پہلی ترجیح: نظریاتی تشخص
دو قومی نظریے کی کوکھ سے پھوٹنے والا نظریہ پاکستان اس مملکت خداداد کا جواز حقیقی ہے۔ 23 مارچ 1940ء کے دن ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے ایک قرارداد کے ذریعے، حصول پاکستان کے راستے اس نظریہ کو اپنی منزل بنایا۔ برصغیر کے گلی کوچے ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الااﷲ‘‘کے نعرے سے گونج اٹھے اور تقسیم کے وقت، ہجرت کے عمل نے انبیاء علیھم السلام کی سنت تازہ کرتے ہوئے اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے عزم پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
جو نظریہ، وجودِ مملکت کا باعث ہوتا ہے وہی نظریہ ہی ارتقائے سلطنت و ریاست کا ضامن ہوتا ہے۔ گویا پاکستان کی ترقی نظریہ پاکستان کی اولین ترجیح سے ہی مشروط ہے۔ وطن عزیزپاکستان کی ترقی کے لیے پہلی ترجیح کے طور پر نظریہ پاکستان کو ہی پاکستانیوں کا عقیدہ بنانا ہو گا، پاکستان کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کو نظریہ پاکستان کاسہرا پہنانا ہوگا۔ نجی اور ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی معاملات تک اسی نظریہ کی بالا دستی کو قبول کرنا ہوگا، تعلیم، تدریس، دفاع اور دفتری معاملات کی ترجیحات میں اسی نظریہ کو اولیت دینا ہو گی اور نظریہ پاکستان کو پاکستان کی داخلی و خارجی پہچان بنانا ہو گی تب ہی آزادی کے ایک طویل عرصے کے بعد صحیح سمت میں سفر ممکن ہو سکے گا۔
مشرق و مغرب میں پروردہ متعدد نظریات کی چکاچوند نے پاکستان اور اہل پاکستان کو احساس کمتری میں مبتلا کیا ہے۔ ان میں سے کسی نظریے کی تنفیذ اس تسبیح کو دانہ دانہ کر دینے کے مترادف ہو گی جو پاکستان کی وحدانیت کا باعث ہے۔ قرطاس تاریخ گواہ ہے کہ نظریات ہی اقوام کی پہچان ہوتے ہیں۔ دیگراقوام کے نظریات اپنانے سے نہ صرف یہ کہ پاکستان اپنا وجودگم کر بیٹھے گا بلکہ ذلت، پستی اور گمشدگی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑے گا جہاں سے واپسی ناممکنات عالم میں سے ہے۔
نظریہ پاکستان دراصل اسلامی نظریہ فکروعمل کے سوتے سے پھوٹتا ہوا وہ شیریں چشمہ ہے جو پاکستان کے پس منظر میں نو مولود کے لیے شیر مادر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راز اسی چشمے سے ہی سیرابی میں مضمر ہے۔ پاکستان کے اندر انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کی ضمانت صرف اسی نظام میں ہے جو مکہ اور مدینہ کے راستے یہاں تک پہنچا۔ پاکستان کی پیاس اسی چشمے سے سیرابی میں ممکن ہے اور پاکستان کی شکم سیری اسی چشمے کے پانی سے تیار کی ہوئی فصلوں میں پوشیدہ ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
دوسری ترجیح:قومی و ملی شعار کی ترویج
پاکستان میں یہ یقین بیدار کرنا ہوگا کہ آزادی میسر آچکی ہے، غلامی کے بادل چھٹ چکے ہیں، پاکستان کو اپنا سفر خود سے شروع کرنا ہے، آزادی کو بہت بڑی ذمہ داری سمجھنا ہے، اپنے فیصلے خود کرنا ہیں، سخت سے سخت فیصلے بھی کر گزرنا ہیں، پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ خود کرنا ہے، اپنی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھوں میں قطعاََ نہیں دینی اور دنیا میں اپنی آزادانہ حیثیت منوانا ہے۔
آزادی کا شعور قومی و ملی شعائر سے ہی ممکن ہے۔ کسی بھی قوم کا اولین شعار اسکی قومی زبان ہوا کرتی ہے۔ پہلے انسان سے آج تک کسی قوم نے دوسری کسی قوم کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں کی۔ زبان ہی انسان کا درس اولین ہوتا ہے اور بڑی بڑی اقوام کے اعلی ترین ادب کی واحد بیساکھی زبان ہی ہوتی ہے۔
قومی زبان اپنا چکنے سے پاکستان ترقی کی ابتدائی اور اہم منازل طے کر سکتا ہے۔ اب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتوں کا ذریعہ غیر قومی زبان ہے اور پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت اسے سمجھنے سے قاصر ہے چنانچہ نفسیاتی انتقام کے طورپر، قوانین کا استہزااورقانون میں نقب زنی بہادری سمجھی جاتی ہے۔ مستند طبی کتب اور طبی ٹیکنالوجی غیر قومی زبان میں ہیں جو قوم کے ادراک سے باہر ہے چنانچہ طبی اصولوں سے عدم واقفیت کی بناء پر قوم بیمار سے بیمار تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بنیادی معیاری تعلیم اور اعلی تعلیم غیرقومی زبان میں ہی میسرہے جس سے ناآشنائی کے باعث قوم میں جہل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات اور تکنیکی فنون کی قومی زبان سے دوری کے باعث بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے کچھ علاقے ابھی پتھر کے دور سے باہر ہی نہیں نکلے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے قومی زبان کو انتہائی حتمی استعداد تک اپنانا ہوگا بصورت دیگر غیرقومی زبان میں حاصل کی گئی کامیابیاں اسی قوم کے لیے کارآمدہوں گی جس کی زبان میں یہ کام کیا گیاہوگا اور پاکستان اپنے وسائل خرچ کرنے کے باوجوداسکے ثمرات ست محروم اور تشنہ کام رہے گا۔
آزادی کے بعد گزشتہ آقاؤں کا طرزبودوباش اپنانے سے پاکستان کا تصور آزادی پہلے مجروح ہوگا اور پھر سلب ہو جائے گااور ایسی ذہنی غلامی اور فکر علیل پروان چڑھے گی جو قومی و ملی میراث سے بیزار ہو گی اور اپنا آپ کہیں کھو چکی ہو گی۔ پاکستان کو آزادی کا شعوراوراعتماد دینے کے لیے ماضی سے رشتہ جوڑنا ہو گا۔ اپنی مقامی اور معاشرتی روایات کو اپنانا ہوگا۔ ثقافتی اقدار، تمدنی طوراطواراورفنون لطیفہ سے غلامی کا زنگ اتار کر انہیں قومی شعائر سے مزین کرنا ہوگا، جس کاکہ سرچشمہ فیض نظریہ پاکستان ہے۔
پاکستان ایک مملکت سے بڑھتے ہوئے ایک ملت کا بھی حصہ ہے۔ جزو سے کل کی جانب بڑھتے ہوئے پاکستان میں ملی شعائر کو فروغ دینا ہو گا جو پاکستان کو امت مسلمہ کی بین الاقوامی شناخت عطا کریں گے۔ دنیا کو یہ بات باور کرانا ہو گی کہ شکم، خون اور جغرافیہ سے اعلی تر بھی کوئی جذبہ اس کرہ ارض پر موجود ہے جو اتحاد ملل کا باعث بن سکتا ہے۔ چنانچہ ملی شعار کو اپناتے ہوئے انسانیت کے وسیع تر پلیٹ فارم سے رنگ، نسل، علاقہ، زبان اور مذہب کے تفاوت سے بالا تر ہو کر اپنا فیض عام کرنا ہو گا۔
ملت سے اپنا رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
تیسری ترجیح:دفاع
دفاع اگرچہ کسی بھی قوم کی پہلی ترجیح ہے لیکن یہاں نظریاتی تشخص اور قومی و ملی شعار کو اس لیے فوقیت دی گئی ہے کہ ابھی وہ سرمایہ تو عنقا ہے کہ جس کا دفاع مقصود ہے۔ تب پاکستان کوپہلے وہ سرمایہ فراہم کرنا ہو گا پھر اولین ترجیح دفاع کو حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ نومولودکا دفاعی نظام ہی اسکی بقا کی وجہ بنتا ہے، اگر دفاعی صلاحیت ماحول کے مقابلے میں مات کھا جائے تو جرم ضعیفی اسے عدم کا راستہ دکھا دیتی ہے۔
اسلحہ کی دوڑ میں شرکت، آتشیں ہتھیاروں کا ڈھیر اور عسکری میدانی صلاحیتوں کا حصول صرف جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کر سکتا ہے۔ جبکہ قوموں کا وجودانکے عقائد، نظریات، تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایات کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔ جغرافیہ کے میدان میں شکست کے بعد قوموں کا وجود باقی رہ سکتا ہے لیکن تہذیبی جنگ میں شکست، اقوام کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیاکرتی ہے۔ نظریات کے میدان میں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑ جائے توجغرافیائی جنگ کی نوبت ہی نہیں آیاکرتی۔
پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے عقائد اور نظریات کا تحفظ درکار ہے جن کے بغیر پاکستان پاکستان نہیں رہے گا۔ تہذیبی یلغارسے پاکستان کادفاع کرنا ہوگا، پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے ثقافت کے نام پر عریانیت، بے مقصدیت، بے راہ روی، لذت نفسانی، آوارگی اور تن آسانی کے سیلاب سے وطن عزیز کو بچانا ہوگااور معیار زندگی میں بڑھوتری کے نام پر گزشتہ آقاؤں کی بودوباش اور رہن سہن کے رواج سے پاکستان کی آزادی کو بچانا ہو گا تب ہی مادر وطن کا دفاع ممکن ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا مقصد وجود’’لاالہ الا اﷲ‘‘ہے، اس مقصد کا دفاع ہی پاکستان کا دفاع ہے۔ اگر یہ سرمایہ سرزمین پاکستان سے رخصت ہو گیا توپاکستان اپنا جواز کھو بیٹھے گا اور ایک ایسے جسم کی مانند ہو جائے گا جس کی روح پرواز کر چکی ہو، تب محض جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ’’وطن‘‘ نامی تازہ خدا کی پوجا پو گی۔
پاکستان کے دفاع کے لیے جہاں علمی، ادبی، تحقیقی، تہذیبی، تاریخی، ثقافتی اور ایمان، اتحاداور تنظیم جیسے ہتھیاروں کی ضرورت ہے وہاں پوری قوم کو آتشیں اسلحے اور جدیدترین جنگی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا بھی ضروری ہے۔ نظریات کو پیش قدمی کے لیے قوت اور طاقت کی پشت پناہی چاہیے ہوتی ہے۔ ایسے میں ان ہتھیاروں سے بے نیاز ہوجانا کوئی دانشمندی نہیں۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
چوتھی ترجیح:تعلیم
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ تعلیم معرفت نفس کا وسیلہ ہو تی ہے کہ انسان اپنے آقا کی شناخت کر سکے، اپنے آپ کو پہچان سکے، کائنات میں اور دیگر مخلو قات میں اپنی حیثیت کاادراک حاصل کر سکے۔ تعلیم کے مزاق سے ہی قوموں کے ذہنی معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اورتعلیمی ترقی سیاسی ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور تعلیمی تنزل سیاسی زوال کا مقدمہ بنتا ہے۔
مقصدیت سے عاری، طبقاتی خلیج، غیراقوام کے نصابات کی تدریس اور قومی تقاضوں سے بیزارتنظیم و تعلیم وہ عناصر اربعہ ہیں جنہوں نے تقدیس تعلیم کاصنعتی استحصال کر کے تو ایسی مصنوعی قیادت فراہم کی ہے جس نے ضمیر کی منڈیوں میں اپنے ملک و قوم کی کم سے کم بولی میں سبقت حاصل کر کے اقتدار کے بت کو راضی اوراپنے شکم کو ٹھنڈاکیا ہے اور پاکستان کی نسلوں کو گروی رکھ کر ملک میں آگ لگائی ہے۔
تعلیم کے میدان میں پہلے بچے کے فطری رجحان کا پتہ لگانا ہو گاکہ فطرت نے بچے کو کس میدان کے لیے تیارکر کے بھیجا ہے۔ جو بچہ خدا تعالی کے ہاں سے سپاہی بنا کر بھیجا گیا ہے اسکے ہاتھ میں چاک، ڈسٹراور رجسٹر پکڑا کر مدرسہ بھیجنے سے ترقی کا عمل رک جائے گا۔ جس بچے کو فطرت نے فلسفی بنا کر بھیجا ہے اسے ضلعی انتظام سپرد کر دینے سے انتشار میں بڑھوتری ہو گی، طبیب بن کر آنے والے کو مشینوں میں الجھا دینے سے نسلی روابط میں خلیج وسیع تر ہوتی چلی جائے گی اور قیادت کاذوق لانے والے کو اگرفیکٹری میں مزدور لگا دیا جائے گاتو وہ ہمیشہ دوسرے مزدوروں کو اپنے پیچھے لگا کر تونظام کو جام کرنے کی سعی میں کوشاں رہے گا۔ قومی ترقی کے لیے انفرادی ترقی بے حد ضروری ہے اور انفرادی ترقی تب ہی ممکن ہے کہ فرد کو اسکے فطری رجحان کے مطابق تیارکیا جائے اوریہ کام نظام تعلیم کا ہے۔
ٍ بہت چھوٹی عمر میں بچے کی ذہنی صلاحیتوں کاادراک کرنا ہوگا، پھر ہر مرحلے پر اسکی تصدیق چاہنا ہوگی تب ایک طالب علم تعلیم کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے گا اور معاشرے میں صحیح طرح سے پیوست ہو سکے گا۔ بصورت دیگر خلاف فطرت پیشہ ملنے پرساری عمر نفسیاتی استحصال کا شکار رہے گا، نظام کی خرابی کا شاکی رہے گااور کم ہمتی، سستی، کام چوری اور کاہلی کے ذریعے اپنی محرومیوں کا معاشرے سے نفسیاتی انتقام لیتا رہے گا اور اپنے پیچھے اپنی جیسی نسل چھوڑ جائیگا۔
تعلیم میں پورے دن کی گزران کووزن دینا ہوگا، محض آتھ گھنٹے گزارنے کی تعلیم فراہم کر دینے سے وہ اچھاڈاکٹر، وکیل، صحافی، سائنسدان، معلم یا کلرک وغیرہ تو بن جائے گا لیکن اچھا انسان نہیں بن سکے گا۔ بقیہ سولہ گھنٹے میں جہاں وہ بیک وقت باپ، بیٹا، پڑوسی، بھائی، دوست، ہم سفر، شوہر، افسر، ماتحت اور نہ جانے کیا کیاہے، اسے بتانا ہوگا کہ وہ ان کرداروں سے کیسے انصاف کرے گا۔ اور خاص کرپاکستان کے تناظر میں وہ ایک نظریاتی مستحکم مسلمان بھی ہے اور ایک امت کا فرد بھی ہے تو اسکو یہ کردار کس طرح ادا کرنا ہے۔
پاکستان میں نصابات کی تیاری سے لیکرتنظیم تعلیم کے انتخاب سمیت امتحانات کی تکمیل تک تمام تر نظام پر نہ صرف یہ کہ نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ بعض مقدمات تعلیم تو اس قدر بوسیدہ ہو چکے ہیں بلکہ متعفن ہو چکے ہیں کہ انکا اخراج بقائے نسل کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ موجودہ نظام تعلیم ہے تو یہ جھوٹ نہ ہو گا۔
پانچویں ترجیح :معاشی خوشحالی
ضمیر کی تاریخ کے بازار میں سب سے زیادہ نیلامیاںاور سب سے کم دام ان قوموں کے لگے ہیں جن کی قیادت پیٹ بھر کر سوتی تھی اور عوام بھوکے رہتے تھے۔ ہاں عوام نے بھی اپنے پیٹ پرپتھرباندھا مگر جب قیادت کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔ اس آسمان کے نیچے انسان کی سب سے بڑی آزمائش اسکا خالی پیٹ ہے۔ پاکستان کو معاشی خوشحالی کے لیے ارتکازدولت کو خیرآباد کہ کر توتقسیم دولت کا نظام اپنانا ہو گا۔ سود کی لعنت نے غربت کو اسکی انتہاء تک پہنچایا ہے۔ من حیث القوم ظالمانہ سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے رائج الوقت معاشی نظام کو تدریجاََ عدل و احسان کے قریب تر لانا ہوگا۔
معاشی خوشحالی کی ابتدا انفرادی و خاندانی سطح پر ہو گی، جس کے لیے پاکستان کوسائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی درکار ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے چلتی ہوااور بہتا پانی بھی پیدائش دولت کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان دھوپ کی دولت سے مالا مال ہے، ہرگھر پر شمسی توانائی کے یونٹ لگے ہوں گھر بھر کے برقی آلات اورچولھے مفت کام کریں، رات کو گاڑی کا سیل چارج کیا جاتا رہے اور دن کو آلودگی سے پاک ٹریفک مفت چلے اور اگر اس فارمولے کو صنعت و تجارت، مواصلات اور ذرائع نقل وحمل کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تو معاشی خوشحالی کی منزل حیرت انگیز حد تک قریب آ سکتی ہے۔ زراعت کے میدان میں تو پاکستان کو سائنس و ٹیکنالوجی کی ایمرجنسی کی ضرورت ہے تاکہ سونا اگلتی کھیتیاں اور محنت کش کسان وطن عزیز کوچار چاندلگا سکیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے سے بے روزگاری دور ہو گی، گھرگھرخوشحالی کے دروازے کھلیں گے، فاقے رخصت ہوں گے تو صحت کا معیاربہتر ہوگا، جیب بھاری ہو گی توتعلقات میں وسعت آئے گی، پاکستان سے بھوک ننگ ختم ہو گی توان سے جنم لینے والے جرائم کا خاتمہ ہو گا، امن و امان میسر آئے گا اورپاکستان شاہراہ ترقی پر دنیا کی قیادت و سیادت کرتا نظر آئے گا۔
چھٹی ترجیح:پائدار سیاسی نظام
سیاسی استحکام کے حصول کے لیے حقیقی قیادت کی ضرورت ہے جس کا منبع تعلیمی ادارے ہوا کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں علمی ماحول، تعلیمی مساوات اور اساتذہ کی نگرانی کے باعث کسی زورآور کا اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر قیادت تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ تقریبات، مجالس اور انجمنوں کے ذریعے ایسے نوجوان نکھر کر سامنے آئیں گے جو معاشرے کی حقیقی قیادت ہو گی۔ انتخابات کے ذریعے ایسے نوجوانوں کی سیاسی تربیت اور بقیہ طالب علموں کو سیاسی شعور منتقل کیا جا سکے گا۔ تعلیمی اداروں سے برآمد ہونے والی قیادت تعلیم یافتہ اور باشعور تو ہو گی ہی اسکے ساتھ ساتھ اس میں معاشرے کے تمام طبقوں کی نمائندگی بھی ہو گی، یوں طبقاتی استحصال سے جنم لینے والی کشمکش کا بھی خاتمہ ہو سکے گا جو پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی اصل وجہ ہے۔
تعلیمی اداروں میں یہ عمل روک دینے سے سیاست کا میدان دیہاتوں، کارخانوں اور بازاروں سے ابھرنے والی غیرمعیاری اور کاروباری قیادت کے ہاتھ میں چلا جائے گا جوقیادت کو جاگیر اور سیاست کو وراثت بنا لیتے ہیں۔ تاہم یہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کو قومی و بین الاقوامی سیاست سے بہرحال دور رکھے تاکہ ان کا تعلیمی حرج نہ ہو اور ایسا معیار مرتب کیا جائے کہ قیادت صرف حقوق کی داعی نہ ہو بلکہ ادائیگی فرائض میں بھی سرفہرست ہو۔
ساتویں ترجیح: بین الاقوامی وقار
پاکستان کواپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں دوستوں کا واضح تعین کرنا ہو گا۔ اس میدان میں قرآن مجید کی بہترین راہنمائی موجود ہے۔ ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد پھروہیں اعتبار کر لینا اپنے وقار کو خود ختم کرنا ہے۔ یہودونصاری پاکستان کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے ہیں۔ دنیا سے اسی زبان میں بات کرنی ہو گی جووہ سمجھتی ہے۔ لندن، نیویارک اور پیرس کے راستوں میں ذلت و رسوائی کے سواکچھ میسر نہیں ہوا۔ عزت کاراز صرف حرمین شریفین کی گرد میں ہی پنہاں ہے۔ امت مسلمہ سے تعلق جوڑنے اورملت اسلامیہ کے شجرسایہ دار کو تناور اور تنومند کرنے میں ہی پاکستان کا بین الاقوامی وقار ممکن ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر