قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کامیابی کے اصول بیان کئے جا رہے ہیں کہ کامیابی کس طرح ممکن ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب ہونے کے لئے اپنے ذہن، خیالات اور رویوں کو کس طرح تبدیل کرنا ہے؟ اس مضمون کا یہ سلسلہ ماہنامہ منہاج القرآن میں جنوری 2011ء سے جاری ہے اور اب تک کامیاب لوگوں کی تین خصوصی عادات (’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘، ’’انجام پہ نظر رکھنا‘‘ اور ’’ترجیحات کا تعین کرنا‘‘) کو مختلف جہات سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے چوتھی عادت ’’انسانی تعلقات میں مضبوطی اور استحکام‘‘ کا دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
ہم صبح سے شام تک دوسروں کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کرتے ہیں اس کے ذریعے کسی جگہ پر ہم ان کے دل میں جگہ بنا رہے ہوتے ہیں اور کسی جگہ ہم اپنے لئے ان کے دل میں نفرت وحقارت کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ ان رویوں میں سے ہم ’’فرد کو سمجھنا‘‘، ’’جزئیات پر توجہ دینا‘‘ اور ’’وعدے کی پابندی‘‘ بارے پڑھ چکے ہیں۔ آیئے رویوں کے اتار چڑھاؤ میں کارفرما مزید عوامل کا مطالعہ کرتے ہیں :
(iv) حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین
اجتماعی زندگی میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہر کسی کو اپنے حقوق اور فرائض کا علم ہو۔ کسی گھر، دفتر یا تنظیم وغیرہ میں جہاں بھی چند افراد مختلف حیثیتوں میں کام کر رہے ہوں تو ہر کسی کے ذہن میں واضح ہونا چاہیے کہ اُس کی ذمہ داری کیا ہے اور اُ س کے حقوق کیا ہیں؟ ایسا نہ ہونے کی صورت میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو بعد ازاں نفرتوں اور عداوتوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہمارے بہت سارے باہمی جھگڑوں کی بنیاد بھی یہی چیز بنتی ہے ہم اپنے ذہن میں دوسروں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں پھر جب ہماری توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ہمارے ذہن میں نفرت و عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو کہ اجتماعیت کی روح کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جس طرح کھیل میں ضروری ہوتا ہے کہ ہر کھلاڑی کو معلوم ہو کہ وہ کس پوزیشن میں کھیلے گا۔ مثلا ً فٹ بال یا ہاکی میں وہ گول کیپر ہو گا یا سینٹر فار ورڈ، لیفٹ اِن ہو گا یا لیفٹ آؤٹ وغیر ہوگا ایسا نہ ہونے کی صورت میں بڑی آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ ٹیم کا انجام کیا ہو گا۔ اسی طرح بہت ضروری ہے کہ باہمی انحصار کی صورت میں ہر فریق کو حقوق اورذمہ داریوں کا علم ہو تاکہ نہ تو وہ دوسروں سے غلط توقعات وابستہ کرے اور نہ ہی اپنے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار ہو۔ نیز دوسرے بھی اُس سے غلط توقعات وابستہ نہ کریں۔ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین بہت سے ایسے جھگڑوں سے بچاتا ہے جس کے باعث خاندانوں کے شیرازے بکھر جاتے ہیں، تنظیموں میں انتشار و افراق پیدا ہوتا ہے اورچلتے ہوئے کاروبار تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِيَتِهِ.
’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص خواہ اعلیٰ ہو یا ادنیٰ جس بھی جگہ پر جس بھی حیثیت میں ہے اُس کے اُوپر کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا اُس پر لازم ہوتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن سر انجام دینے کی کوشش کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں، اپنے اردگرد کے ماحول کی نظروں میں اور خود اپنی نظروں میں بھی سر خرو ہو جائے۔ جب ہر شخص اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرے گا تو دوسروں کے حقوق خود بخود ادا ہوتے جائیں گے اور کسی کو اپنے حقوق مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی اور یوں معاشرے میں ہر طرف امن و سکون ہو گا اور باہمی تعلقات خوشگوار ہوں گے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے عمومی رجحان یہ بن چکا ہے کہ ہر شخص کی نظریں اپنے حقوق پر مرکوز ہیں کہ مجھے فلاں فلاں مراعات ملنی چاہیئں مگر اس حوالے سے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی کہ میرے فرائض کیا ہیں اور کیا میں اُن کو واقعی درست طریقے سے ادا کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تقریبا ً ہر سرکاری و پرائیویٹ محکمے میں ’’تخفظ حقوق‘‘ کی انجمنیں تو بے شمار نظر آتی ہیں مگر کوئی ایسی تنظیم دکھائی نہیں دیتی جس کا مقصد’’ادائیگی فرائض‘‘ ہو۔ یہ مزاج ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور بہت سارے جھگڑوں اور فساد کا سبب بنتا ہے۔
(v) دیانت داری
ماحول اور معاشرے میں ہماری قدر و منزلت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کس حد تک راستباز اور دیانتدار ہیں۔ ہماری دیانتداری سے ہی دوسروں میں ہمارے متعلق اعتماد پیدا ہوتا ہے جو جذباتی اکاؤنٹ میں گراں قدر اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس اس صفت کی عدم موجودگی میں ہمارا یہ اکاونٹ اکثر و بیشتر ’’جمع‘‘ کی بجائے ’’اخراج‘‘ کی حالت میں رہتا ہے، مثلاً ہم اپنے اردگرد کے افراد کو سمجھنے کی کوشش بھی کریں، اُن کی دلجوئی کا حتی الوسع خیال بھی رکھیں۔ اُن سے کئے جانے والے وعدوں کو بھی ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے حقوق سے تجاوز بھی نہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر ہمارے ظاہر و باطن میں تضاد ہے اور ہماری شخصیت میں دوغلا پن ہے تو ہم سب کچھ کرنے کے باوجود بھی دوسروں کے ساتھ باہمی اکاونٹ میں اعتماد کا خزانہ بھرنے میں ناکام رہیں گے۔
ہمارے ہاں ایک کہاوت یوں بیان کی جاتی ہے کہ ’’بد سے بدنام بُرا ہوتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں ہمارا جو تشخص بنتا ہے اُسی کے مطابق وہ ہمارے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ یعنی ہر برے عمل کا لیبل ہمارے بری شہرت کی بناء پر ہم پر چسپاں کر دیا جائے گا اگرچہ وہ کام ہم نے نہ کیا ہو۔ اسی طرح ہم سے اچھے کام کی توقع ہماری اچھی شہرت کی بناء پر کی جائے گی اگرچہ وہ کام ہم نے نہ کیا ہو۔
ہمارے دین کے اندر دیانتداری اور راست بازی کے اس تشخص اور پہچان کو برقرار رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کہ ہمیں اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی نظروں میں ہمارا تشخص خواہ مخواہ مجروح نہ ہونے پائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بندہ مومن کو تہمت والے مواقع سے بچنے کا حکم دینا نیز آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رات کے وقت اپنی ایک اہلیہ کے ساتھ جاتے ہوئے پاس سے گزرنے والے شخص کو روک کر وضاحت کرنا کہ میرے ساتھ جانے والی عورت میری بیوی ہے کوئی غیر نہیں ہے، اس نکتے کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔
دیانتداری کا مطلب ہے کہ ہمارا کردار بالکل صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ اُس میں کوئی داغ اور دھبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ظاہر اور باطن میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہونی چاہیے۔ ہماری سیرت جھوٹ، منافقت، دھوکہ دہی وغیرہ جیسی بُری خصلتوں سے پاک ہونی چاہیے اور ہمیں سچائی، راست بازی اور بلندی کردار کے اُس مرتبے پر ہونا چاہیے کہ لوگ آنکھیں بند کر کے ہم پر اعتماد کر سکیں۔
(vi)مخلصا نہ معافی مانگنا
