صدائے کن فیکون جب تک جاری ہے، کائنات کے ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔ کائنات میں پائے جانے والے مظاہر فطرت اور مجموعی تغیر و تبدل انسان کے فکری ارتقاء کی عکاسی کرتے ہیں۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ جس کے دو دن یکساں گزر گئے، وہ خسارے میں ہے۔ گویا ہر آنے والا دن فکری و عملی ارتقاء کے اعتبار سے پہلے دن سے بہتر ہونا مقصدِ زیست ہے۔ قرآن عظیم کے اصول و ضوابط آفاقی ہیں اور قیامت تک کی انسانیت کے لیے رہنما اصول مہیا کرتے ہیں۔ تغیرِ زمان و تغیرِ مکان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے فقہاء و اصولیین نے قیاس و اجتہاد کو مصادر شریعہ اس لیے قرار دیا تاکہ بدلتے وقت کی ضرورتوں کا خیال رکھ کر زندگی کو اس سے ہم آہنگ کیا جائے مگر وقت کے ساتھ ساتھ تقلیدِ محض اور عدمِ تفکر کی وجہ سے امت میں فکری جمود واقع ہو جاتا ہے اور پھر عقل کے بجائے صرف نقل اور پہلے سے موجود علوم کو از بر کرنا ہی عالم کی پہچان بن جاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما رکھا ہے کہ جب دین کا چہرہ فکری جمود کی وجہ سے گرد آلود ہونے لگتا ہے تو وہ اپنے بندوں کا انتخاب فرماتا ہے جو تجدید کا کارنامہ سر انجام دیتے ہیں۔
دورِ حاضر کے عظیم اِسلامی مفکر، محدّث، مفسر، سیرت نگار اور نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دینی و دنیاوی تعلیم اور روحانی نسبت کے اعتبار سے نہایت ہی اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ نے دورِ جدید کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علمی و تجدیدی کام کی بنیاد عصری ضروریات کے گہرے اور حقیقت پسندانہ تجزیاتی مطالعے پر رکھی، جس نے کئی قابلِ تقلید نظائر قائم کیں۔ فروغِ دین میں آپ کی ہمہ جہت تجدیدی کاوِشیں منفرد حیثیت کی حامل ہیں انہی تجدیدی کاوشوں میں سے ایک ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ بھی ہے۔
ذیل میں مدارسِ دینیہ کے نظم و نسق اور ان کے نصاب میں کیے گئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے چند تجدیدی پہلوؤں کا ذکر کیا جائے گا:
شیخ الاسلام کی دور اندیشی اور دینی و عصری تعلیم
مدارسِ دینیہ میں گزشتہ تقریباً ایک سو سال سے مخصوص دینی علوم کی تعلیم دی جا رہی تھی جس کے سبب مذہبی منافرت کو ہوا دی جارہی تھی اور تفرقہ بازی کو فرضِ عین سمجھ کر پڑھا پڑھایا جارہا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے حصول ِعلم پر وقت صرف کرنے کی بجائے مدِمقابل کو نیچا دکھانا مقصودِ خاص اور تعصب و تنگ نظری عروج پر تھی۔ تنگ نظری و تفرقہ بازی کے اِس ماحول کی وجہ سے کو ئی صاحبِ حیثیت اپنے بچوں کو علمِ دین کی طرف راغب نہ ہونے دیتا تھا۔
ایسے مشکل وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عصری و شرعی علوم کو یکجا کیا اور جدید عصری تقاضوں کے مطابق ایک ایسے ادارے کا آغاز کیا جہاں طلبہ زکوٰۃ و صدقات کے پیسوں سے نہیں بلکہ اپنے والدین کی کمائی سے ماہانہ فیس ادا کر کے علمِ دین حاصل کرنے لگے۔ جہاں انگریزی اور عربی زبان پڑھائی بھی جا تی ہے اور بولی بھی جاتی ہے، جہاں سائنسی علوم کا مطالعہ بھی کروایا جاتا ہے، تقا بلِ ادیان جیسے مضامین شاملِ نصاب ہیں، کمپیو ٹر، میتھ، اکنامکس، سوکس، سیاسیات، فزیکل ایجو کیشن اور سپورٹس جیسے مضامین کو نصاب کا حصہ بنایاگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے فارغ التحصیل طلبہ تمام علوم پر دسترس ہونے کی بنا پر حکومتی اداروں سمیت ہر شعبہ زندگی میں نمایاں خدمات سرانجام رے رہے ہیں۔
نظام المدا رس اور مدرسہ اصلاحات
نصاب کسی بھی معاشرے کے نظامِ تعلیم میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے قوموں کا معیار نصاب تعلیم سے متعین ہوتا ہے۔ نصاب جتنا جدید اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا قوم اتنی ہی ترقی پسند ہو گی۔ برصغیر پاک و ہند میں مدارس دینیہ میں آج سے تین صدیاں قبل ترتیب دیا گیا نصاب رائج ہے اور تین دہائیوں پر مشتمل اس عرصے میں کسی نے اس نصاب میں تبدیلی کی جرأت نہیں کی۔ گویا ہمارے علمائے کرام آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ تین صدیوں پرانے اسلحے سے لیس ہو کر کر رہے ہیں۔
شیخ الاسلام کی دور اندیشی، دینی، فکری اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ قائم کردہ ادارہ منہاج القرآن کی شعبہ تعلیم میں عرصہ 35 سال کی بے مثل خدمات کے اعتراف اور شیخ الاسلام کی امن پسند فکری صلاحیتوں کے پیشِ نظر 2021ء میں حکومت پاکستان نے نظام المدارس پاکستان کی شیخ الاسلام نے اس ناممکن کو بھی ممکن بنایا اور قوم کے رویوں میں اعتدال لانے، فکری وسعت پیدا کرنے، تکفیری سوچ کو ختم کرنے، انسانی رویوں کو پروان چڑھانے اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا کر مصطفوی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے مدارس کے نصاب میں بنیادی ضروری تبدیلیاں کیں جسے پڑھ کر طلبہ و علمائے زمانہ دورِ حاضر کے مسائل و چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور ذریعۂ معاش میں بھی کسی کے محتاج بننے کے بجائے خود کفیل ہو سکیںصورت میں دینی وفاقی تعلیمی بورڈ کا پلیٹ فارم مہیا کیا تو۔
دور حاضر میں مدرسہ نصابی جمود کو توڑنا یا نصاب کو تبدیل کرنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن تھا لیکن شیخ الاسلام نے برصغیر کی مدارسِ دینیہ کی تاریخ میں پہلی بار اس حصار کو توڑتے ہوئے درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی کی اور پرائمری سے ایم اے تک مدارسِ دینیہ کے لیے جدید عصریہ و شریعہ کا مکمل نصاب مہیافرمایاجو کہ نظام المدارس پاکستان سے ملحقہ ہزاروں مدارس میں الحمد للہ پڑھایا جا رہا ہے۔
نصاب کی تشکیل جدید
کسی بھی نظام ِ تعلیم کی مؤثریت،قبولیت اور کامیابی کا انحصار اس کے نصاب ِ تعلیم پر ہوتا ہے کہ اس نصاب میں کتنی جامعیت و وسعت ہے اور یہ کہ وہ نصاب عصری تقاضوں سے کتنا ہم آہنگ ہے۔ فی زمانہ وہی نصاب کامیاب اور ناگزیر ہے جس کا نہ صرف ماضی کی علمی میراث سے گہرا ربط و اتصال ہو بلکہ حال کے علمی وفکری تقاضوں کو بھی پورا کر ے اور مستقبل کی علمی ضروریات کی بھی کامل رعایت کرے۔ ذیل میں شیخ الاسلام کی طرف سے مدارس کے لیے دیئے گئے تجدیدی نصاب کے چند اہم نکات درج کیے جارہے ہیں:
(1) ترجمۃ القرآن و علوم القرآن اور علم التفسیرو اصول التفسیر
شیخ الاسلام کے ترتیب کردہ نصاب کو بنظر غائر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جو کہ ہماری تعلیم کا بنیادی حصہ اور شریعت اسلامیہ کا پہلا ماخذہے، اس کا مکمل ترجمہ، تفسیر اور اصول تفسیر کو آٹھ سالہ درس نظامی کا حصہ بنا دیا جس میں ’’معارف السور‘‘ سمیت دیگر چوبیس ضخیم کتب شامل ہیں۔
(2) حدیث و علوم الحدیث
اسلامی تعلیمات کا دوسرا بنیادی ماخذ حدیث پاک ہے۔ شیخ الاسلام نے حدیث و علوم الحدیث کے مضمون میں صحاح ستہ کے علاوہ دیگر 35 کتب شامل نصاب کیں ہیں جبکہ اس سے پہلے کسی نصاب میں حدیث کی اتنی کتب شامل نہیں تھیں اور حدیث پاک کو بھی پہلے سال سے لے کر آخری سال تک شاملِ نصاب کیا تاکہ اس نصاب کو پڑھنے والے طلبہ و طالبات حدیث کے باب میں مکمل مہارت حاصل کر سکیں۔
(3) ادبِ عربی
ادبِ عربی کے مضمون میں ہمارے نصاب کا عربی لٹریچر اسلامی روایات و اقدار کے شایانِ شان نہ تھا اور طلبہ میں خرابیاں پیدا کرنے کا باعث تھا۔ شیخ الاسلام نے اس مضمون میں بھی تجدیدی کارنامہ یہ سر انجام دیا کہ اُس شاعری کو ادب عربی کا حصہ بنایا جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے ساتھ والہانہ عشق و مودت پائی جاتی ہے، جس سے شاعری کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اوراس شاعری کو پڑھنے والے طلبہ و طالبات میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی ذات پاک کے ساتھ بے پناہ محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔ ان کتب میں سیدنا عبد اللہ ابن رواحہg اور سیدنا حسان بن ثابتg اور دیگر مسلم شعراء کے ابیات خصوصاً قصیدہ بردہ شریف کی شاعری کو عربی ادب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
(4) تصوف
محمد عربی ﷺ کی بعثت کے ساتھ نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اس کے بعد اسلام میں صوفیائے کرام کا اہم کردار رہا جنہوں نے احیائے سنت کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق و کردار سے دیگر مذاہب کے لوگوں کو دین اسلام کی طرف متوجہ کیا بالخصوص بر صغیر میں اسلام انہی صوفیاء کی وجہ سے پروان چڑھا مگر قابل افسوس امر یہ تھا کہ ان صوفیاء کی تعلیمات کو فراموش کر کے انہیں مدارسِ دینیہ کے نصاب سے نکال دیا۔ تعلیماتِ صوفیاء کو دینِ اسلام کے متوازی دین قرار دیا جانے لگا حتٰی کہ انہیں قرآن و سنت سے متصادم قرار دیا جانے لگا۔
شیخ الاسلام نے تعلیماتِ تصوف کی حقیقی روح کو اجاگر کرتے ہوئے تصوف پر ہونے والے اعتراضات کا جواب تحریر کیا اور ثابت کیا کہ تعلیماتِ تصوف دین کے متوازی دین نہیں بلکہ لزومِ قرآن و سنت ہیں اور صوفیائے کرام احیائے سنت کے حقیقی وارث ہیں۔ تعلیماتِ صوفیاء کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر نظام المدارس کے نصاب میں تصوف کی امہات کتب کو شامل کیا گیا۔
(5) اقتصادیات
ایک عالم دین کو اسلامی معیشت اور اس کے رہنما اصول کا بھی عالم ہونا چاہیے، اسے سود کے متبادل نظام کا پتہ ہو، اور اسلامی بینکنگ کے بارے میں جانتا ہو۔ اسلام میں حلال و حرام کی بنیاد کن کن اصولوں پر رکھی گئی ہے، اس کا بھی علم ہو۔ اس لیے نظام المدارس کے نصاب میں اقتصادیات کو بطور مضمون شامل کیا گیا۔
(6) دیگر مضامین
نظام المدارس میں ایسے مضامین کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے جو وقت کی ضرورت تھے۔ مثلاً: تقابل ادیان، اسلام اور جدید سائنس، آداب معاشرت، الدعوۃ و الارشاد، تاریخ التفسیر، تاریخ الحدیث، تاریخ الفقہ، القواعد الفقہیہ، القضایا الفقہیہ المعاصرہ، کمپیوڑسائنس کا تعارف، انگلش اور ریاضی۔ ان مضامین کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا شیخ الاسلام کا ہی تجدیدی کارنامہ ہے۔
