منہاج القرآن ویمن لیگ کی سینئر رہنما 21 جون 2021ء کو اس دنیا سے رحلت فرماگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے ڈاکٹر نوشابہ حمید کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں مادرِ تحریک محترمہ رفعت جبیں قادری، محترمہ فضہ حسین قادری اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی سینئر بہنوں نے خوبصورت الفاظ اور یادوں کے ساتھ انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ذیل میں تعزیتی ریفرنس کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:
ڈاکٹر نوشابہ حمید تاعمر اخلاص و وفا کا پیکر رہیں: مادرِ تحریک محترمہ رفعت جبیں قادری
ڈاکٹر نوشابہ حمید 1981ء میں تحریک منہاج القرآن اور بعد میں PAT سے منسلک ہوئیں۔ اس وقت ہماری رہائش سمن آباد میں تھی۔ ڈاکٹر نوشابہ حمید کا گھر بھی سمن آباد میں تھا۔ شیخ رفیع کی اہلیہ محترمہ جو پہلے سے تحریک سے وابستہ تھیں ان کے ذریعے ڈاکٹر نوشابہ نے قائد محترم سے سمن آباد میں ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ان دنوں قائد محترم مسجد رحمانیہ شادمان میں درس قرآن دیتے تھے۔ ڈاکٹر نوشابہ باقاعدگی سے درس قرآن میں شرکت کرتیں۔ چند مہینوں کے بعد درس قرآن میں لوگ جوق در جوق شرکت کرنے لگے۔
محترمہ ڈاکٹر نوشابہ 40 سال تحریک منہاج القرآن سے وابستہ رہیں۔ اپنی وفات تک منہاج القرآن ویمن لیگ کی سرپرستی کرتی رہیں۔ گوشہ درود کی ویمن سیکشن کی انچارج رہیں۔ چاہے وہ ویمن لیگ کی سرپرستی ہو یا اعتکاف میں میڈیکل کیمپ کی ذمہ داری ہو یا آغوش میں مدر ایریا کے ہیڈ کے طور پر سرپرستی کی ذمہ داری ہو انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیں۔ لاہور کی پہلی صدر کی ذمہ داری پر فائز ہوئیں۔ لاہور کے دور دراز کے علاقوں کے وزٹ کیے۔ سینکڑوں خواتین کو تحریک سے وابستہ کیا۔ ہر سطح پر تحریک اور مشن کے لیے مالی قربانیوں کے لیے صف اول میں شامل رہیں۔ وفات سے چند دن پہلے مرکز میں ڈیوٹی پر حاضر رہیں۔ ہر دور اور ہر محاذ پر استقامت کے ساتھ ڈتی رہیں۔ ہماری یہ دعا ہے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر نوشابہ حمید کو تحریک منہاج القرآن کی خدمات پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ پاکستان عوامی تحریک پنجاب کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ حلقہ 127 کی نگران تھیں۔ بیداری شعور میں انہوں نے بھرپور کردار اداکیا۔ ڈاکٹر نوشابہ منہاج القرآن کے مشن کی عظیم خدمات سرانجام دینے پر آغوش کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر اعتکاف میں اپنی خدمات انجام دینے پر اللہ پاک ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ ڈاکٹر نوشابہ حمید کو سلام پیش کرتی ہوں اور ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ محترمہ نوشابہ حمید کی بخشش ومغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ قبر اور آخرت کی تمام منزلیں آسان فرمائے۔ ان کو حضرت محمد ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کی بخشش و مغفرت عطا فرمائے آمین۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ ہمارے دین کی حفاظت فرمائے، سب فیملیز کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے اور پریشانی کا باعث بننے والے معاملات کو ان سے دور فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل حضرت محمد ﷺ سچی محبت سے سرشار فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کورونا وائرس کو ملک پاکستان اور پوری دنیا سے ختم فرمادے۔ اللہ تعالیٰ آقا علیہ السلام کی پوری امت کو ہر قسم کی ناگہانی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے۔ پریشانیوں کو دور فرمائے، ہم سب کو تقویٰ و طہارت والی زندگی عطا فرمائے، ہماری اولادوں کو نیک و صالح بنا۔ ہمارے بچوں کو آقا علیہ السلام اور حسنین کریمینf کا سچا غلام اور عاشق بنا۔
