جھنگ کی دھرتی اپنی مٹھاس، زرخیزی، مردم خیزی اور منفرد تاریخ کے حوالے سے ہر دور میں اپنی مثال آپ رہی ہے۔ ہر زمانے میں محبت، اخوت اور شادمانیوں کے نغمات یہاں کی فضائوں میں اپنا رس گھولتے رہے ہیں، یہاں کے اہلِ علم و حکمت اپنے افکار و نظریات سے نئی دنیائیں تسخیر کرتے اور اپنے علم و ہنر کا سکہ جماتے رہے ہیں۔ زمانہ قدیم سے یہاں مختلف تہذیبوں، مذاہب اور قوموں کا اختلاط رہا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والدین گرامی 1918ء میں جھنگ کی سرزمین پر پیدا ہوئے، پہلی جماعت سے مڈل تک تعلیم اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے حاصل کی۔ وہ شروع دن ہی سے ذہنی صلاحیتوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے ہر جماعت میں اول آنا، ہر میدان میں اپنا سکہ جمانا اور اعلیٰ نتائج کی بناء پر وظیفہ حاصل کرنا پہلی جماعت ہی سے سیکھ لیا تھا اور یہ سلسلہ جماعت ہفتم تک بدستور جاری رہا۔ وہ سکول کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ جھنگ کے معروف عالم دین حضرت مولانا غلام فرید سے درس نظامی کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھتے رہے۔ وہ اسی دوران کم سنی کے باوجود تفکر، تدبر اور عشق الٰہی میں ڈوب کر گھر سے چار میل دور بہتے دریائے چناب کے کنارے عالم تنہائی میں غور و خوض کرتے اور اپنے من میں آگاہی کی جوت جگاتے۔
ڈاکٹر فرید الدین کے والد محترم انہیں مسیحا بنانا چاہتے تھے ،حصول علم کی خواہش میں والدہ کا آنچل ہی ان کے لیے روشن مستقبل کی امیدوں کاپیامبر ثابت ہوا اوروالدہ محترمہ نے سینہ فرزند میں حصول علم کی آگ کو دیکھتے ہوئے دستیاب وسائل مہیا کیے۔ فرید الدین علم کے جویہ ہو کر شہر اقبال سیالکوٹ پہنچے، یہاں انہیں مفتی اعظم حضرت علامہ محمد یوسف سیالکوٹی کے حلقہ تلمذ میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے دو سال کے عرصہ میں درس نظامی کی کتب بھی پڑھیں اور ساتھ ہی سکول میں داخلہ لے کر میٹرک کاامتحان بھی شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ ان دنوں لکھنؤ جو اپنی تاریخی اہمیت، رنگینیوں اور علم و ادب کے لحاظ سے ہندوستان بھر میں اپنی مثال آپ سمجھا جاتا تھا، یہاں کا فرنگی محل دنیا بھر میں علم و ادب اور فن کا گہوارہ تصور کیا جاتا تھا۔فرید الدین سیالکوٹ سے درس نظامی اور میٹرک کرنے کے بعدلکھنو نگری پہنچے اور فرنگی محل جیسی تاریخی درسگاہ سے منسلک ہو گئے، انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ جوائنٹ طبیہ کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر فرید الدین نے اوائل عمری کی طرح سیالکوٹ اورلکھنو قیام کے دوران بھی فقر،تصوف اور سلوک کے راستے پر گامزن رہے اورلکھنو کی ادبی محافل سے بھی کسبِ فیض کیا۔ اردو ادب کے نامور سخن ور امیر مینائی کے فرزند شاعر شکیل مینائی سے زانوئے تلمذ طے کیے اور مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا۔ ڈاکٹر فرید الدین دینی اور پیشہ وارانہ تعلیم کی تکمیل کے بعد لکھنو سے لاہور پہنچے ، اس زمانے میں ’’زبدۃ الحکما‘‘ طب کی سب سے بڑی ڈگری ہوتی تھی، وہ اس امتحان میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے شریک ہوئے اور نبض کے موضوع پر 40 صفحات پر مشتمل مقالہ تحریر کیا اور پنجاب بھر میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
بھرپور زندگی گزارنے اور علم و عمل سے ایک جہاں کو مستفید کرنے کے بعد آخر ڈاکٹر فرید الدین کی شاندار زندگی کے سفر کا آخری موڑ بھی آگیا، 2 نومبر 1974ء کو علم و حکمت کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔ کہنے کو تو یہ سورج ڈوب چکا ہے مگر اس کی تابانیاں آج بھی حق کے افق پر چمک رہی ہیں کیونکہ جو لوگ فکر و نظر کی ظلمتوں کو حق کی روشنی سے جگمگاتے ہیں وہ ہمیشہ کیلئے سراپا نور بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فرید الدین قادری کی تابانیوں کا ایک عظیم سلسلہ ان کے فرزند ارجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں چہار دانگ علم و حکمت اور شعور آگہی کے اجالوں سے سیاہ دلوں کو منور کررہا ہے، یہ بھی ڈاکٹر فرید الدین کا ہی ایک عظیم فیض ہے جو منہاج القرآن کی صورت میں تاقیامت حق کے متلاشیوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
19 فروری 1951ء بروز سوموار جھنگ کی مردم خیز دھرتی پر معروف روحانی مذہبی اور سماجی شخصیت ڈاکٹر فرید الدین قادری کے آنگن میں ایک پھول کھلا جس نے گھرانے بھر میں خوشیوں، مسرتوں اور شادمانیوں کی ایک لہر دوڑا دی۔ یہ مولود فرزند کبیر ہونے کے سبب والدین سمیت تمام خاندان کی آنکھ کا تارا تھا، ڈاکٹر فرید الدین قادری کا یہ ہونہار فرزند جب زندگی کی چار بہاریں دیکھ چکا تو دینی اور عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں انگلش میڈیم سیکرڈ ہاورڈ ہائی سکول جھنگ میں داخل کرایا گیا، محمد طاہر 1962ء میں جب جماعت ہفتم میں پہنچے تو ڈاکٹر فرید الدین نے صرف، نحو، عربی ادب اور درس نظامی کی کتب سبقاً پڑھانا شروع کر دیں، والد گرامی نے تمام تر مصروفیات کے باوجود تعلیم اور تربیت پدری کے تمام تقاضے پورے کیے۔
بعدازاں ڈاکٹر فرید الدین قادری اپنے فرزند ارجمند کی روحانی تربیت کیلئے مدینہ منورہ تشریف لے گئے، انہوں نے وہاں مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فاضل بریلی کے خلیفہ مجاز حضرت مولاناضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دورہ حدیث کے حلقہ تلامذ میں داخل کرا دیا۔ بعدازاں محمد طاہر نے مکہ مکرمہ سے محدث حرم حضرت شیخ محمد بن علوی المالکی المکی سے حدیث اور روایت حدیث کی سند اور اجازت حاصل کی۔ محمد طاہر نے قیام عرب کے بعد 1964ء میں اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں داخلہ لیا اور 2سال بعد میٹرک کاامتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی زمانہ میں مسنون استخارہ کے ذریعے قدوۃ اولیاء حضرت سیدنا طاہر علائو الدین القادری البغدادی کے دست حق پر بیعت ہوئے اور تصوف و سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔ انہوں نے 1969ء میں ایف ایس سی کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ والد محترم انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر اللہ رب العزت کو اپنے بندوں کیلئے ان کی کسی اور طرح کی مسیحائی مقصود تھی۔ آپ نے 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا، 1973ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات میں گولڈمیڈل حاصل کیا۔ شاندار نتائج کے سبب ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے سکالر شپ کی پیشکش ہوئی اور 15فروری 1974ء کو انہوں نے یونیورسٹی جوائن کرنا تھی مگر والد محترم کی خواہش کو سرآنکھوں پر رکھتے ہوئے انہوں نے دیار غیر میں تعلیم کے حصول کا ارادہ ختم کر دیا اور والد کے حکم کی تعمیل میں یونیورسٹی کی سکالر شپ کی پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ بعدازاں درس و تدریس اور حصول علم کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اورانہوں نے Ph.D کے لیے ’’Punishments in islam their philosophy and Classification‘‘ کے عنوان سے مقالہ پنجاب یونیورسٹی کو پیش کیا جس کی بنا پر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے پی ایچ ڈی کی سند سے نوازا اور پھر محمد طاہر نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بن کراکتوبر 1980ء میں شادمان ٹائون لاہور میں درسِ قرآن کی ابتداء کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کا آغازکیا اور الحمدللہ یہ تحریک آج پاکستان سمیت دنیا کے 100 ممالک میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک قائم کر چکی ہے اور دنیا بھر میں قائم اسلامک سنٹر اسلام کی روشنی کو پھیلارہے ہیں اور شمع سے شمع روشن ہورہی ہے۔