خدا کے کرم کی گھٹا، میرا قائد
میرے مصطفی کی عطا، میرا قائد
مدینہ کا اڑتا ہوا یہ پرندہ
جہاں جائے، ماحول ہوجائے زندہ
قلم نے لکھی ہیں حکایات اُن کی
قصیدے انہی کے، روایات ان کی
قلم اٹھ گیا تو اجالے بکھیرے
قدم اٹھ گئے تو اسی در کے ڈیرے
یہاں سوئے منزل نظر کس نے بخشی
جوانوں کو آہِ سحر کس نے بخشی
کبھی بحرِ قرآن سے گوہر نکالے
اشارات و اسرار لفظوں میں ڈھالے
معانی کے دربار سجنے لگے پھر
کتابوں کے انبار لگنے لگے پھر
وہ دیکھو صحیح و سنن کا خزانہ
حدیثوں کے مینار کا جگمگانا
وہ تحقیق کے ایسے موتی جڑے ہیں
مضامیں قطاریں لگائے کھڑے ہیں
قلم کا سفر لمحہ لمحہ رواں ہے
کتابوں کا اک صف بصف کارواں ہے
توحید و بدعت کا نکھرا تصور
رسالت، ولایت کا اُجلا تصور
عقائد پر چھائی ہوئی گرد دھوئی
دلوں میں ادب کی حسین فصل بوئی
یہ میلاد و معراج و غیب و توسّل
یہ اصلاحِ فکر و گمان و تخیل
شانِ صحابہ ہو یا اہلِ بیتِ نبوت
اتاری ہے روحوں میں ان کی محبت
نگہبانی ختمِ نبوت کی کی ہے
اذاں حفظِ ناموس کی ہر سو دی ہے
بلاسود بینکاریاں، یہ معیشت
جزاء و سزا، یہ نظامِ سیاست
شراروں میں پیغامِ رحمت سنایا
خوارج کے فتنوں سے پردہ اٹھایا
جو قانون و آئین پڑھ پڑھ سنایا
توباسٹھ تریسٹھ کا جادو جگایا
فصاحت، بلاغت، خطابت کا پیکر
عبادت، سخاوت، شجاعت کا پیکر
بلیغ و حلیم و ادیب و مفکر
یہ رہبر، مربی، مصنف، مدبر
محقق، محدث، مجدد، مترجم
فقیہ و مدرس، مفکر و معلم
وہ روح البیاں ہو کہ روح المعانی
ملے گی یہیں ساری نکتہ بیانی
وہ باطن کے انوار، ظاہر کے جلوے
دھنک بن کر بکھرے ہیں طاہر کے جلوے
بخاری و مسلم، نسائی کے جلوے
غزالی کی عقدہ کشائی کے جلوے
یہیں فیضِ الغوث الوریٰ مل رہا ہے
یہیں رنگِ احمد رضا مل رہا ہے
سہروردیوں کی نگاہوں کا تارا
یہی ذوقِ چشتی کا رنگین نظارا
یہی نقشبندیوں کے جذبوں کا دھارا
یہی قادریوں کے دل کا سہارا
یہی سب کا دلبر، اخوت کا مظہر
وفائوں کا جھومر، منور منور
ہے بہتا سمندر، یہ رکھتا قلندر
یہ روحوں کے اندر، دلوں کا سکندر
میرے دیس کی جو حسین دلکشی ہے
خدا کی قسم طاہرالقادری ہے