سوشل میڈیا کے وجود میں آنے کے بعد ہر شخص کچھ نہ کچھ سوچنے، بولنے اور لکھنے کا آرزو مند رہتا ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ آپ تھوڑے سے وقت میں بلا معاوضہ اپنا مافی الضمیر بیان کر لیتے ہیں اور غلطی کی صورت میں یا درست تفہیم نہ کر سکنے کی صورت میں اپنی شخصیت اور ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کسی تحریک یا جماعت کے ترجمان ہیں تو پھر لکھتے اور بولتے وقت آپ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس اعتبار سے ایک یگانہ روزگار ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے ورکرز کو تعلیم و تربیت کے ساتھ جڑے رہنے کی نہ صرف تلقین فرماتے ہیں بلکہ تعلیم و تربیت کے ضمن میں منہاج القرآن کے ہر شعبہ کی حیثیت ایک تربیت گاہ کی سی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دعوت و تربیت کے شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں جو مختلف مواقع پر کارکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔
منہاج القرآن کے تنظیمی و تحریکی کلچر کا یہ امتیاز بھی ہے کہ یہاں سرگرمیوں کے دوران بھی تعلیم و تعلم اوردرس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور تحریک سے وابستہ ذمہ داران، رفقائے کار اپنے تنظیمی ماحول اور مصروفیات سے روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔گزشتہ ہفتہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی طرف سےمجھے ایک موضوع دیا گیا کہ آپ اپنی تحقیق کو کس طرح مشتہر کر سکتے ہیں اور دوم یہ کہ پریس ریلیز تیار کرتے وقت کن بنیادی امور کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان موضوعات پر گفتگو کرنے کا موقع ملا جو من و عن ماہنامہ منہاج القرآن کے قارئین کے مطالعہ کے لئے بھی پیش خدمت ہے:
مشاہدات سے استفادہ کی روایت
منہاج القرآن کے تنظیمی ماحول کے اندر ایک دوسرے کے مشاہدات اور تجربات سے استفادہ کرنے کی ایک مضبوط اور پختہ روایت قائم ہے۔ بلاشبہ علم و عمل اور سیکھنے، سکھانے کی اس روایت کو شیخ الاسلام نے بہ نفس نفیس قائم کیا اور یہ سلسلہ 4 دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اللہ رب العزت علمی اقدار کے اس نظم کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پختہ اورشستہ بنائے۔ اسی علمی و تحقیقی کلچر کی وجہ سے تحریک منہاج القرآن سے وابستہ افراد ہمہ وقت مذہبی، سماجی، معاشرتی امور و معاملات میں ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رہتے ہیں۔ تحرک ہی اس تحریک کا طرہ امتیاز ہے۔تحریک کی فکر اور نظریات آبِ رواں کی طرح ہیں۔جب پانی ٹھہر جاتا ہے تو وہ تعفن زدہ ہو جاتا ہے۔ جمود اور تجدید ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
تجسس سے تحقیق کا دروازہ کھلتا ہے
جب کوئی انسان کوئی نظریہ قائم کرتا ہے یا اس کے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں تو وہ جوابات تلاش کرتا ہے۔ ذہن کے کینوس پر ابھرنے والے سوالات سے تجسس اور تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اور پھر اسی تجسس کے نتیجے میں جو معلومات مہیا ہوتی ہیں، انسان انہیں ضبط تحریر میں لاتا ہے یا بیان کرتا ہے۔ تحریر اور تحقیق کی بہت ساری جہتیں ہیں۔ کچھ جہتیں ایسی ہیں جن سے انسان کا زندگی میں شاید ایک بار ہی واسطہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی اعلیٰ تعلیم یا ڈگری کا حصول چاہتے ہیں اور آپ کو کسی خاص موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اسائمنٹ دی گئی ہے، اس مقالہ کی تکمیل تک آپ جو کچھ بھی پڑھتے ہیں یا لکھتے ہیں وہ تحقیق ہے اور اسائمنٹ کی تکمیل پر آپ کا یہ تحقیقی کام اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور پھر عملی زندگی میں شاید دوبارہ آپ کو تحقیق کی اس مشق سے گزرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
البتہ گفتگو میں حوالہ کے طور پر اس تحقیق کے پسندیدہ حصے دہراتے رہتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے آپ کی تحقیق اپنا اثر یا حالات و واقعات سے مطابقت کھو دیتی ہے۔ البتہ تحقیق کے اسلوب اور اس کے اصول آپ کو زندگی بھر راہنمائی مہیا کرتے رہتے ہیں۔ عملی زندگی میں آپ ہمیشہ راہنما اصولوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اگر آپ کی زندگی سے مطالعہ، تحقیق اور راہنما اصول محو ہو جائیں تو آپ بتدریج ’’بلینک‘‘ ہو جاتے ہیں۔ آپ کا مشاہدہ اور گفتگو گہرائی سے عاری ہو جاتی ہے اور اس میں اثر نہیں رہتا اور پھر گفتگو میں تسلسل اور گہرا مشاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ اپنے مخاطب کی توجہ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور یوں آپ کا جو حلقہ اثر ہے وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محدود سے محدود تر ہوتا چلا جاتا ہے چونکہ تحرک کو ثبات ہے اسی موضوع کو حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے انداز میں یوں بیان کیا ہے: ’’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔
کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ تیسری اور چوتھی نسل کی فکری اعتبار سے توجہ کا مرکز ہیں اور ان کے خطابات سماعت کرنے والے اور تربیتی نشستوں میں شریک ہونے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے اور یہ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور جن افراد نے آپ سے نظریاتی اور فکری تعلق استوار کیا، وہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود نہ صرف قائم و دائم ہیں بلکہ مضبوط اور پختہ بھی ہیں۔ اس کاآسان اور سادہ سا جواب یہ ہے جسے حکیم الامت نے انتہائی دل پذیر انداز میں بیان فرمایا ہے:
’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن‘‘
حدیث رسولﷺ کے مصداق مومن کاآنے والا کل، گزرے ہوئے کل سے بہتر ہونا چاہیے یعنی جب آپ دوسروں کو دعوتی مساعی اور فکر کے اظہار کے لئے مخاطب کرتے ہیں تو آپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نیا ہونا چاہیے۔ وقت اور الفاظ کے ضیاع سے بچنا چاہیے۔ جب آپ کی مجلس سے کوئی اٹھ کر جائے تو وہ علم و عمل کے اعتبار سے خود کو پہلے سے بہتر محسوس کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ، استاد، عالم ،موٹیویشنل سپیکر گہرا مطالعہ کرے اور اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرے۔ اگر ہم اس ساری گفتگو کو ایک فقرے یا پیرائے میں بیان کریں تو وہ اس طرح سے ہو گا کہ تحقیق اور مطالعہ سے کبھی لاتعلق نہ رہیں۔مطالعہ اور تحقیق سے شعور اور فکر و نظر کو جلا ملتی ہے۔
علمی و فکری رسوخ
جب آپ علم و تحقیق کے نتیجے میں فکری رسوخ حاصل کر لیتے ہیں تو پھر آپ کی زبان اور قلم جاری ہو جاتا ہے۔ پھر بات سے بات، نقطے سے نقطہ، رمز سے رمز نکلتی ہے اور سننے والے کی سماعتوں کو سیراب کرتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے چار دہائیاں قبل کئے جانے والے خطابات سماعت کریں تو آنکھ جھپکنا قدرتی ضرورت نہ ہو تو لوگ کبھی آنکھ نہ جھپکیں۔ چار دہائیاں قبل کئے جانے والے خطابات بھی حالات حاضرہ اور قلبی احوال کی من و عن ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ فصاحت و بلاغت قدرت کا انعام بھی ہے مگر اس نعمت کو چار چاند شب و روز کے مطالعہ اور تحقیق و تالیف سے لگتے ہیں۔ گہرے مطالعے والی شخصیت کی زبان سے کوئی بے ربط لفظ نہیں نکلتا۔
ابلاغ کے آسان ذرائع اور مؤثر استعمال
اب سوال آگیا ابلاغ کا کہ آپ اپنے کام کی تشہیر کیسے کریں؟ فکری پختگی حاصل ہونے کے بعد فی زمانہ بہت سارے میڈیم وجود میں آچکے ہیں جن کو بروئے کار لا کر آپ موثر ابلاغ کر سکتے ہیں۔ ان میں سرفہرست سوشل میڈیا ہے۔ آپ فیس بک پر کسی ایک موضوع کو منتخب کر کے گویا ہو سکتے ہیں۔ یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ اب کسی کے پاس لمبی لمبی تحریریں پڑھنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب ہم کسی سیٹلائٹ چینل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ہمارے ہاتھ کا ریموٹ مسلسل چل رہا ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں ہم ضرور ٹھہرتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ٹھہر کر ہم تادیر کچھ دیکھتے اور سنتے بھی ہیں۔ جو ہماری توجہ حاصل کر لے وہی Quality Contentہوتا ہے۔ اگر ہماری تحریر میں جان ہو گی تو لوگ ضرور رکیں گے اور اسے پڑھیں گے۔ فیس بک کے علاوہ آپ مختلف مجلات، اخبارات کے ادارتی صفحات کے لئے بھی لکھ سکتے ہیں۔ ہر بڑے، چھوٹے اخبار کے ایڈیٹوریل پیج پر ایڈیٹر کی ڈاک کا ایک پورشن ہوتا ہے۔ آپ وہیں سے ای میل نمبر لے کر اپنی نگارشات اس اخبار کو بھجوا سکتے ہیں، آپ کا کوالٹی Quality Contentضرور جگہ بنائے گا۔ مطالعہ کے علاوہ اچھی تحریر کا تعلق مشق سے بھی ہے۔ جب آپ لکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں تو پھر الفاظ آپ کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے ہیں پھر بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے مضمون اور کالم کا پیٹ بھر جاتا ہے یعنی کہ مطالعہ، تحقیق اور مشق ما فی الضمیر کو بیان کرنے کے حوالے سے پہلی زینہ ہے۔
پریس ریلیز کی اہمیت اور طریقہ تحریر
پریس ریلیز مافی الضمیر بیان کرنے کا ایک آسان اور انتہائی موثر ترین ذریعہ اظہار ہے۔ صحافتی زبان میں اسے ہینڈ آؤٹ بھی کہتے ہیں۔ پریس ریلیز حالات حاضرہ سے متعلق کسی ایک موقف پر ضبط تحریر میں لائی جاتی ہے۔بسااوقات اہم اجلاسوں، سیمینارز،سمپوزیم اور ورکشاپس کی مختصر روداد بھی پریس ریلیز کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ یعنی بڑے سے بڑے اجلاس کی مختصر روداد کے لئے پریس ریلیز ایک آسان اور سہل ذریعہ اظہار ہے۔ پریس ریلیز صحافت کی ایک ایسی صنف ہے جس کا استعمال ہر تحریک، جماعت ،سرکاری و غیر سرکاری ادارہ، انسٹی ٹیوشن، کاروباری تنظیمیں، مذہبی تحریکیں روزانہ کی بنیاد پر بروئے کار لاتی ہیں۔ مختصر الفاظ میں مکمل پیغام پریس ریلیز کہلاتا ہے۔
پریس ریلیز تیار کرنا ایک علم نہیں، ایک فن اور مہارت ہے۔ اس مہارت کے ذریعے آپ گھنٹوں پر محیط اجلاسوں کی کارروائی کو ایک صفحہ پراتارتے ہیں اور اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ آپ پریس ریلیز کو جتنا طویل کرتے چلے جائیں گے، آپ اخبارات کے سب ایڈیٹرز کے کام کو اتنا ہی مشکل بناتے چلے جائیں گے اور آپ اپنے اجلاس اور مؤقف کے نفس مضمون کو نقصان پہنچاتے چلے جائیں گے۔ اس لئے پریس ریلیز کو انتہائی مختصر اور جامع بنائیں۔ غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب کریں کیونکہ اخبارات کے صفحات پر شائع ہونے والی خبریں محدود تعداد میں ہوتی ہیں۔ اخبار نے آپ کے موقف کو اپنے صفحہ پر موجود سپیس کے مطابق شائع کرنا ہے اس لئے کوشش کریں کہ پریس ریلیز کی ابتدائی چند لائنوں میں اپنا پورا موقف بیان کر دیں۔ اگر پریس ریلیز کا کوئی حصہ ایڈیٹنگ میں آ کر کٹ جائے تو پھر بھی آپ کا کور میسج شائع ہونا چاہیے۔
پریس ریلیز تیار کرتے وقت 5 باتوں کا خیال رکھا جائے:
نمبر 1 Subject: یعنی آپ کس موضوع پر بات کررہے ہیں اس میں مکمل کلیرٹی ہونی چاہیے۔
نمبر 2 Message: آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
نمبر 3 Objective: آپ پیغام دے کر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں یعنی اس پریس ریلیز کے ذریعے آپ کون سا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، یہ Defineہونا چاہیے۔
نمبر 4 Audience: پریس ریلیز تیار کرتے وقت آپ کو اپنے مخاطبین کے مزاج اور تعلیمی سطح کا علم ہونا چاہیے۔ آپ مشکل اردو یا مشکل انگریزی زبان استعمال کر کے اپنی Audienceسے فاصلے پر چلے جائیں گے چونکہ تھوڑے سے الفاظ کے ساتھ آپ نے مکمل موقف پیش کرنا ہے اس لئے اس کے لئے آسان اور عام فہم زبان استعمال کرنا ہو گی۔
نمبر5 Content: یعنی انداز تحریر ۔ پریس ریلیز کی زبان اور دیگر صفحات کے Content میں تفریق لازم ہے۔ جب آپ کسی اخبار کے لئے آرٹیکل لکھیں گے تو اس کے لئے زبان کا انتہائی شستہ ہونا ضروری ہے اور آرٹیکل لکھتے ہوئے آپ کو عامیانہ الفاظ سے اجتناب کرنا ہوگا مگر جب آپ پریس ریلیز لکھ رہے ہوں گے تو زبان آسان فہم استعمال کرنا ہو گی چونکہ پریس ریلیز کے پڑھنے والوں میں خواندہ اور نیم خواندہ سبھی شامل ہوتے ہیں۔
پریس ریلیز تیار کرنے کی مشق
’’(1) منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام 39ویں عالمی میلاد کانفرنس 26 اکتوبر کو ہو گی۔ (2) عالمی میلاد کانفرنس مینار پاکستان لاہور کے سبزہ زار میں ہو گی۔ (3) عالمی میلاد کانفرنس میں مختلف مکتب فکر کے جید علماء، سماجی و کاروباری شخصیات بڑی تعداد میں شرکت کریں گی۔ (4) کانفرنس میں بچوں، خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہوگی۔ (5) خواتین اور بچوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام کیا گیا ہے۔ (6) عالمی میلاد کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خصوصی خطاب کریں گے۔ (7) عشق مصطفیٰ ﷺ کے فروغ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اپنے حبی و قلبی تعلق کو مستحکم بنانے کے لئے اس ایمان افروز کانفرنس میں شرکت کریں۔‘‘
اس پریس ریلیز کا پہلا فقرہ سبجیکٹ ہے یعنی ہمارا موضوع کیا ہے عالمی میلاد کانفرنس۔ اب عالمی میلاد کانفرنس کے مقام کا تعین کر کے پڑھنے والوں کے لئے آسانی پیداکی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں مذہبی و سماجی تحریکیں عموماً ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں جس تک پہنچنا عامۃ الناس کے لئے آسان ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا حصہ میسج ہے کہ اس میں بھرپور شرکت کریں کیونکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خطاب کررہے ہیں اور اس کے مخاطب Audienceمذہبی لوگ ہیں تو اس کے لئے عشق مصطفیﷺ، قلبی و حبی تعلق کے الفاظ مذہبی لوگوں کے لئے باعث کشش ہوں گے۔
پریس ریلیز کے 3 اہم نکات
پریس ریلیز کو بھی ہم تین حصوں میں تقسیم کریں گے: اس کا پہلا حصہ ہیڈ لائن پر مشتمل ہو گا یعنی ہیڈ لائن میں نفس مضمون سمونا ہی اصل مہارت اور کامیابی ہے جیسا کہ پریس ریلیز میں ہم نے پہلا جملہ لکھا ’’منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام 39ویں عالمی میلاد کانفرنس 8اکتوبر کو ہو گی‘‘ اب اس ایک ہیڈ لائن میں ہم نے اپنا مقصد بیان کر دیا۔ دوسر احصہ ہیڈلائن سے قدرے طویل ہوگا۔ دوسرے حصے میں ہم لکھیں گے۔ ’’کانفرنس مینار پاکستان ہو گی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خصوصی خطاب کریں گے۔‘‘عملاً ہم نے اپنی غرض و غایت بیان کر دی، اس کے بعد مختصر تفصیل کا آغاز ہوگا: ’’خواتین اور بچوں کے لئے بیٹھنے کا الگ انتظام ہو گا، مختلف اہم شخصیات شرکت کریں گی، اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے اس کانفرنس میں شرکت کریں۔‘‘ اب یہ تفصیل ہے۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر اپنے صفحے پر کم گنجائش کے باعث تفصیل کاٹ بھی دے تو پھر بھی ہمارا کور میسج ابتدائی تین ،چار لائنوں میں جا چکا ہے۔ تو حاصل کلام اختصار ہے۔
درج بالا بحث میں عملی مشاہدات پر بحث کی گئی ہے اگرچہ خبر کے اجزاء اس کی ترکیب اور انداز تحریر کے حوالے سے ٹیکسٹ بک میں مختلف اندازمیں تکنیکی مواد دستیاب ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ فنی و تکنیکی بحث اتنی طوالت اختیار کر لیتی ہے کہ خبر کی آسان تیاری کا طریقہ کار مسئلہ بن جاتا ہے۔
تحریر و تقریر کی اخلاقیات
تحریر ہو یا تقریر اس کے اخلاقی پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لئے سورۃ الحجرات سے استفادہ ناگزیر ہے۔ سورۃ الحجرات میں اظہار بیان اور تحریر و تقریر کے ابدی اصول بیان کر دئیے گئے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہم ان راہ نما اصولوں سے نہیں ہٹ سکتے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ رب العزت نے بڑی فصاحت اور صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے کہ سنی سنائی بات کو آگے مت پھیلاؤ، صلح کروانے والے بنو، لڑائی کروانے والے نہ بنو ، تمہاری غیر تصدیق شدہ اطلاع سے کوئی قوم کسی قوم کو نقصان نہ پہنچا دے، کسی کے الٹے سیدھے نام مت رکھو، خواہ مخواہ جاسوسی نہ کرو یعنی چادر اور چار دیواری میں دخل مت دو، الزام تراشی، غیبت سے اجتناب کرو۔ اللہ رب العزت ہمیں ایک سچا اور اچھا انسان اور مسلمان بننے کی توفیق دے۔