اللہ تعالیٰ ہماری بیٹیوں کو سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چلائے۔ پاکستان میں جو لوگ بیروزگار فارغ بیٹھے ہیں ان کو اچھے روزگار عطا فرما۔ بیماروں کو شفا کاملہ عطا فرما۔ قرض داروں کو قرض سے نجات عطا فرما۔ جن کی اولاد نہیں ان کو صحت، سلامتی، درازی عمر والی اولاد عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما۔ ہماری نمازوں میں باقاعدگی عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تہجد پڑھنے کی بھی توفیق عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو صحت و سلامتی کے ساتھ درازی عمر عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ تحریک منہاج القرآن کے تصدق سے عظیم مشن کی حفاظت فرما۔ حاسدین کے شر سے محفوظ فرما۔ باری تعالیٰ ہمارے گناہ معاف فرما۔ باری تعالیٰ ہماری دعائوں کو قبول و منظور فرما۔ باری تعالیٰ ہمیں نیک تقویٰ طہارت اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔ یا کافی الحاجات۔ آمین
ڈاکٹر نوشابہ حمید منہاج القرآن ویمن لیگ کی بہنوں کے لیے مشفق ماں کا درجہ رکھتی تھیں: محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری
اللہ رب العزت کے بے پایاں لطف و کرم اور احسان عظیم، حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلین پاک کے تصدق سے اور حضور سیدی شیخ الاسلام کی توجہات کے طفیل سے آج ہم اس تقریب میں ہماری بہت پیاری بہن، منہاج القرآن ویمن لیگ کی عظیم ورکر، رہنما اور مشفق شخصیت ڈاکٹر نوشابہ حمید کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہیں۔ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد دیتی ہوں کہ انہوں نے ڈاکٹر نوشابہ حمید کی عظیم خدمات کے اعتراف میں یہ تقریب منعقد کی۔
آج ڈاکٹر نوشابہ حمید کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ ان کی حضور شیخ الاسلام کے ساتھ بے پناہ عقیدت، تحریک منہاج القرآن کے ساتھ عمر بھر وابستگی اور اس عظیم مشن کے ساتھ ان کی وفاداری، عظیم کاوشوں اور انتھک محنت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نوشابہ حمید نے ساری زندگی تحریک کی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔ وہ اعتکاف میں معتکفات کے لیے نہ صرف میڈیکل کیمپ کا اہتمام کرتیں بلکہ خود بھی ہمدردی کے ساتھ کیمپس میں شریک ہوکر خواتین کاچیک اپ کرتی تھیں۔ پھر ان کی شخصیت کی خوبصورت بات یہ ہے کہ ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹرز کا بہت خیال رکھتی تھیں۔
ڈاکٹر نوشابہ حمید کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ بے شک ان کی صحت و عمر اجازت نہیں دیتی تھی پھر بھی انہوں نے کبھی اپنی ذمہ داریاں ترک نہیں کیں بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ میں جب شادی کے بعد پاکستان شفٹ ہوئی تو ویمن لیگ کی جس رہنما سے میری سب سے پہلے ملاقات ہوئی وہ ڈاکٹر نوشابہ حمید تھیں۔ آپ جس شفقت و محبت سے ملیں وہ انداز مجھے آج بھی یاد ہے ان کی گفتگو عمومی باتوں سے ہٹ کر حضور شیخ الاسلام سے عقیدت اور میری مشنری زندگی اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی ورکنگ پر مبنی تھی۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ مشن کا درد رکھنے والی خاتون تھیں۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتیں کہ ہمیں کس طرح مشن کو فروغ دینا چاہیے۔ وہ ہمیشہ بہتری اور اصلاح کے لیے تجاویز دیتیں۔ کبھی بے جا تنقید نہیں کرتی تھیں۔ ڈاکٹر نوشابہ حمید خوش قسمت خاتون تھیں کہ اپنی آخری سانس تک مشن سے وابستہ رہیں اور ذمہ داریاں سرانجام دیتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس مشن کے ساتھ استقامت، وفاداری اور اخلاص کے ساتھ آخری سانس تک جڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ڈاکٹر نوشابہ حمید کی مشن پر استقامت سب بہنوں کیلئے مشعلِ راہ ہے: محترمہ فضہ حسین قادری
وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا.
(المزمل، 73: 8)
’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔ ‘‘
محترمہ ڈاکٹر نوشابہ حمید صاحبہ منہاج القرآن کا ایسا باب ہیں جو اپنے اختتام کو تو پہنچ گیا لیکن اس باب کا ایک ایک صفحہ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس باب کا ایک ایک صفحہ یادوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کا کردار آپ کا اخلاق آپ کی بے لوث خدمت دین کے لیے، آپ کی جتنی قربانیاں ہیں تحریک کے ساتھ اور قائد تحریک کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ رب العزت ان کے صدقے سے ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی استقامت کے ساتھ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ وابستہ رہیں اور دلوں میں حضور شیخ الاسلام کی محبت اور اس تحریک کی محبت اور وابستگی مرتے دم تک ہمیں نصیب ہو۔ اللہ رب العزت محترمہ نوشابہ حمید صاحبہ کو تاجدار کائنات ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ڈاکٹر صاحبہ یقینا ایسی ہستی ہیں جن کو ہم یاد بھی کریں اور بات بھی کریں اس کا حق نہیں ادا کرسکتے۔
لیکن اگر کوئی یہ پوچھے ڈاکٹر صاحبہ کو چند الفاظ میں یاد کریں تو وہ چند الفاظ کیا ہوں گے؟ جو آپ کے ذہن میں آئیں، ابتداء میں جو آیت کریمہ تلاوت کی وتبتل الیہ تبتیلا وہ لفظ ہے جس میں سے حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کا اسم مبارک بتول کو اخذ کیا گیا ہے۔ ہر ایک سے کٹ کر اسی کی ہوجانا۔ ڈاکٹر نوشابہ کیا تھیں ہر ایک سے کٹ کر اپنے رب کی ہوئیں۔ انہوں نے اپنے شب و روز قربان کردیئے۔ اس تحریک کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی قربان کردی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جن جن ذمہ داریوں پر بھی کام کیا ہے مجھے جو چیز بہت مسحور کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن میں آپ استقامت پائیں گے۔ ڈاکٹر صاحبہ جس بھی ذمہ داری پر رہیں، وہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی سرپرستی ہو، وہ گوشہ درود کے ویمن سیکشن کی ذمہ داری ہے، وہ آغوش میں مدر سیکشن کی ہو، ہر سال اعتکاف میں میڈیکل کیمپ کی ہر ذمہ داری انہوں نے بخوبی نبھائی۔ ان کے چالیس سالہ سفر میں کوئی شخص ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ڈگمگائیں اپنے رستہ سے ہٹیں بلکہ انہوں نے ہمیں بھی استقامت سکھائی۔
ہر ایک کو نصیحت کی اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ میں ان تمام سینئر ممبر کو داد دیتی ہوں جنہوں نے تحریک کے لیے قربانی دی اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی سنت پر عمل کیا۔ وہ کیسے کہ جب ڈاکٹر نوشابہ کو روضہ المخلصین میں دفن کرنے کی بات کی گئی تو حضور سیدی شیخ الاسلام نے فرمایا کہ سینئر ممبر سے پوچھ لیں کہ کیا کوئی ان سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک بہن نے کہا کہ ہماری قربانیاں ڈاکٹر نوشابہ سے بڑھ کر نہیں۔ دیکھیں اس دنیا میں ہمارا گھر ہے جسے ہم سجاتے اور سنوارتے ہیں، جس پر ہم پیسہ خرچ کرتے ہیں، انسان اس گھر میں کتنا عرصہ رہتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ 50، 60، 70، 80 سال یہ مختصر سی زندگی ہے۔ اس گھر کو ہم اتنا سجاتے ہیں تو قیامت سے پہلے اور بعد میں جو ہمارا گھر ہوگا جس میں ہم نے طویل عرصہ گزارنا ہے۔ وہ گھر ہماری عظیم بہنوں نے ڈاکٹر نوشابہ حمید کے لیے قربان کردیا۔ میں ان بہنوں کے جذبوں پر مبارکباد دیتی ہوں کہ ان بہنوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی سنت پر عمل کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سیدہ حضرت عائشہؓ کی سنت کیسے ہوگئی؟ وہ ایسے ہوئی جب سیدنا عمر فاروق ؓ جب آپ شہادت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے درخواست کی امہات المومنین جو آپ نے اپنے لیے جگہ مختص کی ہے۔ آپؐ کے حجرہ مبارک میں تاجدار کائنات ﷺ کے پہلو میں۔ آپ نے اپنی قبر مبارک کی جو جگہ رکھی ہے آپ وہ مجھے عنایت کردیں۔ اتنی بڑی قربانی کے تاجدار کائنات ﷺ کے پہلو میں دفن کون چھوڑ سکتا ہے۔ اتنی بڑی قربانی کون دے سکتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے یہ نہیں سوچا کہ میں بھی حضور علیہ السلام کی زوجہ ہوں۔ میرا بھی ایک مقام و مرتبہ ہے۔ میری بھی دین کے لیے قربانیاں ہیں۔ میری بھی آقا علیہ السلام کے لیے قربانیاں ہیں۔ آپ نے یہ دیکھا سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے دین کے لیے کتنی قربانیاں ہیں۔ آپ کتنی جنگوں میں لڑے ہیں۔ آپؓ نے حضور علیہ السلام کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا ہے۔ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ لمحہ آقا علیہ السلام کے لیے قربان کردیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے وہ جگہ جو تاجدار کائنات ﷺ کے پہلو میں ہے وہ حضرت عمر فاروقؓ کو دے دی۔ یہ اتنی بڑی قربانی ہے جس پر آج منہاج القرآن کی سینئر بہنوں نے عمل کیا ہے۔ میں آپ سب کو مبارک پیش کرتی ہوں۔ اللہ پاک ہم سب پر اپنا لطف و کرم فرمائے۔
ڈاکٹر نوشابہ حمید کے خوبصورت تذکرے ہمارے حوصلوں کی تقویت کا باعث بنے ہیں: محترمہ فرح ناز (صدر ویمن لیگ)
ہماری قیادت اپنے ساتھ چلنے والوں کے لیے محبت کرنے و الوں کے ساتھ کس طرح سے قدر دان ہے کس طرح سے قدر شناس ہے۔ دنیا میں تو تذکرے سب ہی کرتے ہیں لیکن دنیا سے چلے جانے کے بعد اتنے پیارے تذکرے، اتنے پیارے پیغامات اتنی پیاری حوصلہ افزائی اور ایسی عزت افزائی شاید ہی کسی کو ملی۔ شاید ہی کسی تنظیم و تحریک میں دی جاتی ہے۔ اس پر ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔
امی جان نے ڈاکٹر نوشابہ کے لیے جو پیغام ریکارڈ کروایا وہ اپنی یاداشت سے ریکارڈ کروایا جو دن رات، ماہ ، سال ان کے ساتھ گزرے یہ مختصر سا خلاصہ کا اظہار جو انہوں نے خود کیا۔ اس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ یہ یاد رکھئے ہم سب کا فیصلہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اوپر کیے جانے والے تذکرے پر ہونا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے فرشتوں کو بھیجا جائے گا کہ جائو دیکھو اس کے بارے میں تذکرہ کیا جارہا ہے اس کے بارے میں لوگ باتیں کیسی کررہے ہیں۔ آج جو ڈاکٹر نوشابہ کے بارے میں باتیں جو تذکرے کیے جارہے ہیں۔ یہ ان کے درجے بلند کررہے ہیں یہ ان کو سرخرو کررہے ہیں۔
جب ہماری قیادت اپنے کارکنان کے اس خوبصورت انداز میں تذکرے کرے گی۔ جب شہادتیں موصول ہونے لگیں گی۔ یہ شہادتیں یہ گواہیاں ہمیں یقین ہے کہ ہمیں بچا لیں گی۔ یہ ہماری ڈھال بنیں گی، یہ ایسی وادی میں لے جائیں گی جہاں اللہ کی محبتیں، اس کے نظارے اور اس کے محبوب کی سنگتیں ہوںگی۔ ایک چھوٹا سا تذکرہ میں سمجھتی ہوں امانت ہے۔ میں بھی کردوں۔ ایک بات ان کی جو میں نے کبھی کسی اور خاتون میں نہیں دیکھی۔ سالوں پہلے وہ کلینک چلایا کرتی تھیں۔ تین دن کلینک کے، تین دن چھٹی ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا: آپ تین دن کلینک کرتی ہیں اور دو دن یہاں پر آتی ہیں۔ آپ کلینک چھوڑدیں۔ آپ کی صحت کیسے اجازت دیتی ہے؟ جو انہوں نے جملہ بولا اس نے میرے اندر خواہش پیدا کردی۔ میں جو تین دن کام کرتی ہوں۔ وہ دو دن یہاں آکر خرچ کرتی ہوں۔ مجھے جو مزہ آتا ہے وہ کوئی جان سکتا۔ میںنے نہیں دیکھا کہ کوئی کماکر خرچ کرتا ہو۔ خود آکر اپنے ہاتھوں سے اور ایسا بھی نہیں کہ آکر Donation جمع کروارہی ہوں۔ اور رسید لے رہی ہوں۔ وہ بڑا چھپا ہوا ڈونر تھیں۔ وہ آتیں اور دیکھتیں کسی کو بھوک لگی ہے کھانا منگواتی تو بہت سارا منگواتی۔
میری ان سے آخری ملاقات 4 جون کو ہوئی۔ ہم اکٹھے گھر گئے مجھے گاڑی میں بیٹھتے بولی آج کا دن بھول گئی ہو۔ میں نے کہا آج کیا تاریخ ہے؟ کہنے لگی 4 جون۔ میں نے کہا Happy Birthday۔ میں کیک کاٹنا بھول گئی۔ ہم ان کی سالگرہ منایا کرتے تھے۔ خوش لباس، خوش انداز تھیں، خوش اخلاق تھیں۔ آپ ان خاندان میں سے تھیں جن کا بہت کم یہاں پر آنا تھا۔ لیکن ان کے گھر والوں نے ان کے کہنے پر سپورٹ کیا۔ ان کی ہمت بندھے رہے ان کی طاقت بندھے رہے۔ جب بزرگ ہمارے ساتھ نہیں ہوں گی۔ جب ہم پروگرام میں ان کو بٹھاتے تو ہمیں لگتا کہ ہمارا سٹیج بھر گیا۔ آنٹی نوشابہ کے درجات بلند ہوں۔ آج ان کو بہت سی گواہیاں اور شہادتیں مل گئیں۔ آج وہ بہت خوش ہوں گی ان کی روح بہت توانا ہوگی۔ ان شاء اللہ ہم بھی ان کے پاس جانے والے اور ان سے ملنے والے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ڈاکٹر نوشابہ حمیدمرحومہ، پیکرِ مہر و وفا: محترمہ مسز فریدہ سجاد، انچارج ویمن سیکشن (FMRi)
موت ایک ایسی تلخ اور اٹل حقیقت ہے جسے انسان چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ جو روح اس دنیا میں آئی ہے، اسے ایک نہ ایک دن لوٹ کر واپس بھی جانا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ.
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔
موت برحق ہے لیکن اس کا کوئی وقت مقرر نہیں، عموماً یہ نظر آتا ہے کہ جب نیک ہستیوں کا وقتِ آخر آتا ہے تو ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرنے سے قبل باامرِ ربی ایسی باتیں کرنے لگتی ہے، جو اس کے چاہنے والوں کی نصیحت اور مشکل راہ کا سامان کر جاتی ہے۔ محررہ، ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) سے جڑی اپنی یادیں قارئین کی نظر کرنے سے قبلدنیا بھر میںتحریک منہاج القرآن کی جملہ رفقاء اور تنظیمات کی جملہ کارکنان، جن کا تعلق اور واسطہ عملی طور ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) کے ساتھ رہا، ان کے ساتھ اظہار تعزیت کرتی ہے۔
محررہ کا آنٹی جی سے رابطہ شعور کی آنکھ کھولتے ہی ہو گیا تھااور یہ وہ وقت تھا جب میری والدہ مجھے محمد علی صاحب کے گھر شیخ الاسلام کا درسِ قرآن سنوانے کے لیے جایا کرتیں تھیں۔ اس وقت میں آنٹی جی کو ایک بااخلاق اور پُروقار خاتون کے طور پر جانتی تھی۔ پھروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق رفاقت میں بدل گیا اور پھر میری خوش نصیبی کہ وہ کم و بیش 25، 26 سال جن میں 21 سال مرکز، 3 سال لاہور اور 2 سال فیلڈ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی تمام تر سرگرمیوں اور مختلف events میں میری شریک سفر رہیں۔ یوں تو ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) اپنی خوبیوں، اپنے اخلاق، اپنی وفاداری، اپنی استواری اور اپنے کام کی صلاحیت میں رات دن مشن کے لیے قربانی میں یکتا اور اپنی مثال آپ تھیں۔ لیکن میرے نزدیک ان کی درج ذیل تین خوبیاں:
- باکردار
- باہمت
- باوفا
نہایت ہی اہم ہیں۔ جنہوں نے مجھے متاثر کیا اور میں نے بھی ان خوبیوں کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔
1۔ باکردار:
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) کی شخصیت کیسی تھی؟ تو مرحومہ انتہائی شفیق، پرہیزگار اور صورت و سیرت کے لحاظ سے باکردار خاتون تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر مخلص فنا فی تحریک تھیں۔ آپ بہت سے عہدوں پر فائز رہیں جیسا کہ:
صدر منہاج القرآن ویمن لاہور، سرپرست منہاج القرآن ویمن لیگ پاکستان، آغوش میں بطور صدر ، گوشہ درود میں بطور منتظمہ ، الیکشن کے دور میں حلقہ 127 کی نگران اس عرصہ کے دوران میرے کانوں اور میری آنکھوں نے کبھی بھی ان کے کردار پر انگلی اُٹھتے نہیں دیکھی۔ یقیناً یہ تحریک اور قائد تحریک کی تربیت اور نیک صحبت کا فیض تھا کہ نہ صرف ان کی حیات میں بلکہ بعد از وصال بھی نہ صرف ان کے پاکیزہ کردار کی گواہی دیتے نظر آئے اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا کرم اور فضل تھا کہ وہ مشن کی خدمت میں فنا ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوار گئیں۔
2۔ باہمت:
ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) نے اپنی زندگی کے 35، 36 سال خواتین اور مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ تحریک کا کام کرتے گزارے ہیں۔ آپ باہمت، حوصلہ مند اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ تحریک اور مشن کے ساتھ انتہائی مخلص تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں تحریک کے مختلف ادوار میں کئی کارکنان کو ڈگمگاتے اورتحریک سے پیچھے ہٹتے دیکھا، لیکن ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) مجھے اول دن سے تادم آخر مشکل سے مشکل اور کٹھن حالات میں بھی ہر محاذ پر ہمیشہ استقامت کا پہاڑ بن کر ڈٹی نظر آئیں۔ مجھے ان کی ہم راز ہونے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ وہ اپنے دل کی ہر بات خواہ تحریک سے متعلق ہوتی یا گھر سے، مجھ سے ضرور شیئر کرتیں۔
ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جبFMRi میں مجھ سے ملنے آئیں تو خوش بھی تھیں اور اداس بھی، کہنے لگیں لوگوں کو ہمارے قائد کی کب سمجھ آئے گی۔ وہ تو دن رات دین کی سربلندی کے لیے نہ اپنی صحت کا خیال رکھ رہے ہیں اور نہ اپنی جان کی پرواہ کر رہے ہیں۔ پھر اپنے آپ کو بھی کوسنے لگیں اور کہنے لگیںکہ ہم بھی تو اپنے فرائض کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے۔ ہمیں کب سمجھ آئے گی۔ ان کی ان باتوں میں اس قدر درد اور سوز تھاکہ مجھے بھی اپنے اعمال پر پشیمانی ہونے لگی،لیکن میں انہیں حوصلہ دیتی رہی کہ آنٹی جی یہ درد اور قائد کی پہچان ہر ایک کے نصیب میں نہیں۔ متفکر ہوتے ہوئے انتہائی درد اور دل سوز انداز میں مجھے کہنے لگیںکہ میرے قائد، میرے شیخ و مربی کو، کاش کوئی میری آنکھ سے دیکھے کہ یہ ہستی کیا ہے۔ غصہ بھی کرنے لگیںکہ کیا فائدہ ہوگا اگر ہم نے اپنے قائد کی حیاتمیں ان کی قدر نہ کی اور بعد از وصال روئیںاور مزار پر حاضریاں دیں۔ میں تو بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے قائد کو عمر خضر عطا فرمائے اور مجھے ان کی حیات میں ہی اپنے پاس بلا لے۔ یہ صدمہ میرے بس کی بات نہیں اور زار و قطار ررونے لگیں۔
معزز قارئین! ان کی پریشانی اور اداسی کا مطلب ہرگز یہ نہ ہوتا کہ وہ مایوس ہو کر ایسا سوچتی تھیں۔ نہیں! ہرگزنہیں، یہ ان کی فکر اور درد تھا جس کا وہ مجھ سے اکثر و پیشتراظہار کرتیں۔ ان کی ہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جو وہ مجھ سے اکثر کہتیں کہ ہم نے اپنے حصہ کا دیا جلانا ہے، ہمیں اپنے قائد کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ ان کا دست و بازو بننا ہے۔ ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے سامنے بلند و بالا مضبوط پہاڑ بننا ہے اور مجھے بھی نصیحت کرتیں کہ تحریکی زندگی میں کبھی ہارنا نہیں، اپنے قائد کا دست و بازو بنتے ہوئے ان کے ساتھ تحریک کے ہر سفر میں شامل رہنا ہے، خواہ جیسے بھی حالات آجائیں، مخالف آندھیاں چلیں، آپ نے ڈگمگانہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر سانس تک تحریک اور قائد تحریک کی دعوت دوسروں تک پہنچاتے رہنا ہے۔ آپ جو دوسروں کو نصیحت کرتیں، خود بھی اس پر عمل کرتیں۔ ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) تادم آخر لوگوں تک دین کی دعوت پہنچاتی رہیں اور ان کی دلی آرزو بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت کو پہنچی کہ وہ اپنے قائد، شیخ اور مربی کی حیات میں ہی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
3۔ باوفا:
کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی خصوصیات Personality attributes کا مجموعہ ہوتی ہے، یعنی انسان کا کردار اور اس کی فکر اس کی شخصیت کی ترجمان ہوتی ہے۔ انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اپنی فکر اور اپنے کردار سے اپنی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ ڈاکٹر نوشابہ (مرحومہ) تحریک اور قائد تحریک کی ہمیشہ وفادار رہیں اور حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈریں۔ تحریک کے کئی معاملات میں ان کو چپ رہنے اور وقت کے دھارے کے مطابق چلتے رہنے کا کہا جاتا، لیکن وہ کہاں ماننے والی تھیں، وہ کہتیں