انسان خطا کا پتلا ہے لہذا اس سے غلطی ہو جانا کوئی بُری بات نہیں ہے یہ اعزاز صرف انبیاء کرام کو حاصل ہے کہ وہ معصوم عن الخطا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عام لوگوں جیسی غلطیوں اور خطاؤں سے محفوظ رکھا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بندہ کتنا ہی دانشور ہو وہ کہیں نہ کہیں غلطی کر سکتا ہے۔ غلطی کا ہو جانا زیادہ خطرناک بات نہیں ہے لیکن غلطی کو ماننے سے انکار کرنا اور اس پر اصرار کرنا یہ غلطی کے ساتھ سرکشی کا اضافہ کرنا ہے۔ جہاں تک غلطی کا تعلق ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قابل معافی ہے اور بندوں کے ہاں بھی قابل معافی ہے۔ لیکن غلطی کے ساتھ سرکشی کا اضافہ اسے ناقابل معافی بنا دیتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کا قصہ اس کی بڑی واضح مثال ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے ایک بھول ہو گئی جس کے اندر خود قرآن کے بقول ان کے عزم اور ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کی، اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول بھی فرما لی اور خلافت ارضی کا تاج بھی پہنا دیا۔ دوسری طرف شیطان نے سجدہ کا انکار کر کے غلطی کی۔ پھر بجائے اُسے تسلیم کرنے اور اُس پر معذرت کرنے کے وہ اُسے درست ثابت کرنے پر دلائل دینے لگا۔ یہ غلطی کے ساتھ سرکشی کا اضافہ تھا جس نے اُس کے جرم کو ناقابل معافی بنا دیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بنا دیا گیا۔
روزمرہ کی زندگی میں سماجی تعلقات کے دوران ہم سے جگہ جگہ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، جن کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ کہیں ان غلطیوں میں کسی نہ کسی درجے میں ہمارے ارادہ و اختیار کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، کہیں لاپرواہی اور بے احتیاطی ہوتی ہے اور کہیں سہو وخطا ہوتی ہے۔ جب بھی ہم کسی کے ساتھ دانستہ یا نا دانستہ طور پر غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو اُس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اور یہ چیز باہمی تعلقات کے جذباتی اکاؤنٹ میں غلطی کی شدت اور نوعیت کی مناسبت سے رقم نکلوانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اور دوسرے شخص کی نگاہوں میں ہماری قدر و منزلت کو کم کر دیتی ہے۔ پھراگر ہم اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے دوسرے سے مخلصانہ معافی مانگ لیں تو وہ رقم دوبارہ جمع ہو جاتی ہے اور اعتماد کا سابقہ درجہ بحال ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر ہم معافی بھی نہ مانگیں اور آئندہ بھی اپنے غلط طرز عمل کو دہراتے رہیں تو پھر یہ چیز تعلقات کو خراب سے خراب تر کرتی چلی جاتی ہے اور بالآخر نوبت تعلقات کے مکمل خاتمے تک پہنچ جاتی ہے اور کبھی یہاں تک بھی ہوتا ہے کہ دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔
کردار سے عاری اور اندرونی طور پر عدم تحفظ کا شکار لوگ غلطی کا اعتراف کرنے اور اُس پر معافی مانگنے کو اپنی کمزوری سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح دوسروں کی نظر وں میں اُن کا مرتبہ گھٹ جائے گا اور وہ اُن کے مقابلے میں کمزور ہو جائیں گے ا ور دوسرے اُن کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا لیں گے۔ اُن کے احساس تحفظ کی بنیاد چونکہ دوسروں کی آراء پر کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اُنہیں یہ فکر لگی رہتی ہے کہ معافی مانگنے کی صورت میں لوگ کیا سوچیں گے، حالانکہ یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ حقیقت اس کے بالکل ہی برعکس ہے جب انسان خلوص دل سے اپنی غلطی پر دوسروں سے معافی مانگتا ہے تو وہ خود بھی اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کرتا ہے اور دوسروں کی نظروں میں بھی اُس کا مرتبہ گھٹنے کی بجائے بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی اُس کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا یہ اصول ہے کہ :
من تواضع لله رفعه الله.
’’جو اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلندی عطا فرما دیتا ہی‘‘
عام لوگوں کے برعکس اعلیٰ کردار اور مضبوط و مستحکم شخصیت کے مالک لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اور اُس پر معذرت کرنے میں قطعاً ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنی انا، مقام و مرتبے اور اپنی کم حوصلگی کو بالکل نہیں آڑے آنے دیتے۔ اُن کو اس چیز کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لینے پر دوسرے لوگ اُن کے متعلق کیا سوچیں گے۔ اُن کے اندرونی تحفظ کا احساس اپنی ذاتی قدر وقیمت اور اپنی مضبوط اقدار پر قائم ہوتا ہے نہ کہ دوسرے لوگوں کی آراء پر۔ چنانچہ اول تو وہ حتی الوسع ایسی غلطیوں کے ارتکاب سے گریز کرتے ہیں جن سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ تاہم اگر اتفاقا ًایسا ہو جائے تو وہ فوراً ہی احساس ہونے پر اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اُس پر معافی مانگ لیتے ہیں اور یوں دوسروں کی نظر میں اُن کا مقام گھٹنے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس کی بڑی خوبصورت مثال ہے کہ اُنہوں نے ایک مرتبہ زیادہ سے زیادہ حق مہر کی حد مقرر کرنا چاہی تو مجمع عام میں سے ایک عورت نے اُٹھ کر قرآن مجید کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے اُس پابندی کو بلا جواز قرار دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین ہونے کے باوجود اپنے مقام و مرتبے کو ایک طرف رکھتے ہوئے مجمع عام میں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا:
رجل اخطاء و امرءة اصابت.
’’مرد غلطی کر گیا اور عورت صحیح نتیجے پر پہنچ گئی‘‘
ہم میں سے کوئی شخص بھی کسی بھی حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے برابر یا اُن سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو ہر قسم کی غلطیوں اور لغزشوں سے منزہ و مبرا سمجھنے کی روش ترک کر دینی چاہئے اور اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف اور اُن کے حوالے سے معذرت کر لینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہے تاکہ دوسروں کے ساتھ ہمارے خوشگوار تعلقات نہ صرف برقرار رہیں بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے رہیں۔
تسخیرِ کائنات کیسے؟
اسلام کے اندر اجتماعیت پر جتنا زور دیا گیا ہے اتنا شاید ہی دنیاکے کسی اور مذہب میں دیا گیا ہو۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں لازمی طور پر پڑھی جانے والی سورہ فاتحہ کے مفہوم پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک بندہ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے صرف اپنے لئے ہی خیر اور بھلائی نہ ما نگے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مانگے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث میں آنے والی بیشتر دعاؤں میں جمع کا صیغہ ہی استعمال کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی ذات کے تنگ حصار سے باہر آ کر تمام انسانوں کی خیر اور بھلائی کے متعلق سوچنا چاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو دعا میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو محدود نہ کرو۔ مطلب یہ تھا کہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی رحمت کا سوال کرو۔ اس بات کومزید سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل حدیث پر غور کریں۔
الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولرسولهِ ولکتابه والائمة المسلمين و لعامتهم.
’’دین خیر خواہی ہے۔ ہم نے پوچھا کس کے لئے؟ فرمایا اللہ کے لئے، اُس کے رسول کیلئے، اُس کی کتاب کیلئے، مسلمانوں کے ائمہ کے لئے اور عام مسلمانوں کیلئے‘‘۔
مذکورہ بالا حدیث میں ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کا مفہوم جداگانہ ہے۔ تاہم ہمارے زیر بحث موضوع سے متعلقہ جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ.
(الفتح:29 )
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔‘‘
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ہمیں ہر ملاقات کے وقت بات چیت کا آغاز السلام علیکم سے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا فلسفہ یہی ہے کہ جب ایک بندہ دوسرے کو السلام علیکم کہتا ہے تو گویا وہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میرے سینے میں تمہارے لئے سلامتی، ہمدردی اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یعنی میں ہر حال میں تمہاری بھلائی چاہنے والا (well wisher) ہوں۔ یہی کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے ایک عادت ہے۔
اس خصوصی عادت کا تقاضا یہ ہے کہ روزمرّہ کے معاملات میں ہمیں فقط اپنے نفع کے متعلق نہیں سوچنا چاہئے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے فائدہ کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ صرف اپنے حوالے سے سوچنا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا خود غرضی، حرص اور لالچ کے رجحان کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس روش کو اسلام میں سختی سے ناپسند کیا گیا ہے۔ خود غرضی والی ذہنیت کے ساتھ دوسروں کے ساتھ کبھی بھی مضبوط اور پائیدار تعلقات معرض وجود میں نہیں آ سکتے۔ اس عادت کو اگر خوشگوار تعلقات کی جڑ کہا جائے تو قطعاً مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ جس طرح درخت سے پھل حاصل کرنے کیلئے اُس کا آغاز جڑ سے کرنا ہو گا، اسی طرح اجتماعی زندگی کی برکات و ثمرات سے متمتع ہونے کیلئے دوسروں کے لئے خیر خواہی کے جذبات رکھنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرنا ہوگی۔
(جاری ہے)