جمالِ مصطفیٰ ﷺ کے تعارف کا عظیم مشن اورشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

آج سے تقریباً 4 دہائیاں قبل عالمِ اسلام میں بالعموم اور وطنِ عزیز میں بالخصوص فرقہ پرستی کی ہوائیں جب بہت تیزی سے نوجوانوں کو مایوس کرچکی تھیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریکِ منہاج القرآن کا آغاز کیا اور اپنی دعوت کی بنیاد تعلق باللہ، ربط رسالت، رجوع الی القرآن، اتفاق و اتحادِ امت اور فروغِ علم و امن کو قرار دیا۔ یہ دعوت ایک منفر د دعوت تھی کیونکہ اس سے قبل اگر عشق ِ رسول ﷺ پر مبنی بیان سننے کو ملتے تھے تو ان میں تعلق باللہ، قرآنی فکر، فروغ علم و شعور اور وحدتِ امت جیسی خصوصیات نہیں تھیں اور اگر توحید، قرآن یا اتحاد کی بات ہوتی تو محبتِ رسول ﷺ اور ادبِ اہلبیت و صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی چاشنی سے خالی تھی۔ شیخ الاسلام نے نوجوانوں کو بلند عزائم سے ہمکنار کرتے ہوئے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے آشنا کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے امت کی پستی اور حرماں نصیبی کی تشخیص کردی تھی۔ حکیم الامت کے بتائے ہوئے اسی نسخۂ عشقِ رسول ﷺ کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حکمت اور دلیل کے ساتھ قوم کے دل و دماغ میں منتقل کیا۔ انھوں نے جن سطحوں پر فروغِ عشقِ رسول ﷺ اور ربطِ رسالت ﷺ کی طرف توجہ دی ان میں سے چند ایک کا مختصراً تذکرہ حسب ذیل ہے:

1۔ عقائدِ صحیحہ کا تحفظ اور ترویج

مذہبی انتہا پسندی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں عقائدِ صحیحہ کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ آپ نے اپنے علم و فکر اور طرز عمل کے ذریعے ایسا کردار ادا کیا ہے کہ عقیدہ کے باب میں کوئی التباس باقی نہیں رہتا بلکہ ہر چیز کی حقیقت کو واضح کرکے رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ آپ کے علم وفکر اور حکمتِ دین کے انوار سے صرف عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ یورپ بھی مستفید ہورہا ہے۔

شیخ الاسلام مدظلہ نے ایک مصلح کی حیثیت سے تفرقہ و انتشار کے اس ماحول میں فہم و بصیرت اور تدبر و حکمت سے اصلاحِ امت کا فریضہ سرانجام دیا۔ تجدید دین اور اصلاح احوال امت کا کٹھن فریضہ سرانجام دیتے ہوئے آپ نے علومِ دینیہ اور جدید سائنسی و عصری علوم دونوں کو تھامے رکھا۔ اصلاحِ عقائد کے لئے ایک طرف آپ نے قدیم ذخیرہ علوم و فنون پر استدلال کی بنیاد رکھی اور دوسری طرف اعتدال و توازن پر مبنی عقائدِ صحیحہ کی حقانیت و صداقت کو عقلی و سائنسی بنیادوں پر بھی ثابت کیا ہے۔

  • آج اسلام پرہونے والے حملوں میں سب سے اہم ترین اور شدید ترین حملہ توحید اور رسالت کے پاکیزہ تصورات پر کیا جارہا ہے اور نسلِ نوکے ذہنوں میں عقائد اسلامیہ کے حوالے سے تشکیک و التباس پیدا کیا جارہا ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی بصیرت اور دلائل مبین کی بنیاد پر اسلام کے اس اساسی عقیدہ پر چھا جانے والی گردو غبار کو دور کیا کرکے اس کے رخ تاباں کو روشن تر کردیا ہے۔ آپ نے عقیدہ توحید سے متعلق پائی جانے والی طویل غلط فہمیوں اور افراط و تفریط کو رفع کرنے کے لیے توحید کے آداب و تقاضوں پر مشتمل خالص علمی و ادبی، تحقیقی اور اعتدال و توازن پر مبنی متعدد تصانیف امت مسلمہ کو فراہم کرتے ہوئے عقیدۂ توحید کے تحفظ کو یقینی بنایا۔

  • تحریک منہاج القرآن کے قیام کے وقت دیگر مذہبی و اعتقادی فتنوں کے ساتھ حضور ﷺ کی شان و عظمت کے حوالے سے انکار زوروں پر تھا۔ شیخ الاسلام نے اس حوالے سے اعتقادی اصلاح کا علم بلند کیا اور قرآن و حدیث کی نصوص پر مشتمل علمی دلائل کے ذریعے محبت رسول ﷺ کے چراغ روشن کیے۔ آپ نے حضور ﷺ کی نسبت اور محبت و ادب کے متفقہ اور مسلمہ عقیدہ کو نہ صرف واضح کیا بلکہ اس پر اٹھائے گئے اشکالات و اعتراضات کو عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ رد کیا۔

انتہا پسندی کے اس تاریک ماحول میں عقیدہ رسالت سے متعلقہ شیخ الاسلام مدظلہ کی جملہ کتب اور خطابات اپنے اندر فکر و آگہی کے کئی جہاں سموئے ہوئے ہے اور عقیدہ رسالت سے کماحقہ آشنائی کے لئے شیخ الاسلام کی نادر علمی تحقیقات کا اہم کردار ہے۔

  • عقائد و تعلیماتِ صحیحہ کے تحفظ کے حوالے سے شیخ الاسلام کے اس کردار کی بھی ایک دنیا معترف ہے کہ جب اسلام پر دہشت گردی و انتہا پسندی کا لیبل لگایا جانے لگا اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے مسخ کیا جانے لگا اور اسلام کو اپنی تاریخ کے مشکل ترین حالات میں سے گزرنا پڑا تو اس ساری صورت حال کو دیکھ کر شیخ الاسلام مدظلہ نے نتائج سے بے خوف ہوکر اور ہر قسم کی مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے مجددانہ کردار ادا کرتے ہوئے اسلام اور جہاد کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی اور اسلام کے دینِ رحمت و محبت اور داعیِ امن و سلامتی ہونے کو قرآن و حدیث اور ائمہ دین کے فتاویٰ و آراء کی روشنی میں ثابت کیا۔

اس سلسلہ میں ایک طرف سے آپ نے تاریخ اسلام کا مفصل ترین اور جامع ترین فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسلام کے رخ روشن کو تازگی عطا کردی اور دوسری طرف جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے الگ الگ قیامِ امن نصاب مرتب فرمایا۔ آپ نے دنیا کے مختلف ممالک میں نامور اہل علم و دانش کے سامنے اسلام کا تصورِ امن، اسلام دین محبت، اسلام کا تصور جہاد، اسلام اور رواداری اور برداشت کے موضوعات پر اپنے علمی و فکری لیکچرز کے ذریعہ دین حق کے دفاع کا عملی فریضہ سرانجام دیا۔

  • اسلامی عقائد کے ذیل میں ایک اہم باب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت اطہارfکی شان ہے۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے مسلمانوں کو اس حوالے سے بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاریخ انسانی کے ان منتخب اور اسلام کے اس محسن طبقے کی شان میں ہرزہ سرائی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ ان شخصیات کی عزت و عظمت کا دفاع کیا جائے۔ مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی وفکری، تحقیقی و تاریخی دلائل و براہین کے ساتھ حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ہونے والے حملوں کا تدارک کرتے ہوئے ان کی شان کا دفاع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے عظمت و شان صحابہ اور عظمتِ اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دین اسلام میں ان نفوس قدسیہ کے مقام و مرتبہ اور حیثیت اور دینِ حق کے لئے ان کی خدمات سے کماحقہ آگاہی کے لئے متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔

موجودہ دور میں جب اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی دشمنیوں نے دین اسلام کو اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں پر اسلام کی تعلیمات امن و محبت کو مسخ کردیا گیا تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت اور اس کے حیات افروز پیغام کے احیاء و تجدید کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کو اس صدی کے مجدد کے طور پر منتخب فرمایا۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے قرآن و سنت، اسوۂ صحابہ اور طریق اسلاف سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دینے کا حق ادا کردیا۔

