شادی کے موقع پر خاوند یا بیوی کی طرف سے سامان جہیز دیا جانا ضروری نہیں اور نہ یہ نکاح اور شادی کا لازمہ ہے ورنہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت تابعی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے۔ بیوی کی جملہ جائز ضروریات اور اخراجات کا شرعاً ذمہ دار خاوند ہے، ہدایہ میں ہے۔
النفقة واجبة للزوجة علی زوجها مسلمة کانت اوکافرة اذا سلمت نفسها الی منزله فعليه وکسوتها وسکناها والاصل في ذلک قوله تعالی لينفق ذوسعة من سعته.
’’بیوی مسلمان ہو یا کتابیہ اس کا ہر قسم کا خرچہ خاوند پر واجب ہے جبکہ وہ (بیوی) اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کردے اور اس کے گھر میں منتقل ہوجائے اس خرچہ میں اس کی خوراک، لباس اور رہائش کے لئے مکان داخل ہے اور اس حکم میں بنیاد باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے‘‘
(مرغناني، برهان الدين، هدايه، ص415، دارالمعرفة، بيروت، لبنان)
بیوی ہوتے ہوئے اس کو سکنیٰ (رہائش کے لئے مکان) کا دینا واجب ہے۔ بعد از طلاق بھی عدت کے دوران بیوی کے لئے سکنیٰ مہیا کرنا لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَسْکِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ
’’تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو ‘‘
(الطلاق، 65: 6)
ظاہر ہے جب رہنے کا مکان خاوند کے ذمہ ہے تو ایک مکان میں رہنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوسکتی ہے اور اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور سونے کے لئے جن اشیاء کا استعمال میں لانا ضروری ہے اور جن کو ہماری اصطلاح میں جہیز کہا جاتا ہے وہ بھی خاوند ہی کے ذمہ واجب ہوں گی۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن پاک، صحاح ستہ اور معروف کتب احادیث اور چاروں فقہاء کی امہات الکتب میں باب الجہیزکے عنوان سے کوئی باب نہیں اگر کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگر احکام تفصیلاً بیان ہوئے وہاں جہیز کا بیان نہ ہوتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اسلام کا دائرہ کار وسیع ہوجانے سے اور مسلمانوں کے مختلف ممالک میں پھیل جانے اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے بعض رسومات ان میں دانستہ یا نادانستہ پیدا ہوگئی تھیں۔ جن میں سے ایک جہیز ہے۔ اس کے مسلمانوں میں آجانے کی وجہ سے بعض متاخرین فقہاء کے فتاویٰ میں جہیز کے سلسلے میں چند جزوی احکامات ملتے ہیں۔
الاحوال الشخصیہ میں مشہور فقیہ محمد ابوزہرہ متاع البیت کے عنوان سے فقہاء حنفیہ کی رائے بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں:
رای الحنفية وهو ان اعداد البيت علی المزوج کان النفقة بکل انواعها من مطعم او ملبس ومسکن عليه واعبداد البيت من المسکن فکان بمقتضی هذا الاعداد علی الزوج اذا النفقة بکل انواعها تجب عليه والمهر ليس عوض الجهاز لانه عطا ونخلة کما سماه القرآن فهو ملک خالص لها وهو حقها علی الزوج بمقتضی احکام الزواج وليس ثمه من مصادر الشريعة مايجعل المتاع حقا علی المبرئة ولا يثبت حق من حقوق الزواج من غير دليل.
’’حنفی فقہاء کی رائے یہ ہے کہ گھر (اور گھریلو سامان) کی تیاری خاوند کے ذمہ ہے کیونکہ ہر قسم کا خرچہ مثلاً کھانا، لباس اور رہائش کی جگہ دینا اس پر واجب ہے۔ اور گھریلو سازو سامان (جسے عرف عام میں جہیز کہا جاتا ہے) رہائش کے مکان میں داخل ہے۔ پس اس اعتبار سے گھریلو سازو سامان کی تیاری خاوند پر واجب ہوئی۔ حق مہر جہیز کا عوض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف عطیہ ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کا نام نحلۃ (عطیہ) رکھا۔ وہ خالصتاً بیوی کی ملکیت ہے اور خاوند پر اس کا حق ہے۔ مصادر شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس کی بنیاد پر گھریلو سازو سامان کی تیاری عورت کا حق قرار دیا جاسکے اور بغیر دلیل کے کبھی کوئی حق ثابت نہیں ہوتا‘‘۔
(ابوزهره، محمد، محي الدين، الاحوال الشخصيه، السعادة القاهره، 1985ء، 977)
مالکی فقہاء کے نزدیک اگرچہ جہیز کے سامان کی تیاری عورت کے ذمہ ہے تاہم اس میں بھی یہ وضاحت ہے کہ یہ سازو سامان پیشگی رقم مہر سے بنائے گی نہ کہ اپنے ذاتی مال یا والدین کے مال سے۔ اگر خاوند کی طرف سے پیشگی کوئی رقم اس کے پاس نہ بھیجی جائے تو اس پر سامان جہیز لازم نہیں ہے۔
السید سابق لکھتے ہیں۔ جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’یہ ایک عام رواج یا عادت ہے کہ بیوی اور اس کے گھر والے جہیز اور گھر کا سازو سامان تیار کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ عورت کے نئے گھر میں جانے کی مناسبت سے عورت کو خوش کرنے کا ایک طریقہ ہے‘‘۔
جس طرح دیگر کئی ایک رسوم کو جن میں کوئی شرعی قباحت یا ممانعت نہ تھی قبول کرلیا گیا، اسی طرح اس رواج (جہیز) کو بھی اپنالیا گیا ورنہ یہ کوئی شرعی حکم یا نکاح کا کوئی لازمی جزو نہیں ہے۔
جہیز دینا درجہ مباح میں ہے
یہ بات واضح ہوچکی کہ شادی پر لڑکی کے والدین کا جہیز دینا کوئی شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی یہ لازمہ نکاح ہے اور نہ ہی سنت ہے۔ جہیز کا سامان مہیا کرنے کا ذمہ دار خاوند ہے۔ گھریلو سازو سامان تو الگ رہا نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے خوشبو بھی مہر کی رقم سے منگوائی۔ یہ سب کچھ تعلیم امت کے لئے تھا ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہتے تو احد پہاڑ کو سونا بناکر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں دے دیتے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں کئی ایسی رسومات پائی جاتی ہیں جن کا شریعت اسلامی میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا یعنی شریعت اسلامی میں نہ تو ان کا درس ملتا ہے اور نہ ہی اس کی ممانعت ملتی ہے ایسے امور کو فقہ اسلامی کی روشنی میں مباح کہتے ہیں ان میں سے ایک جہیز بھی ہے۔ جو ہمارے معاشرے میں آگیا ہے اور جڑ پکڑ چکا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
مروجہ جہیز یعنی شادی کے موقع پر والدین کا اپنی گرہ سے سامان جہیز خرید کر لڑکی کے ساتھ بھیجنے کو عموماً سنت نبوی تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ اس مغالطہ کا باعث وہ روایت ہے جسے محدثین قریباً ایک جیسے الفاظ کے ساتھ لائے ہیں۔ سنن نسائی کے الفاظ پیچھے ذکر کئے جاچکے ہیں۔ جس میں لفظ جہز آیا ہے۔ اس لفظ سے مروجہ جہیز کو سنت نبوی سمجھنا غلط ہے۔
اور سنن ابن ماجہ میں ہے:
ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم اتی عليها وفاطمة وهما في خميل لهما والخميل القطيفة البيضاء من الصوف قد کان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم جهزهما بها.
’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے وہ دونوں اس وقت اون کی سفید چادر میں تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا ن دونوں کو اسی چادر کے ساتھ تیار کیا تھا‘‘۔
(ابن ماجه، محمد بن يزيد، سنن ابن ماجه، 317، دارالسلام للنشر والتوزيع، الرياض، المملکة العربية، السعوديه، 1420ه)
اب اگر جھز کا معنی جہیز لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے بیٹی کے علاوہ اپنے داماد کو بھی جہیز دیا۔ جو عقلاً اور نقلاً غلط ہے۔ ایک اور روایت میں ہے:
عن عائشة وام سلمة قالتا امرنا رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ان نجهز فاطمة حتی ندخلها علی علی (رضی الله عنه) عمدنا الی البيت نفرشناه ترابا لينا من اعراض البطحاء الخ.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم فاطمہ(رضی اللہ عنہا) کو تیار کرکے علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس داخل کردیں چنانچہ ہم اس تیاری کے ضمن میں گھر کی طرف متوجہ ہوئیں اسے سرزمین بطحا کی نرم مٹی سے پلستر کیا۔۔‘‘
(المغربي، محمد الفاسي، مجمع الزوائد، 1: 138، دارالکتاب، لبنان)
اس روایت میں بھی جھز کا معنی جہیز دینا کسی قیمت پر نہیں لیا جاسکتا۔ اسی طرح دیگر کچھ احادیث میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر اس سے جہیز دینا کے معنی نہیں نکلتے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامان کوجہیز سمجھنا اس لئے بھی درست نہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر صاحبزادیوں کو اتنا سامان بھی نہیں دیا گیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمین اور عادل و منصف ذات سے یہ بعید ہے کہ آپ اپنی اولاد میں کسی قسم کا ترجیحی سلوک روا رکھیں۔ جہاں تک ظاہری معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی لڑکی یا لڑکے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینا خلاف شرع ہے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
ساووا بين اولادکم فی العطية کنت مفضلا احد الفظت النساء.
’’تم عطیہ دینے میں اولاد کے درمیان برابری کرو۔ اگر کسی کی تفضیل یا ترجیح جائز ہوتی تو میں عورتوں کو ترجیح دیتا‘‘
(نسائی، احمد بن شعيب، امام، سنن نسائی، رقم الحديث3382، دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان، 1991)
اس سے بھی واضح ایک روایت یوں ہے:
’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میرے والد (بشیر) نے مجھے بطور ہبہ کوئی چیز عطا کی۔ میری والدہ نے ان سے کہا کہ اس ہبہ پر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنائو۔ چنانچہ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لڑکے کی ماں نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اسے بطور ہبہ کچھ دوں۔ چنانچہ میں نے اس کے نام ہبہ کردیا۔ اب کہتی ہے کہ میںاس ہبہ پر آپ کوگواہ بنائوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے تمام اولاد کو اسی طرح ہبہ کیا ہے جس طرح اس لڑکے کو کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تب مجھے اس پر گواہ نہ بنائو کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ تمام اولاد کا تجھ پر حق ہے کہ تو ان میں برابری کرے‘‘
(ابن کثير، عمادالدين، امام، کنزالعمال، 22، دارالمعرفة، بيروت، 774)
معلوم ہواکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز (اگر اس سامان کو جہیز کا نام بھی دیا جائے) حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی عطیہ نہ تھا ورنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی صاحبزادیوں کو بھی ضرور عنایت فرماتے۔
جہیز کی فرمائش، ایک ناجائز مطالبہ
یہ امر ثابت ہوچکا کہ سامان جہیز خاوند کی ذمہ داری ہے اور جملہ ضروری گھریلو اشیاء کے مہیا کرنے کا پابند ہے۔ لہذا خاوند یا اس کے گھر والوں کو قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ بیوی یا اس کے والدین سے جہیز کا مطالبہ کریں یا انہیں مجبور کریں۔ امام ابن حزم بیان کرتے ہیں:
عورت کو اس بات پر مجبور کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے پاس سامان جہیز لائے۔ نہ ہی اس مہر کی رقم سے جو خاوند نے اسے دی ہے۔ اس کا اپنا مال مہر جو سارے کا سارا اس کی ملکیت ہے اس میں وہ جو چاہے کرے خاوند کو اس میں کسی قسم کا دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
(ابن حزم، علی بن احمد، المحلی، دارالآفاق الجديده، بيروت، لبنان، 404)
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے۔
’’اگر کوئی آدمی ایک ہزار روپے مہر پر کسی عورت سے نکاح کرے اور عادت یہ ہو کہ اتنا مہر ایک بڑے جہیز کے مقابلے میں ہوتا ہو مگر وہ عورت ایسا نہ کرے (جہیز نہ لائے) تو خاوند کو اس بات کا حق نہیں کہ اس سے جہیز لانے کا مطالبہ کرے۔ اگر بیوی جہیز بھی لائے تو اس کی مالک بیوی ہی ہوگی خاوند کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ آدمی پر واجب ہے کہ وہ عورت کے لئے ایسی رہائش کی جگہ تیار کرے جو ضروریات زندگی پر مشتمل ہو۔
(الجزيری، عبدالرحمن، ترجمه: منظور احسن عباسي، کتاب الفقه علی مذاهب الاربعه، علماء اکادمي، شعبه مطبوعات محکمه اوقاف پنجاب، 2006ء، ج4، ص217)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’صحیح یہ ہے کہ خاوند بیوی کے باپ سے کسی شے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ مال نکاح میں مقصود نہیں۔
(مواهب الرحمن، ترجمه: مولانا سيد امير علی، فتاویٰ عالمگيری، مکتبه رحمانيه، اردو بازار، لاهور، س،ن، ج2، ص223)
پس جو لوگ اپنی عیاشیوں کے لئے ناجائز طریقوں سے لڑکی کے والدین کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل ڈاکو ہیں جو ایک جونک کی طرح لڑکی کے والدین کا خون چوستے ہیں۔ اگر ان کی فرمائش کو پورا نہ کیا جائے تو ساس و نند کا لڑکی کو کہنا کہ تمہارے ماں باپ نے تو کچھ نہیں دیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
کیا آخرت میں اس پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی؟ کیا ساس جو ماں کے درجہ میں ہوتی ہے اس کے لئے بیٹی سے بھیک مانگنا کہ میرے لئے یہ دو۔۔۔ میری فلاں بیٹی کو یہ دو۔۔ دیور کے لئے یہ دو۔۔میری بیٹی کے سسرال والوں کے لئے یہ دو۔۔ کیا یہ ماں ہونے کے ناطے مناسب ہے۔ اس طرح سے مانگنا تو لفظ ماں کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ اور ایسے لوگ دراصل وہ ہیں جن کے دلوں سے خوف خدا مکمل طو رپر رخصت ہوگیا ہے اور اس لوٹ کھسوٹ میں وہ لوگ بھی کچھ پیچھے نہیں ہیں جو مسجدوں میں تو اگلی صف میں دکھائی دیتے ہیں مگر فرمائشی جہیز کو گناہ نہیں سمجھتے۔ حالانکہ فرمائشی جہیز بھیک مانگنے کی سب سے بری اور ناجائز قسم ہے۔
اسلامی شریعت میں بھیک مانگنا صرف اس وقت جائز ہوسکتا ہے۔ جب کوئی شخص ایک وقت کے کھانا کھانے تک کا محتاج ہو۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من سائل مسالة عن ظهر غنی استکثربها من رضف جهنم قالوا يارسول الله وما ظهر الغنی؟ قال عشاء ليلة.
’’جس شخص نے قدر حاجت موجود ہونے کے باوجود کوئی سوال کیا تو گویا کہ اس نے جہنم کے گرم پتھروں کو جمع کرنے میں زیادتی کی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ قدر حاجت سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نان شبینہ‘‘
(دار قطنی، علی بن عمر، سنن دار قطنی، مطبوعه مصر، 2، 121)
اس جیسی حدیثیں اور بھی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ شریعت اسلامی میں مانگنے کی مذمت اور برائی بیان کی گئی ہے۔ پس جہیز کا مطالبہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
جہیز کی تباہ کاریاں
جب معاشرے میں کوئی رسم پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر وہی رسم تباہ کاری کا باعث ہوجائے تو اس کا فائدہ بھی ناپید ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی رسوم میں سے ایک رسم جہیز ہے۔ جہیز دینا جو کہ ایک مباح عمل ہے معاشرے میں ضروری سمجھا جانے لگا ہے اور ایک قبیح رسم کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ جہیز مانگنے والوں اور دینے والوں کی بدولت اس رسم نے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں جس نے ایک پریشان کن معاشرتی مسئلہ اور اقتصادی برائی کی صورت اختیار کرلی ہے۔
جہیز کی تباہ کاریوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
نمودو نمائش اور تفاخر
امراء رسم جہیز کو اپنے جاہ و منصب کی شناخت سمجھتے ہیں اور بے پناہ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور اس رسم کو شہرت و ناموری، دولت کی ریاکاری اور پابندی رسم کی نیت سے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی دھوم دھام اور تکلف سے اس کی نمائش کی جاتی ہے حالانکہ اسلام نے نمودو نمائش سے منع کیا ہے اور اس وجہ سے غریب مائیں اور بیٹیاں احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔
اسی نمائش کے جذبے سے لوگوں میں تفاخر پیدا ہوتا ہے۔ والدین فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو فلاں فلاں چیز دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے منع کیا ہے۔
وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ يَّکُنِ الشَّيْطٰنُ لَهُ قَرِيْنًا فَسَآءَ قَرِيْنًا.
’’اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخرت پر، اور شیطان جس کا بھی ساتھی ہوگیا تو وہ برا ساتھی ہے‘‘
(النساء: 38)
اسراف و تبذیر
جہیز کی برائیوں میں سے ایک برائی اسراف وتبذیر بھی ہے۔ لوگ دیکھا دیکھی اسراف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مثلاً بھاری کپڑے، زیورات اور ضرورت سے زائد اشیاء وغیرہ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسراف سے منع کیا فرمایا ہے:
اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰـطِيْنِ ط وَکَانَ الشَّيْطٰـنُ لِرَبِّهِ کَفُوْرًا.
’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘
(الاسراء: 27)
اور اعتدال کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خيرالامور اوسطها.
’’کاموں کی اچھائی ان کا اعتدال ہے‘‘