بہت سے الفاظ اور اصطلاحات ایسی ہوتی ہیں جنہیں عام گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے اصلی مفہوم اور فلسفے کو سمجھنے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے، ایسے الفاظ میں ایک لفظ ’’جمہوریّت‘‘ بھی ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت سے مراد محض الیکشن کے ذریعے حکومت کا قیام ہے۔ حکومت و اقتدار حاصل کرنے کے بعد امور مملکت کیسے چلانا ہیں۔۔۔؟ طرز حکمرانی سے عوام آسودہ حال ہوں گے یا ذلیل و خوار ہونگے۔۔۔؟ انتخابات کے ذریعے قوم کو اتفاق اور اتحاد کی طرف راغب کیا جائے گا یا اس میں مزید نفرت کے بیج بوئے جائیں گے۔۔۔؟ عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہو کر آنے والے ملکی مفادات کا تحفظ کریں گے یا اسے بیچ دیں گے۔۔۔؟
یہ سوالات پاکستان میں رائج جمہوریت کے ہوتے ہوئے اقتدار پر فائز احباب سے کوئی بھی پوچھنے کا نہ حق رکھتا ہے اور نہ ہی پوچھنے کی جرات کر سکتا ہے۔ عوام کا حق یہاں اتنا ہی ہے کہ وہ صرف پولنگ والے دن آئندہ آنے والے 4 / 3 یا 5 سال کے لئے اپنے نمائندے منتخب کریں اور یہاں رائج ’’جمہوریت‘‘ کی ترقی کے لئے اپنا ووٹ دیں جو کہ اصل میں جمہوریت کے بجائے ان جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کی ترقی ہے۔ باقی اختیارات اور حقوق عوام کے نمائندوں کے صوابدیدی اختیارات ہیں جنہیں وہ جب چاہیں جہاں چاہیں، جس کے حق یا خلاف استعمال کریں، کوئی طاقت ان سے پوچھنے کی مجاز نہیں۔
رہا آئین، قانون، اقدار، اخلاق، کردار اور عوامی خدمت کا مسئلہ تو یہ سب ہمارے ہاں کتابوں کی باتیں ہیں، ہمارے حکمران ’’سپریم‘‘ ہیں، ان کی راہ میں کوئی آئینی و اخلاقی حدود و قیود رکاوٹ نہیں بن سکتیں!
یہ ہے ہمارا ’’جمہوری تصور‘‘ اور اسی سے ہمارے جمہوری حکمرانوں کا ’’جمہوری‘‘ رویہ واضح ہو جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان ہی کے ’’لے پالک‘‘ کچھ ’’دانشور‘‘ ایسے ہیں جو اس جمہوریت کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے بلکہ اس کو ملک و قوم کی بقاء کے لئے ناگزیر قرار دیتے نظر آتے ہیں۔
اقوام عالم میں رائج جمہوریت کو اس کے محافظ کائنات کی سب سے مقدس گائے کا درجہ دیتے ہیں اوراسے پالنے پوسنے اور بچانے کے لیے دنیا کے کسی بھی فلسفے اور مذہب کو بے دریغ پامال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہاں اگر کہیں جمہوریت ان کے مقاصد کا تحفظ کرتی نہ دکھائی دے رہی ہو تو وہاں آمریت کو مسلط کرنے کے لیے کسی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک اپنے معاشروں میں عوام کی خدمت، ان کی ترقی، ان کے جان مال کی حفاظت اور معاشرتی برابری کو جمہوریت کا ثمر قرار دیتے ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں مگر۔۔۔
کیا ہم نے ملک پاکستان میں اس جمہوریت سے جمہور کی خدمت کی یا اس تصور کو ہی داغدار کر دیا۔۔۔؟
٭ دیکھا جائے تو مغربی ممالک میں بھی انتخابات ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں!
مگر وہاں انتخابات کے ذریعے لٹیرے، ڈاکو، رسہ گیر اور کرپٹ لوگ عوام کے ووٹ نہیں لے پاتے۔۔۔ جبکہ یہاں یہی عناصر کامیابی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں۔
٭ وہاں بھی وزیر اور مشیر ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں بھی ہیں بلکہ یہاں تو ان سے تعداد میں کئی گنا زیادہ ہیں!
مگر ان کے وزیر اور مشیر ملکی معاملات کے علاوہ عالمی معاملات کوبھی نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ان کو کنٹرول کرتے ہیں۔۔۔ جبکہ ہمارے وزراء اور مشیر عالمی تو کیا ملکی معاملات کی الف ب تک بمشکل رسائی رکھتے ہیں؟
٭ وہاں بھی حزب اختلاف ہوتی ہے اور ہمارے ہاں بھی اپوزیشن کا وجود پایا جاتا ہے۔
فرق یہ ہے کہ وہاں ایک دوسرے پر تنقید تو ہوتی ہے مگر اصولوں اور ملکی مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔۔۔ چھپ چھپ کر ڈیلیں نہیں ہوتیں۔۔۔ اپنے گناہ چھپانے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی نہیں کی جاتی اور ملک دشمنی کے القابات نہیں دیئے جاتے۔۔۔ جبکہ ہمارے ہاں حکومت اور اپوزیشن میں پارلیمنٹ ہاؤس میں رکھی گئی نشستوں میں علیحدگی کے علاوہ ہر چیز میں یکجائی کے مظاہر نظر آتے ہیں۔
مغرب میں جمہوریت کامیاب کیوں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ وجہ امتیاز کیا ہے جس کے باعث جمہوریت مغربی ممالک میں کامیاب نظام کا درجہ رکھتی ہے جبکہ یہاں اس کے ثمرات قوم کبھی نہیں دیکھ سکی؟
حقیقی جمہوری ملکوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ وہاں جمہوریت صرف چند سالوں بعد انتخابات کا نام نہیں اور نہ ہی وہاں کی جمہوریت انتخابات کی محتاج ہے بلکہ اس سے بہت پہلے اس کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ آیئے ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے ان ممالک میں کامیاب جمہوریت کے فروغ اور اس کے ثمرات سے عوام کو مستفید کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا:
- مغربی ممالک میں سب سے پہلے سیاسی جماعتیں اپنے منشور تیار کرتی ہیں جس میں واضح الفاظ میں تحریر ہوتا ہے کہ وہ ملکی مفادات کا تحفظ کیسے کرینگی۔۔۔؟ عوام کے مسائل کیسے حل کریں گی۔۔۔؟ عوام کو کیا کیا آسانیاں اور مراعات دیں گی۔۔۔؟ دفاع، ٹیکس، تعلیم، خارجہ، داخلہ اور ہیلتھ پالیسیز کیا کیا ہوں گی۔۔۔؟ الغرض زندگی کے ہر شعبہ کی ترقی کے حوالے سے اپنا منشور، لائحہ عمل قوم کے سامنے بیان کرتے ہیں۔
- دوسرے مرحلے پر یہ پارٹیاں نچلی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک اپنے راہنماء چننے کے لئے انتخابات کرواتی ہیں اور یوں ان جماعتوں کے قابل اور معاشرے میں اچھے تشخص کی پہچان کے حامل لوگ ان کے راہنما بنتے ہیں۔ ہر پارٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک کے قابل ترین لوگ اس میں آئیں تاکہ وہ ان کے ذریعے احسن انداز میں ملک و قوم کی خدمت کریں۔
- جب الیکشن آتے ہیں تو یہی راہنما اپنی جماعت کے منشور اور ملکی مفادات کی پالیسیز لیکر عوام کے پاس ووٹ کے لیے جاتے ہیں۔
- کسی بھی مرحلہ پر کوئی اندرونی و بیرونی طاقت ووٹرز پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ حتی کہ ایک گھر کے اندر رہنے والے افراد بھی دباؤ، رعب یا کسی دوسرے ذریعے سے گھر کے فرد کی رائے پر اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔ ریاستی قوتیں، میڈیا، دانشور، حکومتی نمائندے، ایجنسیاں، مال و دولت ان میں سے کوئی بھی اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ہر کوئی رائے دہی میں آزاد ہے۔
- نتیجتاً جب عوام کو ووٹ دینا ہوتا ہے تو انہیں ان قابل اور اچھی شہرت کے حامل لوگوں میں سے کسی ایک بہت زیادہ قابل کو چننا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو عوام نے اپنے تصور کے مطابق ’’چھوٹی برائی اور بڑی برائی‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جبکہ وہاں عوام نے انتخابات کے دن ’’اچھے اور برے‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا ہوتا بلکہ ’’اچھے اور بہت اچھے‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ الغرض انتخاب کا پیمانہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان میں سے جھوٹ، چوری، بدکرداری اور لوٹ مار میں کون کم ہے۔۔۔ یا کون اس کے ذاتی مفادات کے حصول میں زیادہ مددگار ہوگا۔۔۔؟
- مغرب میں امیدوار کی اہلیت اور اس کے کردار کا صاف ہونا وہاں کی عدالتیں اور سیاسی جماعتیں یقینی بناتی ہیں۔ پہلے ان کوقومی معیار کی چھلنی سے چھان لیا جاتا ہے پھر وہ الیکشن میں آتے ہیں۔ ووٹ لینا اور کامیاب ہونے کا تو سوچنا بڑی دور کی بات اگر کسی پر کرپشن، غنڈہ گردی، بد اخلاقی کے الزامات ہوں تو وہ کسی پارٹی کی طرف سے امیدوار ہی نہیں ہو سکتا۔
- حکومت میں آ کر حکومتی پارٹی اپنے بیان کردہ منشور کو سامنے رکھ کر حکومت کرتی ہے اور اگر قومی اہمیت کا کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو جسے دوران الیکشن قوم کے سامنے نہ رکھا گیا ہو، تو وہ دیگر جماعتوں سے مشاورت کرتی ہے یا پھر ریفرنڈم کروایا جاتا ہے۔
- علاقائی ترقی کے زیادہ تر کام بلدیاتی حکومتیں کرتی ہیں، قومی اسمبلی کے ارکان کا کام قومی سطح کے معاملات ہوتے ہیں نہ کہ ہماری طرح گلیوں کی نالیاں بنوانا اور سڑکیں تعمیر کروانا وغیرہ۔
- وہاں کے ممبر اسمبلی کا کام یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ تھانوں اور کچہریوں میں اپنے حلقے کے لوگوں کی سفارشیں کریں، کیونکہ وہاں قانون نافذ کرنا اور عوام کو انصاف فراہم کرنا پولیس اور عدلیہ کی ذمہ داری اور عوام کا حق ہے۔ یہ ادارے اسی کام کے لیے بنائے جاتے ہیں اور یہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں کسی سیاسی شخصیت سے اجازت یا سفارش کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اسی کام کی ان کو تنخواہ ملتی ہے۔
پس حکومت تو وہاں بھی چند لوگ ہی کرتے ہیں مگر وہ چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حقیقتاً ان ملکوں کے نمائندہ ہوتے ہیں، جن پر ان قوموں کو اعتماد ہوتا ہے، جن پر وہ قومیں ناز بھی کرتی ہیں اور انہی چند افراد کے ذریعے ہم جیسے ممالک پر اپنے ایجنٹوں اور غلاموں کو مسلط کر کے ہمارے قومی مفادات کو پامال کرتے ہیں۔
حقیقی جمہوریت کی راہ میں حائل رکاوٹیں
ہمارے ہاں اصل جمہوریت کے تقاضوں سے نابلد، اس فرسودہ و کرپٹ انتخابی نظام کو ہی جمہوریت سمجھنے والے اور اس کے غم میں مر مٹنے والے، اسے تمام مسائل کا حل قراردینے والے اور نام نہاد جمہوری قیادت کی شان میں قصیدہ گوئی کرنے والے بتائیں کہ
- کیا ووٹوں کے ذریعے اقتدار پانے والے ہمارے حکمران اس قوم کے اہل ترین لوگ ہوتے ہیں؟
- کیا واقعتایہ کروڑوں عوام کے نمائندہ ہوتے ہیں؟
- کیا ان پر قوم کوناز ہوتا ہے؟
- اور اگر ایسا نہیں، اور یقینا ایسا نہیں، تو پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ جمہوریت اس قابل نہیں کہ ملک پاکستان میں بسنے والے 18 کروڑ لوگوں کے غموں کا مداوا کر سکے؟
اگر کسی معاشرے میں درج بالا معاشرتی معیار پیدانہ ہو تو وہاں موجود نظام حکومت جمہوریت نہیں ہو سکتی اگرچہ وہاں انتخابات ہوتے ہوں اور عوام کے ووٹوں سے لوگ اقتدار میں پہنچتے ہوں۔ اصل اور حقیقی جمہوریت اس قابل ضرور ہوتی ہے کہ عوام کو اس سے بہتر حالات مہیا کرے جس میںسے اس وقت پاکستانی قوم گذر رہی ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو اپنانا نہیں چاہتے، صرف اس نام کو استعمال کرتے ہیں اور ایسے ہی قوم کو جمہوریت کے جھانسے میں رکھ کر اسے غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوری ممالک کی طرح اگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنے راہنماء انتخابات کے ذریعے چننے لگ جائیں تو یہ خاندانی جاگیر پارٹیاں ان خاندانوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھ لگ سکتی ہیں اور ایسا ہو گیا تو پھر تو ’’ظلم عظیم‘‘ ہو جائے گا!
کیا وہ لوگ یہ گوارہ کر لیں گے کہ جس قوم کو انہوں نے غلام بنانے میں ساٹھ سال لگائے ایسے ہی جذبات میں آ کر اور جمہوریت پسندی کے جھانسے میں آ کر اسے آزاد کر دیا جائے؟؟؟
ساٹھ سالوں سے یہاں یہی ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔۔۔ کوئی پانچ دس سال گذرتے ہیں، سیاست دان اپنی اور اپنے چہیتوں کی جیبیں بھرتے ہیں۔۔۔ عوام لٹتے اور پٹتے رہتے ہیں۔۔۔ حالات اتنے دگر گوں اور ماحول اتنا غیر یقینی ہو جاتا ہے کہ عوام سوچنے لگتی ہے کہ اس سے تو آمریت ہی بہتر تھی۔۔۔ !!! نتیجتاً آمریت آ جاتی ہے۔۔۔ آمریت اپنی باری پوری کرتی ہے تو پھر جمہوریت یاد آنا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ تب تک جمہوریت کی ’’برکت‘‘ کے اثرات سیاستدان استعمال کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں اس ’’جمہوریت‘‘ سے مزید ’’برکت‘‘ سمیٹنے اور نئے ’ٹھیکوں‘ کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر اس قوم کے ’’راہنماء‘‘ قوم کو جمہوریت کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہیں اور عوام تک حقیقی جمہوریت کے فوائد پہنچنے نہیں دیتے۔
ملک میں جمہوریت کے دعوے داروں اور ان کے قصیدہ گو دانشوروں سے سوال ہے کہ کیا وہ اصل جمہوریت کو برداشت کر سکتے ہیں۔۔۔؟؟؟
- کیا ہماری سیاسی جماعتیں منشور کی سیاست کر سکتی ہیں؟
- کیا ہماری سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیر سے نکل کر عوامی جماعتیں بن سکتی ہیں۔۔۔؟
- کیا ہماری سیاسی جماعتیں اپنی جماعت میں الیکشن کرواسکتی ہیں جس سے ان کے اپنے پارٹی ممبران میں سے اہل، قابل اور باکردار لوگ اس قوم کے سامنے ووٹ لینے آئیں۔۔۔؟
- کیا ہماری سیاسی جماعتیں عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے باز آ سکتی ہیں۔۔۔؟
- کیا ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں علاقائیت، لسانیت، برادری اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر سیاست کر سکتی ہیں۔۔۔؟
اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر اے اہل عقل و دانش خدارا اس سراب سے باہر آ جایئے اور اپنا فیصلہ کن حقیقی کردار ادا کیجیے۔۔۔ اس ملک میں جعلی جمہوریت کے دعوے داروں کو لگام دیجیے۔۔۔ ملک کو لٹنے اور قوم کو پاگل ہونے سے بچائیے۔۔۔ ! عوام کے شعور کو بیدار کریں اور اُنہیں ان کی طاقت کا احساس دلائیں۔۔۔ اس کرپٹ اور فرسودہ سیاسی انتخابی نظام کی قباحتوں سے عوام کو آگاہ کریں۔۔۔ حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھنے کی طرف ہر ذی شعور کو راغب کیجیے۔۔۔ سیاستدانوں کے خوشامدی اور حاشیہ بردار بننے سے باز آ جائیے اور قوم کو حقیقی جمہوریت کا راستہ دکھلایئے۔۔۔ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے بیداری شعور کا جو نعرہ قوم کو دیا ہے یہ وقت کی پکار ہے۔۔۔ اس پر کان دھرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم نے اگر اپنے حالات کو خود بدلنے کے لئے آج قدم نہ اٹھایا تو کوئی بھی شخص آنے والے مورخ کے قلم کو قوم اور عوام کے لئے بزدل، سست اور مفاد پرست کا ٹائیٹل دینے سے نہیں روک سکتا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ’’اے پاکستان والو‘‘
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں