معیشت کا انسانی زندگی اور اس سے متعلقہ ہر شعبہ کے ساتھ ایک ناگزیر تعلق ہے۔ کسی بھی ملک، معاشرہ اور اس کے عوام کی باوقار نشوونما اور قیام و استحکام اور داخلی و خارجی سلامتی میں معیشت کا کردار بنیادی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں رہنے دیا اور ہر معاملے میں کامل و اکمل راہ نمائی اور بنیادی اصول مہیا کئے ہیں۔ اقتصادیات اسلام کے موضوع پر گفتگو آگے بڑھانے سے قبل موجودہ معاشی حالات کا طائرانہ جائزہ لینا بھی لازم ہے۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزررہا ہے۔ معاشی عدم مساوات اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ پاکستان کے بچے بچے کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ بانیٔ پاکستان نے لاتعداد مواقع پر فرمایا کہ ہمیں کسی سے راہ نمائی کی ضرورت نہیں کتابِ ہدایت (قرآن)نے ہر معاملے میں ہمیں راہ نمائی مہیا کی ہے، مگر افسوس کہ زندگی کے ہر شعبے کی طرح معیشت کے باب میں بھی کتاب ہدایت سے راہ نمائی لینے کی بجائے اغیار کے معاشی نظام پر اکتفا کیا گیا اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کے 100 فیصد اثاثوں کے مساوی بیرونی قرض لے چکا ہے اور ڈیفالٹ کر جانے کی باتیں زبان زد عام ہیں۔ پاکستان کے قیمتی اثاثے اور تاریخی عمارات بھی رہن پڑی ہیں اور اب بیرونِ ملک بچ جانے والے اثاثے بیچنے کے لئے صلاح و مشورہ جاری ہیں۔ پاکستان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو قرضہ اور سود ادا کرنے کے لئے مزید سود پر قرضے لے رہا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی دلدل میں اتر جانے کے بعد مہنگائی اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہے اور عام آدمی کے لئے مہنگی خوراک خریدنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ آئندہ سالوں میں ہونے والی زرعی و صنعتی پیداوار پر بھی ہم ادھار کھائے بیٹھے ہیں، جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا واقعتاًجوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
فی الوقت معیشت فقط سیاسی موضوعِ بحث نہیں ہے۔ اس سے دینی مذہبی، سماجی و معاشرتی،ثقافتی زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جوں جوں پاکستان قرضوں کی دلدل میں اتررہا ہے، آزاد ملک میں رہتے ہوئے اُسے ایسی پابندیاں قبول کرنا پڑرہی ہیں جو اس کے اقتدارِ اعلیٰ اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہیں۔ اغیار پاکستان کی نسل نو کو پڑھائے جانے والے نصاب میں بھی مرضی کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو اسلامی اسلاف اور علمی اثاثوں سے بیگانہ کرنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ اسی طرح مروجہ اسلامی اقدار و روایات پر بھی آئے روز نظر ثانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں ایمان اور عقائد کی بنیادی شرائط پر بھی ڈکٹیشنز آرہی ہیں اور اگر کوئی اس ضمن میں الوہی قوانین و ہدایات کا حوالہ دے تو اس پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ٹھپے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کبھی گرے لسٹ اور کبھی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ بیرونی فیکٹرز کے علاوہ معیشت کی تباہی اور بربادی کے کچھ اندرونی فیکٹرز بھی ہیں۔ یہ اندرونی فیکٹرز نہ ہوتے تو شاید بیرونی فیکٹرز فیصلہ کن اثرات مرتب نہ کر پاتے۔ اندرونی فیکٹرز میں سیاسی انارکی، ناقص نظام انتخاب، نااہلی، ابن الوقتی، اقرباپروری، ڈکٹیشن، کرپشن، احتساب کا کمزور نظام اور حب الوطنی کے تقاضوں کے برعکس معاشی پالیسیوں کا اجرا سرفہرست ہیں۔
بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اسلام قیامت تک کے لئے ضابطۂ حیات ہے اور اسلامی تعلیمات میں انسان کی معاشی، سماجی اور معاشرتی ضروریات کا تحفظ بھی کیا گیا ہے۔ اسلام نسلِ انسانی کے ہر شعبہ حیات کے لئے واضح، جامع اور مکمل ہدایات کا ایک قابلِ عمل منشور پیش کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسےدنیا کے کسی بھی گوشہ میں نافذ کیا جا سکتا ہے اورلازماً مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت ہمیں حضور نبی اکرمﷺ کے عہد مبارک، خلفائے راشدین اور ان کے بعد کے اکثر مسلم حکمرانوں کی تاریخ سے ملتا ہے۔ انسانی زندگی کے تین بڑے شعبے عقائد، عبادات اور معاملات ہیں جن میں سے معاملات کاشعبہ بڑی وسعت اور اہمیت کا حامل ہے۔ معاملات کا انسانی و ایمانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ معاملات کے باب میں معیشت اور معاشی نظام سرفہرست ہے۔ تاریخ اقوامِ عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال، خوشحالی و بدحالی، امن و جنگ اور کامیابی و ناکامی کی بنیادی وجوہات میں معاشیات و اقتصادیات کے استحکام و عدم استحکام کا بہت بڑا دخل رہا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ رب العزت نے علم و تحقیق کی نعمتوں سے وافر نوازا ہے۔ آپ نے اسلامی انسانی زندگی کے سیکڑوں موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتب تحریر فرمائیں۔ ان موضوعات میں اسلامی معیشت آپ کا ایک اہم موضوع بحث رہا ہے۔ اس باب میں آپ نے متعدد فکر انگیز کتب تحریر فرمائی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’اقتصادیاتِ اسلام(تشکیلِ جدید)‘‘ میں اسلامی معاشیات کا مفہوم، بنیادی اصول اور فلاسفی کو بڑے سادہ اور دل پذیر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:اسلامی معاشیات میں معاشی سرگرمیوں کا مقصد بے انصافی کا خاتمہ ہے۔ انسان کا مقصدِ زندگی یہ نہیں ہے کہ وہ ذاتی خواہشات کی تسکین ہی میں مصروف رہے بلکہ اس پر معاشرہ کی طرف سے کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا ضروری ہے۔ دنیا و آخرت میں کامیابی اسلامی معاشیات کا مقصد ہے۔ زمینی وسائل کا صحیح تصرف ہی انفرادی اور اجتماعی فلاح کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان ارتکازِ دولت کی ہوس و شہوت کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ سوسائٹی کے پورے نظم کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔ اسلام نے دولت کے ارتکاز کو بہت بڑی برائی قرار دیا ہے۔ ارتکازِ دولت سے معاشرہ کے غالب افراد کی حق تلفی ہوتی ہے اور سوسائٹی کا امن تہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے۔ آج پاکستان کی تباہ حال معیشت کی ایک بڑی وجہ مٹھی بھر خاندانوں کا ارب، کھرب پتی ہونا ہے اور یہ مٹھی بھر خاندان پاکستان سمیت دنیا بھر میں اربوں، کھربوں روپے کے اثاثے جمع کر چکے ہیں۔ دولت کے اس ارتکاز کی وجہ سے سوسائٹی کا غالب طبقہ مفلسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اسلام کا بنیادی، معاشی اصول حرکت ہے یعنی جب دولت حرکت میں ہو گی تو اس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔ غربت کم ہو گی، اقتصادی اعشاریے بہتر رہیں گے مگر جب یہی دولت چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی تو معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ جائے گا اسی لئے اسلام کے اقتصادی، معاشی نظام میں ارتکازِ دولت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کی بنیادی روح ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
قرآن مجید میں بنیادی معاشی اصطلاحات بڑی صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الزخرف میں فرمایا: ’’ہم ان کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسباب) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں )درجات کی فوقیت دیتے ہیں (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض( جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔ ‘‘ قرآن مجید کی آیت مبارکہ میں واضح کیا گیا ہے کہ دولت کا حصول دوسروں کو اذیت دینے کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اپنے وسائل کی بنیاد پر کسی کمزور کا مذاق اڑاسکتا ہے اور اللہ رب العزت نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو یعنی اللہ ہی ہے جو اسبابِ معیشت کو تقسیم کرتا ہے اور اللہ ہی ہے جو کسی کو آسودگی اور کسی کو مالی آزمائش سے دو چار کرتا ہے تاہم صاحبِ حیثیت افراد پر لازم ہے کہ وہ ضرورت سے زائد اسباب ضرورت مندوں میں تقسیم کریں اور اگر افراد ایسا نہیں کرتے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے اور وسائل کی تقسیم میں مستحقین اور پسماندہ علاقوں کو فوقیت دی جائے۔ ہمارے قومی نظامِ معیشت میں اسلامی اصول و ضوابط کی بجائے صوابدیدی اختیارات بروئے کار آتے ہیں۔ پسند اور نا پسند کی بنا پر وسائل تقسیم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کچھ صوبے، اضلاع اور علاقے ترقی یافتہ اور خوشحال نظر آتے ہیں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کچھ صوبے، اضلاع اور علاقے بدحالی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ معاشی مساوات اسلامی معیشت کی روح ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’اقتصادیاتِ اسلام (تشکیلِ جدید)‘‘ کا ہمارے معاشی ماہرین اور معیشت کے طالب علم ضرور مطالعہ کریں انہیں معاشیات کی اخلاقی حیثیت سے روشناس ہونے میں مدد ملے گی اور وہ پالیسی سازی کے ضمن میں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
(چیف ایڈیٹر:نوراللہ صدیقی)