اللہ رب العزت کے محبوب نبی خیر البشر، خیر الخلائق، ہادیِ برحق اور معلمِ انسانیت حضور نبی اکرم ﷺ علم اور اَخلاق حسنہ کے سب سے اعلیٰ مقام پر جلوہ افروز تھے، جس کی گواہی اغیار بھی دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے مواعظِ حسنہ اور عملِ کریمانہ کی بدولت زمانۂ نبوت کے صرف تئیس سالوں میں انسانیت کے بنیادی اُصولوں سے نابلد اہلِ عرب کو تہذیب و اَخلاق اور معاشرت کے ایسے بہترین اُصول سکھا دیئے، جس سے وہ دنیا کی مہذب ترین قوم بن گئے اور جہالت کی ظلمتوں سے اٹا ہوا زمانہ نورِ نبوت کی تابانیوں کے بعد خیر القرون بن گیا۔
آپ ﷺ کے تربیت یافتہ افراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہلائے۔ وہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے بعد جیسے قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے، بعینہٖ صحابیت کا باب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ اب قیامت تک آنے والے مردانِ حق دینِ متین کی سربلندی کے لیے خواہ کتنی ہی جدوجہد کر لیں، وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا مقام و مرتبہ حاصل کرنا تو درکنار، اُن کی غبارِ راہ تک پہنچنے سے بھی قاصر رہیں گے۔ صحابہ کرام ﷺ علم و حکمت اور دینِ متین کے لیے مینارۂ نور ہیں، جن سے قیامت تک اہلِ حق ہدایت کی تابانیاں حاصل کرتے رہیں گے۔ اِن نفوسِ مقدسہ کے درمیان جو بعض مشاجرات اور اختلافات پیدا ہوئے اُن کی وجہ فقط بشری تقاضے اور بعض وقتی فتنے تھے۔
دَفْعُ الْاِرْتِيَاب فِيْمَا وَقَعَ مِنَ الْمُشَاجَرَةِ بَيْنَ الْأَصْحَابِ (حقیقتِ مُشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم) میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین انہی تنازعات کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے: پہلے باب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اِن مشاجرات کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبانِ طعن دراز کرنا ہرگز جائز نہیں، اِن معاملات میں اُمت کو معتدل، متوازن اور مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے طعن سے اجتناب کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دوسرے باب میں احادیث نبوی ، آثارِ صحابہ اور اَقوالِ ائمہ ٔ اُصول الدین کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان مشاجرات میں اور بالخصوص سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے باہمی تنازعہ میں امیر المؤمنین چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے اور آپ کی خلافت علی منہاج النبوہ قائم تھی۔ کتاب کے آخری باب میں جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے وجوبِ تعظیم اور لعن و طعن کی سخت ممانعت کے حوالے سے احادیث نبویہ اور اَقوالِ ائمہ پیش کیے گئے ہیں۔
الغرض! اس شاہ کار تصنیف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے افراط و تفریط سے بالاتر اور مسلکی وابستگی و تعصب کو پسِ پشت ڈال کر حقائق کو روایت و درایت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اِس معاملہ میں اُمت کے عقیدۂ صحیحہ کو واضح کیا ہے۔ اپنے موضوع پر دلائل و براہین کی روشنی میں تحریر کردہ یہ کتاب عظیم کاوش ہے، جسے آنے والے ہر دور میں قدر و اَہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا رہے گا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کو افراط و تفریط سے بالاتر ہو کر اسلام کے حقیقی عقائد و نظریات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