مجدد (Renovator) کے سامنے دو بڑے ٹارگٹ ہوتے ہیں:
اول: لو گوں کے ذہنوں کے گرد تنگ نظری، شدت پسندی اور نفرت کے دائروں کو توڑ کر سوچوں میں وسعت، رویوں میں اعتدال اور باہمی احترام اور برداشت کی فضاء قائم کرتا ہے۔
دوم: مجدد کا دوسرا بڑا ٹارگٹ دین کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق خوبصورت پیرائے میں پیش کرنا ہے۔
ان دونوں پہلوؤں سے مجدد کو مذہبی اور نیم مذہبی لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ مخالفت بعض اوقات شدید آندھی اور طوفان کا رخ بھی اختیار کرلیتی ہے لیکن مجدد کی کمال استقامت اور مستقل مزاجی کی وجہ سے ایک دن یہ ساری مخالفت دم توڑ جا تی ہے۔ بعض اوقات مجدد کی زندگی میں ہی ایسا ہوجاتا مگر اکثر اوقات دنیا سے رحلت کے بعد لوگ رفتہ رفتہ مجدد کی فکر کے قائل ہوتے جاتے ہیں۔
مجدد کے کردار ضرورت اور اہمیت کو ہم دو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
- اگر ہم ایک صفحہ پر تین خطوط کھینچیں جو شروع میں ایک دوسرے کے متوازی ہوں لیکن کچھ فاصلہ کے بعد دونوں جانب والے خطوط کا رخ مرکزی خط سے ایک یا دو ڈگری باہر کی جانب موڑ دیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں خطوط ایک دوسرے سے دور ہوتے جائیں گے اور مرکزی خط (خطِ مستقیم) سے فاصلہ اور انحراف بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ دونوں خطوط ایک دوسرے سے بہت دور ہوجاتے ہیں مگر مرکزی خط سے فاصلہ یا انحراف بڑھنے کے باوجود ایک دوسرے کی نسبت مرکزی خط کے قریب رہتے ہیں۔ مجدد ہمیشہ مرکزی خط پر محوِ سفر رہتا ہے۔
- دوسری مثال پر غور کریں! اگر کو ئی شخص تنگ گلی میں کھڑے ہوکر پورے شہر کو دیکھنے کی کوشش کرے گا تو اس کو صرف چند گھر نظر آئیں گے۔ کھلی سڑک پر کھڑے ہو کر دیکھے گا تو اس کو زیادہ گھر نظر آئیں گے اور اگر کوئی تھوڑی بلندی پر کھڑے ہو کر دیکھے گا تو اس کی نظر اور زیادہ گھروں پر پڑے گی۔ جیسے جیسے بلندی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے شہر کا زیادہ حصہ دکھائی دے گا اور ایک بلند مقام ایسا آئے گا جہاں اس کو سارا شہر، ہر چھوٹی بڑی سڑک اور ہر ہر گوشہ بالکل صاف اور روشن دکھائی دے گا۔ مجددکی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین پوزیشن پر متمکن ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں مثالوں کی روشنی میں اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ پندرھویں صدی ہجری کا مجدد کون ہے؟
آج کسی شخص کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ مختلف فرقے، مسالک اور چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہ خطِ مستقیم سے مختلف Degrees پر بٹ چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ Angle of Deviation میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے، عدمِ برداشت اور نفرت زوروں پر ہے۔ اہلِ تصوف نے خود کو ریاضت و مجاہدہ سے نکال کر دین کو کاروبار اور رسم بنا دیا ہے، علما کی اکثریت مطالعہ اور تحقیق چھوڑ کر اپنے محدود علم کی بنیاد پر دین کی تبلیغ کر رہی ہے، علاوہ ازیں مدارس بھی تنگ نظری اور کم علمی کا شکار ہوچکے ہیں۔
طویل عرصہ تک دین کی جزویات پر Focussed رہنے کی وجہ سے مختلف فرقے اور مسالک شدید نظریاتی بعد کا شکار ہوچکے ہیں مگر ایک دوسرے سے شدید اختلاف اور نفرت کے باوجود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بارے میں Soft corner رکھتے ہیں۔ دیو بند، اہلِ تشیع، بریلوی اور اہلِ حدیث مکاتبِ فکر کے اکابر علماء و مشائخ شیخ الاسلام کے بارے میں تعریفی کلمات کہہ چکے ہیں جو ریکارڈ شدہ ہیں۔
جہاں تک تفہیمِ دین کا معاملہ ہے تو کوئی تنگ گلی میں کھڑے ہو کر دین کے پورے شہر کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی قدرے بڑی سڑک پر، کوئی چھوٹے ٹیلے پر کھڑا ہو کر پورے شہر کو دیکھنے کا دعویدار ہے۔ جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بولی سب سے جدا ہے کیوں کہ وہ بلند ترین مقام پر کھڑے ہو کر شہرِ دین کے مختلف ٹاؤنز (قر آن، حدیث، فقہ، تفسیر، قانون، سیاست، معیشت، معاشرت، تصوف، سائنس سمیت بیسیوں ٹاؤنز کا بغور مشا ہدہ کر کے لوگوں کو دین کا پورا شہر سمجھانے کی کو شش کر رہے ہیں۔
آج مخالفین بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دین کے سارے Subjects پر مکمل دسترس حاصل ہے۔
ایک اور بات جو مجددین کے بارے میں ثابت شدہ ہے کہ نصف صدی کے بعد ان کی ولادت ہوتی ہے اور اگلی صدی کے شروع (راس) میں ان کا کام سب پر آشکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے مر وی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
ان الله یبعث لهذه الا مته علمی راس کل مائتة سنة من یجد دلها دینها.
’’اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس امت کیلئے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں عالمِ اسلام بالعموم اور اہلِ بغداد بالخصوص اخلاقی و روحانی زوال کا شکار تھے اور علماء کرام مذہبی موشگافیوں، مناظروں اور مجادلوں میں کھو چکے تھے تو اللہ تعا لیٰ نے حضور غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اس صدی کے محی الدین اور مجدد بنا کر بھیجا اور آپ کی ولادت باسعادت 471 ہجری میں ہوئی۔
حضرت مجدد الف ثا نی کے مجدد ہونے پر بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں جنہوں نے بادشاہ اکبر کے خود سا ختہ دین الٰہی کو زمین بوس کرکے دین کی تجدید کی۔ آپ کی ولادت باسعادت 971 ہجری کو ہوئی۔
اسی طرح امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ چودھویں صدی کے مجدد تھے جن کی ولادت با سعادت 1272 ہجری میں ہوئی۔ آج ایسے وقت میں جب دور فتن کا آغاز ہوچکا تھا دینی اور روحانی قدریں دھندلا رہی تھیں، عقائد مسخ ہو رہے تھے، انتہاپسندی بڑھ رہی تھی، ایمان متزلزل ہو رہے تھے، اسلام کو مساجد اور خانقاہوں میں بند کرنے کی عالمگیر سازشیں زور پکڑ رہی تھیں تو ایسے حالات میں ربِ کائنات نے دین کی ہمہ جہت اور عالمگیر تجدید کی ذمہ داری شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو سونپی جن کی ولادت باسعا دت 1371 ہجری (19 فروری1951ء) کو ہوئی۔ اگلی صدی کے راس پر یعنی 1401 ہجری بمطابق 1981ء کو ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر اپنی تجدیدی کاوشوں کا آغاز کر دیا اور صرف 38 سال کے عرصہ میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یوں پندرہویں صدی ہجری کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