تعلیم بچے کو صرف علوم و فنون سکھانے ، معلومات کی نقل وترسیل اور کام کرنے کی صلاحیت سے لیس کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسا آلہ ہے جس سے آدمی کو تراش کر انسان بنایاجاتاہے۔ یہ بات بڑے بڑ ے مفکرین کی ان تعریفات سے واضح ہے جو انہوں نے پیش کی ہیں۔ تعلیم کے لیے انگریزی لفظ Education لاطینی زبان کے لفظ Educatum سے بناہے، جس کا لغوی معنی ہی تربیت کرنا، پروان چڑھانا، نشوونماکرنا ہے۔
سر سید نے تعلیم کی تعریف یوں کی ہے:
’’انسان کو تعلیم دینا، ان خفیہ صلاحیتوں کو باہر لانا ہے جو خداے وحدہ لا شریک نے آدمی کے اندر ودیعت کی ہیں، انہیں تحریک دے کر ان میں زندگی کی روح پھو نک دینا تاکہ وہ پھل پھول سکیں ، یہی دراصل تعلیم ہے‘‘۔ (: Sir Syed Ahman Khan On Education، ڈاکٹر علی احمد، صفحہ: 57)
شاید موت کے بعد تعلیم کی اہمیت ایسی دوسری چیزہے جس پر پورے عالمِ انسانیت کا اس قدر اتفاق ہے کہ ہرکوئی اسے مانتا ہے ، خواہ وہ اس سے وابستہ ہویا نہ ہو۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اس کی اہمیت تو اور دوچند ہوگئی ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے تعلیم کو جو مقام دیا تھا وہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ حصولِ علم کی راہ پر چلنے کو جنت کے راستے پر گامزن ہونے سے تعبیر کرتا ہے اور عابد پر صاحبِ علم کی فضیلت کو ایسے قرار دیتا ہے جیسے چودہویں کے چاند کی برتری دوسرے ستاروں پرہو۔
جوں جوں گلوبلائزیشن کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، علمِ اخلاقیا ت کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ جس تیزی سے دنیا ترقی کے نت نئے مراحل طے کررہی ہے، انسان کائنات کو مسخرکررہا ہے، اسی حساب سے اس کے راستے میں مسائل ومصائب جنم لے رہے ہیں۔یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ انٹرنیٹ کی دریافت سے پہلے سائبر کرائم نام کی کوئی چیز نہیں تھی مگر اب یہ ایک حقیقت ہے جس کی لپیٹ میں چھوٹے بڑے سب آرہے ہیں۔ اس لیے آج منظم زندگی کا کوئی ایسا حصہ نہیں جس کے متعلق اصول وضوابط مدون نہ ہوئے ہوں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کیا روا ہے اور کیا ناروا؟ درحقیقت کسی بھی شعبۂ حیات کے یہی وہ قواعد ہیں جو اس کی اخلاقیات کہلاتے ہیں۔
جب معاملہ ایسا ہے تو پھر تعلیم جیسا اہم اورقابلِ قدر شعبہ بھلا اخلاقیات کے احاطے سے کیوں کر باہررہ سکتا ہے؟
اخلاقیات اور اخلاقی برتاؤ کا تعلق ہرشخص سے ہے ، جب تک ہر بندہ یہ محسوس نہ کرلے کہ اس کی پسند و ناپسند دوسروں کو متاثر کرسکتی ہے، تب تک مبنی برانصاف کسی بھی انتظامی، غیر انتظامی ادارے کا خواب واقعی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپائے گا ، چہ جائے کہ کسی عمدہ تعلیمی نظام کا قیام۔ یہاں اس کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ صحیح معنوں میں بااخلا ق انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ درست کام ہر حال میں کرتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تب بھی۔
اخلاقیات، قیادت و سیادت کی اساس ہے۔ اس کے زوال سے اچھے قائدین اور عمدہ قائدانہ خصائل میں بھی کمی آتی ہے۔ احترام، خیال، اعتماد اور شفافیت اخلاقیات کی اساس ہیں، ان کے بغیرایک لیڈر کے اندر اعلی معیار پیدانہیں ہوسکتا۔
تعلیم اور اخلاقیات کی تین جہات
آج کے ترقی یافتہ دور میں ہی نہیں بلکہ جب سے تعلیم وتعلّم کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوا ہے، تب سے تعلیمی اداروں میں تین قسم کے رشتے رہے ہیں:
1۔ معلم اور طالب علم(مجموعی رشتہ)
2۔ معلم اور طالب علم (انفرا د ی رشتہ)
3۔ طالب علم اور طالب علم(باہمی رشتہ)
