اسلام کا معنی و مفہوم:
اسلام خود بھی امن وسلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن (Peace) ہے۔ گویا امن و سلامتی کا معنی لفظِ اسلام کے اندر ہی موجود ہے۔
اسلام کا لفظ س، ل، م یعنی سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِهٖ وَیَدِه
’’بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
- بخاري، الصحیح، کتاب الإیمان، باب من سلم المسلمون من لسانه ویده، 1: 13، رقم:10
- مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وايّ اُموره افضل، 1: 65، رقم:41
اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ اسلام بنا ہے۔ لغت کی رو سے لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے۔
اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یَّهْدِیْ بِهِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ
’’اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے‘‘۔
(المائدة، 5: 16)
اِسلام اَمن و سلامتی کا دین ہے
اسلام خود بھی امن وسلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کے دینِ امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی اسلام پسند کیا ہے۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ۔
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘۔
(آل عمران، 3: 19)
لفظِ اسلام سَلَمَ یا سَلِمَ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی امن و سلامتی اور خیر و عافیت کے ہیں۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن (Peace) ہے۔ گویا امن و سلامتی کا معنی لفظِ اسلام کے اندر ہی موجود ہے۔ لہٰذا اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔
دین اسلام کے تین درجات: اِسلام، اِیمان اور اِحسان
قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر دینِ اِسلام کے یہ تین درجات بیان ہوئے ہیں۔ دینِ اِسلام کے پہلے درجے ’اِسلام‘ کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘‘۔
(المائدة، 5: 3)
دینِ اِسلام کے دوسرے درجے اِیمان کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔
’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجیے تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا‘‘۔
(الحجرات، 49: 14)
دینِ اِسلام کے تیسرے درجے ’اِحسان‘ کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ احْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ اسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ
’’اور دین اِختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا‘‘۔
(النساء، 4: 125)
ایک مقام پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے دینِ اِسلام کے تینوں درجات بالترتیب اکٹھے بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے) پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے) ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اﷲ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘
(المائدة، 5: 93)
اِسلام، اِیمان اور اِحسان کے تینوں الفاظ اپنے معنی اور مفہوم کے اِعتبار سے سراسر اَمن و سلامتی، خیر و عافیت، تحمل و برداشت، محبت و اُلفت، اِحسان شعاری اور اِحترامِ آدمیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ دینِ اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و سلامتی، رافت و رحمت، اِعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔
مسلم اور مومن کی تعریف
-
مسلمان کی تعریف اور علامات:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ۔
’’(بہترین) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام لوگ محفوظ رہیں‘‘۔
- احمد بن حنبل، المسند، 2:379، رقم:8918
- نسائي، السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفة المؤمن، 8:104، رقم:4995
- ایضاً، السنن الکبری، 6: 530، رقم:11726
- ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2:1298، رقم:3934
اِمام احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، ايُّ الإِسْلَامِ افْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهٖ وَیَدِهٖ۔
’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کون سا اِسلام افضل ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں‘‘۔
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6753)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُهُ وَلَا یُسْلِمُهُ، مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِیْهِ کَانَ اﷲُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اﷲُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی (دنیوی) مشکل حل کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘۔
بخاری، الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا سلمہ، 2: 862، رقم: 2310
- مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحریم الظلم، 4: 1996، رقم: 2580
- ترمذی، السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء فی الستر علی المسلم، 4: 34، رقم: 1426
- ابو داود، السنن، کتاب الادب، باب المؤاخاة، 4: 273، رقم: 4893
ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهٖ وَیَدِه
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں‘‘۔
- بخاري، الصحیح، کتاب الإیمان، باب من سلم المسلمون من لسانه ویده، 1: 13، رقم:10
- مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وايّ اُمورہ افضل، 1: 65، رقم:41
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا:
ايُّ الإِسْلامِ خَیْر؟
’’کون سا اِسلام بہتر ہے؟‘‘
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَا السَّـلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ
’’(بہترین اسلام یہ ہے کہ) تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور (ہر ایک کو) سلام کرو، خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے‘‘۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب إطعام الطعام مِنَ الإسلام، 1: 13، رقم: 12)
-
مومن کی تعریف اور علامات:
امام احمد بن حنبل اور نسائی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الْمُؤْمِنُ مَنْ امِنَهُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔
’’مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال محفوظ سمجھیں‘‘۔
- احمد بن حنبل، المسند، 2: 379، رقم: 8918
- نسائي، السنن، کتاب الإیمان وشرائعه، باب صفة المؤمن، 8: 104، رقم: 4995
عَنْ جَابِرٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم: أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهٖ وَیَدِهٖ۔
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
- حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 54، رقم: 23
- ابن حبان، الصحیح، 1: 426، رقم: 197
اسی لیے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب مومن کی تعریف پوچھی گئی کہ مومن کون ہے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنِ ائْتَمَنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِم۔
’’مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے اَموال اور جانوں کا محافظ سمجھیں‘‘۔
- ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1298، رقم: 3934
- ابن منظور، لسان العرب، 13: 24
مسلمان کے مسلمان پر حقوق:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ۔ قِیْلَ: مَا هُنَّ، یَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: إِذَا لَقِیْتَهٗ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ، وَإِذَا دَعَاکَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَهٗ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اﷲَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔
’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں: عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! وہ کون سے حق ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو مسلمان کو ملے تو اسے سلام کر اور جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر، اور جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اسے اچھا مشورہ دے، اور جب وہ چھینکے اور الحمد ﷲ کہے تو تو بھی جواب میں (یرحمک اﷲ) کہہ، اور جب بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کر، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ شامل ہو‘‘۔
- مسلم، الصحیح، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4: 1705، رقم: 2162
- احمد بن حنبل، المسند، 2: 372، رقم: 8832
- ابن حبان فی الصحیح، 1: 477، رقم: 242
- دارمی، السنن، 2: 357، رقم: 2633
- بیھقی، السنن الکبری، 5: 347، رقم: 10691
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اُنْصُرْ اخَاکَ ظَالِمًا اوْ مَظْلُوْمًا۔ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، انْصُرُهٗ إِذَا کَانَ مَظْلُوْمًا۔ افَرَایْتَ إِنْ کَانَ ظَالِمًا، کَیْفَ انْصُرُهٗ؟ قَالَ: تَحْجُزُهٗ اوْ تَمْنَعُهٗ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذَالِکَ نَصْرُهٗ۔
’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اگر وہ مظلوم ہو تب تو میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے ظلم سے باز رکھو، یا فرمایا: اُسے (اس ظلم سے) روکو، کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے‘‘۔
- بخاری، الصحیح، کتاب الإکراہ، باب یَمِینِ الرَّجُلِ لِصاحِبِهِ، إِنَّهُ أَخُوهُ، إذا خاف علیهِ القتلَ أَوْ نَحْوَهُ، 6: 2550، رقم: 6552
- ایضًا، کتاب المظالم، باب اعِن اخاک ظالماً او مظلوما، 2: 863، رقم: 2311-2312
- مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلة والآداب، باب نصر الاخ ظالما او مظلوما، 4: 1998، رقم: 2584
مسلمانوں کے قتل کی ممانعت
اسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ اﷲ ل نے تکریم انسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا‘‘۔
(المائدة، 5: 32)
مسلمانوں کے جان و مال کا احترام:
سیاسی، فکری یا اعتقادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کی اکثریت (large majority) کو کافر، مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اَہمیت ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم یَطُوْفُ بِالْکَعْبَةِ، وَیَقُولُ: مَا أَطْیَبَکِ وَأَطْیَبَ رِیحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَیْرًا
’’میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے‘‘۔
- ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932
- طبراني، مسند الشامیین، 2: 396، رقم: 1568
- منذري، الترغیب والترھیب، 3: 201، رقم: 3679
مسلمانوں کے قتل اور فساد انگیزی کی ممانعت اور مسلمانوں کو اذیت دینے و قتل کرنے کی سزا:
-
فساد انگیزی اور دہشت گردی کی ممانعت:
گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے اُمتِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسلمان مجموعی طور پر دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اس کا دور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہاں بعض لوگ اس کی خاموش حمایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اِسی طرح دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل و غارت گری، دنیا بھر کی پُر امن انسانی آبادیوں پر خودکش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، ٹریڈ سنٹروں، دفاعی تربیتی مرکزوں، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر بم باری جیسے اِنسان دشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اقدامات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ لوگ آئے روز سینکڑوں ہزاروں جانوں کے بے دریغ قتل اور انسانی بربادی کے عمل کو جہاد سے منسوب کر دیتے ہیں اور یوں پورے اسلامی تصورِ جہاد کو خلط ملط کرتے رہتے ہیں۔ اس سے نوجوان نسل کے ذہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و ابہام کا شکار ہو رہے ہیں۔
مغربی دنیا میں میڈیا عالمِ اسلام کے حوالے سے صرف شدت پسندی اور دہشت گردی کے اقدامات و واقعات کو ہی highlight کرتا ہے اور اسلام کے مثبت پہلو، حقیقی پُرامن تعلیمات اور اِنسان دوست فلسفہ و طرزِ عمل کو قطعی طور پر اُجاگر نہیں کرتا۔ حتی کہ خود عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے خلاف پائی جانے والی نفرت، مذمت اور مخالفت کا سرے سے تذکرہ بھی نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں منفی طور پر اسلام اور انتہاء پسندی و دہشت گردی کو باہم بریکٹ کر دیا گیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسلام کا نام سنتے ہی مغربی ذہنوں میں دہشت گردی کی تصویر اُبھرنے لگتی ہے۔ اس سے نہ صرف مغرب میں پرورش پانے والی مسلم نوجوان نسل انتہائی پریشان، متذبذب اور اضطراب انگیز ہیجان کا شکار ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے نوجوان اعتقادی، فکری اور عملی لحاظ سے متزلزل اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
-
انسانی جان کا قتل مثلِ کفر ہے:
عقائد میں اہل سنت کے اِمام ابو منصور ماتریدی آیت مبارکہ - مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ - کے ذیل میں انسانی قتل کو کفر قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
من استحل قتل نفس حَرَّمَ اﷲ قتلہا بغیر حق، فکأنّما استحل قتل الناس جمیعًا، لأنه یکفر باستحلاله قتل نفس محرم قتلھا، فکان کاستحلال قتل الناس جمیعًا، لأن من کفر بآیة من کتاب اﷲ یصیر کافرًا بالکل۔ …
وتحتمل الآیة وجها آخر، وهو ما قیل: إنه یجب علیه من القتل مثل ما أنه لو قتل الناس جمیعًا۔
ووجه آخر: أنه یلزم الناس جمیعا دفع ذلک عن نفسه ومعونته له، فإذا قتلها أو سعی علیها بالفساد، فکأنما سعی بذلک علی الناس کافة۔ … وهذا یدل أن الآیة نزلت بالحکم في أهل الکفر وأهل الإسلام جمیعاً، إذا سعوا في الأرض بالفساد
جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے۔
یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔
ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ … اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لیے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لیے سرگرداں ہو۔
ابومنصور الماتُریدی، تأویلات اهل السنة، 3: 501
-
خون خرابہ تمام جرائم سے بڑا جرم ہے:
قتل و غارت گری، خون خرابہ، فتنہ و فساد اور نا حق خون بہانا اِتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اللہ گ ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔
-
مسلمانوں کو (بم دھماکوں یا دیگر طریقوں سے) جلانے والے جہنمی ہیں:
مسلمان کے قتل کو جائز سمجھنے اور انہیں جلانے والے نص قرآنی کے تحت نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں بلکہ عذابِ حریق کے مستحق بھی ٹھہرتے ہیں۔ سورۃ البروج کی آیت نمبر دس
اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِo
’ ’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo‘‘
کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا ہے۔ اس معنی کی رُو سے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے عامۃ الناس کو خاکستر کر دینے والے فتنہ پرور لوگ عذابِ جہنم کے مستحق ہیں۔
خود کشی فعل حرام ہے:
انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اﷲ گ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی (suicide) کو حرام قرار دیا ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے عمل کو دوزخ میں بھی جاری رکھنے کا اشارہ فرمایا ہے۔ دراصل اس فعلِ حرام کی انتہائی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی بہت سے ناجائز اُمور کی سزا تو جہنم ہوگی مگر خودکشی کے مرتکب کو بار بار اس تکلیف کے عمل سے گزارا جائے گا۔ گویا یہ دُہرا عذاب ہے جو ہر خودکُش کا مقدر ہوگا۔ (العیاذ باﷲ۔ )
خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے:
کم سن نوجوانوں کی ذہن سازی (brain washing) کرکے اور انہیں شہادت اور جنت کے سبز باغ دکھا کر خود کش حملوں کے لیے تیار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے خود کشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ اﷲ گ نے ایسا کرنے والوں کے لیے حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃ فرما کر جنت حرام فرما دی ہے۔
اسلام اپنی تعلیمات اور اَفکار و نظریات (teachings and idealogy) کے لحاظ سے کلیتاً اَمن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و اَمان کا دین ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لیے پیکرِ امن و سلامتی اور باعثِ خیر و عافیت ہو بلکہ وہ اَمن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترامِ آدمیت جیسے اوصاف سے متصف بھی ہو۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے برعکس اِقامت و تنفیذِ دین اور اِعلاء کلمہ حق کے نام پر انتہا پسندی، نفرت و تعصب، افتراق و انتشار، جبر و تشدد اور ظلم و عُدوان کا راستہ اختیار کرنے والے اور شہریوں کا خون بہانے والے لوگ چاہے ظاہراً اسلام کے کتنے ہی علم بردار کیوں نہ بنتے پھریں، ان کا دعویٰ اسلام ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق:
اسلام شرفِ اِنسانیت کا علم بردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسنِ سلوک کی تعلیم دینے والے دین میںکوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقاتِ معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی اساس معاملاتِ دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی ہے:
