حمد باری تعالیٰ
طفیل حبیب مکرم الہٰی
کرم کی نظر رکھنا ہر دم الہٰی
ترے عشق کی آئینہ دار جو ہو
عطا کردے وہ چشم پرنم الہٰی
ترے نور کے پاک جلوؤں میں دُھل کے
چمکتی ہے پھولوں پہ شبنم الہٰی
یہ دریا، سمندر، یہ چشمے، یہ جھرنے
الاپیں محبت کے سرگم الہٰی
کبھی ہیں بہاریں کبھی ہیں خزائیں
بھرے حکمتوں سے ہیں موسم الہٰی
مٹے نامیوں کے نشاں ایک پل میں
ہوئی ذات تیری جو برہم الہٰی
اُنہی کا مقدر ہوئی سرفرازی
ہوئے سر جو تیرے لئے خم الہٰی
علاجِ دلِ صابری بس یہی ہے
تری رحمتوں کا ہو مرہم الہٰی
{محمد علی صابری}
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
لہو ہے قلبِ حزیں، آنکھ میں نمی ہے بہت
حضور نگہِ کرم، آج بے کلی ہے بہت
کریں غلام کو اسبابِ زیست پھر سے عطا
لگی جو آگ نشیمن میں کل، جلی ہے بہت
حضور دولتِ ایمان چھن نہ جائے کہیں
حضور بچوں کو گھیرے ہے، گمرہی ہے بہت
لگائے نعرہ حق کوئی شعلہ آواز
تنی ہے ظلم کی شب اور تیرگی ہے بہت
یہی حضور کی سنت ہے آزما لیجئے
فلاح کے لئے الفت کی چاشنی ہے بہت
عطائے جنتِ ماویٰ ہے انتہائے کرم
غلام کے لئے محبوب کی گلی ہے بہت
حضور عازمِ محشر کو اب بلا لیجئے
غلام اذن کے لئے آج ملتجی ہے بہت
جب اس کو بندہ نادم پہ رحم آجائے
حضورِ حق میں وہ توبہ کی اک گھڑی ہے بہت
حضور آپ نے بخشی ہے ہر خوشی مجھ کو
مرے لئے تو یہ احساسِ سرخوشی ہے بہت
عزیز راہِ عمل میں تکلفات نہیں
حصولِ بادہ تسکیں کو سادگی ہے بہت
شیخ عبدالعزیز دباغ