اس سلسلہ تحریرمیں ملکی سطح پر گذشتہ ماہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا اور اس تناظر میں ان واقعات کے حقائق جانیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذمہ دار کون ہے؟ خرابی کا تدارک اور حالات کی بہتری کیونکر ممکن ہے؟
قومی ایکشن پلان۔۔۔؟
’’قومی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ فوج اپنا کام کررہی ہے مگر حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے‘‘
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ حکمران دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں۔ اس لئے کہ حکمرانوں کے دہشت گردوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول، زمینوں پر قبضے، سیاسی قتل اور بھتہ خوری جیسے امور میں ان دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہیں اوربدلے میں دہشت گردوں کے لیے نہ صرف دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں اپنے تئیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی اقدامات کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام کے اس مؤقف کا ثبوت کچھ یوں سامنے آتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل حکومت نے اعلان کیا کہ ’’دہشت گردی خاتمے کے آخری مراحل میں ہے‘‘ مگر اس کے بعد حکومت کی طرف سے ہی ایک خبر آتی ہے کہ ’’بیرونی فنڈنگ روکنے کے لیے ٹاسک فورس بنائی جائے گی‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو ان دونوں خبروں میں حکمرانوں کی دہشت گردوں کے بارے میں نرم دلی کا واضح ثبوت ہے کہ قومی ایکشن پلان کے اس اہمیت کے معاملہ ’’بیرونی فنڈنگ کی روک تھام‘‘ کے لئے ابھی ابتدائی اقدامات بھی نہیں کئے گئے اور اسے موخر کرنے کی مذموم کاوشیں کی جارہی ہیں۔
حقائق پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ قومی ایکشن پلان دھرے کا دھرا رہ گیا ہے اور صرف ان نکات پر عمل کیا جارہا ہے جن سے حکمرانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا یا ان کے سیاسی مقاصد پورے ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان عوامی تحریک کا موقف یہ ہے کہ یہ قومی ایکشن پلان کے بجائے حکومتی سلیکشن پلان لگتا ہے، یعنی صرف وہ ہورہا ہے جو حکومت کے اپنے فائدے میں ہے ۔بد عنوانی اور کرپشن کے کیسزایف آئی اے اور نیب میں اس لیے چلائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ملزمان کو کلین چٹ دی جائے اور اس طرح کیس ہمیشہ کیلئے بند کر دیے جائیں، یہ سب کچھ بڑی سیاسی جماعتوں کے مک مکا کا نتیجہ ہے۔
شیخ الاسلام اس کرپٹ نظام کہتے ہیں کہ ’’بڑی سیاسی جماعتوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں کبھی ایک کی باری ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی۔ ایک جماعت حکومت میں ہوتی ہے تودوسری اپوزیشن میں اور پھر آپس میں طے ہو جاتا ہے کہ آپ نے کتنا شور ڈالنا ہے اور ہم نے کتنا برداشت کرنا ہے ‘‘۔
اگر آپ یادوں کے دریچوں میں جھانکیں تو آپ کو دکھائی دے گا کہ پی پی حکومت میں ن لیگ کے قائدین پیٹ پھاڑ کرلوٹی دولت نکالنے، سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کررہے ہیں۔ عوام ان کے خلاص کے نعرے لگارہی ہے، مگر جب ن لیگ کی حکومت آئی تو پھر ان کی خاموش رفاقت قابلِ دید ہے۔ اسی طرح دھرنے کے دوران جب مفادات کو ٹھیس پہنچنے لگی اور حقیقی معنوں میں پیٹ پھٹتے نظر آئے تو تمام کرپٹ سیاسی جماعتوں نے مفادات کی جمہوریت کو بچانے کے لئے اکٹھ کر لیا ۔ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے مفادات کی جمہوریت کے لیے بغل گیر نظرآئے اور جب جان بچ گئی تو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے پرانے دساتیرِ زباں بندی بحال ہوگئے، کیونکہ سمجھ آگئی کہ اگر ہماری مک مکا کی سیاست کوکچھ ہوا تو دونوں کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔
شیخ الاسلام کے امن نصاب کی پذیرائی
’’پڑوسی ملک بھارت کا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا فروغ امن نصاب اپنے مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ‘‘
شیخ الاسلام نے نظریاتی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہاء پسندانہ رویوں میں اعتدال لانے، قوت برداشت پیدا کرنے اور تکفیری رویوں کی بیخ کنی کے لئے دینی و مذہبی،انتظامی اور دیگر تمام طبقات فکر کے لیے قرآن و حدیث پر مبنی اسلامی امن نصاب ترتیب دیا ہے۔ اس نصاب کی تقاریبِ رونمائی پاکستان سمیت یورپ، امریکہ اور دنیا کے کئی ممالک میں منعقد ہوچکی ہیں اور وہاں کے علمی ،سماجی ،سیاسی اور دینی حلقوں کی طرف سے شیخ الاسلام کی اس کاوش کو خوب سراہا گیا۔ حتی کہ یورپ کی کثیر مساجد نے اس اسلامی امن نصاب کو اپنے مدارس کے نصاب میں شامل بھی کرلیا ہے۔ مگر افسوس کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا سب سے زیادہ شکار اور گذشتہ ایک دہائی سے اس سلسلے میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ملک پاکستان کے حکمران اپنی ناہلی، تعصب اور تنگ نظری کی بدولت اس نصاب کا سرکاری سطح پر اطلاق کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
ہمارے ملک کے حکمرانوں کے ان دہشت گردوں کے محافظ ہونے میں کوئی شک نہیں مگر بقیہ سیاسی جماعتیں بھی ضربِ عضب سے پہلے دہشت گردوں کے بارے میں مختلف رائے رکھتی تھیں۔ کوئی انہیں درست اور کوئی غلط کہتا تھا۔ حتی کہ انہیں غلط ماننے والی جماعتیں بھی ان کے خلاف عسکری آپریشن کے حق میں نہ تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونے والے سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادت بارے مملکت خداداد میں باقاعدہ ایک بحث شروع ہو گئی کہ کیا وہ شہید کہلانے کے حق دار بھی ہیں یا نہیں؟ یہ ایک ایسا علمی و نظریاتی حربہ تھا جو پاک فوج کے جوانوں کے حوصلوں کو کم کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔
اِن حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں مارے جانے والے نہ صرف شہید ہیں بلکہ ان کا اجر دوسرے شہدا ء سے دس گنا زیادہ ہے۔
شیخ الاسلام کی نظر ان محرکات پر بھی تھی جو عرصہ دراز سے لوگوں کی ذہنی برانگیختگی کا سبب بن رہے تھے۔ اسی لئے آپ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ نظریات جن کی وجہ سے دہشت گرد انتہائی قدم اٹھاتے ہیں، جب تک ان نظریات کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ پر لڑی جانے والی جنگ کے بھی کماحقہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ لہٰذا انہی خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمِ اسلام کے مختلف طبقات کی فکر کو جِلا بخشنے کے لیے آپ نے فروغ امن نصاب ترتیب دیا جو انتہا پسندانہ رویوں کی جگہ معتدلانہ رویہ اپنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اسلامی امن نصاب کو ہر سطح پر عملاً رائج کرتے ہوئے دہشت گردی کی نظریاتی بیخ کنی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے شیخ الاسلام کی ہدایات پر حال ہی میں ضرب امن مہم کا آغاز بھی دہشت گردی کے سدباب کے لئے نظریاتی، علمی اور فکری سطح پر ایک مضبوط اقدام ہے۔
PIA کی نجکاری
’’PIA کی نجکاری کے خلاف مظاہرہ۔۔ دو افراد شہید‘‘
اس وقت ایک اہم ایشو پی آئی اے کی نجکاری کا ہے۔ گذشتہ ماہ پی آئی اے ملازمین نے نج کاری کے خلاف مظاہرہ کیا تو اقتدار کے نشے میں چور حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہراتے ہوئے سیدھی گولی چلا کر دو بے گناہوں کو شہید کر دیا۔ شیخ الاسلام نے حکمرانوں کی اس مخصوص سوچ کو تفصیل کے ساتھ بہت پہلے بے نقاب کردیا تھا کہ کس طرح ریاستی اداروں کو کمزور اور دیوالیہ کر کے یہ لوگ خود خرید لیتے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف ایک نجی ایئرلائن آئے دن ترقی کی منازل طے کر رہی ہے جبکہ پی آئی اے روبہ زوال ہے، حالانکہ نجی ائیر لائن کے پاس نہ تو قومی ائیر لائن کی طرزکے جہاز ہیں ، نہ عملہ اور نہ ہی وسائل ۔ پی آئی اے کسی وقت دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی اور مسافر آرام دہ سفر کیلئے پی آئی اے کا انتخاب کرتے تھے ۔ یہ وہ ایئرلائن ہے جس سے ادھار جہاز لے کر امارات ایئر لائن کا آغاز کیا گیا، جو اس وقت دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح چین نے بھی اپنی ایئرلائن کا آغاز پی آئی اے کے جہازوں سے شروع کیا تھا۔ آج ہمارے ان عقلمند اور شاطر حکمرانوں نے اس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ ایک ہی شخص ایک نجی ایئرلائن کا مالک ہے وہ تو ٹھیک چل رہی ہے مگر اسی شخص کے ہاتھوں حکومتی ادارے کا دیوالیہ کیوں؟
ان حکمرانوں کے اپنے کاوربار تو آئے دن ترقی ہی کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان کا کوئی بزنس ایسا نہیں جو نقصان میں ہو لیکن پھر عوام کے خون پسینے سے بنائے یہ ادارے انہی تاجروں کے ہاتھوں تباہ کیوں ہورہے ہیں؟ آج کے حکمران گزشتہ دورحکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مظاہرے کرتے تھے مگر آج پی آئی اے نجکاری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ملازمین پر گولی چلاتے ہیں۔ یہ اپنی طاقت اور فرعونیت میں اتنے مست ہو چکے ہیں کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ناحق خون بہانا ان کیلئے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دھرنے کے دوران بڑے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ’’لوگو اگر آج اپنے حق کیلئے باہر نہ نکلے تو پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ سے اپنے حق میں مظاہرہ کرنے کا آئینی اور قانونی حق بھی چھین لیاجائے گا‘‘۔ اس کے بعد آپ نے دیکھ لیا جو بھی مظاہرے کیلئے نکلتا ہے اس کا کیا حال ہوتا ہے یہاں تک کہ نابینا اور معذور افراد کو بھی نہیں بخشا جاتا۔اس ان حالات میں یہ صدا ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے۔
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
داعش کے پھیلتے سائے
’’وزارتِ خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان میں داعش کا سایہ تک بھی برداشت نہیں کرینگے۔ مگر اس بیان کے چندروز بعد ہی یہ خبر اخبارات کے پہلے صفحے کی زینت بنی کہ لاہور سے کچھ لوگ داعش میں شمولیت کیلئے شام چلے گئے ہیں۔ اس پر حساس اداروں کی کارروائیاں تیز ہوئیں اور خبر آئی کہ داعش کے لوگ پاکستان میں موجود ہیں اور باقاعدہ لوگوں کی تربیت کرتے اور داعش کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔ بعد ازاں سندھ اور اسلام آباد سے داعش کے سرکردہ افراد کی گرفتاری کی خبر آ گئی‘‘
حکمرانوں کے غلط طرز حکمرانی اور ملک و قوم کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے کے پیش نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ’’یہ حکمران پاکستان میں داعش کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ ایک طرف فوج دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنے جارہی ہے مگر دوسری طرف کرپٹ، بدمعاش سیاست دان داعش کو import کرکے ایک نیا میدان جنگ کھولنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس وقت تو حکمرانوں اوران کے چیلوں کی طرف سے شیخ الاسلام کے اس بیان کو غیر سنجیدہ قرار دیا گیا مگر بعد ازاں خود ان کی طرف سے داعش کی موجودگی کے اعلانات سامنے آنے لگے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر یہ لوگ کہاں تھے، جن کا بقول وزارتِ خارجہ سایہ تک نہ تھا۔ یقیناً جنہوں نے انہیں امپورٹ کیا تھا انہی کی سرپرستی اور زیر سایہ کام کررہے تھے۔ اس لیے دہشت گردوں کا سایہ حکمرانوں کے زیرِ سایہ ہونے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل تھا۔
کرپشن کا جن
کرپشن کے حوالے سے گذشتہ ماہ ماڈن ایان کے علاوہ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے مقدمات قومی میڈیا پر زیر بحث رہے۔
ایان کراچی ایئرپورٹ سے 5کروڑ ڈالر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی، جس انسپکٹرنے اسے پکڑا تھا اسے تو کیے کی سزا مل گئی اور وہ اپنے ہی گھر میں مردہ پایا گیا ۔ ماڈل ایان کی گرفتاری، قید، جیل میں گزارے دن اور عدالتوں میں پیشی کے موقع پر انداز و ناز یہ سب میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے آتا رہا اور ہمارا میڈیا بھی اس کے ذریعے ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو سامنے لانے کے بجائے اپنی ریٹنگ کے لئے اس کے ملبوسات اورفیشن میں کھوکر رہ گیا۔ اس کی رہائی کیونکر عمل میں آئی اور اتنے بڑے سکینڈل کے پیچھے کون تھا؟ یہ سب ابھی پردے میں ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ بھی پردے میں ہی رہے گا۔
شیخ الاسلام نے دھرنے کے دوران کرپشن اور منی لانڈرنگ پر گفتگو کرتے ہوئے بہت عرصہ قبل منی لانڈرنگ کے لئے اختیار کردہ ان مخصوص طریقوں کو بیان کردیا تھا کہ کتنی ماڈلز، اینکرز اور سیاسی شخصیات اس طرح منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی اس گفتگو کو ایان منی لانڈرنگ کیس کے دوران TV چینلز نے بھی عوام کو سنایا اور اعتراف کیا کہ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔
محترم قارئین! حکمرانوں کا آپس میں مک مکا ہو، یا جعلی الیکشن کمیشن کا قیام۔۔۔ انتخابات میں دھاندلی کی خبر ہو یا دہشت گردی کے خلاف حکمرانوں کے غیر سنجیدہ رویوں کی نشاندہی۔۔۔ منی لانڈرنگ کے جدید طریقوں کو بے نقاب کرنا ہو یا قومی ایکشن پلان کو متنازعہ بنانے کی حکومتی مذموم کاوشوں سے پردہ ہٹانا۔۔۔ ان تمام امور پر شیخ الاسلام نے پوری قوم، میڈیا اور مقتدر طاقتوں کو قبل از وقت آگاہ کردیا۔ مگر افسوس ان میں سے کوئی بھی اس وقت بیدار نہیں ہوا اور جب یہ سانحات رونما ہوجاتے ہیں تو پھر ہر کوئی کہتا نظر آتا ہے کہ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔
دنیا حیران ہے کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات کس طرح سچ ثابت ہوجاتی ہے۔ وہ یہ نہ جان پائیں گے، اس لئے کہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
اتقوا فراسة المؤمن انه ينظر بنورالله
’’مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
جو کاٹنا نہیں چاہتے، وہ بوتے ہی کیوں ہو؟
آج وطنِ عزیز میں ہر طبقہ اور ادارہ اپنے حقوق کیلئے
احتجاج کرتا، دھرنے دیتا اور آواز بلند کرتا نظر آتا ہے مگر یہ انفرادی آوازیں ریاستی
جبرو تشدد سے دبا دی جاتی ہیں۔ کاش! یہ اس آواز پر لبیک کہتے جب انہیں پکارا گیا مگر
یہ اپنی ہی زندگی میں مست رہے۔
(طاہر محمود اعوان)
یاد ہے؟جب شہرِ اقتدار میں
عوام کے لئے ممنوعہ شاہراہ پر
اِک کربل سجا تھا
اورحشر سے پہلے اک حشر اٹھا تھا؟
جب نظامِ ظلم کے سامنے
کچھ سر پھرے اْٹھ کھڑے تھے
تم گھروں میں سوتے رہے
اور وہ تنہا لڑے تھے؟
یاد ہے ؟
اگست کی سیاہ رات میں وہ بہتے خون؟
جب آنسو گیس کی شیلنگ
اور قتل عام کا ریاستی حکم ہوا تھا
تو کس کے سینے پر کتنی گولیاں چلی تھیں؟
کس کا بازو ٹوٹا تھا؟
کس کی ٹانگیں دور جا پڑی تھیں؟
یاد ہے ؟
جب ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے تھے
اور پھر اْن کٹے پھٹے جسموں میں سے بھی
کتنوں کو پولیس نے اٹھا کر قید خانوں میں ڈال دیا تھا؟؟
شاید تم بھول گئے!
مگر میں جانتا ہوں!میں جانتا ہوں کہ
قربانیوں کی نہ ختم ہونے والی داستان میں
کس کس کے لہو کے کتنے قطرے ملے تھے
اور کیسے خونی تاریخ رقم ہوئی تھی
ہاں میں جانتا ہوں!میں جانتا ہوں کہ
جب کھلے آسمان تلے پڑے گمنام لوگوں پر
تیز بارش نے حملہ کیا تھا
تو کس نے کہاں پناہ ڈھونڈی تھی؟
اور جب سورج آگ برساتا تھا
تو تپتی سڑک پر کیسے پاؤں جلتے تھے؟
کس نے کتنے دن بھوک کاٹی تھی؟
تمھیں شاید خبر نہ ہو
مگر میں جانتا ہوں کہ
کس کے پاس کتنا زادِ راہ تھا؟
تمہارے اچھے دنوں کی خاطر
کس نے نوکری چھوڑی،گھر بیچا
کون تھا جو ادھار لے کر چلا؟
میں گواہ ہوں کہ
بزم انقلاب سجنے اور دل مچلنے سے پہلے
جب درندگی چل کر گھروں تک آگئی تھی
تو گرفتاری سے بچنے کیلئے کس نے
کتنے جگ رتے گھر سے باہر کاٹے؟
کون رشتے داروں کے گھر چھپا تھا؟
کِسے جنگلوں میں پناہ ملی تھی؟
اور کس نے مٹی سے لپٹ کر
وطن کی عظمت کا خواب دیکھا؟
تمھیں نہیں معلوم تو ذرا!
میری ڈائری سے پوچھو
کہ ملک و قوم کی رکھوالی کیلئے
اہل وطن کے حقوق کی بحالی کے لئے
کون تھا ؟ کہ جس نے
اک بزم انقلاب سجائی تھی
مگر تمہیں کیا نظر آتا!
تمہاری آنکھوں پر تعصب کی عینک تھی
مگر میں نے دیکھا تھا
کہ جب ظلم کی آندھی چلی تھی تو
کتنے لاشے گرے تھے
وہ بچے، وہ بوڑھے، وہ وطن کی بیٹیاں
ظلم تو سہتے مگر استقامت سے کھڑے تھے
جانتے ہو کون تھے وہ؟
جو تمہارے اور میرے حق کیلئے
جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جبر سے لڑگئے تھے؟
وہ جنھوں نے آنے والی نسلوں کے
اچھے مستقبل کیلئے
احتجاج کے گھنگرو پہن کر
سامراجی قوتوں کے سامنے رقص کیا تھا
یاد ہے؟
وہ مہینوں تمہیں بلاتے رہے
کہ آؤ! گرتی ہوئی دیوارِ ظلمت کو مل کر
ایک آخری دھکا دیں
مگر تم سچ جاننے کے باوجود
حق کیلئے آواز اٹھانے سے کتراتے رہے
بس الزامات کے تیر ہی برساتے رہے
اب جب کہ چاروں طرف سے
بلاؤں نے تمہارا گھر دیکھ لیا ہے
تو روتے کیوں ہو؟
جو کاٹنا نہیں چاہتے،وہ بوتے ہی کیوں ہو؟