اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ ان اشیاء کی قسمیں کھانا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق و نسبت رکھنے والی اشیاء کی قدرو منزلت اور عظمت کا ایک اظہار ہے۔ اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج کے بیان میں جس طرح ’’سورۃ النجم‘‘ کا آغاز قسم سے فرمایا، اسی طرح معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ’’سورۃ الطور‘‘ میں بھی مختلف اشیاء کی قسمیں کھاتے ہوئے کئی معارف بیان فرمائے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَالطُّوْرِ. وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ. فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ. وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ. وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِo
’’(کوہِ) طُور کی قَسمo اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسمo (جو) کھلے صحیفہ میں (ہے)o اور (فرشتوں سے) آباد گھر (یعنی آسمانی کعبہ) کی قَسمo اور اونچی چھت (یعنی بلند آسمان یا عرشِ معلّٰی) کی قَسم‘‘۔
(الطور:1)
اللہ رب العزت نے درج بالا ہر آیت مبارکہ کا آغاز قسم سے کیا ہے۔ آیئے ان آیات مبارکہ کے قسم کے ساتھ آغاز کی وجوہات کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ والطور
جمیع مفسرین کا اجماع ہے کہ لفظ ’’طور‘‘ سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں ’’الطور‘‘ سے مراد کوہ طور ہے۔ مفسرین کرام نے اللہ رب العزت کی طرف سے کوہِ طور کی قسم کھانے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے اللہ رب العزت نے سیدالجبال یعنی پہاڑوں کا سردار بنایا ہے۔
ھوالمکان الذی کلم اللہ تعالیٰ علیہ موسیٰ علیہ السلام
’’یہ وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام عطا کیا‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں قسم کا سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونا ہے تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے کسی مقام پر بھی کوئی ایسی آیت نہیں ملتی کہ جہاں اللہ رب العزت نے دیگر انبیاء یا ان کی کسی نسبت کا ذکر کیا ہو اور اس ذکر میں قسم کا استعمال کیا ہو۔ پھر اس خاص مقام ’’طور‘‘کی قسم کیوں کھائی جارہی ہے۔۔۔؟ قرآن مجید میں جب اللہ رب العزت انبیاء کرام کی تقدیس، فضائل اور عظمت کا ذکر کرتا ہے تو کبھی ان پر سلام بھیجتا ہے۔۔۔ کبھی ان انبیاء کی حیات پر سلام بھیجتا ہے۔۔۔ کبھی ان کی ممات پر سلام بھیجتا ہے۔۔۔ کبھی انبیاء کی نسبت کے حامل علاقوں کو ’’خطہ مبارکہ‘‘ کہتا ہے مگر کسی بھی مقام پر انبیاء میں سے کسی نبی کی نسبت کو بیان کرنے کے لئے نہ وائو قسمیہ استعمال کرتا ہے اور نہ قسم کا اظہار کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم کلام ہونے کی وجہ سے ’’طور‘‘ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اس کا ذکر قسم سے کیا جائے بلکہ اس قسم کا سبب کچھ اور ہے؟
کچھ اسباب ایسے ہوتے ہیں جو عام مفسرین کے علم کے سمندر میں مل جاتے ہیں۔ کچھ اسباب ایسے ہوتے ہیں جو عام مفسرین نہیں بلکہ خواص کے سمندروں میں غوطہ زن ہوئے بغیر نہیں ملتے۔ کچھ عام علماء کے ہاں ملتے ہیں، کچھ خاص عشاق کے ہاں ملتے ہیں اور کچھ عرفاء کے ہاں ملتے ہیں۔ آیئے ان علماء و عرفاء کے اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں:
- امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’طور‘‘ کی قسم کے سبب کے حوالے سے فرمایا کہ
اقسم الله به لانه الموضع الذی سمع فیه موسیٰ ذکر محمد صلیٰ الله علیه وآله وسلم وذکر امته
’’اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور کی قسم اس لئے کھائی کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ذکر سنا‘‘۔
(تفسير القشيری، ج3، ص241)
یعنی کوہ طور کی قسم کھانے کا سبب درحقیقت ذکرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ رب کائنات کے نزدیک وہ جگہ بھی قسم کھانے کے لائق ہے جہاں ذکرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا اور سنا جاتا ہے۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی عربی تصنیف ’’کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَۃِ الْاَقْسَام لِلْمُصْطَفٰی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن مجید میں مذکور قسموں کو بیان کرتے ہوئے ان کے اسباب بیان کئے ہیں۔ اس کتاب میں ’’والطور‘‘ کے حوالے سے شیخ الاسلام نے بیان کیا ہے کہ
يحتمل ان يکون سبب آخر لهذا القسم لان النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم لما بدء السفر من المسجد الحرام ليلة الاسراء انتقل الی طور سيناء ونزل به قبل ذھابه صلیٰ الله عليه وآله وسلم الی المسجد الاقصیٰ کما جآء الحديث صحيحا
’’کوہِ طور کی قسم کھانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چونکہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو مسجد اقصیٰ سے قبل کوہ طور پر بھی تھوڑی دیر قیام فرمایا جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے‘‘۔
پس اللہ رب العزت نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوہ طور پر تھوڑے وقت کے لئے قیام ہی کی نسبت سے کوہ طور کی قسم کھاتے ہوئے اسے عظمت عطا فرمائی۔ گویا کوہِ طور کی قسم کھانے کا تعلق معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمحات کے ساتھ ہے۔ معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی ‘‘۔
(بنی اسرائيل: 1)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے جارہے ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ مجھ سے ہمکلام ہونے سے پہلے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر لے جانا چاہتا ہوں جہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی مجھ سے ہمکلام ہوا تھا، وہ مجھے تکنے کی خواہش کرتا رہا، لیکن اس کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ اسے میں نے صرف اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا اعزاز عطا کیا تھا۔ آج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر بلاکر دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں سیدالانبیاء کو اپنی زیارت سے مشرف کرنے جارہا ہوں، وہ اس سیدالجبال پر آرہے ہیں۔
پس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین کی نسبت سے ’’طور‘‘ کو حاصل یہ مقام ہی اس کی قسم کھانے کا سبب ٹھہرا۔ سفر معراج میں اللہ رب العزت نے ’’طور‘‘ پر پہلا پڑائو کروایا۔ فرمایا: محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں رک جایئے تاکہ موسیٰ علیہ السلام بھی خوش ہوجائیں کہ یہاں میں آیا تھا اب سیدالانبیاء آئے ہیں۔
پس طور کو ’’والطور‘‘ کہنا موسیٰ علیہ السلام کے ہمکلام ہوجانے کی جگہ کے سبب نہ تھا۔ اگر یہ سبب ہوتا تو دیگر انبیاء کو بھی یہ شرف ملا ہوتا کہ اُن کے ساتھ نسبت والی چیزوں کی قسمیں کھائی جاتیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے قسموں کی ضرورت نہیں، میری یہ شان نہیں کہ میں اپنی بنائی ہوئی مخلوق کی قسم کھائوں۔ میری قسم کا سبب کچھ اور ہے۔ میں انبیاء پر سلام ضرور بھیجتا ہوں مگر قسم صرف سیدالانبیاء اور اُن سے نسبت رکھنے والی اشیاء کی کھاتا ہوں۔ فرمایا:
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ. وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِ
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں‘‘۔
(البلد: 1-2)
اس جگہ انبیاء آتے رہے، اسے بناتے رہے، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل نہ کی مگر جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم لگے اور اس جگہ کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ملی تو تب اللہ نے اس شہر مکہ کی قسم کھائی۔ فرمایا کہ میری شان نہیں کہ میں اس بلد حرام کی قسم کھائوں مگر اس لئے قسم کھاتا ہوں کیونکہ محبوب یہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔ گویا مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہوئی تو خدا نے اس شہر کو بھی اپنی قسم سے شرف عطا کردیا۔
- صاحب روح البیان امام شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالعزیز المکی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ والطور ہوالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
’’الطور‘‘ سے مراد ذات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے‘‘۔
یعنی اگر ’’طور‘‘ سے مراد ذات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتی تو خدا اس کی کبھی قسم نہ کھاتا۔
کان فی امته کالجبال فی الارض استقرت به الامة علی دينهم الی يوم القيامة کما تستقر الارض بالجبال
’’آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت میں اُن پہاڑوں کی طرح ہیں جن کی وجہ سے زمین برقرار ہے، ایسے ہی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت میں ہیں تو امت آباد ہے اور اُن کا دین قیامت تک جاری ہے‘‘۔
(تفسير روح البيان، ج9، سورة الطور)
اللہ رب العزت نے جس زمین کو ’’ کوہِ طور‘‘ کی صحبت دی، اس سے وہ زمین بھی مستقر ہوگئی، اسے ثابت قدمی مل گئی، وہ اپنی جگہ پر جم گئی، متمکن ہوگئی، اسے اطمینان و سکون مل گیا، اب اس زمین کو کوئی ہلا نہیں سکتا۔ پھر فرماتے ہیں کہ اسی طرح میرے نبی بھی اس ’’طور‘‘ کی مانند ہیں کہ جنہوں نے اپنی امت کو بھی مستقر اور مطمئن کردیا۔ اب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ ’’والطور‘‘ یعنی ذاتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم جن کے ساتھ نسبت رکھنے والی امت کو ان سے کوئی جدا نہیں کرسکتا۔
2۔ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْر
اس آیت مبارکہ کا آغاز بھی رب کائنات قسم کے ساتھ فرمارہا ہے کہ ’’اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم‘‘۔ ’’کتاب مسطور‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کتاب کی کیوں قسم کھائی؟ کتابیں تو تورات، انجیل اور زبور بھی ہیں، یہ ساری کتابیں سماوی ہیں، خدا کی بارگاہ سے منزل علی الانبیاء ہیں تو پھر ہر کتاب کی خدا قسم کیوں نہیں کھاتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اللہ ہر پہاڑ کی قسم نہیں کھاتا صرف ’’طور‘‘ کی کھاتا ہے، اسی طرح ہر کتاب کی قسم نہیں کھاتا صرف اس کتاب کی قسم کھاتا ہوں جو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ معلوم ہوا وہ کتاب جسے نسبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل گئی، اللہ صرف اس کی قسم کھاتا ہے۔
3۔ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْر
اس تیسری آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ قسم کھارہا ہے کہ میں بیت المعمور کی قسم کھاتا ہوں۔ بیت المعمور کیا ہے؟ اور اس کی قسم کیوں کھائی جارہی ہے؟ شیخ الاسلام ’’کشف الغطا‘‘ میں اس حقیقت سے بھی یوں پردہ اٹھاتے ہیں:
انہ البیت فی السماء العلیا تحت العرش بحیال الکعبۃ، حرمتہ فی السماء کحرمۃ الکعبۃ فی الارض وہذا البیت الذی انتقل الیہ النبی الحبیب المصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایضاً لیلۃ الاسراء والمعراج کما ورد فی الحدیث الصحیح، وقیل ہوالبیت الحرام ولا ریب ان کلا منہما معمور، وہذا قبلۃ النبی المصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم التی اختارہا وحول وجہہ الیہ فی الصلاۃ فکل منہما سید البیوت فکل احد من البیتین، منسوب الی الحبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فاما الکعبۃ، فہی بدایۃ سفرہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فی لیلۃ الاسراء والطور وبیت المقدس کانتا منزلتین من سفرہ الارضی والبیت المعمور کان احدا من منازلہ فی سفرہ السماوی۔
