تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام منعقدہ 37 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام الہٰی سے ہوا جس کی سعادت محترم قاری سید خالد حمید کاظمی نے حاصل کی۔ نقابت کے فرائض محترم وقاص احمد قادری، محترم انعام مصطفوی، محترم منہاج الدین قادری نے انجام دیئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کی سعادت محترم مرغوب احمد ہمدانی، محترم عبدالرئوف روفی، محترم اختر حسین قریشی، محترم افضل نوشاہی، محترم ظہیر بلالی و سمیع بلالی برادران، محترم شہزاد برادران، محترم نور احمد نور (UK)، محترم اویس رضا کموکا، محترم محمد عمر بٹ، محترم سید ذیشان شاہ، محترم صغیر احمد نقشبندی نے حاصل کی۔ محترم صاحبزادہ تسلیم احمد صابری نے اپنے مخصوص انداز میں کلام پیش کیا۔
عالمی میلاد کانفرنس کے مہمانِ خصوصی محترم حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ (مرکزی سیکرٹری جنرل جماعتِ اہل سنت پاکستان) تھے۔ دیگر مہمانانِ گرامی میں محترم پیر سید احمدمسعود دیوان (آستانہ عالیہ پاکپتن شریف)، محترم علامہ محمد امین شہیدی (مجلس وحدت المسلمین)، محترم سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (متحدہ جمیعتِ اہلِ حدیث پاکستان)، محترم سید حسنین گیلانی، نور علائوالدین قادری، محمد رضی نیازی، پاکستان ہندو دھرم کونسل سے پنڈت مانگت رام شرما، رتن لال آریہ، سردار گوپال سنگھ چاولہ (چیئرمین پنجابی سکھ سنگت)، مسیح برادری سے ریورنڈ ڈاکٹر مجید ایبل (ماڈریٹر پریس بیٹرین چرچ آف پاکستان) اور ریورنڈ عمانویل کھوکھر شامل تھے۔
محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، جملہ نائب ناظمین اعلیٰ، جملہ سربراہان فورمز و شعبہ جات اور دیگر مرکزی قائدین تحریک منہاج القرآن بھی سٹیج کی زینت بنے۔
کانفرنس میں درج ذیل احباب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا:
خطبہ استقبالیہ: محترم خرم نواز گنڈا پور
ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے معزز مہمانانِ گرامی قدر کا کانفرنس میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے محترم محمد جواد حامد (ڈائریکٹر نظامتِ اجتماعات) کی نگرانی میں کانفرنس کے انتظام و انصرام میں حصہ لینے والی جملہ کمیٹیوں کو مبارکباد بھی پیش کی۔ ناظم اعلیٰ نے جشنِ عید میلاد النبی ﷺ منانے کی ضرورت و اہمیت اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
آج کے دور میں عشقِ رسول ﷺ کے اعادہ کی پہلے سے کئی بڑھ کر ضرورت ہے۔پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ایک یلغار ہورہی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، ایک دوسرے کے ادیان اور ایک دوسرے کے اکابرینِ دین کا لحاظ نہ کرنے کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ ان حالات میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں موجود ان آرٹیکلز پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے جن کے تحت ادیان کے درمیان باہمی ربط اور باہمی رواداری کو فروغ ملے اور ایک دوسرے کے اکابرین کے لیے سخت زبان استعمال کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔
اس کانفرنس کے ذریعے ہم اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی قرار داد اور ایسے قوانین لائے جو کہ کسی کے دین کی سب سے اہم ہستی کے خلاف نازیبا کلمات اور ان کی تضحیک و توہین کو ممنوع قرار دے۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ مسلمان دنیا کے ہر ملک میں رہتے ہیں اور اگر ان کے جذبات کو اس طریقے سے اشتعال دلایا گیا تو پھر اقوامِ عالم کے اندر باہمی رواداری کی فضا کو دھچکا لگے گا اور ممالک کے اندر کی فضا عدم رواداری، عدم تعاون اور تشدد کی طرف جائے گی۔
ہمیں ہمارے رہنما، ہمارے قائد، ہمارے مربی شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے عشقِ مصطفی ﷺ کا جو سبق سکھایا ہے، شاید پاکستان میں کسی اور تحریک نے اس مضبوطی اور استقامت سے اس پیغامِ محبت و ادب کو فروغ نہ دیا ہو۔ شیخ الاسلام نے عشقِ مصطفی ﷺ کی شمع نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں جلائی ہے۔ ہم علمی اور فکری محاذ پر پُرامن طریقے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ناموس کی حفاظت کا فریضہ پہلے بھی سرانجام دے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ اپنی ان کاوشوں کو جاری و ساری رکھیں گے۔
محترم المقام حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ صاحب
(مرکزی سیکرٹری جنرل جماعتِ اہل سنت پاکستان)
تہذیبوں کے گہواروں سے بہت دور اور تمدنو ںکے مراکز سے بہت بعید ریتلی اور تپتی ہوئی زمین پر ایک ایسا خاندان جو شرافت کی اقدار کا امین تھا، ان کے ایک بے زر گھر کے اندر اللہ تعالیٰ نے عظیم نعمت حضور نبی اکرم ﷺ کی صورت میں عطا فرمائی۔ آج ساری کائنات ان کی ولادت کی خوشیاں منارہی ہے۔ اس موقع پر آپ تمام احباب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں نابغۂ عصر، عبقریِ دوراں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم القدسیہ کے حضور حرفِ سپاس پیش کرتا ہوں کہ جو قرض امتِ مسلمہ پر قرض تھے، آپ نے پوری دنیا میں وہ قرض ادا کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے۔
میں بہت تنظیموں کو دیکھ چکا ہوں اور بڑی بڑی تنظیموں کا ذائقہ بھی چکھا ہے لیکن میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جو ثباتِ نفسی اور ٹرسٹ و اعتماد ڈاکٹر صاحب کے کارکنوں میں ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس محبت کی دولت نہیں ہوتی وہ کسی تحریک کو کامیاب و کامران نہیں کرسکتے۔ مجھے منہاج القرآن کے کارکنوں اور وابستگان کی آنکھوں میں ایک روشنی نظر آتی ہے۔ ان کے ماتھے پر اور تکلم میں ایک نور موجود ہے جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ آپ کے مربی اور آپ کے مرشد ڈاکٹر طاہرالقادری نے آپ کی محبتوں کا جواب پیار سے دیا ہے۔
آج گلی گلی، کوچہ کوچہ، کوبکو اور روح بہ روح اگریارسول اللہ ﷺ کے نعرے سنائی دے رہے ہیں تو دراصل یہ ڈاکٹر صاحب کے سینے کا فیض ہے جو لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو فیضیاب کرچکا ہے۔ ان شاء اللہ یہ محبتیں تھمیں گی نہیں جب تک محبتِ رسول ﷺ کے نور سے اس کرۂ ارضی کی ہر شے منور نہ ہوجائے۔
میں آپ لوگوں کی چالیس سالہ تاریخ پڑھ رہا ہوں کہ آپ لوگ کس طرح صبح و شام مصروفِ عمل ہیں، آپ لوگوں کے سینے اگر مدینہ بنے ہوئے ہیں تو یہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی سرپرستی ہم سب کے سروں پر قائم رکھے۔ آج دین کی تبلیغ اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے لائق، ذہین اور عبقری لوگ درکار ہیں۔ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت آپ کو عطا کررکھی ہے۔
میں آج ایک عرصہ کے بعد اس سٹیج پر آیا ہوں۔ بعض اوقات سپاہ و لشکر کسی کو فتح نہیں کرسکتے لیکن چند لفظ فتح کرلیتے ہیں۔ آپ نے آلِ رسول ﷺ اور خاندانِ رسول ﷺ کے لیے جن محبتوں کا اظہار کیا ہے، آپ کے ان چند الفاظ نے ہمارے دلوں کو خرید لیا ہے۔ میں ہی نہیں بلکہ اس دھرتی پر جتنے سادات ہیں، آپ کی بات اور آپ کی حکمتیں ان تک پہنچ گئی ہیں۔ اب آپ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، یہ محبتوں کے قافلے اب منزل کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ حال ہی میں بی بی پاکj کی جو توہین کی گئی اور آپ نے جس جرأتمندانہ طریقے کے ساتھ اس مسئلہ کا علمی و فکری جواب دیا، وہ آپ ہی کا کام تھا۔
مجھے امید ہے کہ آپ کی توجہ بہت سارے مسائل حل کرسکتی ہے۔ میری ایک خواہش ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں جب اقوام نئی صف بندیاں کررہی ہیں، اگر آپ کوشش کریں تو دنیا کے جتنے سربراہانِ مملکت ہیں، ان کے نام حضور ﷺ کی سنت کے مطابق نئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خط لکھیں، جن پر اکابرینِ ملت کے دستخط ہوں اور اس خط میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کا سدِباب کرتے ہوئے حقائق بیان کریں تاکہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔
ڈاکٹر صاحب! میرے پاس وہ الفاظ نہیں میرے پاس صرف دل کی دھڑکنیں ہیں، میرے پاس خلوص کی دولت ہے، میرے پاس دعائیہ کلمات ہیں، میرے پاس مصطفی ﷺ کی اولاد میں سے ہونے کا شرف ہے، میں یہ ساری دولت آپ کے نام کرتا ہوں اور ان شاء اللہ یقین دلاتا ہوں کہ آپ نے پہلے بھی بڑا علمی اور روحانی کام کیا اور اللہ آپ کو مزید توفیق سے نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعوتِ تحریک کو مزید پھیلائے اور آپ کو اور زیادہ نور عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتیں عطا کررکھی ہیں، ان شاء اللہ آپ کی صلاحیتوں اور آپ کے کارکنوں کے جذبات کی روشنی میں یہ قافلہ ضرور منزل پائے گا۔
محترم علامہ محمد امین شہیدی (مجلس وحدت المسلمین)
آج تحریک منہاج القرآن کا یہ پلیٹ فارم تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی نمائندگی کررہا ہے۔ جب عشقِ رسول ﷺ اور محبتِ رسول ﷺ کے اظہار میں مسالک اور مکاتبِ فکر کی تمیز مٹ جاتی ہے اور تمام امت ایک کلمہ کے گرد طواف کرتے ہوئے یا محمد ﷺ ! یارسول اللہ ﷺ! کہتے ہوئے میدان میں اترتی ہے تو پھر پوری دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ چاہے وہ جتنی بھی کوشش کرلیں، وہ نبی ﷺ کی محبت کو دلوں سے ختم نہیں کرسکتے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا چلا جائے گا یہ عشق، محبت اور مودّت مزید آگے بڑھتی چلی جائے گی۔
ہم ان شاء اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے گرد طواف کرتے رہیں گے اور جب تک روئے زمین پر آخری کلمہ گو باقی ہے، ہم اپنے نبی پاک ﷺ کے تقدس پر ایک آنچ تک نہیں آنے دیں گے۔ اس لیے کہ نبی پاک ﷺ ہماری جان بھی ہیں، ہماری آن بھی ہیں، ہماری ہر چیز نبی کریم ﷺ سے ہے اور اگر نبی پاک ﷺ کی حرمت نہیں ہے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ آج کے اس مقدّس اجتماع کے انعقاد پر میں آپ کو مبارکباد پیش کروں گا کہ آپ نے یہ گلدستہ سجا کر عالمِ مغرب کو آج کی رات ایک بہت بڑا پیغام دیا ہے کہ جب بھی پاکستان کے اندر محمد مصطفی ﷺ کی محبت، مودّت اور تقدّس کا سٹیج سجے گا تو اس سٹیج پر تمام مکاتبِ فکر نہ صرف اکٹھے نظر آئیں گے بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر نبی کریم ﷺ کی حرمت کا دفاع بھی کریں گے۔
محترم سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (متحدہ جمعیتِ اہلِ حدیث پاکستان)
اس عظیم الشان، فقیدالمثال میلاد کانفرنس کا یہ عظیم ماحول، جذبہ، والہانہ لگائو، گہری وابستگی اور تعلق دیکھ کر میں دل کی گہرائیوں سے آپ کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ میں یوں محسوس کررہا ہوں اور آپ کے جذبات کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ عالمِ کفر جتنی مرضی مذموم کوششیں کرلے، وہ کسی بھی صورت امتِ مسلمہ کے دلوں سے محبت و عشقِ مصطفی ﷺ کو ختم کرنا تو دور کی بات، کم بھی نہیں کرسکتا۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی حکمت، فراست اور بصیرت کو داد دیئے بغیر رہ نہ سکا کہ میلاد کانفرنس میں ایک اہل حدیث کو بلایا۔ آپ جس بصیرت، فراست، حکمت، دانائی اور وسعت و جامعیت کے ساتھ محبتِ رسول ﷺ اور سیرتِ نبوی ﷺ کے پیغام کو عام کررہے ہیں، یہ آپ ہی کا خاصہ ہے اور ان شاء اللہ آپ کی بات اور حکمت عنقریب بہت جلد پوری امت کی مشترکہ آواز ہوگی۔۔
ڈڈاکٹر صاحب! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتیں اور ایک مخلص ٹیم عطا کررکھی ہے، لوگوں کے دلوں میں آپ کا احترام اور محبت بھی موجود ہے، بین الاقوامی برادری میں بھی آپ کا تشخص اور شناخت موجود ہے، میں ان ساری چیزوں کی بنیاد پر آپ کو یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ نبی پاک ﷺ کی ناموس کی حرمت اور حفاظت کے لیے، تقدّس اور تحفظ کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیت، بصیرت اور فراست کے ساتھ پہلے بھی کئی معاملات طے کیے ہیں، میں توقع رکھتا ہوں کہ عالمی سطح پر ناموسِ رسالت ﷺ کے حوالے سے بھی قانون سازی کے لیے آپ اپنا کردار ادا کریں گے۔
- ڈائریکٹر انٹرفیتھ ریلیشنز منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم سہیل احمد رضا کی دعوت پر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کی نمایاں شخصیات بھی عالمی میلاد کانفرنس میں شریک ہوئیں اور اظہار خیال کیا۔ ذیل میں ان شخصیات کے خیالات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
محترم پنڈت مانگت رام شرما (پاکستان ہندو دھرم کونسل)
حضرت محمد مصطفی ﷺ وہ ہستی ہیں جنہوں نے امن کا درس دیا۔ آپ ﷺ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسایت کے لیے امن کا درس لے کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ صرف ایک جماعت، ایک فرقے یا ایک خطے کے لیے رحمۃ للعالمین نہیں ہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے رحمۃ للعالمین ہیں۔
میں تمام پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص ہندو کمیونٹی اور پوری کائنات میں بسنے والے تمام اہلیانِ دل کی طرف سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی بھی شخص کمی نہیں لاسکتا، کیونکہ ان کی عصمت کی حفاظت و اعلیٰ مرتبے کا وعدہ خود خدا نے ان سے فرمایا ہے۔ آج حضور نبی اکرم ﷺ کی بے حرمتی و بے ادبی پر جہاں تمام امتِ مسلمہ پریشان ہے وہاں تمام اہلِ دل اور ہندو برادری بھی پریشان ہے۔ میں تمام ہندو برادری کی طرف سے اس اقدام کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔
محترم سردار گوپال سنگھ چاولہ (چیئرمین پنجابی سکھ سنگت)
سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جنم دن کی میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام انسانیت سے پیار کرنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حضور پاک ﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہیں۔ حضور پاک ﷺ کی شان کو ہم بیان نہیں کرسکتے، اگر پورے سمندر کو سیاہی بنائیں اور پوری دنیا کے درختوں کو قلم بنائیں تو بھی آپ ﷺ کی شان بیان نہیں کرسکتے۔ ہر ذی شعور شخص محمد ﷺ کے انسانیت پر احسانات اور بھلائیوں کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تحریک منہاج القرآن کی طرف سے ہم آہنگی کی بہت بڑی مثال آج کا یہ اجتماع ہے۔ تحریک کے لوگ ہمارے گرو کے جنم دن منانے میں شریک ہوتے ہیں، لہذا ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم بھی آج اس ہستی جو سب کے لیے ہے، اس کے جنم دن منانے کا شرف حاصل کریں۔
میں دنیا کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر دنیا میں امن، محبت، بھائی چارہ، خلوص قائم کرنا چاہتے ہو اور دنیا سے نفرت، فساد، خود غرضی اور جھوٹ مٹانا چاہتے ہو تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ حضور پاک ﷺ کے راستے پر چلو جو اس راستے پر چلے گا وہی کامیاب ہوگا۔
محترم ریورنڈ ڈاکٹر مجید ایبل (ماڈریٹر پریسبٹرین چرچ آف پاکستان )
بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے حالات میں مذاہبِ عالم کے مابین احترامِ مذہب کے کلچر کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اہل مسیحیت کے ساتھ تاریخی معاہدات کر کے دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو قیامت تک باہمی احترام کے رشتے میں جوڑا ہے۔ بالخصوص طورِ سینا مصر کے مقدسہ کیتھرین کے راہبوں کیساتھ تحریری معاہدہ اس کی تاریخی مثال ہے۔
پاکستان کی مسیحی برادری پیغمبرِ اسلام ﷺ کی اہانت پر سرپا احتجاج ہے اور اس طرح کے غیرذمہ دارانہ اور احمقانہ بیانات کی مذمت کرتی ہے۔ امنِ عالم کی خاطر اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنا لازم ہے۔ ایسے اقدامات کرنے والوں کو مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے اور تہذیبی تصادم کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے کی کچھ حدود ہیں، جب یہ حدود پامال ہوں گی تو دنیا کا امن خطرے میں پڑے گا۔ مذاہبِ عالم کو ایک دوسرے کے احترام کی روش اپنانا ہوگی اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر قریب آنا ہوگا۔
محترم ریورنڈ عما نویل کھوکھر (رائیونڈ ڈائسر پاکستان)
میں چرچ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پریذیڈنٹ بشپ کی طرف سے بھی عید میلاد النبی ﷺ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اس سال کی یہ 37 ویں عالمی میلاد کانفرنس ہم سب کے لیے اور ملک پاکستان اور دنیا کے لیے امن، صلح، سلامتی اور انصاف کا سبب ٹھہرے۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی کاوشوں کا وسیلہ ہے کہ انہوں نے اکٹھے ہنسنا اور اکٹھے رونا سکھادیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہم سب کو ایک جیسا بنادیا ہے۔ پہلے ہم اپنے اپنے تہوار منایا کرتے تھے لیکن اب ہماری خوشیاں، ہمارے تہوار ایک ہیں اور ان محبتوں کو ہم ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں تاکہ نفرتیں ختم ہوں اور ہمارے ملک میں صلح اور سلامتی ہو اور یہ ملک پاکستان دنیا میں امن کے حوالے سے پہچانا جائے۔
فورمز کے صدور کے خطابات
عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر تحریک منہاج القرآن کے جملہ فورمز کے صدور و ناظمین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اِن میں محترم علامہ امداد اللہ خان قادری (صدر علماء کونسل)، محترم مظہر محمود علوی (صدر یوتھ لیگ)، محترم محمد عرفان یوسف (صدرMSM) اور محترمہ سدرہ کرامت (ناظمہ ویمن لیگ) شامل ہیں۔
شیخ الاسلام کی نئی آنے والی کتب
سینئر ریسرچ سکالر محترم عین الحق بغدادی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی درج ذیل نئی شائع ہونے والی کتب کا تعارف پیش کیا:
٭ قدر شناسی رسول ﷺ اور معرفتِ مصطفی ﷺ کے موضوع پر نئے سلسلہ تصنیف ’’کَاَنَّکَ تَرَاہٗ ﷺ ‘‘ (دیکھو! سرکار ﷺ کیسے ہیں) کی درج ذیل چار کتب منظرِ عام پر آئیں:
1۔ خلقِ عظیم کا پیکرِ جمیل ﷺ
أَطْیَبُ الشِّیَم مِنْ خُلُقِ سَیِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَم ﷺ
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا پیکرِ جمال
أَطْیَبُ السُّوْل فِی شَمَائِلِ الرَّسُوْل ﷺ
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائلِ مبارکہ
اَلْأَنْوَار فِی خِصَالِ النَّبِیِّ الْمُخْتَارِ ﷺ
4۔ جامع کلماتِ نبوی ﷺ
اَلْمَحْصُوْل فِیْ جَوَامِعِ کَلِمِ الرَّسُولِ ﷺ
- علاوہ ازیں درج ذیل کتب بھی منصۂ شہود پر آئیں:
5۔ نبوتِ محمدی ﷺ کا آغاز کب ہوا؟
(اَلتَّذْکِرَۃُ السَّنِیَّۃ فِی بَدْءِ النُّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃ ﷺ )
6۔ سلسلہ تعلیماتِ اسلام: 9 (نکاح اور طلاق) (نیا ایڈیشن)
7۔ سلسلہ تعلیماتِ اسلام: 13 (دعوت و تبلیغ دین میں خواتین کا کردار)
- محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی درج ذیل دو تصانیف بھی عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر شائع ہوکر منظرِ عام پر آئیں:
1۔ منہاج السالکین (اصلاحِ احوال اور روحانی تربیت و ترقی کا نصاب)
2۔ فلسفۂ آوا گون اور نفوسِ سبعہ
خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں منعقدہ 37 ویں عالمی میلاد کانفرنس سے اپنے خطاب کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ حضور نبی اکرم نبی آخرالزماں ﷺ ، پیغمبرِ امن و سلامتی اور رحمۃ للعالمین ہیں، انہوں نے انسانیت کو اخوت، محبت، اعتدال اور رواداری کی تعلیم دی۔ میں اہانت آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے تمام سربراہانِ مملکت کو خط لکھوں گا کیونکہ ہر مذہب میں پیغمبرانِ خدا کی اہانت ایک جرم اور گناہ ہے۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے عالمی میلاد کانفرنس کے ہزاروں شرکاء کے ہمراہ ایک منٹ کیلئے کھڑے ہوکر خاکوں کے خلاف اپنا پُرامن احتجاج ریکارڈ کروایا۔
عالمی میلاد کانفرنس سے حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ’’انسانی رشتوں کا خیال رکھنا اور خلق عظیم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو نرم جو بنایا ہے۔ آپ ﷺ اللہ رب العزت کی رحمت کا عظیم عکس ہیں، آپ ﷺ سراپا نرمی ہیں۔ حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس کا عالمِ انسانیت کے لیے سراپا نرمی و شفقت ہونا اور پوری عالمِ انسانیت کے لیے سراپا احسان ہونا اس قدر عالی درجہ ہے کہ معاذ اللہ استغفراللہ آپ ﷺ کی اہانت کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ اس قابل ہے کہ پوری انسانیت کا سر تعظیم کے ساتھ ان کے قدموں میں جھک جائے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے آپ ﷺ کا سراپا رحمت ہونا اس قدر واضح ہے کہ یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ کی اہانت پر مشتمل خاکوں کی طرف جانا دانشمندی ہے یا اس الوہی خاکہ کی طرف جانا عقلمندی ہے جس کو اللہ پاک نے آقاe کی سیرتِ تعالیٰ کے لیے مقرر فرمایا۔۔
آپ ﷺ ایک طرف انسانوں کے احساسات اور جذبات کا احترام فرماتے تو دوسری طرف آقاe انسانی رشتوں کا خیال رکھتے اور ہر طبقہ انسانی جس کا کسی بھی سطح پر آپ ﷺ سے تعلق ہوتا، آپ ﷺ اس تعلق کو نبھاتے، حسنِ سلوک کرتے اور حسنِ شفقت سے پیش آتے۔ آقاe کی سیرت کے اس پہلو کو قرآن مجید نے متعدد مقامات پر بیان فرمایاہے۔
آپ ﷺ نے انسانیت کو یہ تعلیم دی کہ جب دوسروں کے ساتھ معاملہ برتائو، تعلق اور لین دین ہو تو ہمیشہ نیکی کا طرزِ عمل اپنانا۔ اس لیے کہ نیکی کا طرز عمل اور بدی کا طرز عمل، اچھائی کا طرز عمل اور برائی کا طرز عمل کبھی دونوں ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ آقاe نے اس طرز عمل کو جو سراپا نیکی، اچھائی، بھلائی، احسان، شفقت اور نرمی پر مشتمل ہے، اس کو بلند قرار دیا اور وہ طرز عمل جس میں بدی، برائی اور سختی ہے اس کو گھٹیا قرار دیا، اس کو ترک کرنے کا کہا اور نیکی پر مبنی طرز عمل کو زندگی کے ہر زاویہ میں اپنانے کا کہا۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ میں یہ تعلیمات واضح ہیں کہ اگر کوئی تم سے برائی کا معاملہ کرے یا کسی کی طرف سے برائی اور زیادتی صادر ہوجائے تو اس کو بہتر اور اچھے طریقے سے دور کیا کرو۔ یعنی برائی کو برائی کے ساتھ رد نہ کرو بلکہ برائی کو اچھائی کے ذریعے رد کرو۔ یہ دوسرا طرز عمل ہے۔ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیرتِ محمدی ﷺ اور قرآنی تعلیم و تربیت کے ان پہلوئوں پر خوب غور کرے۔ ایک طرف بدی کو کسی اعتبار سے نیکی کے برابر نہیںٹھہرایا گیا اور دوسری طرف اگر کوئی برائی اور زیادتی کا طرز عمل تمہارے ساتھ اختیار کرے تو اس کو اچھائی کے ساتھ دور کرو، برائی کو برائی کے ساتھ دور نہ کرو۔
برائی کو اچھائی کے ساتھ دور کرنا اور بدی کا بدلہ نیکی کے ذریعے دینا، یہ خوبی صرف انہی لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں، جو ضبطِ نفس رکھتے ہیں۔ جو لوگ بے صبری کرتے ہیں اور نفس کا ضبط قائم نہیں رکھ سکتے، وہ اس خوبی سے محروم رہتے ہیں۔
بدی کو نیکی کے ذریعے دور کرنا، برائی کو اچھائی کے ساتھ دور کرنا اور اگر زیادتی ہوجائے تو ضبطِ نفس اور صبر سے کام لینا یہ خوبی اور اللہ کی یہ توفیق صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔
نرمی انسان کی طبیعت کو نہایت خوبصورت اور مزین بنادیتی ہے اور درجہ بلند کردیتی ہے اور اگر انسان کی طبیعت میں سختی آجائے تو وہ اچھے سے اچھے عمل کو بھی بدصورت بنادیتی ہے۔ گویا نرمی عمل کو حسین کردیتی ہے اور سختی عمل کے حسن کو زائل کردیتی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
جس شخص کو نرمی کا جتنا حصہ عطا ہوجائے، اس قدر اسے خیر کا حصہ مل جاتا ہے اورجس شخص کی طبیعت اور مزاج سے جتنی نرمی کم ہوجائے، اس کی زندگی اور شخصیت سے اتنی خیر کم ہوجاتی ہے۔
ببدقسمتی سے ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رسمی عبادتوں پر زور دیتے ہیں مگر اخلاق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ایک طبقہ تو دین پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے مگر جو طبقہ دین پر عمل کرتا ہے، مذہبی مزاج رکھتا ہے، دین کے اعمال اور طاعات بجا لاتا ہے، وہ بھی بدقسمتی سے لوگوں کے ساتھ برتائو میں نرمی نہیں رکھتا۔ ایک طرف ہم عبادات پہ زور دیتے ہیں مگر دوسری طرف انسانی تعلقات و معاملات میں توجہ نہیں دیتے۔ یاد رکھیں! اعمال کی قبولیت اور رد کا انحصار حسنِ اخلاق پر ہے۔
افسوس!ہم حضور ﷺ کی سیرت طیبہ میں پائے جانے والے نرمی و شفقت کے گوشے بھول گئے ہیں۔ ہم نے ان کو دین کا حصہ ہی نہیں سمجھا۔ ہمیں ان کے متعلق بتایا ہی نہیں جاتا۔ آج کے خطباء اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے اور ان موضوعات پر فوکس نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ دیگر انسانی رویے ہیں، سیکولر رویے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہے کہ بلکہ یہ گوشے سیرت محمدی ﷺ اور دین کی تعلیمات کا محور و مرکز ہیں۔