ذیل میں اِن تینوں جہات کے حوالے سے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں زوال پذیر اخلاقی اقدار کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے:
1۔ معلم اور طالبِ علم (مجموعی رشتہ)
اس تلخ حقیقت سے آنکھ نہیں چرائی جا سکتی کہ ماضی میں جتنا یہ رشتہ پاکیزہ تھا ، اب اتنا نہیں رہا بلکہ کچھ حد تک گدلا ہو گیا ہے۔ اپنے پن کا جو احساس استاذ اور شاگردکے درمیان ہوا کرتا تھا ، وہ کہیں نہ کہیں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ تدریس جیسے مقدس عمل پر بھی پیشہ ورانہ رخ اس قدر غالب آچکا ہے کہ جہاں ایک طرف طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ استاذ پڑھا کر اس پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ وہ تو اپنا پیشہ ورانہ فرائض نبھاتا ہے، اس لیے اس کی تعظیم بجالانا کوئی ضروری امر نہیں ، وہیں دوسری جا نب استاذ یہ سوچتا ہے کہ مجھے پیسے پڑھانے کے ملتے ہیں، کسی دوسر ے کام کے نہیں۔ طلبہ باہر کیا کرتے ہیں، اس سے مجھے کوئی مطلب نہیں۔
اس طرزِ فکر سے تعلیم بالکل تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ جس طرح ایک سامان فروش کو اسی وقت تک اپنے گاہک سے سروکار رہتا ہے ، جب تک وہ اس کی دکان میں ہے ، باہر اس کے خیر وشر سے وہ کوئی مطلب نہیں رکھتا۔ اسی طرح استاذ اور شاگرد کا ربط وضبط بھی اسی وقت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، جب تک وہ دونوں کلاس روم میں ہیں۔ یہ رشتہ کلاس روم میں کسی نہ کسی طرح قائم رہتا ہے، تاہم جونہی دونوں باہرنکلتے ہیں تو ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچ تدریس کی رو ح کے منافی اور سراسر ظلم ہے۔
اساتذہ کے احترام سے طلبہ اتنے دور ہوگئے ہیں کہ ان کے آنے پر وہ کھڑے ہونا تک گوارا نہیں کرتے۔ یہ صورتِ حال ہمارے اسلامی اور نظریاتی پس منظر میں اور زیادہ تشویش ناک اس لیے ہو جاتی ہے کہ اسلامی تہذیب میں تو استاذ کے مقام کی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشا دسے واضح ہے:
من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا. فان شاء اعتق وان شاء باع.
’’جس نے مجھے ایک حرف سکھا دیا، اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔ اب اس پر ہے کہ اگر چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو بیچ دے‘‘۔
سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ سرور کائناتﷺ نے اپنا ایک تعارف معلم کے طور پر کرواتے ہوئے فرمایا:
اِنَّمَا اَنَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا.
(ابنِ ماجه، 1: 150 ، حدیث: 229)
’’مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ سیرت کی کتابوں سے واضح ہے کہ وہ آپa کی کس حد تک تعظیم کرتے تھے اور خود آپa ان پر کتنی شفقت فرماتے۔
اساتذہ سے تلامذہ کی بے زاری کا حال تو یہ ہے کہ خود راقم نے مشاہدہ کیا کہ یونی ورسٹیوں میں بعض لڑکے اپنے اساتذہ کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے۔ کچھ حضرات اسے مغرب کے سر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ منظرنامہ مغربی تہذیب کے اثرات کا شاخسانہ ہے لیکن تب میرا سوال یہ ہے کہ صرف منفی پہلوؤں تک ہی اس تمدن کا اثر کیوں محدود رہا؟ مثبت گوشوں پر کیوں نہیں پڑا؟ ان کے کلاس رومز جس طرح Practice and application based ہوتے ہیں ، ہمارے کیوں نہیں ؟ وہاں جس طرح صحت مندمباحثے ہوتے ہیں ، یہاں کیوں نہیں؟
ان سب حالات کی ذمہ داری صرف طلبہ کے سر ڈالنا بڑی بے ایمانی ہوگی، اس لیے کہ اساتذہ بھی بہت حد تک اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر اساتذہ اپنے پیشے کے تئیں مخلص ہوں اور محنت ومشقت سے اپنا کام کرنے لگیں تو ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل جائے۔ نوبل انعام یافتہ ہندوستانی شاعر رابندرناتھ ٹیگور نے کہا ہے:
’’ایک استاذصحیح معنوں میں اس وقت تک تعلیم نہیں دے سکتا جب تک وہ خود سیکھ نہیں رہا ہو۔ کوئی چراغ دوسرے چراغ کو اس وقت تک روشن نہیں کرسکتا، جب تک وہ اپنے فتیلے کو نہ جلائے‘‘۔
آج کے مقابلہ جاتی دور میں امتحانات میں اچھے نمبرز کی اپنی اہمیت ہے۔ بہت سے مواقع پر قابل اور لائق امیدوار بھی انٹرویو کی دوڑ سے صرف اس لیے باہر نکل جاتا ہے کہ کسی سند یا ڈگری میں اس کا مطلوبہ فیصدنہیں ہوتا۔ کچھ نا اہل اساتذہ اس کا ناروا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طالب علم سے ان کے نجی تعلقات کسی بھی وجہ سے استوار نہ ہوں ، وہ اس طرح کے موقعوں کی تاک میں لگے رہتے ہیں اور پھر کاپی ہاتھ آتے ہی کم نمبر دے کر اپنے غصے کی تسکین کا جھوٹا سامان کرتے ہیں۔ ایسے حضرات اساتذہ کے نام پر کلنک ہیں۔ اس رویے کی خباثت اس جہت سے بھی ظاہر ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں سانس لے رہے ہیں، جس کے بہت سارے اصولوں میں ایک اہم اصول مساوات بھی ہے ( براے نام ہی سہی)، اس لیے معلم کے لیے ہر ایک شاگرد کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرنا ضروری ہے اورکسی بھی بنیادپر تفریق بالکل روا نہیں۔
2۔ معلم اور طالبِ علم (انفرادی رشتہ)
نظامِ تعلیم میں زوال پذیر اخلاقی اقدار کی وجوہات جاننے کے لیے استاد اور شاگرد کا انفرادی رشتہ بھی نہایت قابلِ غور ہے۔ آج اسپیشلائزیشن اور تخصص کا دور ہے۔ وہ وقت گیا جب ایک ہی شخص مختلف فنون میں اس درجہ مہارتِ تامہ رکھتا تھا کہ لوگ اس کا پتہ لگانے سے قاصررہتے کہ یہ کس میں زیادہ قابل ہے اور کس میں کم؟ آج اس قحط الرجال والے زمانے میں اگر کوئی ایک ہی میدان میں کمال حاصل کرلے توبہت ہے۔ ایسے ماحول میں استاذ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف کلاس پر من حیث المجموع نظر رکھے ، بلکہ انفرادی طریقے پر ہر طالب علم پر اس کی توجہ ہو۔ وہ اس کی دل چسپی اور قابلیت سے اچھی طرح واقف ہو اور پھر اس کو صحیح سمت دینے اور اس کے فروغ کے لیے صرف رہنمائی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس میں حتی المقدور اپنا کردار ادا کرے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی طالب علم سے خونی، علاقائی یا اور کسی قسم کی رشتے داری کے سبب اگر استاذ اسے دوسروں پر فوقیت دیتا ہے ، موقع بے موقع اس کی تعریف کے پل باندھ کر بلا وجہ اسے کلاس کا اسٹار بنانے(بلکہ دکھانے)کی کوشش کرتا ہے تو یہ بھی غلط رویہ ہے۔ رشتے، ناطے سب باہر کی چیزیں ہیں۔ اسکول ، کالج کے صحن میں داخل ہوتے ہی استاذ کو چاہیے کہ ہر ایک شاگرد کو ایک نظر سے دیکھے، کیونکہ کسی ایک کو بلا ضرورت اور نامعقول زیادہ اہمیت ملنے سے دوسرے بچوں پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے اور تو اور خود ایسے استاذ کی شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے اور جس کا اثر نا صرف پوری کلاس بلکہ تدریس پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
3۔ طالبِ علم اور طالبِ علم (باہمی رشتہ)
نظامِ تعلیم میں اخلاقی اقدار کی بحالی کے لیے طالبِ علم اور طالبِ علم کے باہمی رشتہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ باہمی رشتہ تو سوشل میڈیا کے اس دور میں بہت پیچید ہ ہوگیا ہے۔ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ فیس بک، واٹس اپ، ٹیلی گرام اور سماجی رابطے کی دوسری سائٹس پر کلاس فیلوز خوب باتیں کرتے ہیں اور دوستی نبھاتے ہیں ، مگر افسوس یہی دوست جب ایک چھت کے نیچے ایک کلاس روم میں بیٹھتے ہیں تو اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپس میں کوئی بات چیت نہیں ، بلکہ کبھی کبھار تو اس طرح برتاؤ کرتے ہیں جیسے ان کے مابین شناسائی تک نہیں۔ اس طرح کا ماحول تعلیم کے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے کلاس میٹس کے درمیان ’’ورچوئل‘‘ کی بجاے حقیقی دوستی بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
وہی دوست جو مذکورہ سائٹس پر ہر طرح کی بات کرتے ہیں، خوشی ، غم میں برابر کی شرکت کا دعوی کرتے نہیں تھکتے لیکن جب بات کسی مضمون کے مواد اور نوٹس شیئرکرنے کی آتی ہے تو سب ایسے خاموش ہوجاتے ہیں جیسے سانپ نے سونگھ لیا ہو۔ یہ بات اخلاقی لحاظ سے انتہائی قبیح ہے کہ ایک شخص کے ساتھ آپ ہر طرح کی بات کریں (ورچوئل دنیا ہی میں سہی)، لیکن جس چیز کی اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے، اسے دینے سے کترائیں۔
چند اور قابل توجہ اہم پہلو
معلم اور طالبِ علم کے تعلق کی بنیادی جہات کو جاننے کے بعد آیئے چند اور پہلوؤں سے اسی موضوع کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ والدین کا غیر مناسب رویہ
زندگی کی ریس میں ہر کوئی اپنے بچے کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش فی نفسہ کچھ قبیح نہیں بلکہ بہت محمود اور قابلِ ستائش ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی اس چاہت کی تکمیل کے لیے روا ناروا ہر طرح کی چیزیں کرگزرے، تب آپ کیا کہیں گے؟ یقینا یہ آرزو بری ہے کہ یہ ارتکاب قبیح کاسبب ہے۔
یہ بات کسی مفروضے پر مبنی نہیں بلکہ حقیقتِ واقعہ ہے، بارہا یہ سننے دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنی اولاد کے اچھے نمبر کے لیے ان کے اسائنمنٹس خود تیار کرتے ہیں۔ ایسے حضرات ذرا نہیں سوچتے کہ وہ ان کے ساتھ کتنا برا کررہے ہیں۔ گو اس سے وقتی منفعت مل جاے(دو چار نمبر بڑھ سکتے ہیں)، مگر کیا اس طرح تعلیم کا اصل مقصدتکمیل آشنا ہو پائے گا ؟
2۔ انٹرنیٹ کا مفید استعمال
انٹرنیٹ کی اہمیت اور ہمہ گیریت سے آج کسی کو مجالِ انکار نہیں۔ وہ زیادہ کامیاب ہے، جو اس کا زیادہ مثبت استعمال کررہا ہے اور ٹھیک اسی طرح وہ زیادہ خسارے میں ہے جو اس کا زیادہ منفی اور لایعنی استعما ل کررہا ہے۔ افسوس! آج ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی سطح تک طلبہ الا ماشاء اللہ اس کا مثبت استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے اس ٹول کو اپنے علم، تحقیق، فن اور ہنر کی ترقی کے لیے اتنا استعمال نہیں کیا جتنا ہم نے اسے لایعنی اور بے مقصد گپ شپ کا ذریعہ بنادیا۔ آج انٹرنیٹ کے مثبت استعمال فراہم کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
3۔ نصاب میں اخلاقیات کی شمولیت
مادہ پرستی اور حیا باختگی کے طوفانِ بلا خیز پر بند باندھنے کے لیے کالجزاور یونی ورسٹیزکے نصاب میں اخلاقیات کی تعلیم ہر طالب علم (خواہ وہ کسی ڈسپلین سے تعلق رکھتا ہو ) کے لیے لازمی قرار دی جائے۔ یہ صحیح ہے کہ صرف اس سے اس سیلاب کا رخ نہیں موڑا جا سکتا، تاہم اتنی امید ضرور ہے کہ اس کے بہاؤکو کم کرنے میں اس سے ضرور مدد ملے گی۔ اس حوالے سے بہتر ہوگا کہ ہر تعلیمی ادارے کا اپنا نظامِ اخلاق ہو جس سے نہ صرف داخلے کے وقت ہی ہر طالب علم کو آگاہ کیا جائے بلکہ تحریری ضمانت بھی لی جائے۔ اسی طرح تقرر کے وقت ہر استاذ کو بھی اس اخلاقی لائحہ عمل کی پاسداری کا پابند بنایا جائے۔یہ صحیح ہے کہ اس طرح کی چیز عملا نہ سہی، رسماً ہر ادارے میں ہوتی ہیں لیکن اخلاقیات کی رو بہ زوال حالت تعلیمی اداروں میں نظامِ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کی متقاضی ہے۔