نظام المدارس پاکستان کی امتیازی خصوصیات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات و رہنمائی میں جہاں نظام المدارس کے نصاب میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں وہاں نظام المدارس نے اس باب میں چند ایسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں جو تاریخِ مدارس میں صرف نظام المدارس کا ہی امتیاز ہیں۔ ذیل میں نظام المدارس کی چند امتیازی خصوصیات درج کی جارہی ہیں:
(1) ٹیچر زٹریننگ ورکشاپس
شیخ الاسلام کے ترتیب کردہ نصاب کو پڑھانے کےلیے یقیناً اسی پائے کے اساتذہ کی ضرورت بھی پیش آئی تو آپ کی خصوصی ہدایت پر نظام المدارس پاکستان نے پہلی بار مدارس دینیہ میں ٹیچرز ٹریننگ کے قومی پروگرام کا اجرا کیا اور ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپس کے ذریعے مدرسین کو نئے نصاب کے تعارف، اشکالات کے ازالہ اور ٹیچنگ میتھڈز پر فنی و تکنیکی مہارت مہیا کی اور اس حوالے سے ماہرین تعلیم کے موٹیویشنل لیکچرز کا اہتمام بھی کروایا۔ اس طرح پاکستان بھر میں پہلی مرتبہ مدارس دینیہ میں اساتذہ کی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہوا۔
(2) جدید امتحانی نظام
شیخ الاسلام نے نظام المدا رس پاکستان کے امتحانا ت میں بھی یہ تجدیدی کارنامہ سر انجام دیا کہ ملک بھر میں فول پروف امتحانی سنٹرز بنانے کا حکم فرمایا جن کی نگرانی مرکز سے بڑی سکرین پر کی جا رہی ہو تاکہ امتحانی سنٹر میں بھر پورنظم و نسق قائم ہو سکےاور طلبہ میں نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کیا سکے۔ جدید نظام امتحانات میں امتحانی سنٹرز،امتحانی سنٹرز کی آن لائن مانیٹرنگ،آن لائن حاضری سسٹم،نتائج کا اعلان بذریعہCMS و دیگر امور شامل ہیں۔ گویا جدید ٹیکنالوجی کو نظام امتحان کا حصہ بنایا۔ شیخ الاسلام کا مدارس کے امتحانی نظام میں یہ ایک تجدیدی کارنامہ ہے۔
(3) سی ایم ایس (سنٹرل مینجمنٹ سسٹم)
شیخ الاسلام کی خصوصی دلچسپی نے مدارسِ دینیہ میں جدید نظام اور اس سے واقفیت کے پیش نظر نظام المدا رس کی تاسیس کے مختصر عرصے میں نظام المدارس کا ایک سوفٹ وئیر تیار کروایا جس سے نظام المدارس پاکستان کا سارا سسٹم آن لائن سوفٹ وئیر پر شفٹ ہوگیا۔ اب مدارس دینیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدارس کی رجسٹریشن، طلبہ کی رجسٹریشن، ڈیٹ شیٹ اور رول نمبر سلپس کا اجراء، حاضری شیٹس، ایوارڈ لسٹس کا اجراء، رزلٹ کی تیا ری اور دیگر امور سوفٹ وئیر کے ذریعے انجام پذیر ہو رہے ہیں۔
(4) آن لائن فاصلاتی تعلیم
آج پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے وقت کی قلت اور دیگر جسمانی مشکلات سے بچنے کے لیے ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے زندگی کی تمام تر ضروریات اپنے گھر پر ہی میسر آ جائیں اور اسے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تعلیم کے میدان میں بھی مختلف یونیورسٹیز مختلف کورسز آن لائن کروا رہی ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن مدارس کی سطح پر باقاعدہ رجسٹرڈ بورڈ کے ذریعے سند کے حصول کو ممکن بنانے میں شیخ الاسلام نےاپنا کرادار ادا کیا ہے۔
تعلیم کے اس جدید میدان میں بھی شیخ الاسلام نے نظام المدارس پاکستان کے تحت مختلف آن لائن کورسز کے تجدیدی پروجیکٹ پر کام کا آغاز فرما دیا ہےاور یہ پروجیکٹ بہت جلد منظر عام پرآئے گا جس سے ہر عمر، مکتبہ فکر اور اندرون و بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