میرے حالیہ دورہ ترکی کی روداد پر مشتمل زیرِ نظر صفحات میں تحریک کے قائدین و کارکنان اور مسلمانانِ پاکستان کے لئے تحرک اور خلوص عمل کا پیغام ہے۔ اس قسط میں بوجوہ پہلی اور آخری خصوصیت پر بات ہو سکی ہے۔ کوشش ہوگی کہ آئندہ بقیہ محرکات و اسباب کو اختصار کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔
رودادِ سفر پر مشتمل گذشتہ قسط میں برادر مسلمان ملک ترکی میں حیران کن تبدیلی اور ترقی کے بعض اسباب پر عمومی گفتگو کی گئی تھی۔ اہل علم و فکر قارئین نے میری توجہ اس سمت مبذول کروائی کہ ہمیں اس خاموش تبدیلی کے محرکات کا سراغ بھی لگانا چاہئے اور اگر ہو سکے تو پاکستانی معاشرے میں ان رکاوٹوں کی نشاندہی بھی کرنی چاہئے جن کی وجہ سے یہاں کوشش بسیار کے بعد بھی اسلامی تحریکیں کماحقہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ جہاں تک پہلے سوال یعنی محرکات واسباب کے مطالعے کا تعلق ہے ہم غور و فکر کرنے کے بعد یہاں چند اسباب و محرکات اور خصوصیات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک نہایت اہم اور تحقیق طلب پہلو ہے اور ایک مضمون کا نہیں بلکہ پوری کتاب کا متقاضی ہے تاہم کارکنان تحرک کے لئے بالخصوص اور اہل پاکستان کے لئے بالعموم چند حقائق ترتیب وار ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ ہمارے ہاں غلبہ دین اور اسلامی انقلاب کا کام کرنے والوں کو بلا تفریق مسلک و مذہب غور و فکر کرنے اور لائحہ ہائے عمل مرتب کرنے میں مدد مل سکے۔ رہا دوسرا تقابلی پہلو تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے مزاج بالعموم تقابلی جائزے کے متحمل نہیں اور مجھے تنگ دامانی صفحات بھی آ ڑے آ رہی ہے۔ تاہم اہل عقل و خرد کے لئے ان محرکات میں بھی جگہ جگہ آئینے نصب کر دیئے گئے ہیں جہاں وہ اپنے معاشروں، تنظیموں اور قیادتوں کے چہرے دیکھ سکتے ہیں۔
اب ہم براہ راست ان خصائص کا تذکرہ کر رہے ہیں جو جدید ترکی میں حالیہ تبدیلیوں کے پس منظر میں روبہ عمل رہے اور اب بھی ہیں۔ ذیل میں وہ محرکات بالترتیب دیئے جا رہے ہیں جن پر حسب ضرورت معروضات گوش گزار کی جائیں گی۔
ترکی میں مثبت تبدیلی کے محرکات ایک نظر میں
- مشکل وقت میں درست سمت کا تعین
- ریاستی جبر پر صبر و استقامت
- دور رس اور قابل عمل منصوبہ بندی
- منفرد حکمت دعوت و اسلوب تربیت
- خلوص و للہیت
- ایک سمت میں مسلسل جدوجہد
- شخصی مقناطیسیت کا قدرتی اہتمام
- وفادار طلبائے نور کی قربانیاں
- مذہبی فرقہ بندی سے مکمل اجتناب
- جدت اور تقویٰ
- اپنے اپنے دائروں میں بھرپور محنت
- شخصی اور قومی رویوں میں قانون قدرت کا عکس
مشکل وقت میں درست سمت کا تعین
جنگ عظیم اول (1914-18ء) کے بعد روبہ زوال سلطنت عثمانیہ تیزی سے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یورپ کے علاقے پہلے ہی مسلمانوں کی دسترس سے چھن چکے تھے۔ حجاز سمیت بعض عرب ممالک نے بھی برطانوی جاسوسوں کے اکسانے پر آزادی کے نام پر ترک حکومت یعنی خلافت سے علیحدگی کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ ایک طرف زارِ روس ترکستان کے انتہائی زرخیز مسلمان ممالک اور وہاں کی دینی اقدار و ثقافت کو نگل رہا تھا اور دوسری طرف استنبول فاتح استعماری قوتوں کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا۔ برطانوی بحری بیڑے استنبول کے تینوں اطراف پھیلے ہوئے پانیوں میں دندنا رہے تھے۔ تاریخ بے رحمی سے 5 سو سال تک مسلمانوں کے شاندار علمی، ثقافتی اور تاریخی مرکز استنبول کے سقوط کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایک ہزار سالہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے حامل اس فعال خطے کو سپین بنانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ جرمنی کا ساتھ دینے کی پاداش میں اسلامی سلطنت کے حصے بخرے ہو چکے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کو چرچل نے اپنے بے رحم قلم کی بے ربط لکیروں کے ذریعے درجنوں چھوٹے اور غیر موثر ممالک میں تقسیم کر دیا تھا۔
