ازمنہ وسطیٰ میں صوفیائے کرام ترک دنیا اور رہبانیت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اجتماعی زندگی پر زور دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ترک دنیا سے خدمت خلق کا موقع نہیں ملتا اور کچھ نفس میں برتری بھی آجاتی ہے۔ اجتماعی زندگی اسلام اور بانی اسلام کے احکام کے عین مطابق تھی۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے جماعت خانے اور خانقاہوں کی بنیاد ڈالی۔ جہاں نہ صرف وہ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ باقاعدہ عبادت اور ریاضت کی زندگی گزارتے تھے بلکہ وہاں مختلف مزاج اور مختلف رجحانات کے اشخاص ایک ساتھ مل جل کر رہنا سیکھتے تھے اور انہیں تلقین اور عمل سے روحانی اور اخلاقی درس دیا جاتا تھا۔ بزرگان دین اپنے اوقات کا کچھ حصہ اسی کام کیلئے مخصوص رکھتے تھے۔ جس میں ان کے حلقہ بگوش مجلس کی شکل میں جمع ہوجاتے تھے اور بہت سے علمی،مذہبی اور تصوف کے مسائل کو اپنے مرشد کے سامنے پیش کرکے ان کے ارشادات سے اپنے علم و دانش میں اضافہ کرتے تھے۔
ملفوظات کیاہیں؟
ملفوظ اسم مفعول ہے اور اس کی جمع ملفوظات ہے اور اس کے لفظی معنی الفاظ یا ارشادات یا منہ سے نکلی ہوئی باتیں ہیں۔ اصطلاح میں ملفوظات سے مراد بزرگان دین یا روحانی رہنمائوں کی مجلس میں کی جانے والی وہ باتیں یا ارشادات ہیں جن کو کوئی مرید قلمبند کرکے ملفوظات کی شکل میں عوام الناس کے استفادہ کے لیے پیش کرتا اور اسے باعث سعادت مندی سمجھا جاتا تھا۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ شیخ مشرف الدین رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت احمد یحیی منیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اسی زمرے میں آتے ہیں۔
صوفیاء کرام کی روحانی و تربیتی مجالس میں انسانیت کے ہر طبقہ ( خواہ مرد ہو یاعورت ،بچہ ہو یابوڑھا)کی روحانی واخلاقی اصلاح کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اسی حوالے سے طبقہ نسواں سے متعلق صوفیانہ ملفوظاتی ادب کے اہم گوشوں کو درج ذیل صورت میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
-
علم کی فرضیت
کشف المحجوب میں حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی فرضیت اور اسکی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کو بیان فرمایا ہے جس میں اللہ رب العزت نے علمائے ربانی کی شان میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں، یقیناً اللہ غالب ہے، بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔
ٍ اسی طرح حضرت داتا گنج بخش الہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے مرد وزن کے لئے علم کی فرضیت کوحدیث پاک کی روشنی میں بیان فرمایا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
طلب العلم فريضة علی کل مسلم ومسلمة.
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے ‘‘۔
حضرت داتا صاحب نے اس حدیث پاک کی روشنی میں واضح فرمایا ہے کہ علم حاصل کرنا صرف مردوں پر ہی فرض نہیں بلکہ عورتوں پر بھی فرض ہے۔ اس لئے عورتوں کو بھی علم کے حصول میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
فرماتے ہیں:اے طالب حق ! تمہیں علم ہونا چاہیے کہ علم کی کوئی حدوغایت نہیں ہے اور ہماری زندگانی محدود و مختصر ہے۔ بنا بریں ہر شخص پر تمام علوم کا حصول فرض قرار نہیں دیا گیا۔ جیسے علم نجوم،علم حساب اور نادروعجیب صنائع وغیرہ لیکن ان میں سے اس قدر سیکھنا جتنا شریعت سے متعلق ہے ضروری ہے۔
-
روزے کے احکامات
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں روزے کے احکام کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ ان احکام میں طبقہ نسواں کی ہدایت کے لئے چند احکام درج ذیل ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اگر عورت نے حالت حیض میں روزہ کی نیت کی اور فجر سے پہلے پاک ہو گئی تو اسکا روزہ درست ہوگا‘‘۔
اسی طرح افطار صوم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ افطار صوم کے لئے چار باتیں لازم ہیں:
- قضا
- کفارہ
- فدیہ دینا
- باقی دن نہ کھانا پینا (روزہ داروں کے طرح رہنا)
ان میں ہر ایک جدا جدا شخصوں کے لئے ہے۔
- قضا: ہر مسلمان عاقل بالغ پر واجب ہے جو روزہ عذر کے باعث یابلا عذر نہ رکھے۔ اس سے ثابت ہوا حائضہ عورت روزہ کی قضاکرے لیکن مجنون پر قضانہیں اور رمضان کے روزوں کی قضا مسلسل رکھنا بھی شرط نہیں۔ جسطرح چاہے اکٹھے خواہ جدا جدا قضا کرے۔
- جان بوجھ کر کھانے، پینے اور جماع کرنے سے کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔ کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
- فدیہ دینا:حاملہ اور دودھ پلانے والی پر فدیہ واجب ہے۔ جبکہ یہ دونوں اپنی اولاد کے خوف سے افطار کر لیں۔ ہر روزہ کے عوض ایک مد گیہوں ایک مسکین کو دیں اور روزہ قضا کریں اور نہایت بوڑھا کمزور جب روزہ نہ رکھے تو ہر دن کے عوض ایک مدگیہوں دے۔ ایک مد سو روپیہ کے سیر سے تین پائو ہوتا ہے۔
- باقی دن نہ کھانا پینا(امساک کرنا)،روزہ داروں کی طرح رہنا:امساک بقیہ دن میں ان لوگوں پر واجب ہے جنہوں نے افطار کرنے سے معصیت کی ہو یا افطار میں قصور ان کی طرف سے ہو اور حائضہ اگر کچھ دن رہے پاک ہوئی ہو یا مسافر سفر سے افطار کی حالت میں دن سے آیا ہو تو ان دونوں پر بقیہ دن کا امساک واجب نہیں اور شک کے روز ایک عادل شخص چاند کی گواہی دے تو امساک واجب ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ حائضہ عورت پر قضا ،حاملہ اور دودھ پلانے والی پر فدیہ واجب ہے اور حائضہ اگر کچھ دن رہے پاک ہوئی ہو تو اس دن کا امساک واجب نہیں۔
-
امر بالمعروف ونہی عن المنکر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم مردوں کی طرح عورتوں پر بھی یکساں ثابت ہوتا ہے چنانچہ صوفیاء کرام نے بھی طبقہ نسواں کے لئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا ہے۔ اچھی بات کا حکم کرنا اوربری بات سے منع کرنا دین کا بڑا ستون ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اگر اسے بالکل ترک کر دیا جائے اور اس کے علم اور عمل کو بیکار چھوڑا جائے تو غرض نبوت بیکار اور دیانت مضمحل اورسستی عام اور گمراہی تام اور جہالت شائع اورفساد زائد اور فتنہ بپا ہو جائے گا۔
امام غزالی نے احیاء العلوم میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب ،فضیلت اور اسکی نافرمانی کرنے والوں کے بارے میں وعید، قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں بیان فرمائی ہے۔ امام صاحب نے قرآن وحدیث کی رو سے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پوری امت مسلمہ پرفرض ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم بہترین اْمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو‘‘۔
اسی طرح ایک مقام پر اللہ رب العزت نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو مخاطب فرما کر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاحکم دینے ،نماز قائم کرنے ،زکوۃ اداکرنے ،اللہ اور اسکے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بجا لانے کی صفت سے موصوف فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ عورتوں کو چاہیے کہ یہ مت سمجھیں کہ یہ کام صرف مردوں کا ہے بلکہ مردوں کے ساتھ مل کر نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں تاکہ وہ بھی اللہ رب العزت کے اس حکم پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی رحمت کا سایہ حاصل کر سکیں۔
-
خواتین کی بیعت
حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اور میری بیوی کو بیعت فرما دیں۔ آپ نے اس آدمی سے فرمایا کہ عورت کو بلاؤ۔ جب وہ عورت آپ کے سامنے بیٹھ گئی تو آپ نے رومال کا ایک سرا خود پکڑا اور دوسرا اس عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس کے بعد آپ مراقب ہو کر بیٹھ گئے اور زیر لب آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہے کچھ دیر کے بعد سر اٹھا کر آپ نے اس سے توبہ کرائی اور نماز کی تاکید کی۔ اس کے بعد اس کے شوہر کو بلا کر اپنے سامنے بیٹھایا اور اس کے دو ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں دے کر بیعت فرمایا اور توبہ کرائی اور نماز کی تاکید کی اور وظیفہ تلقین فرمایا۔
اس سے ثابت ہوا کہ عورتوں اور مردوں کی بیعت کا طریقہ مختلف ہے یعنی عورتیں مردوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیں گی بلکہ رومال یا کسی کپڑے وغیرہ کے ذریعے بیعت کریں گی۔
-
حائضہ کے لیے احکامات
امام غزالی فرماتے ہیں:
- شوہر دوران حیض عورت کے ہر عضو سے فائدہ اٹھا سکتا ہے سوائے جماع کے،اسلئے عورت کو چاہیے کہ دوران حیض گھٹنوں سے ناف تک ایک مضبوط کپڑا باندھے رکھے۔ یہ مستحب ہے۔
- اگر عورت کو حیض مغرب سے پہلے یوں بند ہوا ہے کہ وہ ایک رکعت پڑھ سکتی تھی تو اس پر ظہر و عصر کی نماز قضاء واجب ہے ایسے ہی جسکا حیض صبح کی نماز کی ایک رکعت کی مقدار میں بند ہوا اس پر مغرب و عشاء کی نماز میں قضاء لازم ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی طرف عورتیں بہت کم توجہ دیتی ہیں۔
-
پردہ کے احکام
حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ نے عورتوں کی رہنمائی کے لئے احکام پردہ کو احادیث کی روشنی میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
حدیث مبارک ہے: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھیں تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو نابینا تھے آئے۔ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پردہ کر لو۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں۔ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم تو نا بینا نہیں ہو۔
اس حدیث کی روشنی میں حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عورتوں کو چاہیے کہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کریں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نابینوں کے پاس بیٹھنا اور بلا ضرورت ان کو دیکھنا جائز نہیں جیسا آج کل مروج ہے۔ ہاں ضرورت کے وقت عورت کو غیر محرم مرد سے بات کرنا یا دیکھنا جائز ہے۔
ایک اورحدیث میں آیاہے کہ ایک دن آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھرتشریف رکھتے تھے وہاں ایک مخنث بیٹھا تھا اس نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے بھائی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کوئی بیہودہ بات کہی۔ اس پر آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ مخنثوں سے بھی پردہ کرنا چاہیے۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو نابینا مردوں اور مخنثوں سے بھی پر دہ کرنا چاہیے۔
-
بچوں کی ریاضت وتربیت اور حسن اخلاق
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بچوں کی تربیت نہایت ضروری ہے اور بچہ ماں باپ کے پاس ایک امانت ہے اور اسکا قلب جو ایک جو ہر نفیس کی طرح ہے جو ہر ایک نقش سے خالی ہوتا ہے اور جس طرف مائل کرو اسی طرف میلان کے قابل ہوتا ہے اسی طرح اولاد کا حال ہے کہ اولاد کی اگر تعلیم و تربیت کرکے جن چیزوں کا ان کو عادی بنایا جائے گا تو بڑے ہوکر وہ ایسا ہی کریں گے۔ اگر ان کو بچپن سے ہی ادب سکھایا جائے گا تو وہ دونوں جہان کی سعادت حاصل کریں گے اور اس ثواب میں ان کے ماں باپ اور اساتذہ(ادب سکھلانے والے) شریک ہوں گے اور اگر وہ برائی کے عادی ہوں گے اور جانوروں کی طرح ان کو آزاد چھوڑا جائے گا تو وہ تباہ ہو جائیں گے اورپھر اس کا وبال اس کے مربی پر ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
امام صاحب فرماتے ہیں کہ جب دنیا کی آگ سے اپنی اولاد کو بچاتے ہیں تو آخرت کی آگ سے بچانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بچے کی حفاظت نار آخرت سے اس طرح ممکن ہے کہ اسے ادب،تہذیب اور محاسن خلاق سکھائے جائیں، اسکو آداب طعام سکھائے جائیں اور صحبت بد سے بچایا جائے۔ زینت، بناؤ سنگھار، لذت اورآرام طلبی اسکی نظروں میں حقیر بنے تاکہ بڑا ہو کر ان کا مطالبہ نہ کرے اور جب بچہ کوئی عمدہ کام کرے تو چاہیے کہ اسے انعام دیں تاکہ خوش ہو اور لوگوں میں اس کی تعریف کریں اور اگر کوئی کام غلط کرے تو اس سے چشم پوشی کرنی چاہیے اور اس کا پردہ فاش نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے تنہائی میں سمجھانا اور عتاب کرنا چاہیے اور تاکید کرنی چاہیے کہ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا اور اگر کرو گے تو لوگوں میں رسوائی ہو گی۔ اور ہر وقت بھی نہیں جھڑکنا چاہیے کیونکہ اس سے بچہ ملامت کا عادی ہو جاتا ہے اور بات کی تاثیر دل سے جاتی رہتی ہے۔ اسی طرح بچے کو بیٹھنے کا طریقہ بتانا چاہیے اور زیادہ گفتگو کرنے سے منع کرنا چاہیے اور سمجھانا چاہیے کہ زیادہ بولنا بے حیائی کی علامت ہے۔ بچے کوبرے لوگوں کی صحبت سے روکنا چاہئے اور اسے سمجھانا چاہیے کہ اپنے والدین ،اساتذہ اور اپنے سے بڑی عمر والوں کی فرمانبرداری کرے۔ اپنا ہو یا بیگانہ سب کو تعظیم کی نظر سے دیکھے اور جب سن تمیز کو پہنچے تو طہارت، وضو اور نماز سیکھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ چوری، حرام مال، خیانت، جھوٹ اور فحش عادات سے منع کرنا چاہیے۔ مختصر یہ ہے کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ والدین خصوصاً ماں جس کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اس کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ بچے کی تربیت اس نہج پرکرے گی تو اس کا بچہ حسن اخلاق کا پیکر بنے گا۔ بچوں کی تربیت شروع میں بہت ضروری ہے کیونکہ اس وقت اس کا جو ہر قلبی ہر طرح کی لیاقت رکھتا ہے خیر وشر دونوں سیکھ سکتا ہے لیکن اس کا اختیار والدین کو ہے جس طرف چاہیں ان کو پھیر سکتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
’’ہربچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ ہی اس کو یہودی و نصرانی ومجوسی بنا دیتے ہیں‘‘
-
عقد کے احکامات
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ وہ شرائط جن سے عقد ہو جاتا ہے اورعورت مرد پر حلال ہو جاتی ہے وہ چار ہیں:
- ولی کی اجازت: اگر عورت کا ولی نہ ہو تو بادشاہ اس کے اذن کے قائم مقام ہوتا ہے۔
- عورت کی رضا:بشرطیکہ بالغہ یا عمر رسیدہ یا کنواری ہو مگر باپ یا دادا کے سوا اور کوئی اس کے عقد کا متولی ہو۔
- دو گواہوں کا موجود ہونا :جو بظاہر عادل ہوں یعنی برائیوں کی نسبت نیکیاں زیادہ کرتے ہوں اور اگر دو ایسے گواہ ہوں جن کا حال معلوم نہ ہو تب بھی نکاح ہو جائے گا۔ شرعاً ضرورت اسی کی مقتضی ہے۔
- ایجاب و قبول کا ہونا : ان میں ضروری ہے کہ لفظ نکاح ہو یا اور کوئی لفظ جو ان معنوں میں ایجاب ہو سکے،اسی طرح قبول ہو اور ایجاب وقبول میں دو مرد عاقل بالغ ہوں، عورت نہ ہو اور مردوں میں خود شوہر ہو یا ولی یا دونوں کے وکیل ہوں۔
-
عائلی و خاندانی زندگی کے آداب
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے آداب واحکام تفصیلاً بیان فرمائے ہیں۔ ان میں عورت کے لئے چند ضروری ہدایات درج ذیل ہیں:
- جن مسائل میں عورت کا شوہر کفیل ہو سکتا ہے ان مسائل کے لئے عورت کو علماء کے پاس نہیں جا نا چاہیے۔
- اگر شوہر جاہل ہے لیکن وہ کسی مفتی سے پوچھ کر عورت کو سمجھا سکتا ہے تب بھی عورت کو مسائل سمجھنے کے لئے گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ لیکن اگر شوہر اتنا جاہل وغبی ہو کے مسائل سمجھانے سے قاصر ہے تو پھر عورت کو علماء سے پوچھنے کے لئے جانا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے اگر اسے مرد منع کرے گا تو گنہگار ہو گا۔ ہاں عورت کے ساتھ جا کر علماء سے مسائل کی افہام وتفہیم کرائے تو بہتر ہے۔
- اگر عورت کو بقدر ضرورت مسائل سمجھ آ گئے ہیں تو اب وہ مجلس وعظ میں یا علماء سے مسائل سمجھنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی۔
- حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو عید کی حاضری کی اجازت دی تھی مگر مشروط باجازت اپنے شوہروں کے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دور حاضر میں پارسا عورتوں کو اپنے شوہروں کی اجازت کے بعد باہر نکلنا مباح ہے مگر نہ نکلنے میں احتیاط زیادہ ہے۔ عورتوں کو چاہیے کے بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں کیونکہ تماشوں اور غیر ضروری کاموں کے لئے نکلنا شرافت کے خلاف ہے بلکہ بعض اوقات فتنہ و فساد بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
- عورت کے لئے جائز ہے کہ ہر وہ شے جو دیر سے رکھنے سے بگڑ جائے یا خراب ہوجائے ان کوشوہر کی اجازت کے بغیر خیرات کر دے۔
- امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی روشنی میں عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں:
اس حدیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیک عورتوں کی یہ خوبیاں بیان فرمائی ہیں کہ جب مرد اسے دیکھے تووہ اسے خوش کر دے اور جب کوئی حکم کرے تو بجا لائے ا ور جب گھر سے چلا جائے تو اپنے نفس اور اسکے مال کی حفاظت کرے۔ مزید امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مرد اپنی منکوحہ کو دیکھ کر اس وقت خوش ہو گا جب عورت اس کو چاہتی ہو۔
- حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ سے پوچھا کہ عورت کے لئے کونسی چیز بہترہے؟ عرض کی کہ عورت کے لئے سب سے یہی بہترہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ غیر مرد اسے دیکھے۔
امام صاحب اس روایت کو بیان فرما کر طبقہ نسواں کو یہ ہدایت فرماتے ہیں کہ اگر عورت بوجہ شدید ضرورت کے گھر سے نکلے بھی تو اسے چاہیے کہ مردوں اور عورتوں سے اپنی نگاہیں نیچے رکھے۔
- اگر مرد کا والد اس عورت کو برا سمجھے تو اسے طلاق دے دینی چاہیے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے نا پسند کرتے تھے کہ اسے طلاق دے دو۔ میں نے اس بارے میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رجوع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے۔
- اگر ایذا دینا شوہر کی جانب سے ہو تو عورت کو مناسب ہے کہ کچھ مال دے کر خود کو چھڑالے۔
- اگر عورت بلا وجہ طلاق کی خواہش کرے تو وہ گنہگارہے۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو عورت شوہر سے طلاق چاہے بغیر کسی خوف یا ضرورت کے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘
- عورت پر واجب ہے کہ شوہر کے مال میں سے فضول خرچی نہ کرے بلکہ اس کے مال کی حفاظت کرے۔
- عورت پر واجب ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے اوراگر اس کی اجازت سے بھی نکلے تو پرانے کپڑوں میں باپردہ نکلے اور خالی جگہوں میں چلے ،سڑک اور بازار کے درمیان سے احتراز کرے اور اس سے بھی احتراز کرے کہ کوئی اجنبی اس کی آواز پہچانے یا اس کے جسم سے واقف ہو۔
- ہمہ تن اپنے حال کی بہتری اور گھر کے انتظام میں مصروف رہے اورنماز روزہ سے سروکار رکھے۔
- اگر شوہر کا کوئی دوست دروازے پر آواز دے اور شوہر گھر میں نہ ہو تو اپنی اور شوہر کی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے کلام نہ کرے بلکہ شوہر کی عدم موجودگی کا پیغام بھجوادے۔
- بیوی کو چاہیے کہ جو کچھ شوہر کو اللہ نے دیا ہو اس پر قناعت کرے اور اس کے حق کو اپنے اور اپنے تمام رشتہ داروں پر مقدم رکھے۔
- بیوی کو چاہیے کہ خوب صاف ستھرارہے اور ہر حال میں جب شوہر اس سے نفع چاہے تو تیار رہے۔
- اپنی اولاد پر شفقت کرے اور ان کے راز افشاء نہ کرے۔
- جب شوہر نہ ہو تو نیک بخت اور پژمردہ رہے اور اس کے سامنے سامان عیش کرے اور یہ مناسب نہیں کہ کسی حال میں شوہر کو ستائے۔
- حقوق نکاح میں سے عورت پر ایک واجب یہ ہے کہ جب اس کا شوہر مر جائے تو اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور اس عرصہ میں خوشبو اور زینت سے اجتناب کرے۔