مرتب : محمد یوسف منہاجین
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی بلخ کے ریگستانوں میں سفر کے دوران ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اسم اعظم عطا کیجئے۔ انہوں نے ان کو اسم اعظم دے دیا اور تلقین کی کہ یہ اسی کے پاس رہتا ہے جو اسم اعظم کے ذریعے دنیا میں کسی بڑے سے بڑے دشمن کو بھی بد دعا نہ دے جو اس کو اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرے اس کے پاس نہ اسم اعظم رہتا ہے اور نہ اس کی برکت رہتی ہے۔
گویا شرط لگا دی کہ اس سے کسی کا بُرا نہیں چاہنا، بڑے سے بڑا دشمن بھی اگر آپ کو گزند و تکلیف پہنچائے، دشمنی میں حد سے گزر جائے، تب بھی اسم اعظم استعمال کرنے کی اجازت نہیں چونکہ یہ اسم اعظم ہے لہذا اس کے لئے حوصلہ بھی اعظم ہونا چاہئے۔
اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ جن کو کچھ ملتا ہے وہ ملتا اس شرط پر ہے کہ حوصلہ بڑا ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو ملا اسے اپنے مخالفوں پر استعمال کرے اور انہیں بھسم ہی کرنا شروع کر دے، اس طرح تو اسلام کا سارا نظام روحانیت تماشہ بن جائے۔ جن کو ملتا ہے وہ خیر خواہی کے لئے ملتا ہے، بدخواہی کے لئے نہیں ملتا۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بعد ازاں ’’اسم اعظم‘‘ کے حوالے سے اپنے مریدین اور چاہنے والوں کی اس طرح رہنمائی فرمائی کہ اسم اعظم کی جس تاثیر کے آپ طالب ہیں اس کے لئے ان تین چیزوں پر عمل پیرا ہو جائیں، یہی اسم اعظم ہے۔ فرمایا :
دنیا میں زہد اختیار کرنے والے کو چاہئے کہ
1. قَدِ اتَّخَذُوْا الرِّضَاء عَنِ اللّٰهِ لِبَاساً.
اللہ کی رضا کو ہر حال اور ہر کام میں لباس بنا لے۔۔۔ تنگدستی میں ہو یا فراخی میں۔۔۔ صحت مندی میں ہو یا بیماری میں۔۔۔ تنگی میں ہو یا پریشانی میں۔۔۔ خوشی ہو یا غم۔۔۔ جس حال میں رب رکھے اس پر راضی رہو اور اللہ کی یہ رضا بندے کا لباس بن جائے۔
2. وَحُبَّه دِثَارًا
اور اللہ کی محبت اس رضا کے لباس کا جبہ بن جائے، اس کی زینت بن جائے۔
3. وَالْاَ ثَرَةَ لَه شِعَارًا
اور جو کچھ دستیاب ہو اللہ کے لئے ایثار کر دینا، قربان کر دینا شعار بن جائے۔
ان تینوں چیزوں کا اپنانا اسم اعظم ہو جاتا ہے۔ یہ اصل تصوف ہے۔
ہمارے ہاں اسمِ اعظم کا ایک اور تصور ہے جس کے لئے ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ تقریباً سولہ سترہ سال پرانی بات ہے کہ میرے پاس لاہور کے کچھ علماء کرام کا وفد آیا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں ہم اہلسنت کے ایک بڑے دارالعلوم میں جمع تھے وہاں آپ کا تذکرہ بھی ہوا۔ آپ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس محفل میں موجود تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ دیگر علماء کے بالکل برعکس آپ کے پاس عوام الناس کا کثرت سے آنا، پروگرامز میں ساری رات لوگوں کا بیٹھے رہنا، صرف اعتکاف ہی میں دس دنوں کے لئے 30 ہزار تک لوگوں کا آ جانا اور اسی طرح کے کئی بہت سے معاملات اس لئے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی ’’اسم اعظم‘‘ ہے۔ لوگوں کا یوں آپ کی طرف کھنچے چلے آنا اسی اسم اعظم کے سبب ہے۔ لہذا فیصلہ کیا گیا کہ کسی طریقہ سے آپ سے پوچھا جائے اور تصدیق کی جائے کہ کیا واقعی اسی طرح ہے؟ لہذا ہم آپ سے اسی کے متعلق پوچھنے کے لئے آئے ہیں۔
میں ہنس پڑا اور کہا کہ جو اسمِ اعظم کا معنی آپ سمجھتے ہیں، وہ میرے پاس نہیں ہے اور نہ ہی کبھی زندگی میں اس کی طلب کی ہے۔ جو کچھ ہے وہ بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی عزت کی قسم، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی قسم، میں نے ساری زندگی جو کچھ چاہا اور جو کچھ کیا کبھی مخلوق اور دنیا کے لئے نہیں کیا۔ جو کرتا ہوں، صرف اللہ کے لئے کرتا ہوں۔ بیماری بھی آ جائے تو اپنے لئے دعا بھی نہیں کرتا، کھانا نہ ملے اور فاقہ آ جائے تو تب بھی دعا نہیں کرتا، اس لئے کہ اپنے لئے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ میں نے دنیا کے لئے نہ کبھی اللہ سے چاہا اور نہ چاہتا ہوں اور نہ دنیا کے لئے کرتا ہوں اور نہ دنیا کی فکر کرتا ہوں۔ جو سوچتا، چاہتا اور کرتا ہوں صرف اللہ کے لئے کرتا ہوں۔ میرے پاس کوئی اسم اعظم نہیں ہے اگر آپ اس ’’اسم اعظم‘‘ کو لے لیں تو آپ کا بھی یہی حال ہو گا کہ ساری رات لوگ آپ کو سننے کے لئے بیٹھے رہیں گے اور صبح تک کوئی نہیں جائے گا۔
وہ کہنے لگے : یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا : آپ کے ذہن میں آئے یا نہ آئے، آپ کی مرضی ہے، میرا تو اس میں قصور نہیں ہے مگر میں نے قسم کھا کر بتا دیا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے یعنی میرا عمل مخلوق کے لئے نہیں کہ مخلوق جمع ہو جائے اور یہ ہو جائے اور وہ ہو جائے، میں اس چیز کے متعلق سوچتا بھی نہیں۔ مخلوق کی سوچ کو دل سے نکال دینا صرف اسی کی خاطر سب کچھ کرنا یہ اسم اعظم ہے اور اصل تصوف ہے۔
فیض رسانی درحقیقت قربانی ہے
اللہ کے لئے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا اسمِ اعظم ہو جاتا ہے۔ صوفیاء ایثار کرتے ہیں اور ان سے بڑا ایثار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ جو فیض دیتے ہیں وہ بھی ان کا ایثار ہی ہے۔ آپ میں سے کچھ سوچیں گے کہ یہ کیسا ایثار ہے کہ ایثار کرنے والے کے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں جاتا۔ یاد رکھیں! اس لئے کہ جس طرف فیض دینا ہو تو اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے جبکہ ولایت توجہ الی اللہ کا نام ہے۔ استغنا عن الخلق، مخلوق سے بے نیاز ہو جانا، مخلوق سے توجہ ہٹا دینا اور متوجہ الی اللہ ہو جانا ولایت ہے۔ ولایت، مخلوق سے دھیان ہٹا کر ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا نام ہے۔ لہذا جب اللہ والے دوسرے بندوں کو فیض دینے کے لئے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی توجہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اوپر سے کچھ توجہ ہٹاتے ہیں، اپنا نقصان کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کو عطا کرتے ہیں۔ جب اپنی توجہ اُدھر سے ہٹاتے ہیں اور مخلوق کو دینے کے لئے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس سے بڑی قربانی اور کیا ہے۔
رسالت، توجہ الی الخلق ہے
ولایت، توجہ الی اللہ ہے تو نبوت و رسالت توجہ الی الخلق ہے، توجہ من الخالق الی الخلق۔ رب سے وصول کر کے مخلوق کو ہدایت دینے کے لئے متوجہ ہونا۔ نبوت و رسالت، اللہ سے وصول کر کے مخلوق کی طرف متوجہ ہونے کا نام ہے۔
نبوت و رسالت کے اعلان سے قبل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں تیس تیس اور چالیس چالیس راتیں بسر کرتے، کھانا بھی بھول جاتے اور ایک مستی و بے خودی میں غار حرا میں دن گزارتے۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بعثت کا زمانہ قریب آیا
حُبِّبَ اِلَيْهِ الْخَلَاء
(صحيح بخاری، ج : 1، رقم : 3)
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلوت محبوب بنا دی گئی یعنی غلبہ ولایت ہوا اور غار حرا میں خلوت نشینی کرنے لگے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
مصطفی اندر حرا خلوت گزید
مدت جز خیشتن کس را نادید
خلق کی ہدایت کے لئے نبوت جلوت چاہتی ہے، ظہور چاہتی ہے جبکہ ولایت مولیٰ سے تعلق کے لئے اخفاء اور خلوت چاہتی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب احوال ولایت کا غلبہ ہو گیا تو پھر کھانا پینا بھی بھول گئے، پھر اس حال میں حق ظاہر ہوا اور فریضہ رسالت سپرد ہوا توحکم آ گیا :
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنذِرْ. وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیںo اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں‘‘۔
(المدثر : 1. 2. 3)
اس حکم ربانی کی تعمیل میں کوہ صفا پر لوگوں کو اکٹھا کیا اور مخلوق کو راہ ہدایت پر لانے میں مصروف ہو گئے۔ پھر خلوت نشینی نہ رہی۔
جب نبوت و رسالت کے فریضہ کی ادائیگی شروع ہو گئی تو پھر کبھی مکہ کی گلیوں میں اور طائف کے بازاروں میں۔۔۔ کبھی حرم کے صحن میں اور کبھی شعب ابی طالب میں۔۔۔ کبھی دار ارقم میں اور کبھی کسی دوسری گھاٹی میں۔۔۔ کبھی منیٰ میں کبھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر۔۔۔ بس دعوت ہے، مخلوق کے ساتھ واسطہ ہے اور ان کو ہدایت کی طرف بلا رہے ہیں، دوزخ سے نکال کے جنت لے جا رہے ہیں۔ اب خلوت نہ رہی، وہ تنہائی نہ رہی، توجہ الی اللہ کی وہ کیفیات نہ رہیں جن کی وجہ سے طبیعت مقدسہ کے اندر خلوت نشینی کا ذوق تھا اور توجہ الی اللہ کے اندر کیف و مستی اور سرور تھا۔ اب جب وہ ماحول نہ رہا اور ہر وقت مخلوق کی طرف دھیان رہا تو اندر ایک بوجھ رہنے لگا، اس بوجھ کو رب نے یہ فرما کر اتارا :
وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَo الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ.
(الانشراح : 2 تا 3)
’’اور ہم نے آپ کا بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا‘‘۔
وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ سے مراداے محبوب جو بوجھ آپ کے اوپر تھا ہم نے اتار دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا؟
وہ بدبخت ہے جو معاذ اللہ گناہوں کا بوجھ سمجھے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہ کسی غفلت کا بوجھ تھا اور نہ کسی لاعلمی کا بوجھ تھا۔۔۔ معاذ اللہ نہ قبل از بعثت کسی امر کا بوجھ تھا۔ طبیعت پر بوجھ اس کے ہوتا ہے کہ جس نے کوئی خرابی کی ہو، گناہ کیا ہو، ظلم کیا ہو، زیادتی کی ہو اور کوئی خطائیں کی ہوں، ان کے بارے سوچ سوچ کر اس کا بوجھ ہوتا ہے۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان میں سے کسی شے کا بوجھ نہ تھا۔ وہ تو ساری کائنات کے بوجھ اتارنے والے ہیں، ان پر کیا بوجھ ہو سکتا ہے۔
اب جس بوجھ کے اتارنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، وہ بوجھ یہ تھا کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ مولا تو نے خلق کی ہدایت پر رات دن لگا دیا۔۔۔ ایک وہ وقت تھا کہ رات دن تصور جاناں میں بیٹھے رہتے تھے۔۔۔ نہ کوئی تکتا تھا اور نہ مری نگاہ میں کوئی آتا تھا۔۔۔ غار کی خلوتیں ہوتیں اور ایک تیرا دھیان تھا۔۔۔ ہر وقت تیرے دھیان میں مستی وبے خودی تھی اور تجھ سے باتیں تھیں۔ وہ جو خلوت کی کیفیتیں تھیں مولیٰ اب وہ نہ رہیں۔۔۔ اب رات دن تیرا حکم ہے اور تعمیل میں تیری مخلوق سے واسطہ رہتا ہے۔۔۔ وہ جو خلوت کے مزے تھے اور تعلق باللہ سے سرشار ماحول تھا، اس ماحول سے کٹ جانے کا بوجھ ہے۔ فرمایا : ووضعنا عنک وزرک ہم نے آپ کا بوجھ اتار دیا۔ وہ بوجھ جلوت اورخلوت کے فرق تھے۔
تصوف میں تین مقامات
آیئے اس کو جاننے کے لئے تصوف کے کچھ مقامات کو سمجھتے ہیں، تصوف میں 3 مقامات آتے ہیں۔
- مقام تفرقہ
- مقام جمع
- مقام جمع الجمع
’’تفرقہ‘‘ سے مراد فرقہ بندی، تفرقہ بندی اور دھڑے بندی نہیں ہے۔ یہ تصوف کے احوال میں سے ایک ہے اگر حال ’’تفرقہ‘‘ ہو تو پھر خلوت اور جلو ت میں فرق ہوتا ہے۔ خلوت میں جائیں تو مزہ آتا ہے اور لوگوں کے ہجوم میں جائیں تو وہ مزہ نہیں آتا۔
رب کریم اگر مقام ’’جمع‘‘ عطا کر دے تو اس ’’مقامِ جمع‘‘ میں بندے کا حال اللہ کے ساتھ مل جاتا ہے اور حال، حال نہیں رہتا بلکہ مقام ہو جاتا ہے۔ جب اللہ کے ساتھ بندے کے حال کو جوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ’’مقام تفرقہ‘‘ سے نکال دیا جاتا ہے۔ اب خواہ وہ خلوت میں بیٹھے یا جلوت میں رہے۔۔۔ تنہائی میں ہو یا لاکھوں کے ہجوم میں ہو۔۔۔ اس کا جسم مخلوق میں رہتا ہے اور روح خالق کے ساتھ رہتی ہے۔۔۔ یہ چلتا پھرتا فرش پر ہے مگر اس کی مستی وبے خودی عرش کی ہوتی ہے۔۔۔ اس کا گفتگو کرنا، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے مگر اسکا من، قلب، باطن، روح، خفی، اخفیٰ اور اس کے سارے لطائف اپنے اپنے حال کے مطابق مالائے اعلیٰ سے لے کر حضور الہ تک ہوتے ہیں۔۔۔ مقام جمع پر اس کی جلوت بھی خلوت بن جاتی ہے۔ جو مزے تنہائی میں آتے ہیں، وہ ہجوم میں بیٹھ کر بھی وہی مزہ لیتا رہتا ہے۔۔۔ گفتگو، دھیان اللہ کے بندوں کی طرف رہتا ہے اور من، اللہ کے ساتھ رہتا ہے، یہ مقام جمع ہے۔
جو اس ’’مقام جمع‘‘ میں کمال کو پائے تو پھر مقام ’’جمع الجمع‘‘ آ جاتا ہے۔ الم نشرح لک صدرک میں سینہ اقدس کا کھولنا ’’مقام جمع الجمع‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ بوجھ اس طرح اتارا کہ آپ کو مقام جمع الجمع پر فائز فرما دیا کہ محبوب ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو غار حرا کی خلوتوں، تنہائیوں میں لطف آتا تھا۔۔۔ حرا کے اندھیروں میں مزہ آتا تھا۔۔۔ سرشاریوں کی کیفیت ہوتی تھی۔۔۔ محبوب! آپ نے میری خاطر وہ سرشاریاں چھوڑیں۔۔۔ آپ نے میرے حکم پر دوزخ کی طرف گرنے والی مخلوق کو بچایا اور ان کو راہ ہدایت دکھا کر جنت کی طرف لائے۔۔۔ میرے حکم کی خاطر آپ نے اپنی ذاتی لذتیں، کیف، سرور، مستیاں اور سرشاریاں چھوڑیں۔۔۔ اور آج کبھی طائف میں میری خاطر پتھر کھا رہے ہیں اور کبھی مکہ کی گلیوں میں لوگوں کے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں۔۔۔ ہمہ وقت تعلق باللہ کی سرشاریاں اور مزے چھوڑنے کا بوجھ جو طبیعت میں رہتا ہے محبوب ہم نے آپ کا سینہ کھول کر ’’جمع الجمع‘‘ کا اب وہ مقام عطا کر دیا ہے کہ اب وہ بوجھ آپ پر نہ رہے گا بلکہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔۔۔ ہم نے آپ کے لئے آپ کا سینہ کھول دیا ہے۔۔۔ اب آپ صحن حرم کے ہجوم میں رہیں یا مکہ کی وادیوں میں رہیں۔۔۔ شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں رہیں یا طائف کے بازاروں میں رہیں۔۔۔ اب آپ کا حال ہمہ وقت اسی طرح ہے جیسے ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسين او ادنی. کے مقام پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رتبہ کے مطابق آپ کو شرح صدر عطا فرمائی۔
شرحِ صدرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شرحِ صدرِ اولیاء
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے اور وسیلہ سے شرح صدر کا یہ فیض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولیاء، علماء اورصلحاء کو بھی نصیب ہے۔ ارشاد فرمایا :
أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ.
’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو‘‘۔
(الزمر : 22)
ہم نے کبھی اس آیت کریمہ اور الم نشرح لک صدرک کے درمیان غور نہیں کیا۔ ان دونوں آیات مبارکہ میں ’’صدرہ‘‘ اور ’’صدرک‘‘ تک ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف اللہ نے اپنے بندوں، ولیوں، عارفوں، اہل اللہ کا سینہ کھولا اور دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ اقدس بھی کھولا مگر ان دونوں انشراح صدر میں فرق ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ شرحِ صدر سے مراد وہی شرح صدر ہے جو اللہ پاک عطا فرمایا کرتا ہے۔ یعنی ولیوں، عالموں اور عارفوں کو ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق عطا فرماتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق عطا فرمایا۔ یاد رکھیں یہاں اس سے مراد یہ نہیں ہے۔
یہ فرق، مدارج کا نہیں بلکہ فرقِ ماہیت ہے۔ مومنین، اولیاء، صلحاء اور عرفاء کے لئے فرمایا کہ ان کا سینہ کھولنا اسلام کے لئے ہے یعنی اسرارِ اسلام، معارف، علوم لدنی عطا فرما دیئے۔ سینہ کھل جانے کے بعد اب وہ جو کچھ بولتے ہیں وہ کتابوں میں نہیں ہوتا بلکہ وہ مالائے اعلیٰ سے آتا ہے۔ گویا جب آیت مبارکہ کی رُو سے اسلام کے لئے سینہ کھولا جا رہا ہے تو اس کے معانی و مطالب کچھ اور ہیں۔
جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی تو فرمایا : اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ. اسلام تو محبوب پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ اسلام کے لئے کیا کھولنا ہے، ہم نے اسلام تو بنایا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے۔۔۔ اسلام تو بنتا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلن سے ہے۔۔۔ اسلام تو بنتا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھبن سے ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہہ دیتے اور کر دیتے ہیں وہی اسلام ہے۔۔۔ جس کو تک لیتے ہیں اور جس کو ’’ہاں‘‘ کر دیتے ہیں یا ’’نہیں‘‘ کر دیتے ہیں وہ اسلام ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ اسلام کے لئے کیا کھولنا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زبان کے کھلنے کو تو خود اسلام تکتا رہتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ کھلنے کا ذکر فرمایا کہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کھولا۔ مطلب ہے کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی ضرورت اور ذاتی مسئلہ تھا جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ کھولا۔ وہ ذاتی ضرورت اس کے سواء کیا ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ مولیٰ تیرے حکم کی تعمیل میں پھرتا ہوں مگر وہ خلوتوں کی سرشاریاں نہ رہیں۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
وہ جو لذتیں، سرشاریاں اور تنہائیاں تھیں، وہ نہ رہیں۔ اب کبھی ابوجہل کو سمجھانا اور کبھی ابولہب بدبخت کو سمجھانا۔۔۔ مولیٰ میں ان سے گھبراتا نہیں ہوں۔۔۔ میں خوش ہوں، تیرے حکم کی تعمیل ہے۔۔۔ مگر یہ کہ من کی وہ سرشاریاں جو غار میں ملتی تھیں اب وہ مواقع نہ رہے۔۔۔ اللہ نے فرمایا : محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے ’’جمع الجمع‘‘ کا مقام دے کر آپ کا بوجھ اتار دیا۔ اب آپ ساری زندگی مخلوق میں گزاریں مگر آپ کا حال وہی رہے گا جو قاب قوسین پر بیٹھنے میں ہے۔۔۔ اب آپ کا حال غار والے حال سے بھی اونچا ہو گیا۔۔۔ غار کیا تھی وہ تو بعثت سے پہلے کی سرشاریاں تھیں، اب آپ کو وہ سرشاریاں دیتے ہیں جو ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی پر میسر تھیں۔۔۔ اس لئے اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر لمحہ معراج ہے۔ وہ معراج جس کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا، وہ امت کو بتانے کے لئے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر لمحہ معراج ہے۔
اولیاء کے ہاں خسارہ کیا ہے؟
ولایت چونکہ توجہ الی اللہ کا نام ہے لہذا جن کے دل مولیٰ سے لگ اور جڑ جاتے ہیں ان کا دھیان اگر وہاں سے ہٹانا پڑے اور مخلوق کی طرف کرنا پڑے تو انہیں گوارہ نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ دنیا کا خسارہ ان کا خسارہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں تو انہوں نے دل لگایا ہی نہیں، مال آیا تو خوشی نہیں، مال چلا گیا تو کوئی غم نہیں۔ ۔ ۔ اولاد مل گئی تو کوئی خوشی نہیں اللہ کا شکر ہے، نہ ملی تو غم نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ یہ تو ہمارے دنیا کے دھندے ہیں۔ جن کے دل اُدھر لگ جاتے ہیں اُن کے یہ غم اور یہ سود و زیاں نہیں ہیں۔ ان کا خسارہ یہ ہے کہ دھیان اُدھر سے ہٹ جائے۔ کسی کو فیض دینے کے لئے دھیان اُدھر سے ہٹانا پڑتا ہے۔ پس اللہ والے جب کسی کو فیض دینے کے لئے اس پر دھیان دیتے ہیں تو کچھ دھیان تقسیم ہوتا ہے، اوروں کو فیض یاب کرنے کے لئے اپنا خسارہ برداشت کرتے ہیں، پس یہ ان کا ایثار ہے۔
یہاں ایک مجذوب کی مثال سے اس معاملہ کو مزید واضح کرتا ہوں۔ مولانا غوث محمد شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ میں نو عمر تھا اور اپنے شیخ کے ساتھ سفر پر کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں جنگل کے اندر دو مجذوب اس حال میں لیٹے ہوئے دیکھے کہ ان کے اوپر آگ کے انگارے تھے مگر دونوں کے حال میں فرق تھا۔ آگ کی وجہ سے ایک کے کپڑے، گوشت پوست بھی جل گیا تھا اور خون اور چربی پیپ بن کر بہہ رہے تھے جبکہ دوسرے مجذوب کے اوپر بھی آگ کے انگارے جل رہے تھے مگر جسم نے کیا جلنا، اُس کے تو کپڑے بھی سلامت تھے۔ میرے شیخ نے مجھ سے پوچھا : بیٹے بتاؤ ان دونوں میں سے زیادہ کامل ولی کون ہے؟ میں چھوٹا تھا لہذا میرا دھیان فوری کرامت کی طرف گیا۔
جس طرح ہم کمال، کرامت کو ہی سمجھتے ہیں اور ہمارا سارا دھیان کرامت ہی کی طرف ہوتا ہے جبکہ اولیاء اللہ کو جتنی حیا ظہورِ کرامت میں آتی ہے اتنی حیا عورت کو اپنے مخصوص ایام میں نہیں ہوتی۔ اولیاء اللہ کرامت ظاہر کرنے سے ایسے گھبراتے ہیں جیسے عورتیں ہر مہینے کے ایام میں گھبراتی ہیں۔ جو اولیاء کرامت ظاہر کرتے ہیں وہ کسی اذن الہٰی اور حکمت کی وجہ سے کرتے ہیں، کثرت سے ظاہر کرے یا قلت سے وہ امر الہٰی سے ظاہر کرتے ہیں مگر ان کی طبیعت ظہور کرامت کو نہیں چاہتی، گریزاں ہوتی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ جس کے کپڑے بھی نہیں جلے یہ بڑا ولی اور بڑا کامل ہے۔۔۔ شیخ مسکرا پڑے اور فرمایا : نہیں بیٹے، جس کے کپڑے بھی نہیں جلے یہ حالت جذب میں ناقص ہے اور جس کے کپڑے بھی جل گئے اور جسم سے خون اور پیپ بہہ رہا ہے وہ اپنے جذب میں کامل ہے۔۔۔ میں نے پوچھا : کیسے؟۔۔۔ فرمانے لگے : آگ کا کام جلانا ہے، ایک مجذوب پر آگ جل رہی ہے مگر اسے جلا نہیں رہی، گویا کوئی ایسی چیز ہے جو اس آگ کو جلانے سے روکے ہوئے ہے۔ یہ چیز اس کی توجہ ہے جو آگ کو جلانے نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سب کچھ جل گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آگ اپنا کام کئے جا رہی ہے اور اس مجذوب نے اپنی توجہ اس کو جلانے اور روکنے کی طرف نہیں کی بلکہ اپنی توجہ کو اپنے مولیٰ ہی کی طرف مبذول کئے رکھا۔ جو مجذوب توجہ کر کے آگ کو جلانے سے روک رہا ہے اس کا جذب ناقص ہے کیونکہ کچھ توجہ اس کی اللہ کی طرف ہے اور کچھ اپنے جسم کو بچانے کی طرف ہے، اسی لئے تو جسم بچ رہا ہے۔ اس کی توجہ ابھی بٹی ہوئی ہے، سو جذب ناقص ہے۔ دوسرے کی جذب کامل ہے کہ اللہ کی طرف توجہ میں اتنا جاذب ہو چکا ہے کہ خود جل گیا، چربی پگھل گئی مگر اس کو ہوش بھی نہیں ہے کیونکہ توجہ اُدھر اتنی جذب ہو گئی کہ اپنا ہوش نہ رہا۔
یہ مجذوب مثال کی ہے مگر اس سے مسئلہ آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ اولیاء اللہ جب کسی کو فیض دیتے ہیں تو وہ بہت بڑی قربانی ہوتی ہے مگر کسی کو کیا خبر؟۔۔۔ لینے والے نے سمجھا کہ میرا حق تھا لہذا میں لے لیا۔۔۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے کتنی قربانی سے فیض دیا اور توجہ کی۔ کئی اولیاء ایسے ہوتے ہیں کہ وصال کے بعد توجہ مخلوق کی طرف نہیں رکھتے، مالائے اعلیٰ کی طرف کر لیتے ہیں اور پھر ان کی قبور سے فیض نہیں ملتا، آنے والے کو ثواب ملتا ہے مگر وہ توجہ نہیں کرتے چونکہ توجہ مالائے اعلیٰ کی طرف رکھتے ہیں جبکہ کئی اولیاء کمال اونچے درجے پر فائز ہوتے ہیں، جنہیں عمر بھر قربانی کی عادت پڑی رہتی ہے۔ وہ بعد از وصال بھی ایثار کرتے رہتے ہیں۔ وہ بعد از وصال مالائے اعلیٰ کی طرف مست بھی رہتے ہیں اور ہر آنے والے کو بقدر نصیب اس کا حصہ بھی دیتے رہتے ہیں۔
اسی لئے حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت ابراہیم بن ادھم کو فرمایا کہ اسم اعظم یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ کی رضا کو لباس بنا لے۔۔۔ اور اللہ کی محبت کو اس لباس کا جبہ اور زینت بنا لے۔ ۔ ۔ اور اللہ کے لئے ایثار کرنا، قربانی دینا، شعار بنا لے۔۔۔
قربانی اور ہمارا طرزِ عمل
کارکنان تحریک غور کریں کہ قربانی صرف جان کی ہی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جان، مال، وقت، خواہشات، توجہ الغرض ہر شے کی قربانی ہوتی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو رفاقت کا نام لیتے ہیں اور وحسن اولئک رفیقا کے مصداق اچھے رفیق بننا چاہتے ہیں مگر وقت کاروبار کو دیتے ہیں۔۔۔ روزگار اور مال و دنیا کمانے کو وقت دیتے ہیں۔۔۔ بیوی بچوں کو وقت دیتے ہیں۔۔۔ کیا وہ اس تناسب سے وقت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو زندہ کرنے کے لئے دیتے ہیں؟۔۔۔ دین نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کافروں، منافقوں، فاسقوں، حکمرانوں، مکاروں، عیاروں، بے شرموں اور بے حیاؤں کے ہر سمت سے حملے ہیں۔۔۔ غیرت دین نکالی جا رہی ہے۔۔۔ اقدار دین مسمار کی جا رہی ہیں۔۔۔ لوگوں کو دین کے شعار سے ہٹایا جا رہا ہے۔۔۔ حکمران بے حمیت اور بے غیرت ہو گئے ہیں۔۔۔ سیاستدانوں کے اندر دین و ایمان کی رمق نہیں رہی۔۔۔ یہ دنیا حقیر اور ذلیل بھی ہے اور اتنی لذیذ بھی ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے وہ ایک رتی بھی اس میں سے نہیں چھوڑتا۔ جبکہ دوسری طرف یہ دین قربانی مانگتا ہے۔۔۔ مالداروں سے مال کی قربانی کہ وہ مال کا کتنا حصہ اللہ کے دین کی اقامت کے لئے خرچ کرتے ہیں۔۔۔؟ پوچھا جائے گا اپنے مال کا کتنا حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں، غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے۔۔۔ آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین پکار رہا ہے کہ وقت کا کتنا حصہ اس دین کو دیتے ہو۔۔۔؟
تحریک کی رفاقت کا مقصد اقامت و احیاء دین ہے۔ تحریک کی رفاقت کا حصول میرے ہاتھ چومنے کے لئے نہیں ہے، میرے ہاتھ چومنے کا کیا فائدہ؟ میں اس قابل نہیں ہوں۔ کیا ہاتھ چومنے سے دین زندہ ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ؟ میرے نام کے نعروں سے کیا دین زندہ ہو جائے گا۔۔۔؟ دین کی اقامت و احیاء کے لئے دین عملی قدم چاہتا ہے۔ سوچنا ہو گا کہ کارکن روزانہ مشن کو کتنا وقت دیتے ہیں۔۔۔؟ کتنا مال دین کے احیاء اور فروغ کے لئے خرچ کرتے ہیں۔۔۔؟ دین کی اقامت کے لئے جان کو کتنی تکلیف دیتے ہیں۔۔۔؟ دین کے لئے کتنا جاگتے ہیں۔۔۔؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری زندگی دین کے لئے جاگے اور مشکلات و صعوبتوں کو برداشت کیا۔ ہم سے بھی حساب لیا جائے گا کہ ہم نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت پر کتنا عمل کیا۔
مجھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک جملہ آبدیدہ کر دیتا ہے کہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر میں ظاہری کمزوری آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل بیٹھ کر پڑھنے لگے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اس امت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کمزور کر دیا ہے۔ امت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں پہنچا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل کے لئے کھڑے نہیں ہو سکتے۔۔۔
تین سال تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خانوادہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں قید رہے، کیا وہ حکومت و سلطنت چاہتے تھے۔۔۔؟ قریش تو سلطنت دینے کو تیار تھے، کہتے تھے کہ دین کی دعوت چھوڑ دو اور جو چاہتے ہو وہ لے لو۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار کر دیا اور دعوت دین کو جاری رکھا۔ دعوت دین کی خاطر پیغمبروں کو آرے سے چیرا گیا۔۔۔ ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے۔۔۔ کسی کا جسم کہاں اور ہاتھ کہاں ہے۔۔۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا جسم دمشق میں اور ہاتھ بیروت میں دفن ہے۔۔۔ کربلا میں 72 سروں کو جسم سے جدا کیا گیا۔ یہ سب کچھ دین حق کی دعوت کے لئے قربانیاں تھیں۔ کیا ہم بھی اس قابل ہیں کہ ان برگذیدہ ہستیوں کو منہ دکھا سکیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے فروغ اور احیاء و اقامت کے لئے ہم نے کیا کیا۔۔۔؟
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وصال کے بعد کسی کو خواب میں ملے، پوچھا اللہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ فرمایا : مجھے قریب کر کے پوچھا : کیا تو نے میرے لئے ماریں کھائی تھیں۔۔۔ عرض کیا : جی مرے مولا۔۔۔ فرمایا : آج ان کوڑوں کا صلہ لو۔۔۔ فرشتو! پردہ درمیان سے ہٹا دو، احمد بن حنبل آج جی بھر کر میرا مکھڑا تک لے۔ یہ اجر و ثواب تکالیف سے ملتے ہیں۔۔۔ دعوت حق سے ملتے ہیں۔۔۔ عبادت، صالحیت، تقویٰ، پرہیزگاری اور اخلاص سے یہ چیزیں نصیب ہوتی ہیں۔
کارکنوں! خدمت دین کا جذبہ لے کر اٹھو اور مرتے دم تک لمحہ لمحہ اس مشن کی سرشاری میں بسر کرو۔ اگر اللہ کی رضا، محبت اور ایثار و قربانی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو پھر تفضل اللّٰه تعالیٰ عليهم ليس کتفضله علی غيرهم. اللہ کا ایسے لوگوں پر اتنا فضل ہوتا ہے کہ ساری کائنات میں اتنا فضل کسی پر نہیں ہوتا اللہ ان سے راضی ہو جاتا ہے۔