{فرمان الہٰی}
وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُوْلَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَo وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَo وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَo أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَo
(النور:47 تا 50)
’’اور وہ (لوگ) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آئے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں پھر اس (قول) کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اپنے اقرار سے) رُوگردانی کرتا ہے، اور یہ لوگ (حقیقت میں) مومن (ہی) نہیں ہیںo اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے سے) گریزاں ہوتا ہےo اور اگر وہ حق والے ہوتے تو وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مطیع ہو کر تیزی سے چلے آتےo کیا ان کے دلوں میں (منافقت کی) بیماری ہے یا وہ (شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) شک کرتے ہیں یا وہ اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر ظلم کریں گے، (نہیں) بلکہ وہی لوگ خود ظالم ہیں‘‘۔
(ترجمہ عرفان القرآن)
{فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم }
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَشْرَافُ أُمَّتِي حَمَلَةُ الْقُرْآنِ وَأَصْحَابُ اللَّيْلِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ: مَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرَاةِ لَقَدْ أَعَدَّ اﷲُ لِلَّذِيْنَ تَتَجَافَی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ مَا لَمْ تَرَعَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ وَ لَمْ يَخْطُرْ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ، وَلَا يَعْلَمُهُ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ، وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ قَالَ: وَنَحْنُ نَقْرَؤُهَا: {فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.}
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قرآن کے عالم و عامل اور شب زندہ دار (لوگ) میری امت کے اشراف (سردار) ہیں۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تورات میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تہجد گزاروں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کسی کان نے سنی نہیں، کسی انسان کے دل میں ان کا خیال (تک) نہیں آیا، نہ ہی انہیں کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بھی قرآن پاک میں اس (مفہوم) کے ہم معنی آیت تلاوت کرتے ہیں: ’’سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (اعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہو گا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
(ماخوذ از منهاج السّوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم، ص 456 . 457)