بیگم سیدہ عابدہ حسین پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا نام ہیں ان کا تعلق ضلع جھنگ کے جاگیردارانہ رسوم و رواج والے ماحول اور ثقافت سے ہے۔ ان حوالوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ان کا سیاست میں آنا اور قومی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا ایک پہیلی لگتا ہے بہرحال یہ ایک سچ ہے کہ پاکستان کی مردانہ سیاست میں بیگم عابدہ حسین نے انتہائی جرأت مندانہ حصہ ڈالا اور اپنی ایک شناخت قائم کی اور ان کا شمار آج ایک زیرک، مدبر اور جرأت مند خاتون سیاستدان کے طور پر ہوتا ہے ان کی کہی ہوئی بات کو حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ جاگیردارانہ ماحول میں پرورش پانے والی بیگم عابدہ حسین کا ملکی سیاست میں آنا ایک پہیلی لگتا ہے یقیناً اس کا کریڈیٹ ان کے والد گرامی کرنل سید عابد حسین کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کی تربیت بیٹوں سے بڑھ کر کی۔ قیام پاکستان کے بعد ہمیں جنرل ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی جدوجہد نظر آتی ہے اگر محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ہم عملی انتخابی جدوجہد کرنے والی خواتین پر نگاہ ڈالیں تو ان میں بیگم عابدہ حسین کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔ سیدہ بیگم عابدہ حسین کی وجہ شہرت جرأت کے ساتھ سچ بولنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منافقت کے دبیز پردوں میں ہونے والی خوشامدانہ سیاست کے باعث وہ کسی جماعت میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں۔
بیگم سیدہ عابدہ حسین کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ جھنگ کی پہلی منتخب چیئرمین تھیں، وہ 1985ء میں بھی قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں اور 1997ء میں بھی ممبر منتخب ہوئیں، 1992ء میں امریکہ میں سفیر مقرر ہوئیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اگر باوقار سفارتی تعلقات کا کوئی دور زیر بحث لایا جائے تو بلاشبہ یہ وہی دور ہے جس میں بیگم عابدہ حسین سفیر تھیں۔ بیگم عابدہ حسین کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ طویل ترین سیاسی کیریئر کے باوجود ان پر یا ان کے شوہر سید فخر امام اور ان کی بیٹی صغریٰ امام پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ ان کی بیٹی صغریٰ امام بھی متعدد بار صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ کا حصہ رہ چکیں ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی والدہ، والد اور خاندان کی عظیم سیاسی روایات اور اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے سیاست کو عزت اور خدمت کا ذریعہ سمجھا،بیگم عابدہ حسین متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں انہوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے عہد کی سیاست اور اس سے وابستہ اہم واقعات کو رقم کر کے آئندہ نسلوں کیلئے ملکی سیاست کو سمجھنے اور پھر لکھنے کے کام کو بہت آسان کردیا ہے۔
بیگم عابدہ حسین وہ سیاستدان ہیں جو وہی بات کرتی ہیں جو ان کے علم اور مشاہدہ میں ہوتی ہے، وہ قیاس آرائی کی بنیاد پر تجزیوں اور تبصروں سے گریز کرتی ہیں۔ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی محتاط اور ’’نپا تلا‘‘ لہجہ اور الفاظ استعمال کرتی ہیں، بدقسمتی سے یہ وضع داری آج کی سیاست میں ناپید ہے۔ بیگم عابدہ حسین کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو خدمت خلق و فلاح عامہ بھی ہے وہ اپنی شخصیت کے اس پہلو کو نمایاں کرنے کا اہتمام نہیں کرتیں اور خدمت خلق کو اپنا اور اپنے خدا کے درمیان ایک معاملہ سمجھتی ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد اس انداز میں کرنا پسند کرتی ہیں کہ عزت نفس کا پاس بھی رہے اور دوسرے ہاتھ کو علم بھی نہ ہو۔ بیگم سیدہ عابدہ حسین تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ فلاحی تقاریب میں بطور خاص شامل ہوتی ہیں بالخصوص ہر سال اجتماعی شادیوں کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دختران اسلام نے ان سے سیاسی، سماجی موضوعات اور زندگی کے نشیب و فراز اور کامیابیوں کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین ’’دختران اسلام‘‘کے مطالعہ کیلئے پیش خدمت ہے۔
سوال: انتہاء پسندی کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر انتہاء پسندی نے دہشتگردی کی شکل اختیار کر لی اور سوسائٹی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آپ دہشتگردی کے ناسور کی وجوہات اور سدباب کے بارے میں کیا کہیں گی؟
جواب: یہ درست ہے کہ دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام تو انتہاء پسند رویوں کی نفی کرنے والا ضابطہ حیات ہے۔ اسلام تو امن،محبت رواداری والا دین ہے۔ اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کو اعتدال والی امت قراردیا ہے جو اٹھنے، بیٹھنے، کھانے،پینے، بولنے،عبادت کرنے،دوستی، دشمنی میں معتدل رویوں کی حامل ہے اور کسی بھی مرحلہ پر حد سے تجاوز نہیں کرتی اور دین اسلام انسانیت کے تحفظ اور بقاء کی بات کرتا ہے جو بچوں، عورتوں، بوڑھوں، معذوروں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے یہاں تک کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے جو دین جانوروں کے ساتھ نا انصافی سے روکتا ہے وہ دین کسی کی جان لینے کی بالواسطہ یا بلا واسطہ اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام نے ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے کوئی سچا مسلمان کسی بے گناہ کی جان نہیں لے سکتا۔ رہا یہ سوال کہ دہشتگردی کی وجوہات کیا ہیں؟ تو اس کا تعلق عدم برداشت، غیرمساوی نظام تعلیم سے ہے۔ جہالت، ناانصافی، اقرباء پروری، کرپشن، بیڈ گورننس سے ہے جب کمزور کو انصاف نہیں ملے گا تو وہ قانون ہاتھ میں لے گا۔ ریاست تعلیم کی فراہمی کی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی تو جہالت فروغ پائے گی، غریب مریض کو دوائی اور علاج نہیں ملے گا تو مایوسی جنم لے گی یہی مایوسی انتہاء پسندی اور دہشتگردی میں تبدیل ہوتی ہے۔ دہشتگردی کی ایک وجہ بین الاقوامی بھی ہے تاہم بین الاقوامی سازشیں ان ممالک میں جگہ بناتی ہیں جہاں کی ریاستیں انصاف نہیں کرتیں اس کا سد باب انصاف کرنے، تعلیم دینے، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ادارہ جاتی اصلاح سے ہے ہمیں من حیث المجموع اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے سیاستدان، استاد، عالم دین، عوام اور میڈیا نے اپنے فرائض سر انجام دینے میں کوتاہی برتی ہے جس کا نتیجہ آج عدم برداشت اور قتل و غارت گری کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ بانی پاکستان نے جن مقاصد کے لیے جدوجہد کی تھی ہم اس نظریاتی گائیڈ لائن سے ہٹ گئے ہیں۔ قائداعظم نے کمزور کو تحفظ، ترقی کے مساوی مواقع اور معاشی استحکام کے لیے پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی مگر بعد میں آنے والے ذمہ داروں اور پالیسی سازوں نے ترجیحات بدل ڈالیں۔
سوال: موجودہ سیاسی ماحول میں خواتین کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟
جواب: پاکستان کی خواتین نے مشکل ترین حالات میں ہر شعبے میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ معاشرہ کا بنیادی یونٹ گھر ہے اور اس گھر کی سربراہ خاتون ہوتی ہے،ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ خواتین کی تعلیم وتربیت پر انویسٹ کریں اچھی مائیں اچھی سوسائٹی تشکیل دیں گی۔ مائوں کی تعلیم وتربیت کو نظر انداز کرکے ہم معاشرہ کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ آج علم کی مقدار بڑھ گئی، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کی بہتات ہے یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ابلاغ اور معلومات کی برق رفتاری کا دور ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ تعلیم ہے مگر تربیت نہیں ہے۔ بڑے چھوٹے کے احترام کا فرق ختم ہو گیا، سوسائٹی سے عزت و احترام کا کلچر ختم ہو رہا ہے، ملک اور قومیں پلوں، سڑکوں،عالیشان عمارتیں بنانے سے نہیں بلکہ انسانوں پر انویسٹ کرنے سے عظیم بنتی ہیں ہمیں اخلاقیات، شائستگی، تہذیب وتمدن کے اسلاف کے اس کلچر کا احیاء کر نا ہوگا جس کی بنیادیں اسلام اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر کھڑی تھیں۔
سوال: آپ وسائل سے مالا مال پاکستان کو غربت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے کیا تجویز کریں گی؟ کیونکہ غربت بھی انتہاء پسندی اور دہشتگردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
جواب: یہ درست ہے کہ غربت بھی دہشتگردی کی ایک بڑی وجہ ہے، پاکستان جغرافیائی اور قدرتی معدنی وسائل کے اعتبار سے مالا مال ملک ہے مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر اور علاقائی سطح پر بہت پیچھے رہ گیا، آج ہم تاریخ کے سب سے زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے ہیں، ہمارا ترقیاتی بجٹ سود کی ادائیگی کے بجٹ سے کم ہے اور پھر جو وسائل دستیاب ہیں ان کا استعمال ناانصافی پر مبنی ہے۔ ہمیں زراعت کے شعبہ پر انویسٹمنٹ کرنی چاہیے۔ پاکستان کا محنتی کسان ہی پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ اگر کسان کو سہولتیں نہ دی گئیں تو ہماری صنعت بھی بند ہو جائے گی۔ صنعت کا خام مال زراعت مہیا کر تی ہے، کسان کو سستی بجلی،سستا ڈیزل،سستی کھادیں، معیاری بیج اور فصل کی پوری قیمت چاہیے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خواتین زراعت کی ترقی میں پیش پیش ہیں اس لیے بھی زراعت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کے پاس افرادی قوت کا خزانہ ہے مگر ہم نے اپنی اس افرادی قوت کو عصری تقاضوں کے مطابق تربیت نہیں دی انہیں بین الاقوامی معیار اور ضرورتوں کے مطابق تعلیم اور ٹریننگ نہیں دی۔ ہم نے اپنے معدنی ذخائر سے استفادہ نہیں کیا، پانی کے دستیاب ذخائر کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ 70سال کی کوتاہیاں اب ایک ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ بہرحال زراعت کے شعبہ پر توجہ دے کر پاکستان اپنے معاشی بحران پر قابو پاسکتا ہے۔
سوال: آپ نے ذوالفقار بھٹو کے دور سے لے کر اب تک کے تمام سیاسی ادوار دیکھے تو اس وقت اور اب کی سیاست میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
جواب: ان ادوار سے لے کر اب تک پاکستان سیاسی عدم استحکام کے باوجود بہر حال آگے بڑھا ہے جمہوری عمل قائم ہونے کے ساتھ جڑ بھی پکڑ چکا ہے جس میں عام انسان کو روزگار کے مواقع ملے ہیں۔ علاج و معالجہ کی سہولیات میں بہتری ہوئی ہے۔ تعلیم کو فروغ ملا ہے ذرائع مواصلات کے نظام میں بہتری آئی ہے میرا خیال ہے کہ جمہوری عمل سے عام انسان کو بہت زیادہ فوائد میسر آئے ہیں۔
سوال: مذہبی اور سیاسی لیڈر شپ ہمارے نوجوانوں کے لیے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرسکی اس بحران کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جواب: نوجوانوں کے سامنے جو قیادت منتخب ہوکر آتی ہے اگر اس پر نوجوان نسل کو اعتماد نہیں ہے تو وہ آئندہ انتخاب میں ان سے بہتر لوگوں کو سامنے لائیںجس سے ملک میں مزید بہتری آئے۔
سوال: اس وقت کتاب بینی کا کلچر دم توڑ رہا ہے کتاب کے عالمی دن (23 اپریل) کے موقع پر آپ کے نزدیک اس کلچر کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔
جواب: میرا خیال ہے کہ کتاب بینی بہت ضروری ہے کتاب سے علم حاصل ہوتا ہے اس سے انسان میں بیداری آتی ہے۔ جس سے ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ میں خود بھی دو کتابوں کی مصنف ہوں، علم انسان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، علم کے باعث انسان ہر میدان میں کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے۔ اس طرف نوجوان نسل کو کتاب بینی کی طرف زیادہ راغب و مائل کرنے کے نئے طریقے اختیار کرنے چاہئے تاکہ ان میں کتاب بینی کے رجحانات بڑھیں۔
سوال: ایک ملازمت پیشہ عورت اپنی پیشہ وارانہ عائلی ذمہ داریوں کو کیسے خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتی ہیں؟
جواب: عورت کو اللہ رب العزت نے ایسی صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ وہ ایک وقت میں بہت سے کام کو سرانجام دے سکتی ہے وہ جتنی ذمہ داریوں کو اختیار کرسکتی ہے اُسے کرنا بھی چاہئے اس سے عورت کے اختیارات میں اضافہ ہوتا ہے اُس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ اگر وہ گھر کے ساتھ باہر کو بھی دیکھتی ہے میں سمجھتی ہوں کہ وہ دونوں پہلوئوں کو خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہے۔
سوال: آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کی خدمت دین کے حوالے سے کاوشوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟
جواب: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دینی خدمات بلاشبہ بہت زیادہ ہیں اللہ نے انہیں موثر آواز دے رکھی ہے لہذا وہ ایک ایسے مقرر ہیں جنہیں سن کر بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور حوصلے کے ساتھ عملی میدان میں قدم بڑھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فلاحی خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں جس طرح وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام کررہے ہیں اس کی نظیر نہیں۔
سوال: قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام محنت و لگن کے ساتھ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں کیونکہ جدوجہد زندگی کا حصہ ہے جو جہد مسلسل سے گزرتے ہیں وہ کندن بن کر نکلتے ہیں۔ مشکلات تو آتی ہیں لیکن ان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں رہیں اور دیانتداری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں۔