2۔ محبت و ادب اور اطاعتِ رسول ﷺ کا فروغ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ربطِ رسالت ﷺ کو درج ذیل قرآنی حکم کے تتبع میں چار بنیادوں پراستوار کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهۤ، اُولٰۤئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

(الاعراف، 7: 157)

’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

اس قرآنی ترتیب کی روشنی میں آپ نے بڑی خوبصورتی سے حقیقت ِ دین سمجھائی اور اقبال کے بقول’’دین ہمہ اوست‘‘ کا فلسفہ ذہن نشین کروایا۔ یعنی تبلیغ و اشاعت ِ دین اور اتباع و اطاعت کا دم بھرنے والوں کے سینے اگر محبت و تعظیم ِ رسول ﷺ سے خالی ہوں گے تو یہ نری ’’بولہبی‘‘ ہوگی خدمتِ دین ہرگز نہیں۔ جب دل محبت و تعظیم سے خالی ہوں گے تو زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کی عزت و تعظیم کی کوئی ضمانت میسر نہیں آئے گی۔

شیخ الاسلام مدظلہ نے دلوں میں جذبۂ عشق ِ رسول ﷺ پختہ کرنے اور اسے ایمان و عمل میں اجاگر کرنے کیلئے نوجوانوں کے سامنے آپ ﷺ کا مشن رکھا اور اتباع کا آفاقی تصور پیش کرتے ہوئے آپ ﷺ کی ذاتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی زندگی کے مبارک اسوۂ کو اختیار کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ تحریک کا ہر رکن پہلے عاشقِ رسول ﷺ ہے او ر بعد میں مبلغِ دین۔ اس کے سامنے حضورنبی اکرم ﷺ کی دعوتی کاوشیں بھی ہیں اور آپ ﷺ کا پیکر جمال بھی۔

دعوت کو کارگر بنانے کے لیے عقیدہ رسالت ﷺ کی ناگزیریت کو شیخ الاسلام نے براہِ راست قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح کیا۔ چنانچہ شیخ الاسلام نے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے طول و عرض میں خطبات و دروس دیئے ۔ خطاب کا موضوع کوئی بھی ہو، اس میں محبتِ رسول ﷺ کی اہمیت لازمی اجاگر ہوگی۔ حتیٰ کہ ارکانِ اسلام، اجزائے ایمان سب کی اساس غلامی رسول ﷺ کو قرار دیا۔ یہ کارنامہ آپ نے اتنی خوبصورتی اور حکمت سے انجام دیا کہ معاندینِ رسالت میں سے کسی کا نام لئے بغیر عقیدۂ توحید و رسالت ﷺ کی حقیقت سمجھا دی ۔ حضورنبی اکرم ﷺ کی ذات و صفات سے متعلق اٹھنے والے جملہ اعتراضات کا مسکت جواب دیا لیکن معترضین کی ذات کو نشانہ نہیں بنایا۔ اس حکمتِ دعوت کا اثر یہ ہوا کہ وہ مذہبی طبقہ بھی اپنی غلطی کا احساس کرنے لگا جو قبل ازیں محض ہٹ دھرمی اور اسلاف پرستی کے چکر میں حقیقتِ کبریٰ کا منکر تھا۔

مندرجہ بالا حقائق کے علاوہ شیخ الاسلام کا سب سے بڑا کارنامہ عشقِ رسول ﷺ کا عالمی سطح پر فروغ و احیاء ہے۔ افریقہ سے لے کر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ، آسٹریلیا، مشرقِ وسطی اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ نے محبت ِ مصطفی ﷺ کا آفاقی پیغام نہ پہنچایا ہو۔ یورپ کی چکاچوند میں مادیت کے بتوں کے سامنے سربہ سجود لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اٹھا کر آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان کا جینا مرنا، شب و روز کی محنتوں اور مشقتوں کا حاصل اب مصطفوی تحریک ہے۔

3۔ حدیثِ نبوی ﷺ کی ترویج

برصغیر پاک و ہند میں مسلکِ محبتِ اہلِ سنت پر بدقسمتی سے روایت پرستی اور جہالت کی تہمت لگ چکی تھی کیونکہ معاصرین نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تعلیم و تدریس، تحقیق، تصنیف اور تحریک و تفکیر کے میدانوں میں قابلِ ذکر پیش رفت کرلی ہے۔ شیخ الاسلام نے تن تنہا دعوتی، تنظیمی، تحریکی، فلاحی اور تعلیمی میدانوں میں نہ صرف ریکارڈ ترقی کی بلکہ دنیائے اسلام کی معتبر ترین علمی شخصیت کے طور پر اپنا لوہا منوالیا۔ آپ نے تفسیر، حدیث، علوم الحدیث، سیرت، فقہ اور فکرِ اسلامی پر قابلِ رشک علمی ذخیرہ مرتب کیا ہے۔ حدیث نبوی کے سارے ذخیرے کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کے لئے از سر نو نئے ابواب اور نئی ترتیب کے ساتھ جمع فرمایا، جن کی ایک ایک سطر سے محبت رسول ﷺ کی خوشبوئیں مہک رہی ہیں۔ ان تاریخ ساز کاوشوں کی اثر انگیزی بھی ایک زمانہ دیکھ رہا ہے۔

آج زندگی نئے ادوار و مقتضیات میں داخل ہوچکی ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی حشر سامانیوں کا مقابلہ بھی اہل علم رجال دین کا فرض ہے۔ آج جس طرح قرآن کی تشریحات، اطلاقات اور مفاہیم کی تعبیر نو وقت کا تقاضا ہے اسی طرح احادیث نبوی ﷺ جو اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ اور ذریعہ عمل (Source of Inspiration) ہے اس کی حقانیت اور حجیت مسلم کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

احادیثِ نبویہ پر کام کرنے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ نسلِ نو جدید علوم و افکار سے متاثر ہورہی ہے۔ ان کے ذہنی افق پر جدید مادی اور الحادی افکار و نظریات کی چھاپ نمایاں ہورہی ہے جس کے مظاہر روزمرہ حالات و واقعات میں عیاں ہیں۔ ایسے میں ذہنِ جدید کی تسکین، اضطراب اور تشکیک کا اعلاج قرآن حکیم کے بعد حدیث نبوی ﷺ سے ہی ممکن ہے۔

آج علومِ معاشرت (Social Sciences)، علومِ سائنس Natural Sciences علوم الاقتصاد (Economics) علومِ طب Medical Sciences اور دیگر علوم کی نئی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں۔ نئی تہذیب اور ثقافت جنم لے رہی ہے اور مسلم تاریخ ایک بالکل نئے موڑ پر آپہنچی ہے جہاں اسے نئے مسائل اور نئے چیلنج در پیش ہیں۔ ان مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ قرآن و سنت جیسے یقینی علم کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست، معیشت، معاشرت، تربیت، تجارت اور تدریس و تعلیم جیسے بنیادی موضوعات پر نئے سرے سے حدیث نبوی کے محققہ مجموعے مرتب کئے جائیں۔

مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں خدمت حدیث کا کتنا وسیع سکوپ موجود ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام مجد الدین والملہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ جیسے دانا و بینا شخص کی نظروں سے یہ میادین علم و فکر اوجھل نہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیات بھی مرحمت فرمائی ہے کہ وہ محض علمی ذخیرے جمع نہیں کرتے بلکہ امتِ مسلمہ کا ایک قابل ذکر حصہ خصوصاً نئی نسل ان سے مانوس بھی ہے اور ان کے اشارۂ ابرو پر جان بھی چھڑکتی ہے۔ ان کے مواعظِ حسنہ اور علمی و تحقیقی نشریات سے ایک جہان مستفیض ہورہا ہے۔ یوں تو انہوں نے تفسیر سیرت، تصوف، سائنس، معاشیات، سیاسیات، عمرانیات اور فکریات پر بے مثال ذخیرہ سمعی، بصری اور کتابی شکل میں امت کو دیا ہے اور یہ مقدس مشن اب بھی جاری ہے لیکن احادیث نبوی ﷺ کی خدمت کے محاذ پر جتنی عرق ریزی اور جانفشانی سے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے، یہ توفیق ہمارے دور میں عرب و عجم کے کسی شخص کے حصے میں نہیں آئی۔ بلاشبہ ان کی مجتہدانہ شان اور علمی منصب اس بات کا متقاضی بھی تھا کہ وہ اس بنیادی دینی ضرورت کی طرف متوجہ ہوتے۔

4۔ اعتدال او ر رواداری کا فروغ

تحریک منہاج القرآن دنیا میں احیائے اسلام اور تجدید دین کی وہ واحد تحریک ہے جس نے عشق و محبت رسول ﷺ کے ساتھ عملی تصوف اور اعتقادی و فکری اصلاح کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے۔ یہ سہرا بھی شیخ الاسلام کے سر ہے کہ یہ سارے امور انتہائی معتدل طریقے سے دوسروں پر تنقید کئے بغیر پوری دنیا میں سرانجام پارہے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے آغاز میں ہی شیخ الاسلام نے محسوس کر لیا تھا کہ اس تحریک کو میانہ روی پر قائم رکھنا آسان نہیں۔ انہوں نے تاریخ عالم میں متعدد دینی تحریکوں کو بتدریج انتہا پسندی تک پہنچتے دیکھا تھا۔ انہوں نے ان کمزوریوں کا بھی تعین کر لیا تھا جو کسی تحریک کو انتہا پسندی تک پہنچا دیتی ہیں۔ لہذا وہ اس حوالے سے یقین کے حامل تھے کہ عشق رسول ﷺ اور ادب و تعظیم رسالت کا جذبہ وہ قوت ہے جو کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جانے دیتا کیونکہ محبت اور نفرت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ روحانیت و تصوف وہ طرزعمل اور طریقۂ تربیت ہے جو انسانیت سے محبت کے درس پر مبنی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تحریک کی فکری و نظریاتی بنیاد ہی درج ذیل تین عناصر پر رکھی:

1۔ تجدید و احیائے دین

2۔ تصوف و روحانیت

3۔ عشق رسول ﷺ

یہی وہ تین عناصر تھے جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کو ناقابل تسخیر اور محبت و امن کا عظیم داعی بنادیا تھا۔ لیکن جدید دنیائے اسلام اور موجودہ دور زوال میں ڈاکٹر طاہر القادری ہی وہ رہنماہیں جنہوں نے کسی ایک تنظیم و تحریک اور مذہبی دعوت پر مبنی جد و جہد میں ان تین عناصر کو جمع کر دیا۔

بین المسالک اور بین المذاہب رواداری کے اسی جذبے کے پیشِ نظر منہاج القرآن دنیائے اسلام کی سب سے زیادہ نیٹ ورک رکھنے والی، 100 سے زیادہ ممالک میں وجود رکھنے والی، پچاس ممالک میں اسلامک سنٹرز رکھنے والی اور دنیا بھر میں ممبران، رفقاء، وابستگان اور محبان کی لاکھوں میں تعداد رکھنے والی واحد تنظیم ہے۔ اس ساری مقبولیت اور نیٹ ورک کے باوجود ان پُرآشوب حالات میں تجدید دین اور احیاے اسلام کی فکر پر تصادم، انتہا پسندی کا شکار ہوئے بغیر امن و محبت، رواداری، بقاے باہمی اور تحمل و برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل ہے اور شیخ الاسلام کے اس کردار کا ایک زمانہ معترف ہے۔

5۔ قیامِ امن کی عالمگیر کاوشیں

آج اگر امتِ مسلمہ کے اجتماعی حالت پر نظر دوڑائیں تو کہیں فرقہ واریت نظر آتی ہے تو کہیں مسلکی تعصب۔۔۔ کہیں تصوف و عشق رسول ﷺ سے دوری نظر آتی ہے تو کہیں محض رسوم و روایات۔۔۔ کہیں اسلام سے بے اعتنائی و بےزاری نظر آتی ہے تو کہیں جدید علوم و سائنسز سے نفرت۔۔۔ کہیں غیر مسلم تہذیبوں کی اندھی تقلید نظر آتی ہے تو کہیں مذہبی تنگ نظری و انتہا پسندی۔۔۔ کہیں دجل و فریب، دغابازی اور پر فریب نعروں پر مشتمل سےاسی شعبدہ بازی ہے تو کہیں دین و مذہب کے نام سے سیاست و دنیوی کاروبار۔۔۔ کہیں جمہوری نعروں کی آڑ میں شخصی حکمرانی کی ہوس نظر آتی ہے تو کہیں جبرو سازش کے ذریعے مسلط بادشاہت و آمریت۔

اس تاریک دور میں علماء، سیاستدان اور حکمران بالعموم باہمی انتشار کا شکار اور خود غرضی کے حصارات میں مقیدنظر آتے ہیں۔ ایسے خود غرض اور منتشر ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی شخصیت ہیں جو اندھیری غار کے دوسرے کنارے پر امید کا نشان دکھائی دے رہی ہے۔ وہ اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی اس گرد کو صاف کرنے اور اپنے فکر عمل اور خداداد علمی صلاحیت کے ذریعے پوری دنیا میں ہر پلیٹ فارم پر اسلام کے دفاع کے لئے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف جدوجہد ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ اپنی تنظیمی، انتظامی، تعلیمی، تحقیقی، تبلیغی اور روحانی خدمات کے ذریعے شرق تا غرب اسلام کے پیغام محبت و امن کو کامیابی کے ساتھ پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں کتب، ہزاروں تلامذہ اور لاکھوں چاہنے والوں کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات جس باوقار انداز میں پھیلانے کا ہمہ گیر نظام وضع کیا ہے، اس کی مثال صدیوں پر مشتمل دور زوال میں کہیں میسر نہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آج وہ واحد شخصیت ہیں جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ صحیح معنیٰ میں تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے افکار میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جس سے مغربی دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس ہوگی اور مغربی اور اسلامی دنیا میں کھچاؤ ختم ہوگا کیونکہ آپ عالمی امن، حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں۔

شیخ الاسلام مسلم امہ میں وہ منفرد قیادت ہیں جو مسلم امہ کو قرآن و سنت، بین الاقوامی مذہبی رواداری، انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں پر متفق کرسکتے ہیں اور نان مسلم ورلڈ کو عالمی امن، مذہبی رواداری، حقوق انسانی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پالیسی وضع کرنے پر قائل کرسکتے ہیں۔

اس سلسلہ میں اگر شیخ الاسلام کی کاوشوں کو دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ نے قیام امن اور انسداد دہشت گردی کے موضوعات پر متعدد خصوصی لیکچرز دیئے اور متعدد کتب تحریر فرمائی ہیں۔ کئی کئی گھنٹوں پر محیط خصوصی لیکچرز اور کتب عالمی امن کے قیام، بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے شیخ الاسلام کی مثبت، حقیقی اور عملی سوچ کی عکاس ہیں جن سے راہنمائی لیتے ہوئے دنیا دہشت گردی کے آسیب سے نجات پاکر اس معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکتی ہے۔ شیخ الاسلام نے عالمی دہشت گردی و قیام امن کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف اپنی زبان اور قلم کے ذریعے عالمی برادری کو واضح اور مثبت لائحہ عمل دیا بلکہ عملی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات کئے جن سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں قابل قدر اضافہ ہوا بلکہ اسلام کی حقیقی اور واضح تعلیمات بھی نکھر کر سامنے آئیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دین اسلام کی حقیقی تعلیمات، بقاے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت، حرمتِ جانِ انسانی کو عالمی سطح پر کماحقہ متعارف کروایا ہے اور اپنی دعوتی حکمت عملی سے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ انہوں نے دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اسلامی تعلیمات اور اقدار کی حقیقی محافظ اور عالمی سطح پر قیام امن کی علمبردار ہے۔ تجدید دین جس کا راستہ ہے، احیائے دین جس کا مشن ہے۔ ان کی یہ تحریک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کلیتاً پاک ہے۔ وہ دلیل اور منطق سے اسلامی تعلیمات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ اس حکمت پر عمل پیرا ہونے سے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی طرز زندگی، تہذیبی شناخت اور حیات بخش تعلیمات اپنا اثر دکھائے بغیر رہیں۔

اس تحریک کے نزدیک نفرت و تعصب پر مبنی نظریات اور بے گناہ انسانیت کا قتل ظلمِ عظیم ہے۔ شیخ الاسلام کے نزدیک احیاے اسلام کی منزل فی زمانہ نفرت و تصادم سے نہیں بلکہ محبت و رواداری سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ شیخ الاسلام نے اسلام کا امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام دنیا تک پہنچایا اور اسلام پر فکری اور نظریاتی محاذوں پر ہونے والے حملوں کا جواب غصے اورجلال سے نہیں بلکہ علم اور دلیل کی زبان میں دیا۔

خلاصۂ کلام

حضرت شیخ الاسلام کی ان ہمہ جہت خدمات کو بغور دیکھا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس دور میں اللہ تعالیٰ کی حُجت اور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اعجاز کا مظہر ہیں۔ انہوں نے تن تنہا جھنگ کی سر زمین سے دعوت و عزیمت کی جن پرخطر اور سنگلاخ راہوں پر آغازِ سفر کیا تھا آج ان کے دم قدم سے وہاں حد نظر تک گلستان آباد ہوچکے ہیں۔ ان کی علمی، فکری اور تحقیقی کتب نے جہاں ارباب علم و تحقیق کو ورطہ میں ڈال رکھا ہے وہاں ہزاروں موضوعات کی صورت میں ان کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے والے گہر ہائے تابدار اطراف واکناف عالم میں ایمان و عمل کی بہار افروز فصلیں اگارہے ہیں۔ ان کا فہمِ دین، محبت و امن اور علم کے گرد گھومتا ہے۔ اس لئے کہ ان کی دعوت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ سے محبت پر استوار ہے۔

قائدِ تحریک منہاج القرآن نے ہر طبقہ زندگی کو اپنے شعور و آگہی کے فیض سے نوازتے ہوئے ان پر اپنی شفقتیں نچھاور کیں۔ خواتین، علماء، نوجوان، اساتذہ، طلبہ، تجارت پیشہ احباب اور صاحبانِ طریقت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی دعوت کا ایک اہم عنصر علم اور تعلیم ہے اس محاذ پر بھی بانی تحریک کی انفرادی حیثیت اپنا لوہا منواچکی ہے۔ ان کے شجرِ امید پر خوش رنگ ثمرات کی بہاریں پورے عالم میں رونق افروز ہیں۔ ان کے قائم کردہ ادارے وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں اسلام کی پرامن سفارت کاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ سکولز، کالجز اور اسلامک سنٹرز میں لاکھوں افراد تحریک کے اس پرامن سلسلہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ جن کے ذریعے ہزاروں لوگوں کی نسلیں زیور علم و عمل اور دولت ایمان سے مستنیر ہورہی ہیں اور ان کے عقائد کا تحفظ اور عمل کو جلا مل رہی ہے۔

بلاشبہ ہمارے قائد و مربی کو اللہ تعالیٰ نے اس دور فتن میں اس فہم و بصیرت سے نواز رکھا ہے جو اپنے زمانے کی فراست علمی کے مقابلے میں شان امامت کی سزاوار ہے۔۔۔ وہ اجتہادی بصیرت عطا کررکھی ہے جس سے مسائل کا حل خودبخود نکلتا چلا جاتا ہے۔۔۔ اور وہ مجتہدانہ شان ارزاں کی ہے جس کے سامنے معاصرین کا طمطراق خوشہ چینی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، وابستگان اور اہل محبت اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر سجدہ ہائے شکر بجا لایا کریں۔ ان کی سرپرستی اور خوشہ چینی پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوام و خواص کو کمال حکمت و بصیرت کے ساتھ پوری کامیابی سے رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات اور آپ ﷺ کی سنت و سیرت اور دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے ہاں یہی وہ تشنگی تھی جس کی طرف اقبالؒ یوں اشارہ کرگئے تھے:

عصر ما، مارا زما بیگانہ کرد از جمال مصطفی بیگانہ کرد

شیخ الاسلام وقت کی اس شدید ضرورت کے تحت امت میں جمال مصطفی ﷺ متعارف کروانے کے عظیم مشن پر کامیابی سے اپنے سفر کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