سوال: باپ کا اپنی اولاد کو اپنی جائیداد سے عاق کرنے کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ جیسے کہ ہم اخبارات میں اکثر دیکھتے ہیں کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو نافرمانی کی وجہ سے اپنی ساری جائیداد اور مال سے عاق کرتا ہوں۔
جواب: اس عاق کرنے سے مراد صرف یہ معنی لیا جائے گا کہ باپ کی زندگی میں بیٹے نے جو لین دین کیا یا کوئی بھی اور کام کیا، اس کا وہ خود ہی ذمہ دار ہو گا، باپ نہیں ہو گا۔ لیکن اس عاق نامہ کی وجہ سے بیٹے کو جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جائیداد میں اس بیٹے کو بھی دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ہی حصہ ملے گا۔ لہذا عاق نامہ کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
سوال: مصنوعی دانت لگوانے کی صورت میں وضو اور غسل کے کیا احکامات ہیں؟
جواب: مصنوعی دانت لگوانے کی دو صورتیں ہیں : ایک ایسے دانت جو مستقل لگا دیے جائیں اور پھر آسانی سے نہ نکالے نہ جا سکیں، ایسے مصنوعی دانت اصل دانت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا حکم اصل دانتوں کا ہی ہوگا۔ وضو اور غسل میں ان دانتوں تک پانی پہنچانا فرض ہے لیکن دانت نکالنے اور تہہ تک پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے ایسے دانت جو مستقل تو نہ لگائے جائیں بلکہ جنہیں حسبِ ضرورت نکالا یا لگایا جا سکے۔ اِس صورت میں اْس وقت تک وضو اور غسل درست نہ ہوگا جب تک ان دانتوں کو نکال کر اصل جڑوں تک پانی نہ پہنچ جائے۔
سوال: کیا دوران نماز موبائل بند کرنے سے نماز ہو جائے گی؟
جواب: اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بناء پر نماز فاسد ہو جائے گی۔
موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جیسا کہ امام طحطاوی فرماتے ہیں :
لو نظر المصلی مکتوب وفهمه سواء کان قرآنا اوغيره قصد الاستفهام او لا اساء الادب، ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالکلام.
(طحطاوی، مراقی الفلاح : 187)
’’نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘
سوال: کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ 786 لکھا جا سکتا ہے؟
جواب: بسم اللہ شریف کے فضائل اور برکات مختلف روایات سے واضح ہیں اس لیے 786 لکھنے سے بندہ ان تمام برکات سے محروم رہتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر مقام پر جہاں تسمیہ لکھنا ہو پورا لکھنا چاہیے، ابجد کے اعداد استعمال نہیں کرنے چاہیے۔ ماضی میں تمام مفسرین، محدثین، فقہا اور علماء مکمل تسمیہ لکھتے تھے اور اس پر تمام اہل اسلام کا عمل جاری ہے۔
اسی طرح صرف ص، رض اور رح لکھنا بھی درست نہیں ہے، ان کو بھی مکمل لکھنا چاہیے۔ خاص طور پر درود شریف تاکہ ثواب و برکات حاصل ہو۔
سوال: قبر بنانے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
جواب: قبر بنانے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ قبر کو اندر سے پختہ نہ کیا جائے، یہ جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر ایسی جگہ قبر بنائی جا رہی ہو جہاں خطرہ ہو کہ قبر کے اندر پانی چلا جائے گا، یا زمین ایسی ہے کہ جب تک اندر سے پختہ نہ کیا جائے، قبر ٹوٹ جائے گی تو ایسی صورت میں قبر کو اندر سے بھی پختہ کیا جائے گا۔ باہر سے قبر کو پختہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ قبر کو اوپر سے کچا رہنے دیا جائے۔
میت کو تابوت سمیت قبر میں دفن کر دینا جائز ہے۔ قرآن مجید میں قبر پختہ کرنے کا نہ ذکر ہے اور نہ ممانعت۔ حدیث پاک میں قبر پختہ کرنے کی ممانعت ہے، مگر اس سے مراد قبر کو بلا ضرورت اندر سے پختہ کرنا ہے، اوپر سے پختہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر صحابہ کرام، آل بیت اطہار، اولیاء اور ائمہ کرام کے مزارات پر قدیم زمانے سے پختہ عمارات تعمیر کی گئی ہیں۔
قبر پختہ نہ کرنا بہتر ہے اور کریں تو اندر سے کچی رہے، اوپر سے پختہ کر سکتے ہیں، طول و عرض موافق میت ہو اور بلندی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو اور صورت ڈھلوان بہتر ہے۔
قبر کو اندر سے بھی پختہ کیا جا سکتا ہے، پکی اینٹ سے تعمیر کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ فقہاء نے پکی اینٹ، لکڑی کے صندوق اور تابوت کی اجازت دی ہے، اگرچہ تابوت لوہے کا ہو۔
(فتاویٰ رضويه، 425)
اگر زمین کمزور اور نرم ہو اور قبر کے اندر سے ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو مذکورہ بالا ساری چیزیں قبر کے بنانے میں استعمال کر سکتے ہیں۔
(فتاویٰ رضويه، 422-424)
لہذا پتہ چلا کہ قبر کو باہر سے پختہ کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ اندر سے پختہ کرنا ناجائز ہے مگر بوقت ضرورت قبر کو اندر سے بھی پختہ کیا جا سکتا ہے، اور میت تابوت سمیت دفن کیا جا سکتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں جو قبروں کو پختہ کرنے کی ممانعت آئی ہے وہ اندر سے پختہ کرنے کی ہے، اندر سے قبر کو پختہ کرنا ناجائز ہے مگر بوقت ضرورت کیا جا سکتا ہے۔
سوال: کیا ٹوتھ پیسٹ وغیرہ مسواک کے قائم مقام ہے؟ کیا مسواک کی جگہ منجن یا ٹوتھ پیسٹ کا استعمال سنت میں داخل ہے؟
جواب: بلاشک و شبہ مسواک کے بارے میں اتنی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جو مسواک کی فضیلت اور اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ مسواک کا معنی ہے، صاف کرنے والا آلہ۔ یعنی وہ چیز جس سے منہ کو صاف کیا جاتا ہے۔ اسلام میں مسواک کی اتنی اہمیت اور فضیلت جو بیان کی گئی اس کا مقصد ہی صفائی ہے، جو کسی بھی چیز سے حاصل ہو سکتا ہے، تو یہی مقصد ٹوتھ پیسٹ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا ٹوتھ پیسٹ مسواک کے ہی قائم مقام ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسواک ہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
مسواک کی جگہ منجن یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا سنت کے دائرہ میں آتا ہے جس کی دلیل ہمیں مندرجہ ذیل احادیث سے ملتی ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تُجْزِی الاَصَابِعُ مَجْزَی السِّوَاکَ.
