سوال: میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں بچوں کی پرورش کا حق کس کا ہے؟
جواب: اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حق کو شرعی اصطلاح میں حقِ حضانت (حضانۃ الطفل/Child Custody) کہتے ہیں۔ تمام رشتوں میں حقِ حضانت کی سب سے زیادہ مستحق بچے کی ماں ہے، خواہ وہ زوجیت میں ہو یا طلاق یافتہ ہو۔ ماں کیلئے حقِ حضانت میں ترجیح کے حوالے سے فقہاء نے درج ذیل فرمانِ الٰہی سے استدلال کیا ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ.
(البقرة، 2: 233)
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں، یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ صغرِ سنی میں بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔ فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جو حقِ حضانت میں ماں کو ترجیح ملنے کا مفہوم رکھتی ہیں۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے طریق سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:
یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا کَانَ بَطْنِي لَهٗ وِعَاءً، وَثَدْیِي لَهٗ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهٗ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَهٗ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہٖ مَا لَمْ تَنْکِحِي.
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 246، رقم: 6716)
’’یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے۔ میرا پیٹ اِس کا برتن تھا، میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی رہائش گاہ تھی۔ اِس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اَب وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون سے فرمایا: تم اس بچے کی زیادہ حق دار ہو جب تک تم (کسی اور سے) نکاح نہ کر لو۔‘‘
امام مرغینانیؒ فرماتے ہیں:
لِأَنَّ الْأُمَّ أَشْفَقُ وَأَقْدَرُ عَلَی الْحَضَانَةِ فَکَانَ الدَّفْعُ إِلَیْھَا أَنْظَرَ، وَإِلَیْہِ أَشَارَ الصِّدِّیْقُ بِقَوْلِہٖ: رِیْقُھَا خَیْرٌ لَهٗ مِنْ شَھْدٍ وَعَسَلٍ عِنْدَکَ یَا عُمَرُ.
(مرغینانی، الهدایة، 2: 37)
’’اس لیے کہ ماں بچے کے حق میں سب سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی اور حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے بچے کو ماں کے سپرد کرنا زیادہ مفید ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے کہ اے عمر! بچے کی ماں کا لعابِ دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہوگا۔‘‘
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
فَلَمَّا کَانَ لَا یَعْقِلُ کَانَتِ الْأُمُّ أَوْلٰی بِہٖ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ حَقٌّ لِلْوَلَدِ لَا لِأَبَوَیْنِ، لِأَنَّ الْأُمَّ أَحْنٰی عَلَیْہِ وَأَرَقُّ مِنَ الْأَبِّ.
(شافعی، الأم، 8: 235)
’’پس جب بچہ ناسمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے اس لیے کہ یہ بچے کا حق ہے، والدین کا نہیں۔ کیونکہ والدہ بچے کے حق میں باپ کی نسبت زیادہ نرم دل اور رقیق ہوتی ہے (لہٰذا ماں بچے کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے)۔‘‘
امام ابن ہمامؒ بیان کرتے ہیں:
ولا تجبر علیه أی علی أخذ الولد اذا أبت أو لم تطلب الا أن لا یکون لا ولد ذو رحم محرم سوی الام علی حضانته کیلا یغوث حق الولد أصلا.
(ابن همام، فتح القدیر، 4: 184)
’’اگر ماں بچہ لینے سے انکار کر دے یا مطالبہ نہ کرے تو اس پر جبر نہیں ہوگا۔ ہاں اگر بچے کا ماں کے سوا کوئی ذی رحم محرم نہیں، تو اس وقت ماں کو بچے کی پرورش پر مجبور کیا جائے گا تاکہ بچے کا حق بالکل ختم نہ ہو جائے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ بچوں کی پرورش کا حق ماں کے لیے ہے اور وہ اس وقت تک اسے اپنے پاس رکھے گی جب تک کہ بچے کو کھانے، پینے اور رفع حاجت کے لیے ماں کی ضرورت پڑے اور اس کی مدت لڑکے کے لیے سات برس اور لڑکی کے لیے نو برس ہے یا حیض آنے تک۔ اگر خدانخواستہ ماں مرتد ہوجائے یا بدکردار ہو، جس سے بچہ کی حفاظت ممکن نہ رہے تو اس صورت میں والدہ کا حقِ پرورش باطل ہوجاتا ہے۔
