اﷲ رب العزت کی سنت ہے کہ کسی بھی معاملے یا کسی بھی بات کو سمجھانے کے لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز کی مثال بھی بیان فرما دیتا ہے تاکہ ہم جیسے ناقص ذہنوں میں بات کا مفہوم واضح ہو کر وحی کا مدعا پورا ہو جائے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے مکھی اور مچھر تک کی مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.
(البقرة، 2 : 26)
’’بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لیے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو۔‘‘
آج اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک مثال کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو ہر روز ہماری نگاہوں میں رہتی ہے۔ اسے ہم استعمال بھی کرتے ہیں اور اس سے زندگی کے سفر اور اس کے تسلسل کو بھی قائم رکھتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے لیکن اس پر ہم نے کبھی اُس طرح غور نہیں کیا جس طرح کہ ہمیں کرنا چاہئے۔
قرآن پاک میں کئی مقامات پر اﷲ رب العزت اپنی تخلیق اور قدرت کے حوالے سے نشانیوں کا تذکرہ فرما کر ہمارے ذہنوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہم ان نشانیوں اور تخلیقات پر غور کر کے اپنی زندگی کے مقصد اور اپنے رستے کا تعین کر سکیں۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 164 میں فرمایا :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ...
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں۔۔۔‘‘
اللہ رب العزت نے جس طرح ان جہازوں کا تذکرہ فرمایا جو پانی پر نفع پہنچانے والی چیزوں کو لے کر چلتے ہیں، اسی قرآنی مثال سے ہی اکتساب فیض کرتے ہوئے ہم آج کے دور میں کثرت سے استعمال ہونے والے ذریعہ آمد و رفت ریل گاڑی (Train) کی مثال لیتے ہیں جس پر ہمارے مواصلاتی نظام کا بہت زیادہ انحصار ہے۔
اس کی داستان کچھ یوں ہے کہ ہر ٹرین کے لیے ایک اسٹیشن ہوتا ہے جو ریلوے اسٹیشن کہلاتا ہے۔ ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں پر آ کر ٹرین رکتی ہے۔ اگر بڑا ریلوے اسٹیشن ہو تو وہاں کئی پلیٹ فارم ہوتے ہیں، وہاں سے مختلف سمتوں میں ریل گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں۔ جیسے لاہور کا ریلوے اسٹیشن کافی بڑا ہے جہاں پر دس بارہ پلیٹ فارمز ہیں۔ وہاں سے ریل گاڑیاں مختلف سمتوں میں روانہ ہوتی ہیں اور ہر ٹرین کی منزل جدا ہوتی ہے۔ اب اگر ہم اس ریلوے اسٹیشن کے نظام اور ٹرین اور پلیٹ فارم کی مثالوں پر ذرا غور کریں تو ہم اپنے حالات کو سمجھنے اور خصوصاً تحریکی زندگی میں اپنی راہ کے تعین اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لیے بہترین سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اس نظام کو سمجھ لیں تو ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور نبھانے میں بہت مدد ملے گی۔ یہاں یہ ذہین نشین رہے کہ trains کیا ہیں اور مسافر کون ہیں تاکہ تمثیل کا اطلاق بھی ساتھ ساتھ واضح ہوتا جائے۔
Trains دراصل جماعتیں، تنظیمات اور کام کرنے والے گروہ ہیں جو مختلف سمتوں اور مختلف منزلوں کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن ہماری زندگی کا وہ پلیٹ فارم ہے جس پر ہر شخص پیدا ہو کر آتا ہے اور پھر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔
منزل، راستے اور مسافر
کسی ریلوے اسٹیشن پر تین قسم کے مسافر ہوا کرتے ہیں :
1۔ ایک وہ طبقہ ہوتا ہے جو چلنے سے پہلے اپنا ہوم ورک کر کے آتا ہے کہ اس کی منزل کیا ہے اور اس منزل کو پانے کے لیے اس نے کون سا روٹ لینا ہے۔ کس راستے پر جانے والی اور کس نوعیت کی ٹرین میں بیٹھنا ہے۔ کیونکہ یہ ریل گاڑیاں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں مثلاً passenger trains، fast یا ultra fast، express trains یا non-stop trains وغیرہ۔
مسافروں کے اس طبقہ کو اپنی منزل کی خبر ہے اور اس منزل تک پہنچنے کا وسیلہ بھی معلوم ہے۔ وہ تمام طریقہ ہائے کار اور ضروریاتِ سفر سے با خبر ہوتے ہیں اور اسٹیشن پر آ کر اپنے سفر کے بنیادی لوازمات پورے کر لیتے ہیں، مثلاً ٹکٹ خرید لیتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں ساتھ رکھ لیتے ہیں، بالآخر جس راستے کی انہیں خبر ہوتی ہے اس ٹرین پرسوار ہو جاتے ہیں۔ گویا اس طبقہ پر اﷲ کا انعام ہوتا ہے، انہیں اپنی منزل کی بھی خبر ہوتی ہے اور اپنے راستے کی بھی خبر بھی ہوتی ہے۔
2۔ مسافروں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جنہیں منزل کی تو خبر ہے مگر راستے کی خبر نہیں ہوتی کہ کس راستے پر جا کر ہم منزل کو پا سکتے ہیں۔ انہیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ کون سی ٹرین انہیں اپنی منزل تک لے جائے گی۔ پشاور لے جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے تو وہ منزل تک لے جائے گی یا کوئٹہ یا پھر کسی دوسرے شہر کو جانے والی ٹرین انہیں منزل تک لے جائے گی۔ یعنی انہیں روٹ کی خبر نہیں، بس منزل کا پتہ ہوتا ہے۔ اس دوسرے طبقے کو یقینا دشواری ہوتی ہے مگر وہ اسٹیشن پر موجود دوسرے مسافروں سے یا انفارمیشن ڈیسک سے سے معلوم کرتے ہیں کہ منزل ہماری یہ ہے، اب تم ہی بتاؤ کہ کون سے راستے پر جانے والی ٹرین پر ہم سوار ہو جائیں۔ گویا اس دوسرا طبقہ کو اﷲ نے منزل کی خبر دی ہے اور پوری سوجھ بوجھ سے نوازا ہے کہ وہ کسی سمجھ دار شخص سے معلوم کر لیتے ہیں اور صحیح سمت میں جانے والی ٹرین پر سوار ہو جاتے ہیں۔
3۔ اب ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جنہیں منزل کی خبر ہے نہ راستے کا پتہ ہے۔ وہ دنیا میں پیدا تو ہو جاتے ہیں مگر بھٹکتے رہتے ہیں۔ وہ confuse رہتے ہیں کہ ان کے جینے کا مقصد اور ان کی منزل کیا ہے؟ ان کی پہچان کیا ہے؟ انہوں نے زندہ رہ کر کرنا کیا ہے؟ انہوں نے دین دار بننا ہے یا دنیا دار بننا ہے؟ ان کی منزل واشنگٹن ہے یا مدینہ اور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ ان کی منزل مغربی تعلیمات ہیں یا اسلامی تعلیمات ہیں؟ اس تیسرے طبقے کو ان سوالوں کا ادراک ہوتا ہے نہ ان کے جوابوں کی خبر۔ چنانچہ وہ یوں ہی بھٹکتے پھرتے ہیں۔ مگر وہ پیدا ہو کر زندگی کے اس ریلوے اسٹیشن پر آ جاتے ہیں۔ یہ وہ اہم مقام ہے جہاں ان کی مدد کرنا تحریک منہاج القرآن کے ہر ہر کارکن اور قائد کی ذمہ داری ہے۔ اس زندگی کے پلیٹ فارم پر بھٹکتے ہوئے لوگوں کو منزل کی خبر دینا، راستے کا تعین کرنا اور ان بھٹکتے ہوئے لوگوں کو اپنے ساتھ شریک سفر بھی کرنا یہ تحریک منہاج القرآن کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے آواز بلند کی، اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کی دعوت دی اور تجدید دین، احیائے اسلام اور اصلاح احوال کے لئے ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کی منزل کا شعور دیا۔ اس سفر میں ٹرین میں سفر کرنے والے پہلے قسم کی مسافروں کی طرح (جنہیں راستہ منزل، تقاضے اور لوازمات تک کی خبر تھی) وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں اﷲ رب العزت کے فضل و کرم سے بہت بلند منزل کی خبر ہو گئی اور راستے کا پتا بھی چل گیا۔
اس ٹرین پر ایک ایسا طبقہ بھی ہے جن تک آپ براہ راست نہیں پہنچتے۔ اس عدم رسائی کی متعدد وجوہات ہیں۔ مگر ان تک تحریک منہاج القرآن کی آواز اور اس کا فلسفہ انقلاب CD کے ذریعے پہنچتا ہے۔ ان تک حضرت شیخ الاسلام کی فکر میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہے اور وہ خود پوچھتے پوچھتے آپ تک آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ساتھ شریک سفر کر لو۔ اور یوں تحریک منہاج القرآن کی ٹرین پر وہ آپ کے ہم سفر ہو جاتے ہیں۔ اس میں ہمارا اور آپ کا کوئی کمال نہیں ہے۔ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے پہلے آپ پر کرم فرمایا اور آپ کو منزل کی خبر بھی ملی اور راستے کی خبر بھی ملی۔ یہ دوسرا طبقہ ہے جو خود کچھ سن کر آپ تک پہنچا اور کہنے لگا کہ میری منزل مدینہ ہے۔ آپ بتائیں کون سا راستہ مدینہ کی طرف لے جاتا ہے۔ آپ نے کہا ہاں ہم بھی حضرت شیخ الاسلام کی قیادت میں تاجدار مدینہ کی طرف جا رہے ہیں، ہمارے ہم سفر ہو جاؤ، یہ راستہ مدینہ لے جائے گا۔
اب تیسرا طبقہ کون سا ہے؟ یہ وہ طبقہ ہے جس پر آپ نے اور ہم سب نے کام کرنا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جنہیں منزل کی خبر بھی نہیں ہے اور راستے کا پتہ بھی نہیں ہے۔ ان تک خبر کو پہنچا نا ہے، انہیں منزل کا شعور دینا ہے اور یہ بتانا ہے کہ تمہاری منزل نہ تو مغربی افکار ہیں نہ آج کا فرسودہ نظام سیاست اور بدعنوان حکمران؛ تمہاری منزل فحاشی پر مبنی نظام ہے نہ مغربی تعلیمات اور نہ ہی تمہاری منزل مغرب کے قائدین اور سپہ سالار ہیں۔ تمہاری منزل صرف اور صرف گنبد خضریٰ ہے۔ اگر کوئی تمہیں اس منزل تک پہنچانے کی خبر رکھتا ہے تو وہ حضرت شیخ الاسلام ہیں۔ اِس راستے اور منزل کے بارے میں انہیں ہم نے بتانا ہے کہ آج کے پرفتن دور میں تحریک منہاج القرآن ہی وہ ٹرین ہے جو صحیح راستے سے گنبد خضری کی طرف لے جاتی ہے۔
داعی پر اعتماد کی بنیادیں
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن بھٹکتے مسافروں کو آپ صحیح راستے اور منزل کی خبر دیں تو وہ آپ کے ساتھ کیوں چلیں اور آپ پر کیوں اعتماد کریں؟ اس سٹیشن پر دیگر جماعتوں کے نمائندگان بھی موجود ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی ریل گاڑی کی مارکیٹنگ کرتا پھرتا ہے۔ ہر کوئی اپنی گاڑی کو بہترین قرار دیتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ میری ٹرین پر سوار ہو جاؤ، یہ تمہیں جلد درست منزل کی طرف لے جائے گی۔ دوسری طرف یہاں دنیا اور شیطان کے نمائندے بھی موجود ہیں اور وہ بھی اپنا کام اندھا دھند کرتے ہیں۔ وہ اپنی ٹرین پر سوار ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ کیوں چلے؟ کوئی بھٹکتا ہوا شخص آپ کی ٹرین پر کیوں سوار ہو؟ اس کو اپنی طرف بلانے کی ترغیب دینے کے لیے ہمارے اندر کچھ ہونا چاہیے تاکہ جس کو پیغام دیا جا رہا ہے اس کا دل چاہے کہ وہ ہم پر اعتماد کر لے اور ہمارے ساتھ شریک سفر ہو جائے۔ اس کے لیے درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے :
1۔ کردار کی عمدگی
سب سے پہلی چیز دعوت دینے والے کی perfection ہے کہ وہ کیسے دعوت دیتا ہے؛ اس کا عمل کیسا ہے کہ سننے والا اس کی زبان پر اعتماد کرے، اگر وہ دنیا دار معلوم ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹرین ہماری دین کے سفر پر جاتی ہے تو کوئی کیا اعتبار کرے گا۔ کوئی ہمارے کردار میں بھی جھانک کر دیکھے اور کردار گندا معلوم ہو تو وہ کیوں ہماری زبان پر اعتماد کرے گا اور اگر کوئی ہماری چلتی ہوئی ٹرین میں جھانک کر دیکھے اور ہر دم اسے آپس میں لڑتے ہوئے لوگ نظر آئیں تو وہ کیوں اس ٹرین میں سوار ہو گا کہ اس ٹرین پر سوار لوگ تو خود ایک دوسرے کی جان کے درپے معلوم ہوتے ہیں، یہ کیسے ہمیں بحفاظت منزل تک پہنچائیں گے۔ تو یہ سارا معاملہ صرف presentation کا ہے۔ جب دعوت دیں تو اس سے قبل کامل دعوت آپ کے لہو میں سرایت کر چکی ہو، جو دعوت دینے جا رہے ہیں وہ دعوت آپ کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہو تو پھر وہ دعوت اثر رکھتی ہے۔ ٹرین جس سمت لے جا رہی ہے تو دیکھنے والا یہ کہے کہ ہاں یہ اسی راستے کے مسافر لگتے ہیں۔ یہ مدینہ کے راستے کے مسافر ہی لگتے ہیں۔ لیکن اگر ہماری طبیعتوں میں لالچ نظر آئے، دنیا کا لالچ ہو، دولت کی ہوس ہو، زر کی بھوک ہو تو دیکھنے والا ضرور سوچے گا کہ یہ تاجدار مدینہ کی منزل تک کیسے لے جائیں گے۔ انہیں تو خود بھی رسائی میسر نہیں ہے۔ رسائی ہوتی تو ایسے نہ ہوتے۔ ایک کارکن ہونے کی حیثیت سے ہم میں سے ہر شخص اپنے حال کو دیکھے کہ وہ دعوت کے معیار پر کس حد تک پورا اترتا ہے۔ یہاں تو سب لوگ داعی ہیں۔ دعوت دین ہے تو دعوت دینے والے کی presentation سے شناسائی ہونی چاہئے اور presentation تو ظاہر و باطن کا معاملہ ہے۔ داعی کے اندر کی کیفیات نیت اور ارادہ اور ان کا اس کے عمل کے ذریعے سے کامل اظہار ہونا چاہیے۔ اسے کردار کی عمدگی اور محاسن اخلاق سے مزین ہونا چاہیے، ظاہر و باطن میں یکسانیت اور یک رنگی ہونی چاہیے تاکہ زبان اور دعوت میں تاثیر پیدا ہو اور بھٹکتے ہوئے مسافر آپ کی ٹرین پر سوار ہونے کے لیے فورا تیار ہو جائیں۔
2۔ شعورِ منزل
اب دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ اب سمت کی بات ہے۔ کوئی ٹرین اِس سمت جاتی ہے کوئی اُس سمت جاتی ہے لیکن جو مسافر اس دنیا کے اسٹیشن پر آتا ہے اس کی منزلیں دو چار پانچ نہیں ہو سکتیں۔ مسافر کی منزل ایک ہی ہوا کرتی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ مسافر پہلے کوئٹہ کی طرف چلے اور پھر راستے میں اتر کر پشاور کی طرف چل پڑے اور آدھے راستے میں اتر کر کراچی کی ٹرین پکڑ لے۔ ایسا مسافر ساری زندگی بیل کی طرح اسٹیشن کے گرد گھومتا رہے گا لیکن کہیں کا سفر طے نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا یک سو ہو جانا ضروری ہے۔ پہلے ایک منزل یا سمت کا تعین کرے تاکہ اس سمت جانے والی ٹرین پر سوار ہو سکے۔
3۔ ٹرین اور راستہ
ٹرین کی مثال بس یا گاڑی کی نہیں ہے کہ جہاں دل چاہا موڑ لی۔ یہ ٹرینز طے شدہ tracks پر چلتی ہیں۔ اگر track سے اترنے کی کوشش کی جائے تو ٹرینیں تباہ ہو جایا کرتی ہیں۔ نیز ٹرین کے ساتھ ڈبے جڑے ہوتے ہیں۔ تحریکی زندگی میں اس کی مثال ایسے ہے جیسے ہماری تنظیمات ہیں۔ کہیں یوتھ لیگ ہے، کہیں ایم ایس ایم ہے۔ کہیں ویمن لیگ ہے، کہیں دعوت کا فورم ہے، کہیں تربیت کا فورم ہے۔ ہر ہر نظامت اور تنظیم ایک ڈبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹرین کو دیکھیں تو سب ڈبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور منسلک ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بندہ اپنے آپ کو ٹرین سے یا کسی ڈبے سے جدا کرنا چاہے تو کسی کے جدا ہونے سے ٹرین کا سفر نہیں رکتا، اس کی قیادت اس ٹرین کو تیزی کے ساتھ منزل کی طرف لے جا رہی ہے اور وہ عطا کردہ track پر چل رہی ہے اور نہ اس کی رفتار کو کوئی ڈبہ متاثر کر سکتا ہے۔ اس ٹرین نے منزل تک پہنچنا ہے کیونکہ یہ لکھ دیا گیا ہے۔ وہ تمام ڈبے یعنی تنظیمات منزل تک تب پہنچیں گی اگر وہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں گی۔ ڈبے ایک دوسرے سے لڑا نہیں کرتے، وہ coordination میں رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر چلتے ہیں تو منزل تک سفر طے ہوتا ہے۔ جب منزل بھی ایک ہے، اس منزل کی جانب لے کر جانے والی قیادت بھی ایک ہے، وہ ٹرین بھی ایک ہے جو منزل کی طرف لے جا رہی ہے تو مشکلات کو عبور کرتے ہوئے اختلافات کو بھلا کر ہمیں اپنا سفر طے کرتے رہنا چاہیے کیوں کہ اس ٹرین نے تو اﷲ کے حکم سے منزل تک پہنچنا ہے۔ اس کی رفتار کو کوئی متاثر نہیں کر سکتا۔ ہم صرف اپنے لیے مشکل بناتے ہیں۔ لہٰذا کوآرڈینیشن ضروری ہے۔
4۔ ذِمہ داری کا شعور
جو کام بڑے نہیں کر سکتے وہ کھلے دل سے چھوٹوں کو دے دیں۔ جو چھوٹے نہیں کر سکتے وہ بڑوں کو دے دیں۔ اگرکسی میں کسی صلاحیت کی کمی ہو تو اس میں شرمانے کی کیا بات ہے! اگر وہ دل سے اظہار کر دے کہ یہ کام میرے بس سے باہر ہے اور وہ کسی باصلاحیت کو اس کام کے لیے آگے کر دے تو اس کی زیادہ عزت ہے۔ قرآن مجید اس کا گواہ ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ رب العزت نے جب تبلیغ کی ذمہ داری سونپی تو ان کی شخصیت تھی، فضیلت بھی تھی مگر آپ نے کھلے الفاظ میں اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اظہار کیا جیسا کہ قرآن حکیم میں مذکور ہے :
وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَى هَارُونَo
(الشعراء، 26 : 13)
’’اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ ہو جاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے)o‘‘
سیدنا موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ مولا! مجھ میں زبان کے لحاظ سے اتنی فصاحت نہیں ہے لہٰذا تبلیغ رسالت کے اس عظیم فریضہ کی ادائیگی میں میرے ساتھ میرا بھائی ہارون بھی کھڑا کر دے۔ اب سیدنا ہارون علیہ السلام نے وہ ذمہ داری سنبھالی تو کیا اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت حضرت ہارون علیہ السلام کے نام منسوب ہو گئی؟ شریعت تو موسیٰ علیہ السلام کی ہے، فضیلت بھی موسیٰ علیہ السلام کی ہے، عظمت بھی موسیٰ علیہ السلام کی ہے لیکن اس میں عظمت زیادہ ہے۔ مگر ہم لوگ انا کی وجہ سے جھوٹی عزت کا خول بنا کر اس میں اپنے آپ کو قید کر لیتے ہیں۔ اگر اپنے سے زیادہ باصلاحیت کسی دوسرے کا نام لے لیتے تو کام بہتر انداز میں انجام پا جاتا۔ لیکن ہم نے اپنی ذمہ داری کے ساتھ بددیانتی کی، اپنی جھوٹی عزت کی خاطر تحریک کا کام اپنی کم صلاحیت کے باوجود اپنے پاس رکھا اور تحریک کے کام کو نقصان پہنچنے دیا تاکہ جھوٹی عزت سلامت رہے مگر کوئی یہ نہ کہے کہ اس میں یہ کمی ہے۔ اگر وہ کمی تسلیم کر کے اس کے حق دار شخص کو آگے کر دیا جاتا تو اﷲ رب العزت کا زیادہ محبوب ہوتا کہ اس نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ یہ بڑی بات تھی۔ اسی کو ذمہ د اری کا شعور کہتے ہیں جو کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے اور حصول نتائج کا سرچشمہ بھی۔
خوش گوار تنظیمی سفر
سفر جاری و ساری ہے، ڈبے ہیں اور ایک main قیادت ہے جو اس ٹرین کو آگے لے جا رہی ہے۔ اب ہر ڈبے میں مقامی انتظامیہ بھی ہوا کرتی ہے جو کوئی مسلہ ہو جائے تو اسے حل کرتی ہے۔ منزل ایک ہے، قیادت ایک ہے۔ سب کے دل کا درد مشترکہ ہے۔ سب نے ایک سمت جانا ہے۔ اب یہ لوکل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفر کو خوشگوار بنائے۔ اگر مسافر انتظامیہ سے لڑ جھگڑ کر سفر کرے گا تو وہ سفر خوشگوار نہ گزرے گا۔
ایک بات یہ ذہن نشین کر لی جائے کہ ٹرین کے ڈبوں میں کوئی مسافر یعنی فورمز اور کارکن کے آپس میں چھوٹی موٹی لڑائیوں سے ٹرین رکتی نہیں، اس نے چلتے رہنا ہے۔ اگر خوشگوار ماحول میں سفر گزاریں گے تو اچھا سفر کٹے گا اور اگر جھگڑتے رہیں گے تو اس سے ٹرین اور اس کی رفتار یا قیادت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن آپ اپنا سفر مشکل میں گزاریں گے اور آسودگی سے طے نہیں کر پائیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ لامحالہ کسی ایک دو کو ٹرین سے اترنا پڑے گا۔ اِس ذہنی اِنتشار اور اُلجھاؤ کے ذِمے دار یا آپ ہوں گے یا مقامی اِنتظامیہ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر ہم سفر خوش گوار گزاریں گے، اخلاص کے ساتھ گزاریں گے تو اس کا فائدہ بھی ہمیں ہے نہ کہ ٹرین یا اس کی قیادت کو ہے۔ یہ شبہ بھی اذہان سے نکال دینا چاہیے کہ اگلی پچھلی سیٹوں سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ سب سیٹیں برابر ہوتی ہیں اور سب نے ہی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔ کوئی اگلے ڈبے میں سوار ہو یا پچھلے ڈبے میں سوار ہو، جانا تو سب نے ایک ہی منزل کی طرف ہے، لہٰذا یہ سب باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور ایسے تمام شکوک و شبہات شیطانی حربے ہوتے ہیں جو داعی کی توجہ اصل مقصود سے ہٹا کر دوسری طرف مبذول کرانے کی ناپاک کوشش ہوتی ہے۔ اندریں حالات ہمیں چاہیے کہ ہم ان شیطانی چالوں کو سمجھیں اور روانی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں تاکہ بغیر کسی رکاوٹ کے جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ اخلاص، محبت، ایمان داری، تواضع کے ساتھ اگر سفر کیا جائے تو سب کو سفر میں فائدہ اور آسانی رہتی ہے۔
یقین کامل، کامیاب سفر کی شرطِ اولین
اگر ٹرین میں سوار کسی شخص کو یہ یقین نہ ہو کہ ٹرین منزل تک پہنچے گی یا نہیں تو کیا وہ شخص ٹرین پر سوار رہتا ہے یا اتر کر کوئی اور ٹرین تلاش کرتا ہے؟ وہ یقینا اتر جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو یہ شک ہو جائے کہ یہ ٹرین آگے کسی تصادم کا شکار ہونے والی ہے، اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے کیا وہ اس ٹرین پر سوار رہے گا یا اتر جائے گا؟
ہر اس شخص کے لیے جس کے ذہن میں وساوس پیدا ہوتے ہوں وہ اپنا ذہن صاف کر لے۔ اگر اس کو یقین نہ ہو کہ یہ ٹرین اسے گنبد خضریٰ تک لے جائے گی یا اسے اپنی قیادت پر یقین نہ ہو یا اسے قیادت کے فیصلوں پر یقین نہ ہو تو اس کے لیے راست اقدام یہی ہے کہ وہ اسی وقت ٹرین سے اتر جائے۔ اپنی زندگی کو مشکل میں نہ ڈالے لیکن اگر اس ٹرین پر سفر جاری رکھنا ہے تو پھر ایمان کی کیفیت یہی رہنی چاہئے کہ یہ ٹریک درست ہے، ٹرین کو چلانے والی قیادت بھی درست ہے، یہ ٹرین گنبد خضری کو جاتی ہے یہ ٹرین صحیح سمت جا رہی ہے۔ اس پر ایمان رہے تو پھر وہ اس پر سوار رہے۔ اگر وہ پریشان ہو، سوار ہو کر بھی مشکل کی باتیں کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بھی پریشان کرتا ہے اور اپنے ساتھ ہم سفر لوگوں کو بھی مشکل میں ڈالتا ہے کہ یہ ٹرین شاید منزل تک نہیں پہنچے گی۔ اس کی شاید سمت غلط ہے، اس کی رفتار کم ہے، اس کی رفتار زیادہ ہے، اسے دن میں نکلنا چاہئے تھا، اسے رات میں نکلنا چاہئے تھا۔ یہ اس ٹریک پر جاتی تو بہتر سفر طے کرتی۔ ایسی باتیں کر کے اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالے گا اور اپنے ہم سفر لوگوں کو بھی پریشان کرے گا اور کسی شخص کو اپنے ہم سفر لوگوں کو پریشان کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر کوئی اس وقت پریشان ہے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اتر جائے لیکن اگر سوار رہنا ہے تو یقین کی کیفیت کے ساتھ!
یہاں ایک بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ منزل کے راستے میں کئی اسٹیشن آتے ہیں۔ وہ اسٹیشن کیا ہیں؟ وہ مختلف ادوار اور زمانے ہیں۔ کوئی کسی اسٹیشن سے چڑھتا ہے تو کسی کا سفر اتنا ہی لکھا ہوتا ہے وہ اگلے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے۔ اس اسٹیشن سے کچھ نئے لوگ چڑھ جاتے ہیں اور وہ کچھ سفر طے کرتے ہیں لیکن نہ کوئی مسافر اس ڈبے میں لگی کرسی اپنے ساتھ لاتا ہے نہ کوئی مسافر اس ڈبے میں لگی کرسی باہر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ وہ کرسیاں اس ٹرین کی ہیں، اس compartment کی ہیں، اس قیادت کی ہیں جس کی وہ ٹرین ہے اور ہر کسی کا ایک سفر لکھا ہوا ہے وہ اس سے زیادہ سفر نہیں کر سکتا؛ نہ کوئی کسی کرسی پر اجارہ داری رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ کرسی کسی مسافر کی نہیں ہے۔ ایک وقت آنا ہے کہ اس کو اُتر جانا ہے۔ اس کا حق صرف اتنا ہے کہ اسے جتنے وقت کے لیے وہ کرسی دی گئی ہے وہ اس کے ساتھ انصاف کرے اس کا مالک بن کر بیٹھنے کی جرات نہ کرے۔ ہمارا سلسلہ تو یہ ہوتا ہے کہ نئے آنے والے کو اس کرسی پر نہیں بیٹھنے دینا، یہ تو میری کرسی ہے۔ یہ بالکل غلط اور مشن مخالف طرز عمل ہے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اگلے اسٹیشن سے جو نیا ہم سفر آئے اس سے دوستی کر لے اور اس کو اپنے ساتھ چلائے تاکہ سفر خوش گوار گزرے۔
تحریکی فکر سے مکمل شناسائی
جب لمبے سفر پر نکلتے ہیں تو کیا خالی ہاتھ بغیر تیاری کے چل پڑتے ہیں یا پوری تیاری کر کے نکلتے ہیں؟ یہ انسانی سرشت میں ہے کہ جب لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو کچھ سامان ساتھ لے کر نکلتا ہے، راستے کے لیے کھانا اور کچھ رقم وغیرہ لے کر نکلتا ہے۔ کئی دن کا سفر ہے تو کپڑے بھی ساتھ لے لیتا ہے۔ جب کہ ایک ہم ہیں! خبر بھی ہے کہ منزل دور ہے، سفر لمبا اور مشکل ہے۔ پھر بھی گھروں سے بغیر تیاری کے نکل پڑتے ہیں۔ زادِ راہ ساتھ نہیں ہوتا۔ تحریکی زندگی کا زادِ راہ کیا ہے؟ یہ شیخ کی محبت ہے تحریک اور فکر کی پختگی ہے، تحریک سے وفا ہے، تحریک کی قیادت سے وفا ہے، تحریک کے پیغام کا جاننا ہے، تحریک کی فکر و نظر سے شناسائی ہے جس سے عمل میں پختگی ہے۔ ارادے میں پختگی ہے۔ یہ سب گنبد خضریٰ تک جانے کے لیے اور تحریک منہاج القرآن اور اس کی ٹرین پر سوار ہونے کے لیے زادِ راہ ہے۔
سفر کی تکمیل کے لیے چند باتیں ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں۔ سفر جب لمبا ہوتا ہے تو تیاری کے ساتھ نکلتے ہیں۔ تحریکی، فکری اور شعوری فروغ کے لیے کچھ تیاری ضروری ہے۔ اس کے لیے آپ کا مرکز مختلف جگہوں پر تربیتی کیمپ منعقد کرتا ہے جن میں اس سفر کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ تحصیلی و ضلعی سطح پر اور ان سے بھی زیریں و بالائی ہر سطح پر کوشش کرنی چاہئے کہ اس تیاری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جائے۔ اور شرکاء ان تربیتی کیمپس سے استفادہ کر سکیں۔ جہاں تربیتی ورکشاپس نہیں ہو رہیں وہاں تربیتی مواد، جذبہ اور رغبت اور دیگر اہم انسانی اور مادی وسائل (human and material resources) فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی ہمارے ساتھ کیوں چلے؟ ہم نے اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ قائدانہ صلاحیتیں اپنے اندر موجود ہوں۔ اگر ہم اچھے ورکر بن جائیں تو خود بخود اﷲ قائد بنا دے گا۔ ورکر بنے بغیر قائد بننے کی کوشش کچھ نہیں دیتی۔ دنیا میں انسان عزت مانگتا رہے تو اسے عزت نہیں ملتی لیکن اگر وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائے تو اﷲ اس کا سر خود اٹھا دیتا ہے۔ سجدہ ریزی سے عزت ملتی ہے۔ سر اٹھانے کا کام اﷲ پر چھوڑ دیا کریں۔ محنت اور استقامت کے ساتھ خدمت دین جاری رکھیں اور انعام اﷲ پر چھوڑ دیں۔ پھر ہر کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ داعی بن جائے۔ اگر کسی مسافر کو اپنا ہم سفر کرنا ہے تو دل میں محبت رکھیں تاکہ اسے صحیح گائیڈ کر سکیں اور اپنے ساتھ لے کر چل سکیں۔ جب ہم سب اس قابل بن جائیں گے تو دوسرے لوگ ہمارے ساتھ چلیں گے۔ اس کے لیے ہر کارکن کو داعی بننا ضروری ہے۔ اس کے لیے جو ٹریننگ کیمپس اور ورکشاپس کرائی جاتی ہیں ان میں اپنی شرکت کو لازمی بنائیں اور ان میں ہونے والی سرگرمیوں و تربیتی سیشنز سے بھرپور استفادہ کرنا ہماری زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
منزل ایک ہے۔ اگر ڈبے آپس میں تعاون نہیں کریں گے تو مشکل ہو جائے گی۔ باہمی تعاون (coordination) ضروری ہے۔ اور یہ تعاون horizontal اور vertical ہر دو سطحوں پر ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہے۔ ہر فورم پر اگر ٹاؤن کی تنظیم ہے تو ان کی آپس میں horizontal کوآرڈی نیشن تو ہے لیکن نچلی سطح پر vertical کوآرڈی نیشن نہیں ہے۔ جب کہ ٹرین کے ڈبے vertical کوآرڈی نیشن میں لنک رہتے ہیں۔ وہ اپنا سفر سہولت سے طے کرتے ہیں۔ جو پیغام ان کو ملے وہ نیچے تک پہنچایا کریں۔ ہمارا کیا حق ہے کہ پیغام اپنے تک رکھیں اسے نیچے تک نہ پہنچائیں! تحریک کے کام کے لیے دردمند ہو جائیں اور جسے یقین نہ ہو اس کا تو ایمان کا معاملہ ہے وہ اتر جائے اور جسے یقین ہو اسے سونے سے کوئی فائدہ نہیں خود جاگ کر اپنا سفر طے کریں۔ راستے کے مناظر بھی حسین ہیں ان کو دیکھتے جائیں۔
آپ کو مرکز کی جانب سے جو ٹارگٹس بھی دیئے جائیں اس پر کام کو یقینی بنائیں۔ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کریں۔ تپتی ہوئی مسافتوں کو اپنا ہمسفر کریں۔ حیات کے اسٹیشن پر بھٹکے ہوئے مسافروں کو اپنا ہم سفر بنائیں۔ انہیں منزل کی خبر بھی دیں، ہمت، حوصلے، تدبر اور محنت کے ساتھ آگے بڑھیں۔
انسان دنیا میں ایک ہی بار آتا ہے، پھر چلا جاتا ہے۔ کوئی چالیس پچاس سال کی زندگی لاتا ہے، کوئی ساٹھ یا ستر یا اَسّی سال کی۔ پھر بالآخر اسے واپس جانا ہوتا ہے، یہی وقت انسان کے پاس ہے جس میں جو کچھ وہ کر سکتا ہے اسے کرنا ہے۔ حقیقی بات تو یہ ہے کہ کسی کو یہ بھی خبر نہیں کہ اگلا لمحہ اس نے زندہ رہنا ہے یا نہیں۔ ہمارے پاس نہ ہمارا ماضی ہوتا ہے نہ مستقبل، ہمارے پاس صرف حال کا لمحہ ہے۔ آج ہمارے اختیار میں ہے، نہ کل تھا نہ کل ہو گا۔ اس کی خبر نہیں۔ اس لیے آج میں مستعد ہو جائیں، یہ نہیں کہ آج یہ کر لیتے ہیں کل تحریک کا کام کر لیں گے۔ پتہ نہیں وہ کل آئے یا نہ آئے اور اس عظیم خدمت سے محروم ہی دنیا سے لوٹ جائیں۔
دنیا کمرہ امتحان ہے، یہاں محنت کرنی ہے۔ جاگ کر سفر طے کرنا ہے۔ جو پہلے سے مستعد ہیں اﷲ سے استقامت کی دعا مانگیں۔ جو اپنے اندر سستی محسوس کرتے ہیں آج تجدید عہد وفا کر لیں اور پھر سے کمر باندھ کر مستعد ہو جائیں اور تحریک کا سفر طے کریں۔ اﷲ تعالیٰ وہ کامیابی ہمارے حصے میں لکھے جو کبھی مسلمانوں کے حصے میں ہوا کرتی تھی، اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے۔ حضرت شیخ الاسلام کے مقام کی شناسائی عطا فرمائے اور جیسے وہ محنت کرتے ہیں، اس محنت کا عشر عشیر ہمیں بھی عطا فرمائے، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سَچی سُچی محبت عطا فرمائے جو آخرت میں ہمارے لیے وسیلہ نجات بن سکے۔