زندہ قومیں اپنی حیات اجتماعی میں مختلف بحرانوں اور مسائل سے دو چار ہوتی ہیں مگر وہ اپنی قوت عمل اور بصیرت سے ان بحرانوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنے لیے بقا کی راہیں پیدا کرلیتی ہیں تاہم جب بحران کی وجوہات خود قوم کے اپنے وجود میں پید ا ہونے لگیں تو یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ آج پاکستانی معاشرہ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے گو قیام پاکستان کے بعد سے ہم مختلف بحرانوں اور مسائل کا شکار ہے مگر موجودہ دورماضی سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ آج ہم معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے جس انتشار کا شکار ہیں اس کی اساس وہ فکری اور نظریاتی سطح پر ابہام ہے جس کی جڑیں ہمارے تصور دین تک جاپہنچتی ہیں۔
قیام پاکستان کی اساس کیا تھی؟
یہ تاریخی حقیقت کہ پاکستان کا قیام ایک جداگانہ قومیت کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، یہ بنیاد ایک قوت محرکہ کے طور پر قوم کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہوسکتی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی یہی قوت محرکہ ہمیں ایک جسد واحد بناسکتی ہے۔ ہمارے جداگانہ تشخص کی اساس ہماری اسلام سے وابستگی ہے۔ اہل پاکستان کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں نہ ہی لسانی وحدت ہیں یعنی قوم کے روایتی مفہوم کے مطابق ہم نہ تو قوم ہیں اور نہ ہی قوم بن سکتے ہیں۔ پاکستان کا قیام کسی قوم کی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ خود پاکستان کا نتیجہ پاکستانی قوم ہے یعنی پاکستان کی نظریاتی اساس ہی ہمارے قوم ہونے کی اساس ہے اگر اس حقیقت کو نظر انداز کرکے ہم نے قوم ہونے کی کوئی اور اساس تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ خود اپنی بنیاد کو تباہ کرنے کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ نظریہ پاکستان کی اساس اقبال کی وہ فکر بنی جو الہ آباد میں انہوں تاریخی خطاب میں دی آپ نے فرمایا:
it cannot be denied that Islam, regarded as an ethical ideal plus a certain kind of polity. by which expression I mean a social structure regulated by a legal system and animiated by a specific ethical ideal-has been the cheif formative factor in the life-history of the Muslims of India. It has furnished those basic emotions and loyalties which gradually unify scattered individuals and groups, and finally transform them into a well-defined people, possessing a moral consciousness of their own. Indeed it is not an exaggeration to say that India is perhaps the only country in the world where Islam, as a people-building force, has worked at its best. In India, as elsewhere, the structure of Islam as a society is almost entirely due to the working of Islam as a culture inspired by a specific ethical ideal. What I mean to say is that Muslim society, with its remarkable homogeneity and inner unity, has grown to be what it is, under the pressure of the laws and institutions associated with the culture of Islam.
یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام بطور ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام مسلمانان ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی رہا ہے۔ اس اصطلاح سے میری مراد ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک مخصوص اخلاقی نصب العین اور نظام قانون کے تحت عمل میں آتا ہے۔ اسلام ہی نے وہ بنیادی جذبات اور وفاکشی فراہم کی جو منتشر انسانوں اور گروہوں کو بتدریج متحد کرتی ہے اور انہیں ایک اپنا اخلاقی شعور رکھنے والی متمیّز و معین قوم میں تبدیل کردیتی ہے۔ حقیقت میں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین مردم ساز قوت کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسلامی معاشرہ تقریباً پوری طرح ایک مخصوص اخلاقی نصب العین کی ثقافت سے بنا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی نمایاں ہم آہنگی اور اندرونی اتحاد کی جس صورت میں ارتقا پذیر ہوا ہے، وہ ان قوانین اور اداروں کے باعث ہے جو اسلامی ثقافت سے وابستہ ہیں۔
اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں:
The religious ideal of Islam, therefore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the other. Therefore the construction of a polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim. This is a matter which at the present moment directly concern the Muslims of India.
’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے اگر ایک کو رد کیا گیا تو دوسرا خودبخود مسترد ہوجائے گا اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظام سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہوجائے۔ یہی مسئلہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔‘
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خطبہ کی روشنی میں دیکھیں تو آج قوم میں یہ احساس پید اکرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک عظیم مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا۔ بانیان پاکستان کا وژن بڑا واضح تھا وہ جب برصغیر میں پاکستان کا مطالبہ کررہے تھے اور قیام پاکستان کی جدوجہد کررہے تھے تو ان کے پیش نظر صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہ تھا بلکہ اس خطے کے مسلمانوں، برصغیر کے مسلمانوں اور ایشیا کے عوام کے حقوق کی بازیابی اور یہاں ایک پرامن فلاحی معاشرے کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔ خطبہ الہ آباد کا اختتام کرتے ہوئے علامہ نے کہا تھا:
Gentlemen, I have finished. In conclusion I cannot but impress upon you that the present crisis in the history of India demands complete organisation and unity of will and purpose in the Muslim community, both in your own interest as a community and in the interest of India as a whole. The political bondage of India has been and is a source of infinite misery to the whole of Asia. It has suppressed the spirit of the East and wholly deprived her of that joy of self-expression which once made her the creator of a great and glorious culture. We have a duty towards India where we are destined to live and die. We have a duty towards Asia, especially Muslim Asia. And since 70 millions of Muslims in a single country constitute a far more valuable asset to Islam than all the countries of Muslim Asia put together, we must look at the Indian problem not only from the Muslim point of view, but also from the standpoint of the Indian Muslim as such. Our duty towards Asia and India cannot be loyally performed without an organised will fixed on a definite purpose. In your own interest, as a political entity among other political entities of India, such an equipment is an absolute necessity.
حضرات! میری تقریر ختم ہوئی۔ آخر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تاریخ ہندوستان کے موجودہ نازک دور میں مسلمانوں کو مکمل تنظیم اور اتحاد عزائم و مقاصد کی ضرورت ہے جو بحیثیت قوم آپ کے اور ہندوستان کے مجموعی مفاد کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان کی سیاسی غلامی پورے ایشیا کے لیے لامتناہی مصائب کا سرچشمہ تھی اور اب بھی ہے۔ اس نے مشرق کی روح کو کچل ڈالا ہے اور اس اظہار ذات کی مسرت سے پوری طرح محروم کردیا جس کی بدولت کبھی ایک بڑا اور شان دار تمدن پیدا ہوا تھا۔ ہم پر ایشیا بالخصوص مسلم ایشیا کی طرف سے بھی ایک فرض عائد ہوتا ہے۔ ایک ہی ملک میں سات کروڑ مسلمانوں کی موجودگی تمام مسلم ایشیا کے مسلمانوں کے مقابلے میں اسلام کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ہمیں ہندوستان کے مسئلے پر صرف مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے ہی نہیں ہندوستانی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے بھی دیکھنا چاہئے۔ ایشیا اور ہندوستان کی طرف سے عائد شدہ فرض ہم اس وقت تک وفاداری کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے جب تک ہم ایک مخصوص مقصد کے لیے منظم عزم نہ کرلیں۔
یہ محض ایک نظریاتی یا فکری بیان نہ تھا جو علامہ اقبال نے دیا بلکہ اجتماعی مقصد کے لیے یہ سب کچھ آل انڈیا مسلم لیگ کا مطمع نظر بھی تھا۔ علامہ اقبال کے وصال کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کی بنیاد یہی نظریہ بنا جو انہوں نے دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے نوجوانانِ پاکستان کو اُس نظریہ سے روشناس کروایا جائے جو اقبال کی فکر نے دیا کیونکہ یہ نظریہ ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
(ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کی گفتگو سے ماخوذ)