’’ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے اور زمین پر موجود کعبۃ اللہ کے عین اوپر بیت المعمور موجود ہے۔ جس طرح زمین پر کعبہ معظمہ کی حرمت و فضیلت ہے اسی طرح آسمان پر بیت المعمور کی حرمت ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ معراج کی رات حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المعمور کی طرف بھی تشریف لے گئے۔ یہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ بھی ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں اس کی طرف چہرہ کیا۔ یہ دونوں گھر بیت المعمور اور کعبہ معظمہ سید البیوت ہیں اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انہیں نسبت حاصل ہے۔ کعبہ معظمہ معراج کی رات سفر کے آغاز کی جگہ ہے۔ کوہ طور اور بیت المقدس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمینی سفر کے پڑائو ہیں جبکہ بیت المعمور آپ کے سماوی سفر کا ایک پڑائو ہے‘‘۔
کعبہ معظمہ کی زیارت کرنے والے زمینی اور فرشی ہیں جبکہ بیت المعمور کی زیارت کرنے والے عرشی اور سماوی ہیں۔ یہ بیت المعمور پہلے بھی تھا، یہ طور پہلے بھی تھا، یہ کتاب پہلے بھی تھی مگر لیلۃ المعراج کی رات عقدہ حل ہوگیا کہ رب نے ان کی قسمیں کیوں کھائیں۔۔۔؟ جانا تو ’’دنا فتدلی‘‘ پر تھا مگر جو جو مقام، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں آیا، اللہ تعالیٰ اس کی قسمیں کھاتا چلا گیا اور لوگوں کو عقیدہ سمجھا دیا کہ میں نے میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے اپنے پاس بلایا، اس موقع پر میں تجھے تکتا رہا اور تو مجھے تکتا رہا لیکن اپنی مخلوق کو بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں جہاں سے میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گذرتے چلے گئے، میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم لگے، میں ان مقامات کی قسم کھاتا ہوں۔ جب طور پر قدم لگے تو خدا نے قسم کھائی والطور۔ جب بیت المعمور کے قریب گئے تو اس کی قسم کھائی کہ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُوْر۔ فرمایا کہ بیت المعمور کی میں نے اس لئے قسم نہیں کھائی کہ وہاں دن رات فرشتے میرا طواف کرتے ہیں، مجھے ان کے طواف سے غرض نہیں بلکہ مجھے تو وہ لمحہ پسند ہے کہ جب تو بیت المعمور سے گزر رہا تھا اور سماوی مخلوق سیاح لامکاں کی زیارت سے مشرف ہورہی تھی۔
4۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْع
اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ رب العزت نے قسم کھائی کہ ’’اونچی چھت (یعنی بلند آسمان) کی قسم‘‘۔ سوال یہ ہے کہ بلند آسمان کی قسم کیوں کھائی۔۔۔؟ امام عبدالعزیز مکی فرماتے ہیں کہ
’’السقف المرفوع هو راس النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم‘‘
’’السقف المرفوع سے مراد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس ہے‘‘۔
(تفسير روح البيان، ج9، سورة الطور)
وہ سرِ انور جسے ہم نے کائنات میں وہ رفعت عطا کی کہ جس رفعت کا مقابلہ کائنات کی کوئی شے نہ کرسکی۔ جس طرح آسمان زمین سے بلند ہے، اسی طرح مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراقدس کائنات میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْع‘‘ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
يعني السماء، هي کانت طريقه الی الجنة وسدرة المنتهی والعرش وآيات ربه الکبری حتی وصل الی (ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسين او ادنی) وهذه کانت نهاية سفره فی المعراج کما روی البخاری عن انس: ودنا الجبار رب العزة فتدلی حتی کان قاب قوسين او ادنی
’’السقف المرفوع سے مراد آسمان ہے۔ اللہ رب العزت نے اس لئے آسمان کی قسم کھائی کہ یہ معراج کی رات آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنت، سدرۃ المنتہٰی اور عرش کی طرف جانے کا راستہ تھا اور اللہ رب العزت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہے۔ اسی راستے سے گزر کر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دنا، فتدلی، قاب قوسین کے مراحل سے ہوتے ہوئے او ادنی کی بلندیوں پر فائز ہوئے جو کہ اس سفرِ معراج کی غایت و مقصود تھا۔ جس طرح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ رب العزت، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا اور پھر اور قریب ہوا حتی کہ دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا‘‘۔
معراج۔ ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار
سفر معراج درحقیقت غایت ادب محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کررہے تھے تو ان کا بارگاہِ الوہیت کے ادب کا عالم یہ تھا کہ اللہ رب العزت خود فرمارہا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
(النجم: 17)
شیخ اسماعیل حقی روح البیان میں فرماتے ہیں کہ اس سفر میں ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم یہ تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام حواسِ ظاہری و باطنی رب کائنات کی بارگاہ میں محبت و عقیدت سے جھکے ہوئے تھے۔ دَنَا مقامِ نفسِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔۔۔ فَتَدَلّٰی مقامِ قلبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔۔۔ قَابَ قَوْسَیْن مقامِ روحِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔۔۔ اَوْ اَدْنٰی مقامِ سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔۔۔ مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حال کو بیان کررہا ہے جب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی صمدیت و الوہیت میں او ادنی میں قدم رکھ رہے تھے۔
جب موسیٰ علیہ السلام ’’طور‘‘ پر جانے لگے تو اللہ رب العزت نے فرمایا:
اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْکَ ج اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی
’’بے شک میںہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بے شک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو‘‘۔
(طه: 12)
عرفاء بیان کرتے ہیں کہ یہاں نعلین سے مراد ہر وہ لباس تھا جو خدا کی بارگاہ میں آنے سے پہلے اتارا جاتا ہے۔ اب موسیٰ علیہ السلام ہمکلام ہونے جارہے تھے تو انہیں فرمایا کہ اسباب کے لباس اتار کر پھر میرے پاس آئو لیکن جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دَنَا، تَدَلّٰی، قَابَ قَوْسَیْن اور اَوْ اَدْنٰی کی طرف سفر کیا تو اس وقت بھی وہاں نفس روح، قلبِ اور سرکا ایک لباس تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو نعلین اتارنے کا حکم دیا جبکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کچھ نہ کہا بلکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفر کو از خود نہایت ادب سے طے کیا۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفر کے لئے تمام لباس خود ہی اتارنے شروع کردیئے۔ نفس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے مقامِ خدمت میں رکھا تھا۔۔۔ قلبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے مقامِ محبت پر رکھا تھا۔۔۔ روحِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے مقام قربت پر رکھا تھا۔۔۔ سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے مقام مشاہدات عطا کرنے تھے۔ گویا نفس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات خدمت میں رکھ دی گئی۔۔۔ قلبِ مصطفی کی بقاء محبت میں رکھ دی گئی۔۔۔ روحِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام قربت میں رکھ دیا گیا۔۔۔ اور سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا مشاہدۂ حق میں رکھ دی گئی۔
لباسِ حقیقتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ چاروں سعادتیں تھیں جو لامکاں میں بارگاہ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردی گئیں۔ اب یہاں بشریت و نورانیت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر نہیں بلکہ حقیقت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔ اس لئے کہ بشریت بیت المقدس پر رہ گئی، نورانیت سدرۃ المنتہٰی پر رہ گئی، اب یہ حقیقتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھی جو لامکاں کی طرف محو پرواز تھی۔ اس حقیقت کے لباس کچھ اور تھے۔ دنیا والوں کے لئے بشریت کا لباس ہے۔ سماوی مخلوق کے لئے روحانیت کا لباس ہے جبکہ حقیقتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس اور ہے۔ محمدیت کے لباس میں نفسِ مصطفی بھی واصل محبوب۔۔۔ قلب بھی واصل محبوب۔۔۔ روح بھی واصل محبوب اور سر بھی واصل محبوب تھا۔ ایک طرف نفس خدمت میں محو تھا۔۔۔ قلب محبت میں محو تھا۔۔۔ روح قربت میں محو تھی۔۔۔ سر مشاہدہ یار میں محو تھا۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لباس کچھ اور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تجلی پڑی تو کوہِ طور ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قربتوں سے ہمکنار فرمایا، چونکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حقیقت کے لباس میں موجود تھے اسی بناء پر بلاحجاب دیدار کرتے رہے مگر نہ طور کی طرح ہوئے اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند بے ہوش بلکہ رب کائنات نے خود فرمایا کہ مَازَاغَ الْبَصر وَمَا طَغٰی۔
موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
رب ارنی ’’مولی تجھے میں دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
رب نے فرمایا: لم ترانی۔ ’’اے موسیٰ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
اس لئے کہ اے موسیٰ اس لباس کے ساتھ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اسباب کی دنیا میں رہ کر لامکاں والے کو نہیں دیکھا جاسکتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اصرار جب بڑھتا ہے تو فرمایا:
انظر الی الجبل ’’اس پہاڑ کی طرف دیکھ‘‘۔
فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَه فَسَوْفَ تَرَانِیْ
’’پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے‘‘۔
(الاعراف:143)
معلوم ہوا کہ یہ ’’طور‘‘ بھی اسباب دنیا کا طور ہے۔ تو ابھی اسباب کی دنیا میں ہے، اسباب میں رہ کر مجھے نہیں دیکھ سکتے:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّه لِلْجَبَلِ
’’پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ انوار سے) اسے ریزہ ریزہ کردیا‘‘۔
(الاعراف:143)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ’’طور‘‘ خدا کی تجلی برداشت نہ کرسکا تو خدا نے اس کی قسم کیوں کھانی ہے؟ پتہ چلا یہ قَسم اس ’’طور‘‘ کی نہیں تھی بلکہ کسی اور ’’طور‘‘ کی تھی جو شب معراج ظہور پذیر ہوا۔ جو اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا، اس طور نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رب کیسے دکھانا تھا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوگئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بے ہوش ہونے کا سبب کیا ہے۔۔۔؟ اس کا سبب درحقیقت ’’لباس‘‘ ہے۔ لباس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے، لباس موسیٰ اور ہے۔۔۔ لباس نبوت اور ہے، لباس نبوتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔ لباس بشریت اور ہے، لباسِ بشریتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔۔۔ لباس نورانیت اور ہے، لباسِ نورانیتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔ لباس عرفان اور ہے، لباسِ عرفانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔ لباس حقیقت اور ہے، لباسِ حقیقتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔ لباس مشاہدہ اور ہے، لباس مشاہدہ حق للمصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہے۔
حقیقتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر
اب عالم لامکاں میں نفس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عامِ نفس جیسا نفس ہے۔۔۔ نہ قلب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عام قلب جیسا قلب ہے۔۔۔ نہ روح مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عام روحوں جیسی روح ہے۔۔۔ نہ حقیقت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عام حقیقتوں جیسی حقیقت ہے۔۔۔ نہ ہی سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عام اَسرار جیسا سِر ہے۔۔۔ اور نہ ہی مشاہدہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی اور جیسا ہے۔
شیخ ابوالحسن نوری فرماتے ہیں کہ مقام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دَنَا میں اور تھا، فتدلی میں اور تھا۔ اس طرح کہ
دَنَا عَبْدًا فَتَدَلّٰی فَردا
دنا کے مقام پر وہ مقام عبدیت پر تھے، فتدلی کے مقام پر وہ مقام فردیت پر آگئے۔
دنی مکيا فتدلی فلکيا
دنی کے مقام پر وہ مکی تھے، فتدلی کے مقام پر وہ ملکوتی ہوگئے۔
دنا فرشيا فتدلی عرشيا
دنا کے مقام پر وہ فرشی تھے کیوں کہ اس کی یاد بھی ساتھ لائے تھے، جب لباس اتر گئے تو فتدلی کے مقام پر عرشی ہوگئے۔
دنا مجاهدا فتدلی مشاهدة
دنا کے مقام پر ظہور مجاہدہ تھا اور فتدلی کے مقام پر ظہور مشاہدہ تھا۔
دنا طالبا فتدلی مطلوبا
دنا کے مقام پر طالب رہے، فتدلی پر مطلوب بھی ہوگئے۔
دنا افتقارا فتدلی افتخارا
دنا کے مقام پر صرف فقر میں تھے، فقر کی شان بھی تھی، فتدلی کے مقام پر فخر بھی تھا، افتخار بھی تھا۔
دنا مادحا فتدلی ممدوحا
دنا پر حمد بیان کررہے تھے، فتدلی کے مقام پر کوئی اور ان کی حمد بیان کررہا تھا۔
دنا شاکرا فتدلی مشکورا
دنا پر پہلے خود شاکر تھے، تدلی پر مشکور بھی ہوگئے۔
لباس ہائے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انعاماتِ الہٰیہ
جب دنی کے مقام پر تھے تو ترک نَفْسَہ فی السماء نفس کو آسمانی دنیا تک چھوڑ دیا۔۔۔ فتدلی کے مقام پر آتے ہیں تو ترک قلبہ فی السدرۃ المنتہی اپنے دل کو سدرۃ المنتہٰی پر چھوڑ دیا۔۔۔ وترک روحہ فی قاب قوسین، روح کو قاب قوسین پر چھوڑ دیا۔۔۔ جب نفس، دل اور روح بھی نیچے رہ گئے تو فیبقی سرہ وربہ اب صرف سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رہ گئے۔
یہ حقیقتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے جہاں ہر کوئی پیچھے رہ گیا ہے۔ اب نفس پوچھنے لگا: این القلب ’’دل کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ وقال القلب این الروح دل پوچھتا ہے: روح کدھر چلی گئی۔۔۔ قال الروح این السر، روح پوچھتی ہے: سر کدھر گیا؟ وقال السر این الحبیب، سر پوچھتا ہے: میرا محبوب کدھر ہے؟ جس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا۔ اب تو وہ آجائے اور اپنی قربت عطا کرکے اپنا دیدار کرادے۔
اب ہر لباس کو اس کا انعام بھی تو عطاکرنا ہے۔ لہذا نفس مصطفی کو بھی انعام عطا کیا اور فرمایا:
يا نفس محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم فلک النعمة والمغفرة
اے نفس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے نعمتیں ہیں اور تیری امت کے لئے مغفرتیں ہیں۔
وياقلب فلک العشق والمحبة
اے قلب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے میرا عشق بھی ہے میری محبت بھی ہے۔
ويا روح بک الکرامه والقرابة
اے روح مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے کرامت بھی ہو اور تجھے قرابت بھی عطا کردی۔
يا سرانا لک وانت لی
اے سرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے میں ہوں اور میرے لئے تو ہے۔
ذاتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں موجود ’’طور‘‘ حقیقی ’’طور‘‘ ہے، اس لئے جلوہ یار سے بہرہ یاب ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس ’’طور‘‘ پر چڑھ کر طلب دیدار کے لئے عرض کیا تھا وہ زمینی طور تھا اس لئے ریزہ ریزہ ہوگیا۔ جبکہ والطور کے ذریعے جس ’’طور‘‘ کی قسم کھائی جارہی ہے وہ عرشی و سماوی طور ہے، نورانی و حقیقی طور ہے۔ اس لئے او ادنی کے مقام پر جلوہ یار کرکے واپس بھی آگئے۔
یہ حقیقتِ طور، یہ حقیقتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حقیقتِ مقام مصطفی ہے۔ وہ ’’طور‘‘ ریزہ ریزہ ہوکر بتا گیا کہ میں مستقر نہیں جبکہ یہ ’’طور‘‘ استقامت کا پیکر تھا، مکہ کی وادیوں سے چلا اور اَوْ اَدْنٰی کی بلندیوں سے ہمکنار ہوا۔
’’طور‘‘ کا پیغام
جو مستقر ہوتے ہیں، حقیقت والے ہوتے ہیں وہ سات سمندر بھی پی لیں تو اس کا اظہار نہیں کرتے۔ اس لئے کہ جس کا اظہار خود وہ شان کریمی کررہی ہو تو انہیں خود اپنے اظہار کی حاجت نہیں رہتی۔ جو پیکر استقامت ہوتے ہیں، وہ ریزہ ریزہ نہیں ہوتے۔ پس جو صاحبانِ استقامت نہ ہوں، خود ریزہ ریزہ ہوجائیں تو ان کے در پر نہ جایا کرو بلکہ جو ’’طور‘‘ کا فیض لے کر تمہارے پاس آئیں، ان کے قدموں سے جڑ جایا کرو۔ وہ خود بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور آنے والے کو بھی جوڑ کر رکھتے ہیں۔ جو اس حقیقت سے جڑ جاتے ہیں، وہ مستقر ہوجاتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ذاتیں، نسبتیں، ادارے، منزلیں، قائد، مربی، راہنما اور شیخ بہت ہیں۔ اگر کسی کامل کی تلاش میں ہیں تو یہ دیکھیں کہ جو اپنی ذات میں مستقر نہ ہوسکے، جو اپنی ذات میں اس بارگاہ کی تجلیات کا ’’طور‘‘ نہ بن سکے، وہ مرید/ کارکن کو کچھ نہیں دے سکتا۔ کوہ طور کے ذریعے پیمانہ مل گیا کہ جو خود مستقر ہوجائے وہ دوسروں کو بھی استقرار دیتا ہے اور جو خود تجلی برداشت نہ کرسکے وہ دوسروں کو کچھ نہ دے گا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ شیخ کامل کون ہوتا ہے۔۔۔؟ ولی کامل ہوتا ہے۔۔۔؟ اس کا جواب اسی استقرار میں پوشیدہ ہے۔ ذہن نشین کرلیں کہ ولایت، بشریت کی بات نہیں بلکہ روحانیت اور نورانیت کی بات ہے۔۔۔ زمینی اور دنیا کی بات نہیں، بلکہ ولایت اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوستی کا نام ہے۔ جن سے دوستی کرنی ہے اگر وہ زمینی نہیں تو ولایت بھی زمینی نہ ہوئی۔ پس ہمیں پیمانہ مل گیا کہ جسے استقرار مل گیا ہو وہی استقرار دے سکتا ہے۔۔۔ جسے تمکن مل گیا ہو وہی تمکن دے سکتا ہے۔۔۔ جسے اطمینان مل گیا ہو وہی اطمینان دے سکتا ہے۔۔۔ جو تجلی کو برداشت کرنے کا ملکہ رکھتا ہو وہی ’’پر تو‘‘ دے سکتا ہے۔۔۔ جو خود دیکھ کے برداشت کرسکتا ہو وہی آپ کو جلوہ کروا سکتا ہے۔۔۔ جو دیکھ کر برداشت کرسکتا ہو وہی آپ کو دکھلا سکتا ہے۔۔۔ جو خود وہاں جاتا ہو، وہی وہاں لے جاسکتا ہے۔۔۔ جس کو منزل کا پتہ ہو وہی لے جاسکتا ہے۔ لیکن جو خود جاہل ہو وہ اوروں کو کہاں لے جائے گا۔
اگر آج ہم نے اپنے آپ کو ’’مستقر‘‘ کے ساتھ وابستہ نہ کرلیا تو زمانے اور دنیا کی آندھیاں ہمیں تباہ و برباد کردیں گی اور اگر حقیقی ’’طور‘‘ سے نسبت ہوگئی تو وقت کے طاغوت بھی ہمارے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ ہر دور کا ایک ’’طور‘‘ ضرور ہوتا ہے۔ جسے حقیقی طور یعنی ذاتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انعام و اکرام اور فیوضات و نوازشات مل رہی ہوتی ہیں۔ صرف اس کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ آج تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کے ذریعے حقیقی طور یعنی ذاتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض تقسیم ہورہا ہے۔ اسلام کے احیاء اور تجدید دین کا فریضہ ادا ہورہا ہے۔ انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح تک اسلام کے پیغام امن و محبت کو عام کیا جارہا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کا اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حقیقی تعلق قائم کیا جارہا ہے۔ ضرورت ان کے ساتھ وابستہ ہونے اور عملی جدوجہد میں شریک ہونے کی ہے۔ اس وابستگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے اطمینان اور سکون کی نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی فیض عطا فرمائے اور امت مسلمہ، اہل پاکستان کو بھی باطنی معراج سے بہرہ یاب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