بچوں کی پرورش کا خرچ یعنی کفالت باپ کے ذمہ ہے۔ باپ کی وفات کی صورت میں اگر بچوں کا مال موجود ہے تو اس میں سے خرچ کیا جائے گا اور اگر مال موجود نہیں یعنی باپ نے وراثت میں کچھ نہیں چھوڑا تو ذمہ داری ماں پر ہوگی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کے ذمہ نفقہ ہے، اس کے ذمہ پرورش کا خرچ بھی ہے اور لڑکے کے لیے سات سال اور لڑکی کے لیے بلوغت تک خرچ دیا جائے گا۔
اگر بچوں کی عمریں مذکورہ عمر سے زیادہ ہوں تو ان کی حضانت کا حق والد کو بھی حاصل ہے۔ اس صورت میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ ماں اور باپ رضامندی سے ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ اگر والدہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے پر بضدہو اور بچوں کی والد سے ملاقات بھی نہ کروانا چاہے تو اس کا یہ رویہ شرعاً درست نہیں ہوتا۔ والد اپنے اس حق کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جو بچہ جس فریق کے پاس ہو، وہ دوسرے فریق کو اس بچے سے ملاقات کے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ بہتر یہی ہے کہ اس صورت میں فریقین باہمی رضامندی سے بچوں کی پسند کے مطابق معاملہ طے کریں۔
سوال: یوٹیوب پر کلک بیٹ استعمال کرنا کیسا ہے؟ کلک بیٹ میں تھمبنیل اور عنوان ایسا دکھایا جاتا ہے جس سے عوام ویڈیو پر کلک کرتی ہے لیکن جب ویڈیو چلتی ہے تو اندر ویڈیو عنوان سے مختلف ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے دیکھنے والے کا وقت برباد ہوتا ہے کیا اس ذریعے سے کمائی کرنے والی کی کمائی حلال ہے؟
جواب: قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا.
(النساء، 4: 107)
’’اور آپ ایسے لوگوں کی طرف سے (دفاعاً) نہ جھگڑیں جو اپنی ہی جانوں سے دھوکہ کر رہے ہیں۔ بیشک اللہ کسی (ایسے شخص) کو پسند نہیں فرماتا جو بڑا بددیانت اور بدکار ہے۔‘‘
درج بالا آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف سے جھگڑنے سے منع فرما رہا ہے جو اپنی جان سے دھوکہ کر رہا ہو اور ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہو۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دھوکے باز شخص کو بددیانت اور بدکار قرار دیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں دھوکے بازی انتہائی قبیح فعل ہے۔
آج کل یہ عام رجحان ہے پیسے کمانے کی خاطر انٹرنیٹ خاص طور پر یوٹیوب کی ویڈیوز پر بڑے دلکش و پُرمغز عنوانات اور تھمبنیل لگائے جاتے ہیں، جس کا مقصد محض ویڈیو پر کلک حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب صارف ویڈیو کھولتا ہے تو اس میں وہ مواد نہیں ہوتا جو تھمبنیل یا عنوان میں دکھایا گیا ہوتا ہے۔ یہ سراسر دھوکے بازی اور بد دیانتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی بد دیانتی اور دھوکہ بازی کے متعلق بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا فَقَالَ: مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ قَالَ أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي.
’’رسول اللہﷺ ایک غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے، آپﷺ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: یہ تری کیسی ہے؟ غلہ کے مالک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پر بارش ہوگئی تھی، آپﷺ نے فرمایا: تم نے اسے بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے؟ جس شخص نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
(مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب قول النبیﷺ من غشنا فليس منا)
یہ حدیث مبارک مذکورہ سوال سے عین مطابقت رکھتی ہے کہ ظاہر میں نظر آنے والی چیز اندر نہ ہو تو دھوکہ بازی ہے، اسی طرح ویڈیو کا جو عنوان ہو، اندر اس سے متعلقہ مواد نہ ہو تو یہ بھی دھوکہ دہی ہے اور ایسے شخص کے بارے میں آپ ﷺ نے بہت سخت وعید سنا کر دھوکہ بازی کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔
ایک مقام پر آپ ﷺ نے دھوکہ باز کو منافق گردانا ہے جیسا کہ حضرت ابو سلمہؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ، وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ.
(أبو داود، السنن، كتاب الأدب، باب فی حسن العشرة، 4: 251، الرقم:4790)
مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے جب کہ منافق دھوکا باز اور بخیل ہوتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ.
(الترمذي، السنن، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في البخيل، 4: 343، الرقم: 1963)
دھوکہ باز، بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ دھوکہ بازی سے ویڈیوز پر کلک لینا سخت ناپسندیدہ اور گناہ ہے۔ ایسی دھوکے بازی سے ہونے والی کمائی بھی حرام ہے۔
سوال: قبضہ کے بغیر کسی شے کی فروخت (DROPSHIPPING) کا کیا حکم ہے؟
جواب: شریعتِ اسلامیہ نے عقودِ بیع اور مالی معاملات میں ایسے اُمور کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے فریقین کے درمیان نزاع و مخاصمت، لڑائی جھگڑے، دھوکہ دہی یا باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال حاصل کرنے کا امکان پایا جاتا ہو۔ خرید و فروخت کے معاملات میں شریعت نے جن اُمور کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے اُن میں سے ایک ’قبضہ علیٰ المبیع‘ یعنی فروخت کردہ شے کے قبضے (Possession) کا معاملہ ہے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ بائع (فروخت کنندہ/بیچنے والا) جس سامان کو بیچ رہا ہے، بائع کے پاس اُس سامان کو بیچنے کا اختیار ہو تاکہ خرید و فروخت مکمل ہونے پر سامان مشتری (خریدنے والے) کے حوالے کر دیا جائے۔ اصولی طور پر تمام فقہائے کرام اور ائمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ ’بیع قبل القبض‘ یعنی قبضہ سے پہلے یا قبضہ کے بغیر کسی شے کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں، مگر اس معاملے کی تفصیلات اور جزئیات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
فقہائے احناف کے نزدیک قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مَبیع (بیچا جانے والے سامان) پر مشتری (خریدار) کو اس طرح اختیار سونپ دیا جائے کہ مشتری کو قبضہ کرنے، استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی قدرت و اختیار حاصل ہوجائے اور بائع کی طرف سے کوئی مانع اور حائل نہ رہے۔ خریدار کو حاصل ہونے والا یہ قبضہ کبھی تو حقیقی و حسّی (Physically) ہوتا ہے اور کبھی معنوی و حکمی (Virtually) ہوتا ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ شریعت نے قبضہ کی کسی خاص صورت کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت و اختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرے میں قبولیت حاصل ہو، اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جائے گا۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقع دے دینا بھی قبضہ کے قائمقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔
احناف کے نزدیک شے کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف و استعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔ مروجہ تجارتی شکلوں میں تخلیہ کا معنی و مصداق یہ ہوگا کہ فروخت کردہ شے کا حکمی قبضہ (Virtual possession) ثابت ہوجائے۔ انٹرنیٹ اور ای کامرس کے ذریعہ ہونے والی مروجہ تجارتی شکلوں میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ ضروری کارروائی اس طور پر عمل میں لائی جائے کہ فروخت کردہ شے کی ذمہ داری اور حقِ تصرف بائع سے مشتری کی طرف منتقل ہوجائے اور سامان کی ذمہ داریاں (Liabilities) اور فوائد (Profits) کا وہ حق دار بن جائے۔
اس سے واضح ہوا کہ ایسی شے کی بیع جائز نہیں جس پر بیچنے والے کو حسّی یا حکمی طور پر قبضہ حاصل نہ ہو، ایسی شے کو نہ تو فروخت کرنا جائز ہے اور نہ ہی اُس کی قیمت وصول کرنا درست ہے، کیونکہ اس صورت میں خریدنے والے کو حقِ تصرف منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ڈراپ شپنگ (DROPSHIPPING) کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔
ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای سٹور مثلاً: ایمازون، والمارٹ، دراز اور علی بابا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمرز کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای سٹور سے خرید کر کسٹمر تک پہنچاتا ہے اور کسٹمر شے کی وصولی پر قیمت ادا کرتا ہے۔ ڈارپ شپنگ جائز ہے مگر اس میں چند شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ شے کی جنس، نوع، صفت، مقدار، وصولی کی تاریخ، قیمت، قیمت کی ادائیگی کا طریقہ کار اور حمل و نقل کے مصارف کا واضح اور غیر مبہم تعین کیا جائے۔
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ڈراپ شپّر اپنی ویب سائٹ یا جس میسجنگ سروس کے ذریعے پراڈکٹس کی تشہیر کر رہا، ہے وہاں کسٹمرز سے خرید و فروخت کا معاہدہ نہ کرے بلکہ کسٹمرز سے آرڈر موصول ہونے پر مطلوبہ شے کا بندوبست کرکے کسٹمرز کو فراہم کرنے کا وعدہ کرے، اِس وعدے کے عوض کل قیمت کا کچھ حصہ پیشگی طور پر وصول کرنا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔
3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ کسٹمر نے جس شے کا آرڈر دیا ہے، ڈراپ شپّر مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای سٹور سے اُس شے کو خود خریدے، یا خریداری کا معاہدہ کر کے خود قیمت ادا کرے، اِس سے ڈراپ شپر کا قبضہ حقیقی یا حکمی طور پر ثابت ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس ای سٹور یا کمپنی کو کہہ دے کہ مطلوبہ شے فلاں آدمی کو بھیج دیں۔
ان شرائط کے ساتھ ڈراپ شپنگ جائز ہے۔