مرتبہ: نازیہ عبدالستار
حُب رسول کاتقاضا یہ ہے۔ جس سے مصطفیٰ ﷺ نے محبت کی ہم بھی اس سے محبت کریں۔ صحیح بخاری کے لفظ ہیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ پیاری ہے۔
اُرْقِبُوْ مُحَمَّدًا ﷺ فِی اهل بَیْتِ.
حضرت صدیق اکبر ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنے دور خلافت میں وصیت کی اور یہ اصول وضع کر دیا تم حضور کی اہل بیت کو دیکھو اگر تم ایماندار ہو تو اہل بیت کے اندر تمہیں حضور ﷺ نظر آنے چاہیے۔
اگر یہ روش نہیں تو اس کا تعلق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی نہیں۔ جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نہیں وہ کہاں کا اہل سنت ہے وہ خارجی ہے۔ حضرت امام حسنِ مجبتیٰ علیہ السلام کے پوتے حضرت عبد اللہ الکامل وہ خود روایت کرتے ہیں۔
مجھے کوئی کام تھا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ خلیفہ جن کو خلیفہ خامس بھی کہتے ہیں۔ میں ان کے پاس چلا گیا وہ فوری کھڑے ہوگئے۔ میری حاجت پوری کی۔ انہوں نے مجھ سے عرض کیا حضرت آپ خود زحمت نہ کیا کریں بس ایک چٹ لکھ کر بھیج دیا کریں یا کسی غلام کو بھیج دیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔
مجھے حیا آتا ہے کہ خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا قیامت کے دن اگر آپ چل کے میرے دروازے پر آئیں۔
امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا ان کا جنازہ پڑھا گیا وہ ضعیف تھے اُس وقت جنازے سے فارغ ہوئے تو ان کے لیے سواری قریب کی گئی تاکہ اُنہیں بٹھایا جائے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے اب چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جلیل القدر اکابر صحابہ میں سے تھے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے خاندان آل میں سے بھی تھے۔ صحابہ کرام میں صغار صحابہ میں سے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاؤں رکاب میں رکھنے کے لئے رکاب تھام لی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اے ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ نے یہ ایسا کیوں کیا؟ آپ پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت ابن عباسؓ فرمانے لگے ہم علماء کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تیزی کے ساتھ جھکے اور حضرت ابن عباسؓ کا ہاتھ چوم لیا۔
انہوں نے پوچھا حضرت آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ مصطفی ﷺ کی اہل بیت کے ساتھ ہم ایسا کیا کریں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر تھے حضرت سیدہ فاطمہ بنتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی ضرورت سے میں ان کے پاس گئی۔ میرے آنے کی ان کو اطلاع ملی وہ تو فوراً دربار سے باہر نکل کر آگئے اور کہا اے علی المرتضیٰؓ کی شہزادی خدا کی قسم روئے زمین پر آپ حضور ﷺ کی اہل بیت آپ سے بڑھ کر کوئی گھرانہ میرے نزدیک محبت والا نہیں حتیٰ کہ میرا اپنا گھرانہ میری اولاد بھی آپ پر قربان ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا وہ کام کر کے مجھے ہاتھ جوڑ کر وہ کہتے تھے کہ آپ اہل بیت رسول ہیں مجھ سے وعدہ کریں قیامت کا جب دن ہو تو میری شفاعت کر دینا اور کہہ دینا کہ ہماری نوکری کرتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا اے عمر بن عبدالعزیزؓ کہ بنو ہاشم اہل بیت محمد ﷺ اہل بیت رسول ہیں۔ ان کے بچے نسلیں ہیں ابھی کیا ان سب کی شفاعت ہے۔
انہوں نے کہا خدا کی قسم بنی ہاشم حضور ﷺ کا خانوادہ، بچے بچیاں سب شفاعت کریں گے۔ امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ کا طریقہ یہ تھا آپ کے زمانے میں جتنے امام اہل بیت کے زندہ تھے آپؒ ہر ایک کے شاگرد بنے۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عقیدت کا اظہار کیا اور ایک جملہ بولا اس کو امام موقف بن احمد بن مکی نے مناقب امام ابی حنیفہ میں بیان کیا۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم اے امام محمد بن باقر رضی اللہ عنہ آپ کی حرمت و تعظیم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدارِ کائنات کی واجب تھی کیونکہ آپ کی حرمت مجھے حرمتِ مصطفی ﷺ نظر آتی ہے۔
سیدنا امام جعفر صادق کو فہ تشریف لائے تو سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لیے کر سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زیارت اور استفادہ کرنے حاضر ہوئے۔ جب آپ کو دیکھا ادب و احترام سے سلام عرض کیا اندر داخل ہوئے اجازت مانگی اس طرح آدب کے ساتھ بیٹھ گئے آپ کے شاگردوں نے دیکھا تو سارے اپنا طریقہ پلٹ کر امام اعظم رضی اللہ عنہ کی طر سب شاگرد بیٹھ گئے جب آپ نے دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنا طریقہ نشست بدل لیا ہے۔ اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جن کی تم سب اتنی تعظیم و تکریم و توقیر کر رہے ہو۔
کہنے لگے کہ یہ ہمارے استاد ابو حنیفہؒ ہیں۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اس پوری زمین روئے زمین پر جتنے علماء و اکابر اساتذہ کو آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے روئے زمین پر امام جعفر بن محمد صادق رضی اللہ عنہ کو فقہ پایا۔
امام اعظمؒ امام محمد باقر رضی اللہ عنہ ، امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اور امام زین علی کے شاگرد ہوئے۔ یہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مودت اہل بیت تھی۔ جسٹس نہ بننا قبول نہ کیا۔
بہانہ یہ تھا کہ ہماراحکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ بس اور کوئی گستاخی بنو عباس کے حکمرانوں کے خلاف نہیں ہوئی دراصل سبب یہ تھا کہ وہ سب حکمران جانتے تھے کہ یہ امام اعظم گھر بیٹھ کر ہر شہزادے اہل بیت کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت و مودت کرتے ہیں۔ ان کو سزا محبتِ اہل بیت کی دی۔ جیل بھیجا حتیٰ کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کا جنازہ بھی جیل سے نکلا انہوں نے محبتِ اہل بیت میں وفات پائی۔
اب حضرت امام مالکؒ اہل بیتِ اطہار سے شدید محبت تھی حصرت امام جعفر صادق جیسی ہستیوں کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے:
امام مالک کے پاس چلے جائیں ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے۔ کل ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے ان کی محبت و مودت میں فنا تھے مگر محبت و مودت اہلِ بیت کی سزا دی کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈ دیا اور سواری پر بیٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں چلایا اور حکم دیا کہ کوڑے مار کر ان کو بتائو کہ میں امام مالکؒ ہوں آپ گلی گلی میں رک کر کہتے تھے جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس حال کے ساتھ پچیس سال تک حضرت زین العابدین کی طرح آپ گھر میں بیٹھ گئے باہر نہیں نکلے۔
یہ دور تھا بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا ائمہ اہل بیت اطہار کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ ملاؤں نے فتوے اور تہمت لگا دی کہ یہ شعیہ ہیں اور رافضی ہیں۔ چاروں اماموں کی گھٹی میں محبت و مودب ہل بیت تھی۔
امام شافعیؒ نے اپنا دیوان لکھا اور اُس میں آپ نے ربائی لکھی۔ اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ نے قرآن مجید میں فرض کردی ہے۔
اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان کی بلندی کے لیے اتنی دلیل کافی ہے جو تم پر درود نہ پڑے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
پھر امام شافعی نے کہا۔ اگر ال محمد سے محبت کرنا رافضی ہوجانا ہوتا ہے ساراجہاں جان لے کہ میں شیعہ ہوں۔یہ کلمات آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمائے ہیں۔ میری امت کی جو سب سے پہلی ہلاکت ہے وہ بے وقوف لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی اس حدیث رسول کی روشنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ گلیوں میں چلتے پھرتے باآواز بلند دعا کرتے تھے اور کہتے تھے۔
اے اللہ میںان چھوٹوں کے حکمران بننے اورسن ساٹھ ہجری کے شروع ہونے سے پناہ مانگتا ہوں۔
امام عسقلانی کہتے ہیں اللہ نے ان کی دعا قبول کی انسٹھ ہجری میں ایک سال قبل ان کا وصال ہو گیا۔امام مالک کو جب کوڑے مارے جاتے آپؒ بے ہوش ہو جاتے۔ جب ہوش آتا تو دوبارہ کوڑے شروع کر دیتے۔ کوڑوں سے ہوش آنے کے بعد کہتے لوگو! گواہ ہو جاؤ۔ باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے والوں کو معاف کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ شاید کوڑے کوڑے کھاتے کھاتے میں مر جاؤں۔ مجھے اپنی حالت نظر آ رہی ہے۔ بے شک مجھ پر ظلم ہو رہا ہے لیکن ہیں تو یہ لوگ حضور علیہ السلام کے چچا سے لوگ میں سے میں نہیں چاہتا کہ میرے آقا علیہ السلام کے چچا کا کوئی فرد میری وجہ سے دوزخ میں جائے۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں۔ اتنا بڑا ظلم ادھر حضور علیہ السلام کے خاندان کے افراد کے ساتھ اتنا بڑا حیا نہ عقیدہ ہے۔ عقیدہ اہل سنت و جماعت اس کو کہتے ہیں۔ چاروں اماموں سے پوچھا گیا آپؒ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں۔ انہوں نے فتوی دیا۔ یزید میرے نزدیک کافر ہے۔ لوگوں نے دلیل پوچھی انہوں نے قرآن مجید کی آیت پڑھی اور کہا اس آیت کا مصداق تعلق یزید بدبخت پرہے۔ ابدال قطب غوث ہر ولی کوئی ولی مرتبہ ولایت تک نہیں پہنچتا جب تک اس کی ولایت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی توثیق نہیں ہوتی۔
کوئی ولی شان ولایت کو نہیں پاتا جب تک مولا علی رضی اللہ عنہ کی مہر کی نہیں لگتی کیونکہ وہ خاتم الولایت ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آقا علیہ السلام اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔ معاذ اللہ کسی مسلمان کی جرات نہیں کہ کوئی کہے کہ یہ اقربا پروی ہے چونکہ آپ کے نواسے ہیں اس لئے اُٹھایا جا رہا ہے۔ استغفر اللہ العظیم جس لمحے یہ بات ذہن میں آئی اسی لمحے کافر بن گئے۔ حضور کی ہر بات حق اور عدل ہے۔ آپ فرما رہے ہیں میرا حسن اور حسین علیہما السلام جنت کے سب جوانوں کے سردار ہیں۔
اب جنت کے کل جوان جن کے سردار امام حسن و حسین علیہما السلام ہیں۔ سیدہ زینب جو کربلامعلی میں گئیں انہوں نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں پرورش پائی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں رات کا وقت تھا میں کسی کام کے لئے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں گیا۔ آپ نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ چادر کے نیچے ایسا لگتا تھا کچھ چھپایا ہوا ہے۔
جب میرا کام ہو چکا مجھ سے رہا نہیں گیا کیونکہ نئی بات دیکھ رہا تھا کہ چادر کے اندر معلوم نہیں کیا ہے؟ میں نے پوچھا۔ یارسول اللہ ﷺ چادر کے اندر کیا ہے۔ قربان جائیں پیار کا کیا رنگ ہے۔ میرے آقا علیہ السلام نے زبان سے نہیں فرمایا کون ہے بلکہ آپ نے چادر ہٹا کر دکھایا کہ حسن اور حسین علیہما السلام ہیں۔ حضرت حسن و حسین علیہما السلام کو دکھا کر امت کو دکھانا چاہتے ہیں میرا حسن و حسین علیہما السلام سے پیار یہ ہے خود بول کر فرمایا: یہ میرے بیٹے ہیں اور میرے فاطمہ علیہا السلام کے بیٹے ہیں۔