انسانی ذہن کے پردہ سیمیں پر الفاظ کے ذریعے جو تصویر بنتی ہے اسے پیکر کہتے ہیں اور ان تمام پیکروں کا تعلق انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آنے والی متعلقہ اور غیر متعلقہ اشیاء سے بھی ہو سکتا ہے اور انسانی تجربے سے مطلقاً باہر کی دُنیا سے بھی ہوسکتا ہے مثلاً ماورائی، غیر مادی اور روحانی پیکر بھی انسان کے ذہن پر منقش ہوسکتے ہیں جن کو انسان نہ چھو سکتا ہے اور نہ ہی انکا مطالعہ ظاہری بصارت سے کرسکتا ہے یعنی ایسے پیکر حواسِ خمسہ کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں لہذا ادبی دنیا میں شعری پیکر کی اقسام کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جسطرح انسانی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہے اُسی طرح ذہن پر ابھرنے والے شعری پیکر بھی مختلف ہونگے۔
اقبال جس ماحول میں پلے بڑھے وہ انتہائی مذہبی ماحول تھا اور اس حوالے سے اقبال کا بھی اس ماحول سے اثرات قبول کرناایک فطری امرتھا۔ ان کے والدین نے انہیں مذہبی تعلیم مولوی میر حسن سے دلوائی جہاں انہوں نے عربی زبان سیکھی، ابتدائی سطح سے لیکر زمانہ طالبعلمی کے آخر تک یہ سلسلہ مستقل جاری رہا اور اسطرح اقبال کے مذہبی مطالعے میں وسعت پیدا ہوگئی اور انکے پورے کلام سے اس بات کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں جگہ جگہ مذہبی حوالے دئیے ہیں اور بہت سی اصطلاحات جن کا تعلق قرآن و حدیث اور اسلامی روایات سے ہے،اقبال کی مذہب سے رغبت اور محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔
اگر ہم اقبال کے مذہبی پیکر پر بات کریں تو ہمیں ان کی بھی مختلف اقسام نظر آتی ہیں کہیں ایسے پیکر تراشے ہیں جو براہ راست قرآنی حوالوں سے منسلک ہیں اور کہیں غیر مرئی قسم کے شخصی پیکر وں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انبیاء اولیاء و صلحاء اور متعد د شخصیات کے پیکر اقبال کے شعروں میں ابھرتے ہیں جن میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل، حضرت موسیٰ و حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت ادریس، حضرت خضر علیہم السلام، حضرت صدیق اکبر، حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم جیسی قابل ذکر شخصیات کا ذکر اقبال کی شاعری میں آتا ہے علاوہ ازیں مذہبی مقامات بھی اقبال کی پیکر تراشی کا حصہ ہیں۔ اقبال کے کلام میں پیکر تراشی کی یہ بنیادیں مذہبی اجزاء سے تعمیر ہوتی ہیں۔ ان میں مختلف عقائد کو بہت اہمیت حاصل ہے مثلاً ملائکہ، جبرئیل، ابلیس، جنت و جہنم، تسنیم و کوثر اور سلسبیل وغیرہ جیسے مذہبی اساطیری پیکر ہیں جن سے اقبال کے مذہبی رویوں کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
"اقبال کی تمام پیکر تراشی میں دو طرح کے پیکر ممتاز ہیں ایک تو اقبال کے مذہبی تاریخی پیکر جس میں اقبال نے اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے مذہبی تاریخی واقعات کا اشارتاً ذکر کیاہے۔ عالم اسلام کے ان تاریخی پیکروں نے اقبال کے کلام میں معنویت پیدا کی ہے شاید اس کا بدل دوسرے پیکر نہیں ہوسکتے اسلامی اقدار کے احیاء کے لیے اقبال عالم اسلام سے ایسے پیکروں کا انتخاب کرتے ہیں جس سے قاری پران اقدار کی حقیقت کا از سر نو انکشاف ہو جائے گویا تاریخی پیکروں کو وہ ایک نئے اسلوب اور نئے انداز سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری وقت کے موجودہ تقاضوں کے ساتھ ان کی تاریخی قدامت سے بھی متاثر ہوتا ہے اور تازگی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس طرح اقبال اپنے انوکھے عجیب انداز سے مذہبی، تاریخی حقائق کا تجزیہ کرجاتے ہیں۔ ذبح عظیم، شق ازانگشت او، ید بیضائ، ضرب کلیم، ضرب خلیل، آتش نمرود، اولاد ابراہیم، کشتی مسکین جان پاک دیوار یتیم وغیرہ ایسے تاریخی اور واقعاتی پیکر ہیں جن سے شعر پڑھنے کے بعد واقعہ کے تمام اجزاء قاری کے سامنے آجاتے ہیں اور تازگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔"
(اقبال نئی تشکیل: 377، عزیز احمد، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دھلی، 1980)
مثلاً:
کشتی مسکین، جان پاک دیوار یتیم
علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
(بانگ درا: 268، کلیات اقبال حصہ اردو فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور 1981)
اس شعر میں حضرت خضر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے وہ تمام واقعہ اور وہ کردار ذہن میں ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کشتی مسکین کا پیکر، جان پاک کا پیکر اور دیوار یتیم کے پیکر موسیٰ و خضر کے پیکروں کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں۔
’یعنی اس پورے واقعے کو اقبال نے ایک شعر میں سمیٹ دیا اور مرئی اور تاریخی پیکر انسانی پردئہ بصارت پر آجاتے ہیں اس سے اقبال کے مذہبی علم اور ان کے اظہار خیال کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے اور اگر اقبال اس قسم کے واقعات کو اپنے انوکھے انداز میں پیش نہ کرتے اور ان پیکروں کا استعمال نہ کرتے تو شاید کلام میں وہ تاثیر نہ ہوتی لہٰذا یہ مذہبی و تاریخی اور تلمیحاتی پیکر اقبال کے کلام میںصنائع معنوی کا کام بھی دیتے ہیں اور ان مذہبی اقدار کو بھی زندہ کرتے ہیں جو تاریخ کا حصہ تھیں۔‘
(اقبال کی شاعری میں پیکر تراشی: 103، ڈاکٹر توقیر احمد خان، لبرٹی آرٹ پریس، نئی دھلی 2، 1989)
ان تاریخی پیکروں کے استعمال میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان سے واقعاتی حقائق کی بہتر ترجمانی ہوجاتی ہے جس کے لیے شاید اس سے بڑھ کر کوئی دوسری بات ممکن نہیں تھی اسی طرح کشتی مسکین جاں پاک اور دیوار یتیم کے تاریخی مذہبی پیکروں کی مدد سے قاری پر وہ تمام تاریخی حالات منکشف ہو جاتے ہیں جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر السلام سے علم سیکھنے کی درخواست کی تھی۔ جیسا کہ بال جبریل کا یہ شعر۔
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
(بال جبریل : 89، کلیات اقبال حصہ اردو فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور 1981)
ان کی شاعری کو پڑھنے کے بعد انسانی ذہن میں جو پیکر ابھرتے ہیں ان سے قاری مذہبی و تاریخی واقعات کے حوالے سے اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جو اصلیت کی دنیا تھی اور اس طرح اقبال کا وہ مقصد خاص بھی پورا ہو جاتا ہے جس کو اجاگر کرنے کے لیے وہ ان پیکروں کی تشکیل کرتے ہیں اور اقبال کی مقصدیت کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں اور ان پیکروں کو اقبال نے روایتاً استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی شاعری میں نئے الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ نئے نئے مفاہم سے بھی متعارف کرایا ہے ان کے علاوہ اقبال کے پیکر عربی تہذیب اور عربی ادب کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔ مثلاً اذان، دجلہ و فرات، وادی ایمن، چادر زہرہ۔ نغمہ سار بان، ریگ نوح کاظمہ وغیرہ اگرچہ ادبی اور لفظی پیکر ہیں لیکن وہ اقبال کے مذہبی رویوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں اور کلام کو معنویت اور شعری حسن کو ابدیت بخشتے ہیں، ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول:
’اقبال کی شاعری کے خارجی پیکر ان کے داخلی تصورات کے مطابق ہے اسی وجہ سے اس سے وہی تاثر پیدا ہوتا ہے جو اقبال کو مطلوب تھا۔ اقبال کی شاعری میں حسن کے ساتھ ساتھ ایک خاص شان پائی جاتی ہے اور بلاغت کی ہر کامیاب و پرجلال ادا پائی جاتی ہے اس سے دل و دماغ پر رعب کا تاثر چھا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ سخن کی دل نوازی بھی موجودہے۔‘
(اعجاز اقبال : 27، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 2004)
شاعری میں تمثال نگاری کا مطالعہ کرنے سے قاری کو شاعر کے خارجی و داخلی تجربات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی بلندی فکر اور اس کے مشاہدات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے چونکہ ہر شاعر کا کلام اس کے مزاج، رویوں اور عقیدے کا عکاس ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے لہٰذا اس کا ہر شعر اس کی لاشعوری خواہشات کی مکمل ترجمانی کرتاہے، اور اقبال کی شاعری میں تمثال نگاری کے مطالعے سے اس کے فکر و خیالات اور تجربات و مشاہدات یعنی داخلی و خارجی دنیا کے متعلق بہت سی نادر معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اقبال کی ہر تمثیل ان کے فکر و فلسفہ اور اس کی شاعرانہ عظمت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حامدی کشمیری لکھتے ہیں:
’اقبال کی شاعری میں بعض ایسے مخصوص پیکر بھی موجود ہیں جو تسلسل کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے پیکر ہر بار شعر کے سیاق و سباق میں ایک نئے معنوی دائرے کی بجائے مختلف دائروں کو روشن کرتے ہیں۔ ایسے پیکر ان کی شاعری میں کلیدی یا تصرفی پیکروں کی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔ یہ شاعر کے فکر، لاشعور اور جذباتی رویوں سے گہرے طور پر مربوط ہوتے ہیں۔‘
(حرف راز: 125، حامدی کشمیری، مصطفی پبلی کیشنز، 2004)
لہذا یہ بات واضح ہے کہ اقبال کے ہاں ان تمام تمثیلوں کی مختلف جہات ہیں ان گوناگوں تمثالوں کے ذریعے وہ ہمیں اپنا پیغام دیتے ہیں اور ان کے یہ مختلف پیکر ہمیں متحرک اور باعمل بننے پر مائل کرتے ہیں انہوں نے تمثال نگاری میں اسلوب کی ظاہری خوبصورتی کے مقابلے میں فکر و معنویت پر زیادہ زور دیا ہے۔ روایتی قدیم استعاراتی تمثالوں میں نئی روح پھونک کر اپنے پیغام کو زیادہ مؤثر بنایا ہے اور ان لفظی و معنوی اختراعات کے نتیجے میں ایسی ایسی نادر الوجود اور انوکھی تمثالیں سامنے آتی ہیں جو نہ تو اقبال سے پہلے تھیں اور نہ ہی بعد میں آج تک دکھائی یا سُنائی دی ہیں۔ یہ اقبال کے کلام ہی کا اعجاز ہے کہ اُن کے کلام میں لا تعداد شعری پیکر ان کے فکر کے پیامبر بن کر قدم قدم پر قاری کو حرکت و عمل کا پیغام دیتے ہیں۔