ایسے میں ترکی اب سرخ و سفید سامراج کی للچائی ہوئی معاندانہ اور خوں آشام نظروں کا مرکز تھا۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے اور یورپی استعمار کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے زہریلے اثرات و نتائج سے بہت سی مذہبی روحانی شخصیات نہ صرف آگاہ تھیں بلکہ بساط بھر مزاحمت بھی کر رہی تھیں۔ لیکن یہ کاوشیں (الا ماشاء اللہ) وقتی جوش و خروش اور جانی و مالی نقصان سے آگے نہ بڑھ پائیں۔ خاص طور پر مشرقی ترکی کی مردم خیز علاقوں میں بڑے بڑے دینی اور روحانی مراکز تحریک آزادی اور بحالی خلافت کی جنگ میں شریک رہے لیکن کوئی استعماری پروگرام کے سامنے مضبوط بند نہ باند سکا۔ بالآخر اسی مشرقی ترکی کے ایک سنگلاخ علاقہ ’’نورس‘‘ کے کوہستانی فرزند بدیع الزماں سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مشکل ترین وقت میں قوم کے لئے دور رس نتائج کی حامل حکمت عملی تیار کی۔ یہ حکمت عملی کوئی لشکر و سپاہ منظم کر کے استعمار کے خلاف صف آرائی پر مبنی نہیں تھی بلکہ الحادی فتنے کے مہلک اثرات کو روکنے کے لئے عقل و دانش اور دلیل و منطق کے ساتھ ایمانی حقائق لوگوں کے دلوں میں اتارنے کی منصوبہ بندی تھی۔ یہ معمولی بات نہیں تھی بلکہ ایک قوم کے حال اور آنے والی نسلوں کے عقائد اور اسلامی اقدار کے تحفظ کا عظیم مشن تھا۔
انفرادی طور پر ایمان کا تحفظ اور ذاتی عمل سے دین کے ساتھ وابستگی کا اظہار آسان ہے کیونکہ متعلقہ شخص اپنے عمل اور عقیدے کا ذمہ دار ہوتا ہے مگر جب پورا ماحول ناموافق بلکہ مخالف ہو جائے تو بڑے بڑے صاحبان عزم و ہمت لڑکھڑا جاتے ہیں۔ کیونکہ اپنے کردار کی حفاظت ان سے نہیں ہو سکتی۔ لہذا مخالف اور ناموافق ماحول میں کردار اور تقویٰ کے معیار کو برقرار رکھنا یقینا غیر معمولی عمل سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی صاحبان عزیمت کہا جاتا ہے۔ چہ جائیکہ پوری قوم کو ناموافق ماحول کے اثراتِ بد سے بچانے کی کاوش کی جائے۔ یہ یقینا بڑے عزم، حوصلے اور پیغمبرانہ بصیرت کا حامل کام ہے۔ ایسے ہی ناموافق حالات کا مقابلہ کرنے والوں کو مجدد اور مصلح کہا جاتا ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر آپ تھوڑا غور کریں کہ جس ماحول اور جس زمانے میں ترکی کے مسلمانوں پر الحاد مسلط کیا جا رہا تھا۔ اسلامی ثقافت پر اندرونی اور بیرونی حملے ہو رہے تھے۔ دشمن اسلام قوتیں بااختیار بھی تھیں اور باصلاحیت بھی۔ اس کے مقابلے میں عالم اسلام پر نزع کا عالم تھا۔ مسلمان انتشار، افتراق، محکومی، غلامی، غربت، افلاس، بے گھری اور ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ ترقی یافتہ یورپ کی عریاں اور مادر پدر آزاد تہذیب صنعتی ترقی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اسی لئے افریقہ، ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں میں یورپی مرعوبیت اور مغربی تقلید ہوائی جہاز کی رفتار سے پھیل رہی تھی۔ ترکی اور اس کے پڑوسی مسلمان ممالک میں تقلید مغرب کی مرض اگرچہ مشترک تھی مگر فاتح سامراج کی توجہات کا مرکز ترک مسلمان تھے۔ اس لئے کہ ان کی طویل تاریخ ایک مستقل مزاج اور باعمل مسلمانوں کی تاریخ تھی۔ ان کے اندر حکمرانی اور قیادت کے جراثیم دیگر مسلم ممالک کی نسبت زیادہ توانا تھے۔ علاوہ ازیں یہ ملک چونکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی ایشیاء اور یورپ کا سنگم تھا اس لئے اسے یورپی ثقافت میں مدغم کرنا ان کے نزدیک زیادہ آسان تھا۔ نہ جانے اس منصوبے کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے انہوں نے کتنے عشروں سے کام کا آغاز کر رکھا تھا۔ یقینا مغربی طاقتوں کی طرف سے مسلط صلیبی جنگیں بھی اسی انتقامی تحریک کا حصہ تھیں۔
مدعائے عرض یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں بالعموم اور ترکی معاشرے میں بالخصوص یورپی الحادی ثقافت کو سیاسی اور معاشی استحکام کی پشت پناہی حاصل تھی مگر امت مسلمہ اوج ثریا سے دھڑام نیچے گر کر حواس باختہ ہو چکی تھی۔ مسلمان شکست فاش کھا کر بے حس و حرکت ہو چکے تھے مگر اسلام کی آفاقی اور روحانی تعلیمات بہ تمام وکمال موجود تھیں اور ان پر پختہ یقین رکھنے والے مردان باخدا بھی خال خال موجود تھے جو اس مشکل وقت میں امت کی ہمت افزائی اور دینی رہنمائی کا فریضہ نبھا رہے تھے۔ یہ مردانِ خدا وہ صوفیائے کرام تھے جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ہردور میں امت کی رہنمائی کا حق ادا کیا اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، شام، عراق اور دیگر بلاد عرب و عجم میں انہوں نے علم جہاد بلند رکھا۔ چنانچہ ترکی میں بھی مشہور زمانہ مولانا خالد نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی خانوادے کے چشم و چراغ اور حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کے فیض یافتہ سعید نورسی نے ترک قوم کی راہنمائی کا حق ادا کیا۔ انہوں نے عثمانی سلطنت کے آخری دور میں ’’دارالحکمت اسلامیہ‘‘ میں بھی علمی اور دعوتی خدمات سرانجام دی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے حجت تمام کرنے کے لئے مصطفی کمال اتا ترک کی کابینہ میں بھی چند ماہ شمولیت اختیار کئے رکھی، علاوہ ازیں انہوں نے جنگ عظیم اول میں روسی جارحیت کے خلاف قفقاز کے محاذ پر اپنی فوج تشکیل دے کر مردانہ وار جنگ بھی لڑی تھی اور دو سال تک روسی قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر چکے تھے۔ وہ عالم اسلام کے مسائل اور امراض سے بھی آگاہ تھے۔ انہوں نے 1911ء میں اپنے مشہور خطبہ شامیہ میں جن چھ امراض کی نشاندہی کی ان کی نوعیت آج بھی جوں کی توں ہے۔
ان سارے تجربات و مشاہدات کے بعد انہوں نے غور و فکر شروع کر دیا اور طویل فکر و تدبر کے بعد قوم کے لئے جو نسخہ کیمیاء تجویز کیا وہ ’’رسائل نور‘‘ کی صورت میں اب پوری دنیا میں جلوہ گر ہے۔ رسائل نور پر کام کا آغاز کرنے سے قبل انہوں نے خود کو دنیوی سیاست سے مکمل طور پر علیحدہ کیا۔ علمی مناظرے، مباحثے، خطابات حتی کہ اخبار بینی اور عام ملاقاتیں بھی ختم کر دیں۔ جلوت کی گہما گہمی سے کنارہ کشی چونکہ سعید نورسی جیسی معروف قومی شخصیت کیلئے آسان کام نہیں تھا اس لئے انہوں نے بستیوں سے دور پہاڑوں کا رخ کیا۔ اقبال نے جیسے لوگوں کے ذوق کو سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا:
حسنِ بے پرواہ کو اپنی بے نقابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
مجھے حالیہ سفر میں وہ جگہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو وان شہر سے چھ کلو میٹر دور سنگلاخ پہاڑ کے دامن میں واقع ہے یہ خشک اور ویران سا علاقہ ہے جس کا نام ’’ارق‘‘ ہے۔ یہاں سعید نورسی نے بھرپور سیاسی انقلابی اور دعوتی سرگرمیوں سے ناطہ توڑ کر دو سال تک ریاضت و مجاہدہ کیا۔ مجھے حسن اتفاق سے اسی جگہ ایک ساٹھ سالہ تجارت پیشہ شخص حسن صاحب ملے جو اسی تحریک سے وابستہ ہیں۔ ان کے بقول ان کے والد مرحوم ملا حمید ان دو تین خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے نوخیز عمر میں ان دو سالوں کے دوران استاد محترم کی خدمت کی۔ انہوں نے ان یاد داشتوں کو ایک کتاب میں بھی قلمبند کیا ہے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ اس وقت یہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہاں پانی کے چشمے کے قریب ایک پتھر پر استاد محترم دن گزارتے اور رات قریبی چرچ کے قریب درختوں میں چلے جاتے۔ یہ ویران چرچ رومیوں کے زمانے کی ایک بوسیدہ سی عمارت تھی جس کے آثار اب بھی ہیں۔ اس وقت اس چرچ کے اردگرد چونکہ درخت تھے لہذا استاد محترم نے ایک درخت پر کچھ لکڑیاں جوڑ کر لیٹنے کی جگہ بنائی ہوئی تھی جہاں وہ رات کے وظائف اور چند گھنٹے آرام فرماتے تھے۔ خورد و نوش کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جو کچھ نوجوان قریبی بستی سے چپکے سے لے آتے تھے اسی پر گزر بسر ہو جاتی تھی (اس ملاقات کی دلچسپ تفصیلات کو میں اپنے سفر نامے میں شامل کر رہا ہوں جو کتابی شکل میں ان شاء اللہ الگ سے مرتب ہو رہا ہے)
یہاں مختصراً صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رسائل نور کے اس نسخہ کیمیاء کو انہوں نے بھرپور باطنی کیفیت سے تحریر کیا اور اس باطنی کیفیت کے حصول کے لئے انہوں نے کم و بیش پانچ سال کا عرصہ مختلف ریاضتوں اور تجربوں میں صرف کیا۔ اسی تیاری کے ابتدائی مرحلے کا حال انہوں نے خود نوشت سوانح ’’سیرت ذاتیہ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ اگر قدرت نے ان سے بیسویں صدی میں ترک قوم کی رہنمائی کا کام لیا ہے تو اس عظیم مشن میں کتنی عظیم و جلیل شخصیات ان کی پشت پر تھیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ ان دنوں (1921ء) کی بات ہے جب میں روس کی قید سے ایک روحانی واردات کے بعد واضح طور پر روحانی راہنمائی میں فرار ہوا اور مہینوں کا سفر دنوں میں طے کرتا ہوا واپس استنبول آ گیا۔ استنبول میں میرا پرتپاک استقبال کیا گیا کیونکہ میں جنگ عظیم کا غازی اور کمانڈر تھا۔ خلافت عثمانیہ کے اہم شعبے ’’دارالحکمۃ اسلامیہ‘‘ میں میری خدمات کے اعتراف میں مجھے اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز کیا گیا۔ ایک روز میں جامع ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ میں بطور مہمان مدعو تھا۔ مجھے مسجد کی اس بالکونی میں بٹھایا گیا تھا جہاں عام طور پر بادشاہ کی نشست ہوتی تھی۔ دوران تقریب قاری نے اپنی خوبصورت آواز میں ان آیات قرآنی کی تلاوت کی جن میں موت کا تذکرہ تھا۔ قرآن کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی اور سیدھی تیر کی طرح دل تک پہنچ گئی۔ زندگی کی حقیقت میرے سامنے اچھی طرح کھل گئی۔ میں کانپ اٹھا تقریب کے بعد علماء و مشائخ اور طلباء نے جب میری قدر افزائی کی اور اشتیاق و احترام سے ملے تو میرا ضمیر مجھے اور بھی ملامت کرنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں اپنے اصلی مشن سے ہٹ کر احترامِ نفس کے فریب میں گرفتار ہو چکا ہوں۔ جہاں میرا وقت اور صلاحیت دونوں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس وقت مجھے حکومتی عہدہ، باعزت منصب اور علمی شہرت ایک سراب لگا چنانچہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس آزمائش سے جان چھڑا لوں اور پھر میں نے دارالحکمت اسلامیہ کے تحت حکومتی منصب اور ذمہ داری سے بعد ازاں معذرت کر لی۔
یہ دور میری زندگی کا ایک عجیب دور تھا، میری طبیعت میں اضطراب اور بے چینی تھی۔ میں روحانی آسودگی حاصل کرنے کے لئے بزرگ صوفیاء کی کتب کا مطالعہ کرتا تھا اور ان سے رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ ایک دن میں نے استخارے کی نیت سے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’فتوح الغیب‘‘ پڑھنا شروع کی، دوران مطالعہ ایک مقام پر مجھے محسوس ہوا کہ شیخ براہ راست مجھ سے مخاطب ہیں میرے سامنے کتاب کی یہ عبارت تھی۔
يا عبادالله انتم فی دارالحکمة لابد من الواسطة، اطلبو من معبودکم طبيبا يطب امراض قلوبکم مداويا يداويکم.
(مجلس62)
’’اے اللہ کے بندو! تم دارالحکمت میں ہو تم پر اللہ تعالیٰ معبود حقیقی سے اپنے قلبی امراض کے لئے شفا طلبی لازم ہے‘‘۔
یہ عبارت پڑھتے ہی میں حیران و ششدر رہ گیا۔ میں ان دنوں واقعتا دارالحکمت میں بھی تھا اور مجھے اپنے مستقبل کے لئے رہنمائی بھی مطلوب تھی۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ میں نے سوچا میں خود بھی فریب نفس کی مرض میں مبتلا ہوں اور جس قوم کے لئے دوا تلاش کر رہا ہوں وہ بھی اعتقادی، روحانی اور نفسانی امراض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ میں نے محسوس کیا جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی مجھے مخاطب کر کے فرما رہے ہوں۔ ’’اے سعید! تو خود مریض ہے کوئی ایسا طبیب تلاش کر جو پہلے تیرے امراض کا علاج کر سکے‘‘۔ میں نے زبان حال سے عرض کیا ’’اے شیخ جیلان! آپ ہی میرے طبیب بن جائیں‘‘۔
یہ کہتے ہی میں نے فتوح الغیب کا دوبارہ مطالعہ شروع کر دیا اب مجھے ایسا لگا جیسے یہ ساری کتاب مجھے مخاطب کر کے مرتب کی گئی ہے۔ اس کا لب و لہجہ میرے غرور نفس کو توڑ رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں اپنے اندر عمل جراحت کی طرح گہری روحانی ٹوٹ پھوٹ محسوس کرنے لگا۔ اسی کیفیت جذب میں، میں نے بمشکل آدھی کتاب پڑھی ہوگی۔ میری حالت غیر ہوگئی تو میں نے اسے ایک طرف رکھدیا۔ چند دنوں بعد مجھے روحانی اضطراب کی جگہ عجیب روحانی لذت اور سرور محسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے پھر فتوح الغیب پڑھنا شروع کر دی اور کئی کئی دن ان کیفیات میں گزرنے لگے۔
انہی دنوں مجھے امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’مکتوبات‘‘ پڑھنے کو ملی۔ میں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرح شیخ احمد سرہندی سے بھی روحانی مدد طلب کی۔ مجھے یہ دیکھ کر ایک بار پھر بڑی حیرت ہوئی کہ مکتوبات شریف میں دو عدد خطوط ’’میرزا بدیع الزماں‘‘ کے نام تحریر تھے۔ ’’میرزا‘‘ میرے والد کا نام تھا اور بدیع الزمان کے نام سے صرف میں ہی مشہور تھا۔ میں نے خطوط کے مضامین پڑھے تو مجھے اور حیرت ہوئی کہ میری اور اس شخص کی حالت بھی ایک ہی جیسی تھی۔ حضرت مجدد صاحب نے اسے دونوں خطوط میں ’’توحید قبلہ‘‘ کی تاکید کی ہوئی تھی اور فرمایا تھا کہ روحانی معاملات میں کسی ایک کو اپنا مرشد اور امام بنا لو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
یہاں بھی میں نے اسی طرح محسوس کیا کہ امام ربانی نے مجھے مخاطب کر کے ’’توحید قبلہ‘‘ کی نصیحت فرمائی ہے مگر میرے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ میں دونوں بزرگ روحانی شخصیات میں سے کسے اپنا امام بناؤں۔ مرشد اول نے مجھے جس روحانی علاج کی طرف متوجہ کیا تھا اس کا علاج امام صاحب کے مکتوب میں واضح تھا مگر تا حال مرشد اور امام کے چناؤ میں مجھے شرح صدر حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ میں کافی غور و فکر کرتا رہا، اسی سوچ و بچار میں غرق تھا کہ ایک دن میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف القاء ہوا اور پھر مجھے عجیب طمانیت و سکون حاصل ہوگیا۔ میں سمجھ گیا کہ جس توحید قبلہ کا مجھے کہا گیا تھا وہ کوئی شخصیت یا نظریہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام مجید یعنی قرآن ہے جو نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آخری وحی کی صورت میں اترا کیونکہ یہی تمام ہادیوں کی ہدایت اور تمام ستاروں کا آفتاب ہے۔
پس میں نے اس دن سے اپنا توحید قبلہ قرآن کو بنا لیا اور میرے دل و دماغ نے اسی کو مرشد اور امام تسلیم کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ’’رسائل نور‘‘ مرتب کرنے کی خدمت لی تو یہ رسائل فقط علمی اور عقلی مسائل کا بیان نہیں بلکہ اس میں قلبی کیفیات روحانی معاملات اور ایمانی حلاوتوں کا سامان بھی ہے‘‘۔
(ماخوذ از سیرت ذاتیہ تالیف بدیع الزماں سعید نورسی)
چنانچہ نورسی صاحب نے اس دن سے خود کو سعید جدید کہنا شروع کر دیا۔ قدیم سعید مناظر، عالم ذہین و فطین سکالر اور متحرک سیاسی و انقلابی راہنما کے طور پر مشہور تھا۔ مگر جب یہی شخصیت باطنی اور روحانی انقلاب کے پر پیچ مراحل سے گزرنے کے بعد نئے حالات میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوئی تو یہ سرتاپا قرآنی انوار میں ڈھل چکی تھی۔ میرے نزدیک یہ تبدیلی نظام قدرت کا حصہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سقوط استنبول کے بعد جہاں عثمانی سلطنت کا سورج غروب ہوا اللہ پاک نے اپنی رحمت خاصہ سے ترک مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے سعیدِ نو کی صورت میں قرآنی انوار کا سورج طلوع فرما دیا جس کی نورانی کرنوں نے الحاد اور کفر کی تاریکیوں میں ایمان و ایقان کے چراغ روشن کر دیئے۔ سعید نو آرام طلب زندگی اور دنیوی جاہ و جلال سے نکل کر اسوہ حسنہ کے رنگ میں ڈھل چکا تھا۔ یہی شخصی اور روحانی عظمت آئندہ تلخ ترین زندگی میں ان کی رفیق حیات بن گئی۔
ان کے ’’رسائل نور‘‘ اب ترکی میں خاموش انقلاب لانے کے بعد پوری دنیا میں پرامن بقائے باہمی کا فیض عام کررہے ہیں۔ رسائل نور کے ذریعے مشرق و مغرب میں ان کا متوازن، معتدل نقطہ نظر اہل علم و شعور کی تحقیقات و تخلیقات کا مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ ایک صدی گزرنے کے بعد اقوام عالم جن نئے سیاسی معاشی اور ثقافتی چیلنجوں کا مقابلہ کر رہی ہیں اور انسانیت جن فتنوں کا شکار ہو کر اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان تمام مسائل اور انکے حل کو سعید نورسی قرآنی آیات میں زیرِ بحث لائے ہیں۔ سعید نورسی کے ’’رسائل نور‘‘ دنیا میں قرآنی تعلیمات کی اہمیت و افادیت واضح کر رہے ہیں۔ مادیت زدہ اذہان میں اسلام کی روشنی پھیلا رہے ہیں اور خدا فراموش دانشوروں کو ایمان کا نور لوٹا رہے ہیں۔ ترک قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے اپنے مفکر اور عارف کی محنتِ شاقہ کو فراموش نہیں کیا بلکہ اپنی عملی اور دعوتی زندگی میں انہیں آئیڈیل بنا کر ان کے اس پیغام کو حرزِ جاں بنا لیا ہے۔ وہ قوم پوری دنیا میں اسلام کا پیغام ’’رسائل نور‘‘ کے ذریعے پہنچانے کے لئے کمربستہ ہو چکی ہے۔ وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ سعید نورسی جیسے عبقری ذہن نے اس مشکل وقت میں قرآنی تعلیمات کی طرف قوم کو راغب کرنے کا عزم کر کے ان کے ایمان بچانے کا غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ واقعتا درست سمت کا تعین کیا تھا۔
