زمین و آسمان کی تسخیر
باری تعالیٰ نے تمام انسانوں کو قیامت تک یہ درس دیا ہے کہ اس زمین اور اس آسمان کو میں نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے ہر چیز تمہاری خدمت کے لیے آمادہ ہے۔ جس چیز کو چاہو اپنے تصرف میں لاؤ۔
سورۃ جاثیہ میں ارشاد فرمایا:
وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ.
’اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے، بے شک اس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘
(الجاثیه، 45: 13)
آیت میں اس حقیقت کو بھی واضح کردیا کہ یہ تسخیر کا سفر ان لوگوں سے سرزد ہوگا اور اس کی توفیق اور صلاحیت ان کو میسر آئے گی جو خود کو لقوم یتفکرون کی مثل تفکر و تدبر والی قوم بنائیں گے جن کی عادت حیات غورو فکر اور تفکر و تدبر سے تشکیل پائے گی۔
باری تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے حصول کا طریقہ و ضابطہ بھی انسانوں کو سمجھا دیا ہے اگر کوئی اس کی نعمتوں سے مستفید ہونا چاہتا ہے تو اس کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے ان نعمتوں کے بارے میں جانے، پھر ان میں تفکر و تدبر کرے۔ اس طریق سے ان نعمتوں کا حاصل کرنا اس کے لیے آسان کردیا جائے گا۔
جو لوگ اس کائنات کے قوانین اور اس کے مختلف نظاموں میں غورو فکر کرتے ہیں۔ باری تعالیٰ انہیں اس کا علم عطا کردیتا ہے اور پھر وہ اس علم کو اپنی تفکرانہ قوتوں کے ذریعے بڑھاتے ہیں۔ باری تعالیٰ ان پر اپنے قوانین اور اپنے نظام کی حقیقتوں کو منکشف کردیتا ہے اس لیے وہ ذات اپنے بندوں پر ہمیشہ سے مشفق و مہربان رہی ہے۔
تسخیر کائنات اور واقعہ معراج
جو بھی اس تسخیر کائنات کے سفر پر روانہ ہوگا اور اس تسخیری سفر کو اختیار کرے گا اور اللہ کی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا تو باری تعالیٰ نے ان آیات تسخیر پر عالم انسانیت کی شہادت و گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کے ذریعے دی ہے۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا.
’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی۔‘
بنی اسرائیل، 17 :1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ذریعے سے ملنے والا یہ قرآن انسانوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ افلا تعقلون۔ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ اور اپنی اس عقل کو نئے علوم و فنون اور نئی نئی ایجادات کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے، تمہارا مخلوقات سے اشرف المخلوقات ہونے کا ایک سبب عقل ہے۔ اس لیے اس عقل انسانی کو اپنی تمام تر انسانی ترقی کے لیے خوب استعمال کرو اپنی عقلی صلاحیتوں کو بیدار کرو اور اپنی عقلی قابلیتوں کا اظہار کرو۔ اس عقل کو استعمال کرتے کرتے اسے تدبر کی منزل تک لے جاؤ عقل جب کسی بھی معاملے میں غورو فکر کرتی ہے تو وہ اس کی تہوں میں پہنچتی ہے۔ اس پر ان چیزوں کے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ گویا ’’عقل عام‘‘ بدیہی علم دیتی ہے۔ ’’عقل تفکر‘‘ عمیق علم دیتی ہے، اس لیے قرآن عقل کی اس امتیازی صفت کی طرف یوں متوجہ کرتا ہے:
وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.
’اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔‘
آل عمران، 3: 191
اور اسی غورو فکر کرنے والی قوم اور انسان کے طبقات سے اللہ کا وعدہ ہے۔
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ.
’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘
حم السجدہ، 41: 53
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تسخیر کائنات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات اور سیرت کے ذریعے قوم میں علم کی قدروں کو فروغ دیا اور حصول علم کے لیے ذوق و شوق پیدا کیا اور غزوہ بدر کے کافر قیدیوں سے 4 ہزار درہم فدیہ لینے کے بجائے ہر قیدی کی رہائی کے لیے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانا شرط قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فروغ علم کی یہی وہ کاوشیں تھیں جس کے نتیجے میں اہل عرب، اہل اسلام پوری دنیائے انسانت کے لیے معلم اور رہبر بن گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرت اقدس کے ذریعے قوم کو تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا اور حقائق کائنات کو جاننے کا ذوق پیدا کیا۔ تلاش و تحقیق کا شوق ان میں پروان چڑھایا۔ قوم کے ہر فرد کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا اور پوری قوم کی ترقی کو علم بالقلم پر منحصر قرار دیا۔ اس گری پڑی اور صحرا نشین قوم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کی پستیوں سے اٹھایا اور آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچایا۔
واقعہ معراج میں عالمِ انسانیت کے لیے سبق
یہ کیسے ہوسکتا ہے اقبال چودہ سو سال بعد یہ کہہ رہے ہیں۔
خبر ملی ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
اور اس سے قبل پوری تاریخ اسلام میں کسی بھی مسلمان نے اور کسی بھی انسان نے اس واقعہ معراج سے کوئی سبق نہ لیا ہو اور اس سفر معراج سے انسانی ترقی کے لیے کوئی جذبہ، کوئی ولولہ، کوئی سوچ، کوئی فکر اور کوئی عمل نہ لیا ہو، یہ چیز ناقابل تصور اور ناقابل یقین ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج قرآنی آیات کے ذریعے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور سیرت کے ذریعے عالم انسانیت کو ہر دور کی ترقی کی راہ پر گامزن کرتا رہا ہے۔ یقینا عالم انسانیت کو جو ترقی بھی ملی ہے وہ انبیاء علیہ السلام کے در سے ملی ہے۔ ہر نبی کو باری تعالیٰ نے اپنے زمانے کا غالب معجزہ عطا کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک علم و تحقیق کا معجزہ بصورت قرآن عطا کیا ہے۔ قیامت تک انسان جس چیز کو بھی اپنے علم و فن اور اپنی تخلیق و تحقیق کے ذریعے ایجاد کرے گا۔ اس کی اصل کا ذکر کسی نہ کسی طرح قرآن میں ضرور ہوگا۔
انسان اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا
اس لیے قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ اللہ کا علم ہے، انسان کبھی بھی اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے فرمایا:
وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ.
’اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے۔‘
البقره، 2: 255
اللہ انسان کو علم عطا کرنے والا ہے وہ انسان کے علم کا احاطہ کرسکتا ہے مگر انسان کبھی بھی اپنے خالق کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ قرآن کے بیان کردہ حقائق تک ان میں سے کوئی پہنچے یا کوئی نہ پہنچے۔ لیکن حقائق تک نہ پہنچنے والا اور حقائق کو نہ سمجھنے والا قرآنی حقائق کا اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے قرآن نے کہا:
وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ.
’اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔‘
یوسف، 12: 76
پھر وہ ذات جس کی جان، جس کا جاننا، جس کا علم سب کو محیط ہے اور سب اس کے علم کے احاطے میں ہیں، کوئی بھی اس کے علم سے ماورا نہیں۔ کوئی بھی اس کائنات کی شے اس کے علم سے باہر نہیں، خواہ جو چیز ابھی انسانی علم میں ظاہر ہوئی ہے یا ظاہر نہیں ہوئی۔ جو چیز ظاہر ہوجاتی ہے اور انسانی مشاہدے اور تجربے میں آجاتی ہے وہ علم بن جاتی ہے اور جو ابھی خواب اور تصور میں ہے اور ایک عملی حقیقت نہیں بنی انسان اس کو ماننے کے لیے فوری آمادہ نہیں ہوتا آج کی کتنی سائنسی ایجادات ہیں جن کا صدیوں قبل ناممکن ہونے کا تصور کیا جاتا تھا لیکن آج وہ صدیوں کے بعد ایک عملی حقیقت بن گئی ہیں اس لیے انسان ان کو مان رہا ہے۔
تسخیر ماہتاب ایک عملی حقیقت
وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ. لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ. فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ.
’اور چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے۔ تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لاتے؟‘
(الانشقاق، 84: 18تا20)
اب اس آیت کریمہ کا ہر ہر لفظ تسخیر ماہتاب کی خبر دے رہا ہے۔ انسان جب اس واقعہ سے قبل قرآن کو پڑھتا تھا کہ یہاں طبق در طبق سے مراد انسانی اعمال ہیں کبھی کہتا اس سے حیات انسانی کے مختلف مراحل مراد ہیں اور کبھی کہتا طبق در طبق سے مراد انسان کا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہونا ہے اور کبھی کہتا اس سے مراد معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے غرض یہ کہ اس کی متعدد تعبیریں اور تفسیریں تھیں وہ سب اپنی جگہ درست تھیں لیکن جب یہ تسخیر ماہتاب کا واقعہ رونما ہوگیا، انسان نے کہا والقمر میں چاند کی بات کی گئی ہے۔ لترکبن طبقا عن طبق میں ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک سوار ہوکر جانا مراد ہے اور اس انسان نے اس معنی کی تائید امام راغب اصفہانی کی کتاب المفردات سے لی جنہوں نے کہا:
الرکوب فی الاصل کون الانسان علی ظهر یوان وقد یستعمل فی السفینة.
’رکوب سے مراد ایک انسان کا حیوان پر سوار ہونا ہے لیکن اس کا استعمال سفینہ اور جہاز پر سوار ہونے کے معنی میں بھی ہے۔‘
(اصفهانی، راغب، امام، المفردات)
اور لترکبن میں لام تاکید کے لیے آیا ہے اور نون ثقیلہ بھی تاکید کلام کے لیے آیا ہے۔ اس آیت لترکبن سے قبل قرآن مسلسل قسموں کا ذکر کررہا ہے اور اپنے منکرین کو چیلنج دے رہا ہے اور اس میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک وقت آئے گا قرآن کی حقانیت مزید واضح ہوجائے گی جب انسان لترکبن طبقا عن طبق کا سفر کرے گا۔ ایک طبق سے سوار ہوکر دوسرے طبق تک جائے گا تو قرآن کی عظمتیں اور اس رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتیں تم پر مزید واضح ہوجائیں گی۔
آیت معراج پر اصول تفسیر کا اطلاق
مفسرین نے قرآن حکیم کے ان الفاظ پر عربی زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے غورو فکر کیا ہے اور اس آیت کو قرآن کے اصول تفسیر کے تناظر میں پرکھا ہے اور اسے اچھی طرح جانا اور جانچا ہے اور اس کے تسخیر ماہتاب کے معنی و مفہوم کو اصول تفسیر کے عین موافق پایا ہے۔ وہ کہتے ہیں لترکبن جمع کا صیغہ و لفظ ہے۔ اور جمع عربی زبان میں تین افراد کے لیے بولا جاتا ہے۔ تو قرآن گویا یہ اعلان کررہا ہے کہ تسخیر ماہتاب کے لیے اس سفر میں کم از کم تین افراد ایک طبق سے دوسرے طبق تک پرواز کریں گے اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ والقمر اذا اتسق لترکبن طبقا عن طبق کا معنی یہ ہوگا قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہوجائے اے بنی آدم تم میں سے کم از کم تین افراد ایک طبق سے دوسرے طبق تک پرواز کریں گے۔ پہلا طبق تو زمین ہے جہاں انسان موجود ہے۔ دوسرے طبق کا تعین حکیمانہ انداز میں کردیا گیا ہے۔ دوسرے طبق کا نام نہیں لیا اس کو تنوین کے ساتھ عموم کے الفاظ کے ساتھ بیان کردیا۔ مفسرین کرام نے بیان کیا ہے یہ اس لیے تاکہ انسانی تسخیر کا سفر طبق الی القمر کہہ دینے کی بجائے چاند تک ہی محدود نہ ہوجائے۔ انسان نے چونکہ دیگر اجرام فلکی کو مسخر کرنا تھا اس لیے اسم نکرہ کے ساتھ طبق کا لفظ کہہ دیا یہی وجہ ہے انسان آج چاند سے آگے مریخ اور مشتری تک پہنچ چکا ہے اور مزید آگے بڑھ رہا ہے۔ قرآن حکیم نے اس آیت میں لفظ لترکبن کے ذریعے اس حقیقت کو بھی واضح کیا یہ واقعہ مستقبل میں رونما ہوگا۔ اس لیے لترکبن یہ فعل مضارع مستقبل بلام تاکید اور نون ثقیلہ ہے۔ یہ فعل زمانہ حال اور زمانہ استقبال و مستقبل دونوں پر بیک وقت دلالت کرتا ہے۔ اس لیے لترکبن کے ذریعے قرآن یہ بات واضح کررہا ہے کہ یہ واقعہ مستقبل میں وقوع پذیر ہوگا۔ یہ قرآن کی پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی تھی جسے مستقبل میں ظاہر ہونا تھا اور قرآن نے اس پیشین گوئی میں یہ بھی ظاہر کیا اس سفر پر جانے والے کم از کم تین افراد ہوں گے اور تینوں صاحب ایمان نہیں ہوں گے اور حقیقت میں ایسا ہی تھا اس لیے فرمایا فما لہم لا یومنون پس انہیں کیا ہے پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
تسخیر ماہتاب کی تصدیق
اس تسخیر ماہتاب کے سارے واقعہ کو ایک غیر مسلم جو کہ بعد میں مسلمان ہوگیا فرانسیسی سکالر Dr. Maurice Bucailli اپنی کتاب The Quran and Modern Science کے باب میں The conquest of space کے عنوان کے تحت صفحہ 167 تا 169 کے تحت بیان کرتا ہے کہ 1961ء میں انسان چاند کی سطح پر پہنچا ہے جبکہ قرآن اس کا ذکر چودہ سو سال قبل اپنی مختلف آیات میں کرچکا ہے۔
اس لیے قرآن ہمیں یہ درس دیتا ہے تمہارے پاس جو کچھ علم ہے جو ظاہر ہوا ہے اور جو ظاہر ہونا ہے وہ ذات وھو بکل شیء علیم (الانعام،6:101) ہر چیز کو جاننے والی ہے۔
اور سورہ الطلاق میں ارشاد فرمایا:
وَّاَنَّ ﷲَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا.
’اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے۔ (یعنی آنے والے زمانوں میں جب سائنسی انکشافات کامل ہوں گے تو تمہیں اللہ کی قدرت اور علمِ محیط کی عظمت کا اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح اُس نے صدیوںقبل ان حقائق کو تمہارے لیے بیان فرما رکھا ہے)۔‘
الطلاق، 65: 12
یعنی آنے والے زمانوں میں جب سائنسی انکشافات کامل ہوں گے تو تمہیں اللہ کی قدرت اور علم محیط کی عظمت کا اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح اس نے صدیوں قبل ان حقائق کو تمہارے لیے بیان کردیا ہے۔
تسخیر ماہتاب اور معجزات کی تصدیق
تسخیر ماہتاب کے لیے انسان کی یہ کامیاب پرواز اور کاوش ہمیں واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحت و حقانیت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ معجزات جن کو انسانی عقل منطقی پیمانوں کی بنا پر سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ نے کسی حد تک ان کو سمجھنے کی مادی اور عقلی بنیادیں فراہم کردی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر منکشف ہوتا جارہا ہے کہ انسان جسے ایک دور میں ناممکن سمجھتا تھا وہ مستقبل میں نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے نام نہاد تعقل پسند طبقے کے انکار کے حوالے سے یہ بات خود عقل کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ عقل کا انحصار صرف محسوسات اور مشاہدات پر ہوتا ہے جب تک کوئی حقیقت محسوس نہ ہو یا اس کے مشاہدے میں نہ آئے عقل اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ عقل کا اپنی کم فہمی کی بنا پر کسی حقیقت کا انکار کرنا مناسب نہیں ہے اس لیے بعض چیزوں کو عقل سے نہیں وجدان اور ایمان سے مانا جاتا ہے اورمسلمان کے ایمان کی بنیاد ہی یومنون بالغیب ہے۔
خلاصہ کلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو سخرلکم ما فی السموات وما فی الارض کا درس حیات دیا ہے۔ اس زمین و آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امت کو بتایا اللہ نے تمہارے لیے سوچ و چاند اور لیل و نہار کو مسخر کردیا گیا۔ تم تسخیر ذات کا سفر طے کرکے تسخیر کائنات کے سفر تک پہنچو اور فرمایا میری نگاہ نبوت دیکھ رہی ہے کہ اس زمین کے مشارق و مغارب کو تمہارے لیے مسخر کردیا گیا ہے۔ پس تم میرے اس نبوی مشن، اسلام کی دعوت کو دنیا کے اطراف و اکناف میں پہنچادو۔ اللہ نے زمین کے مشارق و مغارب کو میری نگاہوں میں سمیٹ دیا ہے۔ میں ان کو دیکھ رہا ہوں پس اس دین کو وہاں وہاں تک پہنچادو جو مجھے دکھایا گیا ہے اور جو میں دیکھ رہا ہوں اس لیے میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں:
ان الله زوی لی الارض فرایت مشارقها ومغاربها وان ملک امتی سیبلغ ما زوی لی منها.
’بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا ہے پس میں نے اس کے مشار ق و مغارب کو دیکھ لیا ہے اور بے شک میری امت کی سلطنت عنقریب ان حدوں تک پہنچ جائے گی جو اس زمین میں سے میرے لیے سمیٹی گئی ہیں۔‘
صحیح مسلم، کتاب الفتن، رقم حدیث: 2889
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان حادیث کی بنا پر امت ہر ہر چیز میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز علم و تحقیق رہا، علم کی شمع ہر سو روشن کرتے گئے اور علم کو پھیلاتے گئے اور فروغ دیتے رہے اس واقعہ معراج کا بھی سب سے بڑا درس حیات امت کے لیے حصول علم ہے اور فروغ علم و تحقیق ہے دیگر انبیاء کی دعاؤں کے پہلو بہ پہلو ہم نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو دیکھیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی سکھایا۔ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما۔