لَآ اِکْرَاه فِی الدِّیْنِ
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔
(البقرة، 2: 256)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٍo
’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے‘‘
(الکافرون، 109:6)
اسلامی معاشرے میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے ہوتا ہے:
أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِیْجُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا‘‘۔
- ابو داود، السنن، کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشیر أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3: 170، رقم: 3052
- بیهقي، السنن الکبری، 9: 205، رقم: 18511
- منذري، الترغیب والترهیب، 4: 7، رقم: 4558
- عجلوني’کشف الخفاء، 2: 342
غیر مسلموں کے قتل عام اور ایذا رسانی کی ممانعت:
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔
اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا‘‘۔
المائدة، 5: 32
غیر مسلموں کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ مسلم ریاست کی اہم ترین ذِمہ داری:
اِسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کا دفاع اِسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلامی حکومت ان کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرے گی۔ اگر اسلامی ریاست کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ ہو تو اس قوم کے تحفظ و سلامتی کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پر ہوگی:
وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ
’’اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام/باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے‘‘۔
(النساء، 4: 92)
غیر مسلم شہریوں کی جان کی حرمت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے:
دِیَةُ الْیَهُوْدِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ وَکُلِّ ذِمِّیٍّ مِثْلُ دِیَةِ الْمُسْلِمِ۔
’’یہودی، عیسائی اور ہر غیر مسلم شہری کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے‘‘۔
- عبد الرزاق، المصنف، 10: 97۔ 98
- ابن رشد، بدایة المجتھد، 2: 310
غیر مسلموں کے لیے مذہب اور عقائد کی آزادی کا حق:
اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دبائو نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیںہیں۔ اسلام کے پیغامِ حق کے ابلاغ کا حکم قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ۔
’’(اے رسولِ معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو‘‘۔
(النحل، 16: 125)
اسلام نے ایسے طریقِ دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔
(البقرة، 2: 256)
غیر مسلم شہریوں کے لیے معاشی آزادی کا حق:
غیر مسلم شہریوں پر اسلامی حکومت میں کسبِ معاش کے سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، وہ ہر کاروبار کر سکتا ہے جو مسلمان کرتے ہوں۔ سوائے اس کاروبار کے جو ریاست کے لیے اجتماعی طور پر نقصان کا سبب ہو۔ ایسا کاروبار جس طرح مسلمانوں کے لیے ممنوع ہوگا، اُسی طرح ان کے لیے بھی ممنوع ہو گا۔
اِجتماعی کفالت میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق:
جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔
’کتاب الاموال‘ میں ابو عبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے:
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی ) وہ انہیں دیا جاتا رہا۔
(ابو عبید، کتاب الأموال:727-728، رقم:1994)
روزگار کی آزادی کا حق:
اسلام میں ہر جائز ذریعہ روزگار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)‘‘o
(النجم، 53: 39)
حدیث مبارکہ میں ہے کہ کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں کھا سکتا۔ اللہ کے نبی دائود e اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔
تمدنی اور معاشرتی آزادی کے تحفظ کا حق:
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہری اپنی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق رہ سکیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے شخصی معاملات یعنی نکاح طلاق بایں حد کہ نکاح محرمات بھی اگر ان کے تہذیبی شعائر میں رائج ہو تو اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ خلفائے راشدین نے اہلِ ذمہ کو نکاحِ محرمات کی کیوں اجازت دے دی تھی اور شاید آپ اس پر پابندی لگانا چاہتے تھے کیونکہ یہ فعل نوعیت کے اعتبار سے اس قدر شنیع ہے کہ فطرتِ سلیمہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتی۔ جواب میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا:
انہوں نے جزیہ اس لیے دیا ہے کہ انہیں ان کے اعتقادات پر چھوڑ دیا جائے اور آپ تو خلفائے راشدین کی پیروی کرنے والے ہیں نہ کہ نئی راہ بنانے والے۔
(سرخسی، المبسوط، 5: 39)
شخصی رازداری کا حق:
مملکتِ اِسلامیہ میں ہر فرد کو نجی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملات کا مرکز اور اس کے بال بچوں کا مستقر ہوتا ہے۔ اس کے حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے اور یہ کسی طرح جائز نہیں۔ گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریح ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌo
’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور انکے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کروo پھر اگر تم ان (گھروں)میں کسی شخص کو موجود نہ پائو تو تم ان کے اندر مت جایا کرو یہاں تک کہ تمہیں (اس بات کی) اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو تم واپس پلٹ جایا کرو، یہ تمہارے حق میں بڑی پاکیزہ بات ہے، اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے‘‘o
(النور، 24: 27-28)
(جاری ہے)