شخصی اور قومی رویوں میں قانون قدرت کا عکس
پاکستان کی موجودہ مایوس کن سیاسی معاشی اور متصادم مذہبی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ہمارے ہاں وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو اس ملک کی خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور برادر اسلامی ملک ترکی میں کونسی ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر وہ ڈوب کر دوبارہ ابھر آئے ہیں؟ میں کوشش کروں گا کہ ان بنیادی سوالوں کا جواب بھی ڈھونڈ سکوں۔
معزز قارئین! پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ پاکستان کے خمیر میں جان نثاری قربانی اور دین پروری کی خصوصیات موجود ہیں مگر ان خوبیوں کے حامل افراد دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دھڑے سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں محب وطن اور اہل اخلاص لوگوں کی کمی نہیں لیکن ان جماعتوں کے مجموعی نتائج پاکستان کو اس لئے خوشحالی نہیں دے سکتے کہ مقتدر لوگوں کی اکثریت خود پسندی اور ہوسِ اقتدا سے لتھڑی ہوئی ہے۔ خدمت اور ترقی کے لئے اقتدار میں آنا اور بات ہے جبکہ لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے کے لئے اقتدار سنبھالنا بالکل دوسری بات۔ ان دونوں خواہشات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدمت خلق کے لئے سیاست اور حکومت تو انبیائے کرام کی سنت مطہرہ ہے مگر مال دولت دھونس اور لوٹ مار کے لئے حکومت فرعون، نمرود، ابوجہل اور ہلاکو خان کا وطیرہ ہے۔ بس یہی فرق ہے پاکستان اور ترکی کی موجودہ حکومت اور ان کے مقاصد میں۔
رجب طیب اردغان ایک غریب اور محنت کش مذہبی خاندان کا پروردہ ہے، اسے ترکوں کے ہزار سالہ باوقار اقتدار میں خدمت اسلام کی تاریخ یاد ہے۔ اس کی رگوں میں سلطان محمد فاتح کا خون دوڑ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ترک قوم گذشتہ ایک سو سال سے اسلام دشمن سامراج کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی ہے جس کا صلہ بے توقیری، بے ضمیری، معاشی تنگ دستی اور سیاسی و ثقافتی اپاہج پن کے سوا کچھ اور نہیں نکلا اس لئے اس نے اپنی سیاست کی بنیاد مثبت تبدیلی کے مستحکم ارادے پر رکھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابیاں عطا فرمائیں۔ پھر محض دعوے اور ارادے ہی کافی نہیں ہوتے عملاً بھی کچھ کرنا ہوتا ہے ترک قوم نے ترقی کے لئے مغرب کے ہاتھوں میں کئی دھائیوں تک کھلونا بن کر دیکھ لیا ہے۔ انہیں آئینہ ایام میں اپنے مقام اور کردار کی سمجھ آ گئی ہے اس لئے وہ خاموشی کے ساتھ دین دشمنی کے گھناؤنے کھیل سے باہر نکل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ افراد کی طرح اقوام کی توبہ بھی قبول کرتا ہے بشرطیکہ قومیں مجموعی کردار سے رجوع الی اللہ کے راستے پر گامزن ہوں۔ ترک قوم نے حالیہ سیاسی معرکوں میں ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب کسی استعمار کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بنے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں صاف ستھری، مخلص دیانتدار غیور اور صاحب علم و عمل قیادت کے انعام سے بھی نواز دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہم نے بطور قوم برصغیر میں اسلامی تشخص قائم کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سے گزرے، لاکھوں کلمہ گو معصوم لوگوں نے اپنے خون سے شہادتوں کی فصل بو کر پاکستان کا خطہ حاصل کیا مگر وہ نظریہ، وہ نعرہ، وہ جذبہ اور وہ خواب پس پشت ڈال دیئے گئے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدے بھلا دیئے۔ پاکستان کو ہم نے خود توڑا، اسے اسلام کی دھرتی بنانے کی بجائے ہم نے استعماری طاقتوں کا میدان جنگ بنا لیا۔ آج ہر صوبہ کئی کئی حصوں میں بٹنے کے لئے تیار ہے مگر قوم متحد نہیں ہو سکی۔ ملٹری رجیم اور سیاسی شعبدے بازوں نے عوام کو اپنے مسائل میں اس طرح پریشان کر دیا کہ حصول پاکستان کے مقاصد ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
آج ایسا شخص اس خداداد مملکت کا حکمران ہے جسے اپنی تجوریاں بھرنے، کرپشن کے تاریخی ریکارڈ توڑنے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے فن کے علاوہ کوئی سوچتا ہی نہیں۔ آپ وزارت عظمیٰ کے منصب کو ہی دیکھ لیں، یہ اعلیٰ ترین عہدہ حکومت یکے بعد دیگرے کرپشن اور لوٹ مار سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں تماشا بنا ہوا ہے۔ ہماری عوام جس قدر مشکلات و مصائب میں گھری ہے اگر اس کی حالت مدہوشی اسی طرح قائم رہی تو یہ مسائل اور بڑھیں گے۔ ترکی میں تبدیلی آئی ہے تو اس میں عوام کا شعور اور کاوش بھی شامل ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں عوام کا شعور ابھی بیدار ہی نہیں ہوا نتیجتاً عرصہ دراز سے وہی روایتی خاندان اور ان کی اولادیں ہمارے ووٹوں کی طاقت سے برسر اقتدار آتے رہتے ہیں۔ بعد ازاں ہمارے یہ نمائندے بولیوں پر بکتے اور قومی مفادات کا کاروبار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میں نے ترکی کی حالیہ معاشی خوشحالی خود دیکھی ہے۔ سائیکل کو ترسنے والے ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں۔ نانِ جویں کو ترسنے والے نعمتوں میں کھیلتے ہیں، کیا اچانک آسمان سے ان پر کوئی خزانہ برسا ہے یا زمین سے انہیں سونے کے پہاڑ مل گئے ہیں؟ نہیں وہ بھی ٹھیک دس سال پہلے ہماری طرح مفلس و خستہ حال تھے 2002ء میں انکا لیرا آج کے لیرے کے مقابلے میں 12000 سے 15000 کا تھا۔ لوگ جائیدادیں فروخت کر کے باہر کے ممالک میں دوڑتے پھرتے تھے، یورپی یونین میں شمولیت کے لئے ترکی نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا مگر۔۔۔۔ آج یورپی یونین ترکی کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ترکی دنیا کے پانچوی بڑی معیشت اور چین کے بعد دوسری بڑی تیزی سے رفعتوں کی طرف محو پرواز طاقت بن کر ابھرا ہے۔ یہ صرف اور صرف عوام کے صحیح انتخاب اور قیادت کے اخلاص عمل کا ثمر ہے۔ قدرت نے زمینی اور سماوی خزانوں کے منہ ان پر کھول دیئے ہیں۔ قوم نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا ہے مخلص اور کرپٹ قیادت کے درمیان فرق کو سامنے رکھا ہے۔ یہ سب کچھ ہم بھی کر سکتے ہیں پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی جوہری قوت بن سکتا ہے تو معاشی خوشحالی اس کے قدم کیوں نہیں چوم سکتی؟ مگر یہ خوشحالی باہر سے لا کر کسی نے تحفے میں نہیں دینی اور نہ آسمان سے ٹپکنی ہے۔ قرآن کا فیصلہ ہے کہ اس کے ذمہ دار اس قوم کے افراد ہیں۔
اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں‘‘۔
(الرعد:11)
حکیم الامت اقبال نے اس آیت کو شعری قالب میں یوں ڈھالا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنے ساتھ وفادار اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مخلص بن جائیں تو چند سالوں میں ہم بھی دنیا کے نقشے پر غیرت مند خوشحال قوم کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(جاری ہے)