علم و عرفان کا پیکر ہے ہمارا قائد
عاشق ساقی کوثر ہے ہمارا قائد
فن گویائی میں برتر ہے ہمارا قائد
زندگانی کا سمندر ہے ہمارا قائد
80ء کے عشرے میں پاکستان میں قومی سطح پر ایک شخص آفتاب کی مانند طلوع ہوا۔ جس نے اپنی زندگی میں کچھ کرنا تھا اس کا تعین وہ اپنی 1972ء کی ڈائری میں رقم کرچکا تھا۔ اپنی مستقبل کی سوچوں اور ارادوں کو منصوبوں میں ڈھال چکا تھا۔ اس کی زندگانی کا شروع ہونے والا سفر حادثاتی نوعیت کا نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بڑی طویل غوروفکر اور وسیع مطالعہ کار فرما تھا۔ وہ اسلام کے سارے ذرائع کھنگالنے کے بعد مغربی انقلابی افکار کو بڑی گہرائی سے پڑھ چکا تھا بلکہ ان کا تجزیہ بھی کرچکا تھا۔ اس نے اپنے طے شدہ راستوں پر چلنا شروع کردیا۔ اس نے ایک مفکر و مدبر کی حیثیت سے اور قوم کے مجموعی مزاج اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے دین اسلام کے مذہبی و اسلامی پہلوئوں کو اولاً اپنی دعوت کا موضوع بنایا۔ بغیر کسی سہارے کے اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے TV کی اسکرین پر ظاہر ہوا۔ مذہبی، اعتقادی اور اصلاحی دعوت کے حوالے سے جس کان نے بھی اسے ایک مرتبہ سنا پھر اسے سنتا ہی گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں ’’فہم القرآن‘‘ کے نام سے شروع ہونے والے اس پروگرام نے جو شہرت حاصل کی۔ اس جیسی شہرت آج تک کوئی اور پروگرام حاصل نہ کرسکا۔ پروگرام نشر ہوتے ہی لوگ سب کچھ چھوڑ دیتے ہر کوئی اس کا منتظر رہتا گویا عرصہ دراز کے بعد پیاسوں کی پیاس بجھنے لگی اور ان کی تشنگی کا سامنا ہونے لگا اور وہ اس پروگرام کے اس قدر عادی ہوتے گئے کہ اگر وہ پروگرام کسی وجہ سے ایک ڈیڑھ ماہ کی تاخیر سے نشر ہوتا تو TV انتظامیہ کے پاس خطوط کے انبار لگ جاتے۔
غرضیکہ یہ انقلابی مسافر اپنی دعوتی، تربیتی، اعتقادی، اصلاحی اور تنظیمی آٹھ سالہ جدوجہد کے بعد جب اپنے سفر کے دوسرے مرحلے تحریکی اور انقلابی کی طرف بڑھتا ہے۔ تو وہ لوگ جن کی منزل مذہبی دعوت اور عقیدہ ہی تھا۔ جن کا تصور اسلام بھی یہی تھا جنہوں نے اس مسافر کو جب اپنے سے جدا ہوتے دیکھا اور اگلے سفر کی طرف جاتے دیکھا تو پریشان ہوگئے۔ بعض نے ساتھ چلنے سے انکار کیا۔ کچھ متذبذب رہے جبکہ اکثریت ہم مزاج ہوگئی تھی۔ اس لئے وہ ساتھ چلنے لگے۔ جب انکار کرنے والوں نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر پریشانی کا اظہار کیا تو اس کے عملی ارادوں کو جاننے والے مخالف بھی پریشان حال لوگوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے چاہا کہ یہ ان کی خواہش کے مطابق ان ہی کی منزل پر رہے چونکہ یہ اس انقلابی مسافر کی منزل نہ تھی۔ اس لئے اس نے کہا کہ سفر کے دوسرے مرحلے کی طرف روانہ ہونا میر ی مجبوری ہے اور میں اس کا عہد کرچکا ہوں۔ اور عہد اس عزم کے ساتھ کیا ہے کہ اگر میرے ساتھ ایک بھی نہ چلے پھر بھی اپنی منزل کی طرف اکیلا ہی چلتا رہوں گا اور اس راستے میں ہزار طوفان اور رکاوٹیں کیوں نہ آئیں وہ میرے پائوں کو بھی ان شاء اللہ متزلزل نہ کرسکیں گی۔
25 مئی 1989ء کو اس نے اپنے سفر کے دوسرے مرحلے کا عملی آغاز کیا۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے لاکھوں غیور عوام نے اس کا خیر مقدم کیا۔ موچی دروازہ لاہور میں وہ تاریخ ساز، بے مثال مصطفوی انقلاب کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں لوگوں کی کثرت کے اعتبار سے شرکت کی اب تک تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ منظر دیکھ کر اس میدان کے بڑے بڑے شہسوار اور تجربہ کار پریشان ہوگئے۔ بے شمار رسائل، جرائد، اخبارات اور کالموں میں اس میدان کے اجارہ داروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ہرکسی نے اپنی سمجھ کے مطابق تاثرات دیئے۔ متاثر اور حیران تو ہر کوئی ہوا۔ غرضیکہ زندگی کے جس بھی شعبے کی طرف بھی اس عظیم مسافر نے رخ کیا وہاں یہ انقلابی مسافر اس مصرعے کا مستحق ٹھہرا۔
جس سمت آگئے ہو سِکّے بٹھادیئے ہیں
سیاست میں اس نے اپنی پہلی ترجیح اپنی قوم کو Educate کرنا رکھی۔ اس لئے پورے ملک میں اس نے 5000 عوامی تعلیمی مراکز، 1000 ماڈل سکول اور 100 کالجز، 5 یونیورسٹیوں کے بنانے کا منصوبہ بنایا اور اپنے وسائل سے اب تک سینکڑوں ماڈل سکول اور متعدد کالجز اور ایک چارٹرڈ یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ UNO اس کے تعلیمی پروجیکٹ کو NGOکی بنیاد پر بغیر حکومت سے وسائل لئے اپنی مدد آپ کے تحت دنیا کا سب سے بڑ اتعلیمی منصوبہ قرار دے چکی ہے۔
اس کے علاوہ 80 سے زائد ممالک میں تعلیمی اور رفاہی اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال چکا ہے۔ تحقیقی و تحریری کام کے اعتبار سے بہت تھوڑے وقت میں پوری قوم کو ہزاروں موضوعات پر اپنے لیکچرز اور سینکڑوں مختلف موضوعات پر کتب کا تحفہ دے چکا ہے۔ اور بے شمار اسلامک سینٹرز، تعلیمی اداروں اور رفاعی اداروں کا نیٹ ورک دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی بین الاقوامی خدمات کے اعتراف میں کئی انٹرنیشنل ادارے بڑے بڑے ایوارڈ دے چکے ہیں۔
سیاست میں اپنی اس پہلی ترجیح کے بعد جب وہ میدان سیاست میں عملی طور پر اترا تو پاکستانی سیاست کے دو سیاسی اجارہ داروں کو اس کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو عرصہ دراز سے جانتا تھا اور اسے تو سب کچھ معلوم تھا۔ اس لئے وہ مقابلے میں ہی نہ آیا۔ البتہ بزدلانہ طریقے سے اسے ختم کرنے کا ارادہ کرلیا اور قاتلانہ حملہ کرایا۔ چونکہ 25مئی 1989ء کے موچی دروازے کے طوفان میں اس اجارہ دار کے جانثار بھی اکھڑ گئے تھے۔ باری تعالیٰ نے اس حملے سے اس عظیم انقلابی مسافر کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔ اس لئے کہ
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پاکستانی سیاست کا دوسرا اجارہ دار اپنے موروثی نام، تجربے اور بے پناہ شہرت کے باعث سامنے آتا ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ میں ٹشو پیپر کی طرح اسے استعمال کرکے پھینک دوں گا۔ جس طرح بہت سے استعمال کرچکا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اب جس سے سامنا ہے وہ ہزاروں وکلائ، علمائ، مجسٹریٹ، ڈپٹی کمشنر اور کمشنروں کا استاد بھی رہ چکا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قوانین اور دساتیر کو بھی خوب سمجھتا ہے اور مردم شناس بھی ہے۔ اس اجارہ دار کو سب سے پہلے تویہ دھچکا لگا کہ اسے اتحاد کی صدارت اس انقلابی مسافر کو دینا پڑی، اس نے سمجھا ایک سال کی بات ہے۔ میرا کچھ نہیں بگڑے گا وقت نے اس کے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ سب سے پہلے اس نے ڈائننگ ٹیبل پر سب سیاسی اتحاد زعماء کی موجودگی میں اسے مغلوب کرنا چاہا لیکن منہ کی کھائی، اس پہلی فتح پر مرزا اسلم بیگ سابق چیف آف آرمی سٹاف اس انقلابی مسافر کے گھر آکر سلیوٹ کرکے مبارک باد دیتا ہے۔
ڈرائنگ روم کی سیاست میں ناکامی کے بعد یہ سیاسی اجارہ دار عوامی عدالت میں مقابلہ کرنے کا سوچتا ہے۔ اس میں بھی گوجرانوالہ کا پہلا جلسہ اس کی ناکامی کا واضح فیصلہ کرتا ہے۔ متوالے اور جیالے در بدر ہوتے ہیں۔ فضا میں بھی متوالوں کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ زمین پر بھی ہر سو متوالے ہی متوالے دکھائی دیتے ہیں، شروع سے آخر تک پورا مجمع۔ انقلاب، انقلاب، مصطفوی انقلاب سے گونجتا رہا۔ اس لئے کہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
سیاسی اجارہ دار نے سمجھا یہ ایک زخم ہے۔ مندمل ہوجائے گا۔ اب ہم زخم لگائیں گے لیکن ایک سال میں ہر جگہ وہ تیار ہوکر آتا رہا۔ لیکن ہر جگہ ناکام ہوتا رہا۔ اس کا ورکر جس کی یہ شہرت چلی آرہی تھی کہ یہ وہ وفادار ہے جو کسی سے آج تک نہیں ٹوٹا۔ پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ اس انقلابی مسافر نے اس ورکر کو اپنی انقلاب انگیز زبان سے توڑا۔ جب یہ ٹوٹنے کا عمل شروع ہوا تو اس اجارہ دار کی نیندیں بھی اجڑ گئیں۔ اس نے برملا کہنا شروع کردیا۔ اس انقلابی مسافر سے بچ جائو، بچ جائو، دور ہوجائو اور دور ہوجائو۔ لیکن ابھی اسے شک تھا۔ اس نے مینار پاکستان کا نظارہ دیکھا۔ پھر متوالے اور جیالے آمنے سامنے تھے۔ ہر کوئی اپنی پوری تیاری کرکے آیا پھر متوالوں کا رنگ غالب رہا حتی کہ جیالے بھی متوالے بننے لگے۔ اپنی اجڑتی ہوئی بستی کو دیکھ کر یہ سیاسی اجارہ دار بھی اس انقلابی مسافر کے مقابلے سے بھاگ گیا۔ اس انقلابی مسافر کو دنیا قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کہتی ہے۔
یہ تو وہ مشاہدات ہیں جو ہر آنکھ دیکھ چکی ہے۔ میرے قائد کی قیادت کو دنیا تسلیم کرچکی ہے۔ اب تو اپنے کیا غیر بھی مان چکے ہیں۔ اس تناظر میں انوارالمصطفی ہمدمی نے ان سیاسی اجارہ داروں کو چیلنج کرتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں یوں کہا تھا:
اپنے مردوں کے فسانے نہ سنائو ہم کو
ہے کوئی ایسی قیادت تو دکھائو ہم کو
اے مصطفوی انقلاب کے چاہنے والو! ہمارے قائد کی قیادت کو تو ہر کوئی مان چکا ہے۔ اب تو قائد کے کارکنوں کو خود کو منوانا ہے۔ اٹھو اپنے شب و روز کو مصطفوی انقلاب کے لئے وقف کردو۔ اپنی ساری توانائیاں مصطفوی انقلاب کے سپرد کردو۔ تن، من، دھن کی بازی لگادو، شمع کی طرح مٹ کر پورے ماحول کو مصطفوی انقلاب کی روشنی سے منور کردو۔ قائد کے اشارے پر سب کچھ لٹادو، مصطفوی بن کر توحید کی قوت سے ہر باطل طاغوتی، استحصالی اور سامراجی بت کو مٹادو۔ اس لئے کہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھادے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے