یوم اقبال کے موقع پر خصوصی تحریر
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما، ہمہ جہت فکر کے امین اور چراغِ مصطفوی سے منور ہیں۔ وہ روشنی مغرب کے دریوزہ گر نہیں۔ وہ پرائے چراغ کے طالب بھلا کیوں ہوں۔ نور کا ہر پرتو جمال مصطفی سے مستنیر -ہے۔ فہم کا ہر دروازہ در مصطفی سے کھلتا ہے۔ آگہی کی ہر پو افق مدینہ سے پھوٹتی ہے۔ بصیرت کا ہر سویرا وجود مصطفی سے اجازت مانگتا ہے۔ ہدایت کی ہر کلی گلستان مصطفی کی سائل ہے۔ ان کا ’’پیغام وحدت امت‘‘ خالصتاً فکر اسلامی ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی، معروف اقبال دان، اقبال فہم، اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اقبال کامل‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ تصور اتحاد امت اسلامی تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ عبدالستار جوہر پراچہ ’’خیابان اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر انسانی نظام ہے۔ یورپ سے انہوں نے اسکے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کو مدد دی تو ان کو واضح ہوا کہ یہ حیلہ کارگر ہے‘‘۔
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ’’فروغ اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’اقبال طویل مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ وطنیت وحدت ملت کے راستے کا پتھر ہے۔ سو تصور قومیت (Concpt of Nationality) کے مفاسد، نتائج، عواقب، واضح کئے۔ خود حضرت اقبال فرماتے ہیں: حرف اقبال نثر اقبال میں رقم ہے۔
’’میں یورپ کے پیش کرد نیشنل ازم کا مخالف ہوں۔ اس لئے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آتے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لئے شدید ترین خطرات کا سرچشمہ ہیں۔ اگرچہ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے لیکن اس عارضی وابستگی کو خدا اور مذہب سے برتر قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ نامور محقق اقبالیات، ڈاکٹر سعد عبداللہ ’’طیف اقبال‘‘ میں تصور اجتماعیت بیان فرماتے ہیں۔ تصور اقبال سہ جہتی، تقویٰ، خیر و عدل اور وحدت آدم اس کے نکات ہیں۔ پروفیسر طاہر فاروقی ’’سیرت اقبال‘‘ میں پیغام وحدت امت کا اظہار ان لفظوں میں فرماتے ہیں: ’’حضرت حکیم الامت، فلسفی اسلام کے مطابق تصور ملیّت کیا ہے؟ ہندی، عراقی، خراسانی، افغانی، المانوی، فرانسیوی، رومی، مصری، عربی اعتبارات کو وحدت میں ضم کر دینا‘‘۔
انگلستان میں جدید وطنیت کا تصور سترھویں صدی کے آغاز سے ابھرا۔ امریکی قوم پرستی کا عفریت اٹھارویں صدی میں نمو پذیر ہوا۔ اب یہ تاریک رات کسی نہ کسی صورت میں تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کہیں ذات پرستی کا سیل بیکراں انسانی قدروں کو بہالے جا رہا ہے تو کہیں نسل پرستی کا زہر جڑیں کاٹ رہا ہے۔ پیغام وحدت ملت، پیغام اتحاد امت، تصور ملت بیضا، فکر ملت احمد مرسل، شعر و نثر اقبال میں جابجا موجود ہے۔ انہوں نے اس جزم اور لزوم سے پیش کیا کہ اس کو افکار اقبال، تصورات اقبال میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس تصور کا مرکزی نقطہ (Centeral Point) فرد ملت کا ربط، خودی کا بے خودی ہونا ہے۔ قطرے کا قلزم آشنا ہونا، کوکب کا کہکشاں شمار ہونا۔ موتی کا لڑی میں پرویا جانا۔ نفی قومیت جدیدہ، اثبات ملت اسلامیہ، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک سبلی دوسرا اثباتی ہے۔
تصور ملت اسلامیہ (Concept of Muslim Ummah)
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے منفی تصورات قومیت کا مکمل رد و ابطال کیا۔ وطنیت، قومیت، نسلیت، جغرافیت، لونیت، طبقاتیت، مسلکیت ہر تعصب کے بت کا قلع قمع کیا۔ اس کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکا مسلمانوں میں عالمی تصور پیدا کیا۔ خود ساختہ نفرتوں کی حد بندیوں کو گرا دیا۔ فکر اقبال براہ راست منابع اصلی سرچشمہ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے۔ بلکہ تعلیمات اسلام کی تعبیر و تشریح ہے۔ آپ کے اشعار اور نثر پاروں کا مطالعہ کیجئے جو فکر قرآنی کا غماز ہے اور فکر مصطفوی کا آئینہ دار ہے۔
قوم مذہب ہے مذہب جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
اس کی جمیعت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
آنکھوں سے ہیں غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
محفل انجم زجذب باہم است
ہستی کوکب زکوکب محکم است
یہ تصور جذب باہم، اساس وحدت ہے، اساس اتحاد ہے، اساس یگانگت ہے۔ آپ نے مختلف پیرایوں اور مختلف اسالیب میں اظہار فرمایا۔
’’اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ‘‘
(مسلمان بھائی بھائی ہیں)۔
اَلْمُوْمِنُ لِلْمُوْمِنِ کَالْبُنْيَانِ الْمَرْصُوْص يَشْتَدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا.
(مومن مومن کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتا ہے) اور مذہب اور دین بنائے اتحاد ہے۔ آقائے کون و مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’لَيْسَ لِاَحَدٍ عَلٰی اَحَدٍ فَضْلٌ اِلَّا بدِيْنٍ وَ تَقْویٰ‘‘
(کسی کو کسی پہ کوئی فضیلت نہیں سوائے دین و تقویٰ کے) لہذا قوم و مذہب کا تعلق جزو لازم کا ہوا۔
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرہ وسعت طلب قلزم شود
فرد را ربط جماعت رحمت است
جو ہر او کمال از ملت است
فرد و جماعت کے تعلق اور انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنے پہ آپ نے بالخصوص زور دیا۔
’’يَدُاللّٰهِ فَوْقَ جَمَاَعة‘‘
(اللہ کا ہاتھ جماعت اور اجتماعیت پہ ہے۔)
’’مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّار‘‘
(جس نے اجتماعیت کو ترک کیا وہ آگ کی نظر ہوا۔ جو بکری ریوڑ چھوڑتی ہے وہ بھیڑیئے کی خوراک بنتی ہے۔
’’عَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَة‘‘
(تم پہ جماعت لازم ہے۔)
برگ سبزے کنر نہال خوش ریخت
از بہاراں تا رامیدش شکست
وہ سبز پتہ جو عمدہ درخت سے کٹ جاتا ہے اس کا واسطہ ہی کیا برگ و بار سے۔ اسی لئے کہا گیا۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
حرف اقبال کے صفحہ نمبر 222 میں حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اگر عالم بشریت کا مقصد اقوام انسانی کا امن، سلامتی اور نیکی موجود اجتماعی ہستیوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظام اسلامی کے کوئی اور اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ جو کچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی خمیر کی تخلیق کرے۔
حضرت حکیم الامت کے نزدیک مقصد تخلیق انسان، نظام اجتماعیت کا قیام ہے اور یہ اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتا ہے۔
در جماعت خود شکن گردد خودی
تاز گل برگے چمن گردد خودی
جماعت اسلام، اجتماعیت صالحہ اور وحدت اسلامیہ میں اپنی خودی و انفرادیت کو ضم کر دو کہ پھول پتیاں مل کے چمن بن جائیں۔
فرد قائم رابط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا
خطبہ الہ آباد 1930ء رضی اللہ عنہ نمبر 20 میں ہندوستان میں مسلم قومیت کی بقاء کے لئے فرماتے ہیں:
In India as else where the structure of Islam as a society is almost entirely due to the working of Islam as a culture inspired by a specific ethical Idea.
(Stray reflection of thoughts of Iqbal) شذرات فکر اقبال از ڈاکٹر جاوید اقبال 1910
Islam appeared as a protest against idolatory. And what is patriotism but a subtle form of idolotry.
اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے اور وطن پرستی بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ ہر چند کہ حب الوطن کو مزموم متصور نہیں کیا گیا۔ وہ جنم بھوم ہے۔ اس کی مٹی سے پیار اک فطری امر ہے لیکن جب وحدت امت کے راستے میں سد راہ ہو تو قطعاً نا قابل تسلیم ہے فرماتے ہیں۔
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
مسلم استی دل با اقلیمے مبند
گم شد اندر جہان چون و چند
اے کلمہ گو، دل کو حدود و قیود کا پابند نہ کر۔ وطنی، جغرافیائی حد بندیوں سے آزاد ہو۔ تمام عالم تمہارا ہے۔ ہاں درد دل کو کل عالم کے لئے رکھ۔
’’اَلْمُسْلِمُ اَخُوْالْمُسْلِمْ‘‘
بھائی بندی ہے حد بندی نہیں درست پیکر بن۔
’’المسلم للمسلم کالجسدا الواحد اذا اشتکی عضوا سائر جسده بالسهر والحمیٰ
کہ مسلم ایک جسم کی طرح ہے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لفظاً مفہوماً اسی تصور اخوت کو آپ نے کیا خوب نبھایا۔
مسلمانی غم دل در خریدن
چو سیماب از تپ یاراں تپیدن
حضور ملت از خود درگزشتن
دگر بانگ انا الملّت کشیدن
مسلمان درد دل کا خریدار بنتا ہے۔ یاروں کے لئے پارے کی طرح تڑپتا ہے۔ ملت کے حضور و اجتماع میں اپنے آپ کو ضم کر دے۔ اور دوبارہ میں ملت ہوں کا نعرہ لگا۔
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال تصور وحدت امت، تصور ملت بیضا کے راستے کا ہر پتھر اٹھا پھینکتے ہیں۔ نسل پرستی، نسب پوجا کے زعم باطل کو بیخ دین سے اکھاڑ پھینکا۔ 1933ء گفتار اقبال محمد رفیق افضل رضی اللہ عنہ 178 پہ لکھتے ہیں: ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے۔ جو نسلی امتیازات سے بالا تر ہو گی۔ جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہو گی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے‘‘۔
یہ تصور گلستان فکر نبوی کی ریزہ چینی ہے۔ فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’یہ تمہارے انساب، انسال، شعوب، قبائل، خاندان برتری، کمتری کے لئے ہرگز نہیں تم سب ایک باپ کی اولاد ہو‘‘۔ حضرت اقبال کسی مغربی خوردہ گیر کے در علم کے طالب نہیں بلکہ انہوں نے پیامبر وحدت ملت بن کر مسلمانان عالم کی کج صفوں، بے اتفاقیوں، نفرت پسندیوں، کا عمیق نظر سے جائزہ لیا اور بقائے امت کا واحد حل جو تجویز کیا وہ یہ ہے:
(علامہ محمد اقبال تشکیل جدید رضی اللہ عنہ نمبر245)
’’بحالت موجودہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امم اسلامیہ میں ہر ایک کو اپنی ذات میں ڈوب جانا چاہئے۔ اپنی ساری توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دیں۔ حتی کہ ان سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہورتیوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کریں‘‘۔ اسی تصور وحدت ممالک اسلامیہ کو ان لفظوں میں بیان کیا :
’’توحید کے معنی و مطالب کی یہی عمل کاری افراد و اقوام کی زندگیوں میں اساسی انقلاب کا باعث ہے‘‘۔ آج ہم ڈیڑھ ارب کلمہ گویان عالم ہیں۔ 55 سے زائد آزاد مسلم ریاستیں ہیں۔ ایک تہائی دنیا کی آبادی ہم مسلمان ہیں۔ دنیا کے عظیم ذخائر ارضی، بحری، فضائی ہمارے پاس ہیں۔ موسموں کے حسین تموج ہمارے افق پہ ہیں۔ رحمتوں کی رم جھم ہمیں حاصل ہے۔ لیکن
’’کس نمی پرسد کہ بھیاکیستی‘‘
(کوئی نہ ہمیں جانے کہ ہم کون ہیں)
ہم یہود و ہنود کے آلہ کار، بے اتفاقیوں کا شجرز قوم ہر گھر میں، نفرتوں کی کاشت کہاں نہیں ہوتی، جہالتوں کا پہرہ کہاں نہیں، طلب علم کی ترغیب دنیا کے تمام نظامات، فلاسفہ میں اگر ہمارے پاس نہیں۔ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا حصہ گمراہیوں کی نظر ہے۔ جوتیوں پہ دال کہاں نہیں بٹتی، ایک دوسرے کو گرا دینا ہی ہمارا مشن زندگی ٹھہرا۔ دشمنیوں کے آلاؤ کہاں نہیں جلتے، پگڑیاں کہاں نہیں اچھالی جاتیں۔ وحدتوں کو پارہ پارہ کرنے کے خلاف تصور اقبال کیا تھا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر