیف کی جتنی بھی اقسام ہیں، فضائل اعمال کے باب میں ان پر عمل کیا جائے گا۔ حدیث ضعیف کی اقسام کی تعداد ابن الصلاح اور دیگر کئی ائمہ کے نزدیک 49 ہیں۔ کئی ائمہ نے حدیث ضعیف کی 39 اقسام بیان کیں اور کئی نے اِن کو مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ان کی تعداد 60 تک ذکر کی ہے۔ لیکن علی الاقل حدیث ضعیف کی 40,39 اقسام ہیں، ان اقسامِ حدیثِ ضعیف میں سے صرف دو اقسام ’’موضوع اور متروک‘‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا اور حدیث ضعیف کی بقیہ 37 اقسام کے حوالے سے اجماع ہے کہ فضائل اعمال کے باب میںاُن پر عمل کیا جائے گا۔
حدیث ضعیف کے حوالے سے یہ امر بھی واضح رہے کہ فقط ایک محدث کا یہ لکھ دینا اور جرح وتعدیل کے باب میں کسی کا یہ کہہ دینا یا کسی حدیث کی کتاب میں کسی محقق کا کسی حدیث پر یہ حکم لگا دینا کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے‘‘ تو اِس سے سارا فیصلہ نہیں ہو جائے گا بلکہ اس کی مزید جانچ پرکھ کی جائے گی کہ وہ حدیث کس سبب سے ضعیف ہے۔۔۔ ؟ کون سا راوی ضعیف ہے۔۔۔ ؟ اُس راوی میں ضعف کس قسم کا ہے۔۔۔ ؟ راوی کی عدالت و دیانت کا ضعف ہے یا اُس کے حفظ کا ضعف ہے۔۔۔؟ اُس ضعف کی سطح کیا ہے۔۔۔ ؟ سند کس درجے میں شمار کی جاتی ہے۔۔۔ ؟
گویا 39 میں سے کم از کم 37 اقسام ضعیف ایسی ہیں جن کے لیے لفظ تو حدیث ضعیف کا استعمال ہو گا مگر اُسے کلیتاً اور قطعی طور پہ ردّ نہیں کیا جائے گا۔ اُن 37 اقسام پر تعدد طرق، عندالائمہ تلقی بالقبول، فضائل اعمال، زہد، ورع، ثواب و عقاب، ترغیب و ترہیب اور رقائق کے ابواب میں عمل کرنا واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر تعدد طرق نہ بھی ہو، صرف ایک ہی فرد اور ایک ہی طریق سے روایت ہوئی ہو مگر راوی کا ضعف شدید نہیں، تب بھی اس حدیث میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس پر عمل کرنا واجب ہے۔
الغرض محض یہ لکھ دینا کہ ’’حدیث ضعیف ہے‘‘، یہ لفظ تمام امور کا فیصلہ نہیں کر دیتا بلکہ اُس کے ضعیف ہونے اور اُس کے ضعف کی تفصیل میں جانا پڑے گا۔ حدیث ضعیف پر حکم لگانے کا معاملہ محلِ تفصیل ہے، یعنی اِس کی تفصیل معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی حدیث کو صحیح لکھ دیا تو یہ محلِ تفصیل نہیں ہے۔ کسی حدیث صحیح کا محلِ تفصیل میں ہونا صرف اِس پہلو میں ہے کہ اگر صحیح ہے توکہیں منسوخ تو نہیں۔ اِسی طرح کے اور مسائل بھی ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ حدیث صحیح اور حدیث حسن کی سند پر کلام نہیں اور صحیح اور حسن کے دو لفظوں سے سند کے باب میں تمام فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن اگر کوئی حدیثِ ضعیف ہے تو وہ محلِ تفصیل اور محلِ تحقیق ہے۔ یعنی محض ضعیف کا لفظ لکھ دینے سے سارے فیصلے نہیں ہو جاتے بلکہ اُس میں مزید تفصیل اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔
حدیث ضعیف ظاہر کرنے والی اصطلاحات
تمام کتب علوم الحدیث کو پڑھنے اور اچھی طرح کھنگالنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محدثین نے حدیث ضعیف کے بارے میں درج ذیل دس اقسام کے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی ہیں، محدث ان میں سے کوئی اصطلاح حدیث ضعیف کے اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے:
- واسمعوا منه ما کان فی ثواب وغیره.
اِس راوی سے سن لو، سماع جائز ہے اگر ثواب کا مسئلہ ہو۔
- تَساهَلنا فی الأسانید.
(تساہل کے لفظ کا استعمال)
- یحتمل أن یُتَساهَل فیها.
- وجب الإغماضُ عنه، والتساهلُ فی رواته
- سمَّحنا فی الرجال
- تساهلوا فی التفسیر عن قوم لا یوثِّقونهم فی الحدیث
- هؤلاء لا یحمد امرهم، ویُکتَب التفسیر عنهم
- وهو رجل تُکتَب عنه هذه الأحادیث۔ کأنه یعنی المغازی ونحوها...
- لا تأخذوا هذا العلم فی الحلال والحرام ولا بأس بما سوی ذلک
- یحتمل أن یروی هذا القدر، أو مثل هذه الأشیاء.
ان دس میں سے کوئی نہ کوئی اصطلاح/ الفاظ حدیثِ ضعیف کو ظاہر کرنے کے لیے کتب حدیث میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان اصطلاحات سے واضح ہوتا ہے کہ محدثین نے اپنے اپنے اسلوب میں کتنی اصطلاحات وضع کی ہیں جو اِس ایک مسئلے کو بیان کرتی ہیں۔ (جاری ہے)