(بیہقی، السنن الکبری، 1 : 41، رقم : 178)
’’انگلیاں مسواک کے قائم مقام ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے ہمیں مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے، کیا اس کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’تمہارے وضو کے وقت تمہاری دو انگلیاں مسواک ہیں جن کو تم اپنے دانتوں پر پھیرتے ہو۔ بغیر نیت کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اور ثواب کی نیت کے بغیر کوئی اجر نہیں ہوتا۔‘‘
(بيهقی، السنن الکبری، 1 : 41، رقم : 179)
ان احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ مخصوص لکڑی سے دانت صاف کرنا اسلام کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کا اصل مقصود یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے دانت صاف رکھے۔ اس لیے منجن اور ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کر لیے جائیں تب بھی حضور علیہ السلام کے حکم پر عمل ہوتا ہے اور اس سے سنت کا ثواب ملتا ہے۔
سوال: کیا گرمی سے بچنے کے لئے پہلی صف کو مکمل کئے بغیر دوسری صف میں UPS پر لگے پنکھے کے نیچے کھڑے ہونا جائز ہے؟
جواب: اگر نمازی کم ہیں اور گرمی کی شدت زیادہ ہے تو آدھے پہلی صف میں اور آدھے دوسری صف میں برابر برابر کھڑے ہو جائیں۔ اگر نمازی زیادہ ہیں مثلا زیادہ صفیں ہوں تو ایسی صورت میں پہلے پہلی صف مکمل کریں پھر دوسری اور اس طرح باقی صفیں۔ نمازی تھوڑے ہونے کی صورت میں جائز ہے اور زیادہ کی صورت میں پہلی صف کو مکمل کیے بغیر جائز نہیں ہے۔
سوال: تقطیر بول (بار بار پیشاب کے قطرے آنے) کی صورت میں نماز کیسے پڑھی جائے گی؟
جواب: جب تک قطرے آنا بند نہ ہوں تب تک آپ استنجا نہیں کر سکتے، جب یقین ہو جائے کہ قطرے بند ہو گئے ہیں تو پھر استنجا کریں، اگرچہ اس دوران نماز باجماعت یا وقت جانے کا خطرہ ہو۔
لیکن اگر یہ قطرے ایک نماز کا مکمل وقت آتے رہے اور بند نہ ہوں تو پھر آپ معذور ہیں۔
یعنی عصر کا مکمل وقت قطرے آتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی اذان ہو گئی تو پھر آپ معذور ہیں اور معذور کے لیے ضروری ہے کہ ہر نماز کیلئے نیا وضو بنائے (اس وضو سے فرض نماز، نوافل، قضا نمازیں اور تلاوت قرآن وغیرہ کرسکتے ہیں) اور اس دوران اگر قطرے آتے بھی رہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ البتہ اس نماز کا وقت ختم ہونے پر وضو خود بخود ختم ہو جائے گا اور نیا وضو بنانا ہوگا۔
(کتب فقه، عالمگیری، 1 : 49)
سوال: کیا ڈیجیٹل اور کمپیوٹر سکرین پر قرآن پاک کو بے وضو پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر ڈیجیٹل قرآن پاک صرف قرآن مجید کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور یہ اس میں مستقل طور پر ہے اس طرح کہ اس کا الگ کرنا یا نکالنا (ختم کرنا) مشکل ہو تو پھر بغیر وضو کے چھونا جائز نہیں ہے۔ جبکہ سننا جائز ہے۔
اگر اس میں اور بھی بہت ساری چیزیں ہوں اور آسانی کے ساتھ نکالا (ختم کرنا) جا سکتا ہو تو پھر بغیر وضو کے پڑھنا اور سننا دونوں صورتوں میں جائز ہے۔