مجھے طوفانوں حوادث سے ڈرانے والو حادثوں نے تو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے
اس کے علاوہ جو کارکنان آپس کی رنجش اور چپقلش کی وجہ سے تحریک سے دور ہو جاتے، تو آپ بڑی حکمت کے ساتھ ان کی صلح کرواتیں، ٹوٹے دلوں کو جوڑتیں اور مشن تحریک کا کام کرنے پر آمادہ کرتیں، آپ ہمیشہ کہتیں کہ:
- یہ تحریک ایک تسبیح کی مانند ہے، اس کو بکھرنے نہ دو ۔
- ہمارے شیخ نے فرمایا: ادارہ منہاج القرآن حضور کا مہمان خانہ ہے۔ اس مہمان خانے کی خدمت کو اپنا اوٹھنا بچھونا بنا لو اس سے بے وفائی کبھی نہ کرنا۔
آپ کی ہمت اور مشن کے ساتھ حق و وفاداری تھی کہ تادمِ آخر اپنی گوشہ درود ڈیوٹی پر حاضر رہیں اور جمعہ کو کہہ کر گئیں کہ میں اب پیر کو آؤں گی اور وہ مر کے بھی اَمر ہو گئیں کہ پیر کو ان کا نمازِ جنازہ مرکزی سیکرٹریٹ پر ہوا۔ وہ مرنے کے بعد بھی اپنا وعدہ وفا کر کے اَمر ہو گئیں اور ان کو روضۃ الصالحین میں مدفن ہونے کا شرف ملا جس کے بارے میں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ دنیا میں صرف ایک خاتون کو اعزاز ملا جو ڈاکٹر نوشابہ مرحومہ کے حصے میں آیا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مرحومہ کی بخشش و مغفرت فرمائے، ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور اعلیٰ علیین میں بلند مقامات عطا فرمائے۔
ڈاکٹر نوشابہ حمید حیا، عظمت اور سخا کا پیکر تھیں: محترمہ ڈاکٹر توقیر رعنا
محترمہ ڈاکٹر نوشابہ حمید اس لائق تھیں کہ اتنی پیاری شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ دراصل میں پہلی بار 2018ء میں اعتکاف میں آئی تھی ان دنوں محترمہ ارشاد اقبال لاہور کی صدر تھیں انہوں نے مجھے دعوت دی کہ شہر اعتکاف میں آئیں تو سہی جب آئی تو گلہائے رنگا رنگ دیکھنے کو ملے تو پیار،محبت، شفقت و انس کا ماحول دیکھا تب سے میں اعتکاف گھر میں نہیں بلکہ شہر اعتکاف میں کرتی ہوں۔ یہ ساری خوبصورتی شیخ الاسلام کے دم قدم سے ہے۔ ڈاکٹر نوشابہ جیسی بہنوں کے دم قدم سے ہے۔ جب میں پہلی بار شہر اعتکاف میں آئی تو میری طبیعت خراب ہوگئی تو ارشاد باجی مجھے کہنے لگی کہ آپ میڈیکل کیمپ میں چلے جائیں میں نے کہا میڈیکل کیمپ میں دیکھنے والا ہوتا ہے۔ میری عادت ہے نئی جگہ سے میں تجربات اکٹھے کرتی ہوں یہاں کا ماحول اور لوگ ان کے خیالات کیسے ہیں جو تحریک کی بات کرتے ہیں تحریک ان کے اندر بھی اتری ہوئی ہے میں ان کے پاس چلی گئی ڈاکٹر نوشابہ بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا مسئلہ ہے میں نے کہا طبیعت خراب ہے بڑی شفقت سے مجھے میٹھا پانی پلایا۔ میرے مسئلہ کو سنا وہ لمحہ اس وقت بھی مجھے یاد آرہا ہے۔ تحریک ان کے اندر مجھے اتری ہوئی دکھائی دی ایسی عظیم خاتون میں سمجھتی ہوں کہ یہ تحریک کا ہی نقصان نہیں ہوا یہ عظیم ہستیوں میں سے ایک ہستی ہیں جو ہم سے بچھڑ گئی ہیں۔
اللہ رب العزت انہیں لمحہ لمحہ اور کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی ہوائیں اور فضائیں وسعت اور نور عطا فرمائے۔ ان کی ایسی بخشش فرمائے جب حشر میں اپنے قائد، مربی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سنگ عالم برزخ کا سفر طے کرکے انہیں وہ بھی منور اور نورانی مکھڑے کرائیں میری دعا ہے ان کے اہل خانہ اور ہم سب کوان کے لیے ہمیشہ مغفرت کی دعا کرنے کی توفیق عطا کیے رکھے۔ عظیم خاتون بھی ہمیں ایک عظیم بہن بھی تھیں ایک عظیم ساتھی بھی تھیں ان کے اندر ساری خوبیاں تھیں جس طرح ایک گلدستہ ہو اور مختلف پھول رکھے ہوں وہ خوشبو دیتے ہیں ان کی اپنی اپنی بہار ہوتی ہے۔ وہ ساری جہتیں ان کی ایک شخصیت کے اندر ہمیں نظر آتی ہیں۔ وہ عظمت کا پیکر بن کر حیا کا پیکر بن کر سخا کا پیکر بن کر اس دنیا سے گئی ہیں جن کے لیے اتنی تعریفیں یہاں پہ ہورہی ہیں ان کا اگلا حشر کتنا خوبصورت ہوگا اور دعا ہے اللہ کریم ان کے بے حد و حساب درجات بلند فرمائے۔
ڈاکٹر نوشابہ حمید کی ساری زندگی مصطفوی مشن کے نام وقف رہی: محترمہ عائشہ مبشر
منہاج القرآن ویمن لیگ جو آج ایک تناآور درخت کی مانند ہے آج سے 33سال قبل اس کی پنیری حضور سیدی شیخ الاسلام نے جن پیکران اخلاص و ایثار ، منبع عشق و وفا، بادہِ تسلیم و رضا کے ذریعے لگائی ان میں ایک بے حد پیاری، دلنشین ،مرقع محبت و مودت ہستی تمام ویمن لیگ کو ہمہ وقت اپنی مادارانہ مشفقانہ دھوپ ، چھاؤں میں نمو دینے والی شخصیت جو 21 جون 2021ء کو ہم سے جدا ہوئیں اور اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ آپ کی زندگی قائد تحریک اور تحریک کے نام وقف رہی ۔ آپ کی اس دار فانی سے رحلت بہت سے زندہ افراد کے لئے باعث رشک بنی،آپ کی زندگی کا مقصد مکین گنبد خضریٰ ﷺ سے تعلق کی استواری رہا۔
تحریک اور قائد تحریک سے آپ کی محبت اطاعت و ادب کے دائرے میں ایسی مقید تھی کہ آپ کا عشق کبھی جذب ومستی کا شکار ہو کر بے خود نہیں ہوا بلکہ ایک خاتون کا وقار حیاء تقدس اور ایثار و وفا ہمیشہ آپ کے پیشِ نظر رہا ۔ بطور خاتون اور ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت میں شب و روز کے دائرے آپ کے جذبہ خدمت دیں کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔ آپ کی گفتار ، کردار اور رفتار کا مرکز ہمیشہ پنے قائد اور ان کے مشن سے عشق و وفا کا اظہار رہا۔ اپنے حال اور قال میں آپ سر تاپا مقام فنا فی الشیخ پر فائز رہیں۔ لاجواب شخصیت کی مالک آنٹی نوشابہ حمید کا اپنے قائد پر تیقن یقینا ہمارے لئے مشعل راہ ہے اللہ پاک انکی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔
تحریک کی اس عظیم سپاہیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے اور انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کیلئے منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام تعزیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی وفا کا ، ایمان کا یقین کا اور استقامت کا ذکر ہوگا۔
اپنی حیات کے آخری چند سالوں میں سرپرست ویمن لیگ ڈاکٹر نوشابہ مرحومہ گوشہ درود و سلام میں حصہ خواتین کی منتظمہ کی ذمہ داری ادا کر رہی تھی ہمہ وقت درود وسلام کے گجرے پرونا۔ ویمن لیگ کی نعت خواں ذمہ دار سے خصوصی نعت سننا ہم سب کو باقاعدگی سے گوشہ درود میں آکر درود و سلام پڑھنے کی تلقین کرنا ان کا محبوب ترین شیوہ تھا۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
چرخ وفاکا مہر درخشاں نہیں رہا
اک بہترین مشفقِ و دوراں نہیں رہا
اس کے کمال فن کے ہیں چرچے جگہ جگہ
یعنی فسانہ رہ گیا عنواں نہیں رہا
اس بلبِل چمن کو چمن میں نہ ڈھونڈیئے
تاجِ سخن پہ جو تھا غزل خواں نہیں رہا
شہر سخن نہ ایسے میں کیسے ادا س ہو
تھا اس کو جس پہ فخر وہ انساں نہیں رہا
روحانی رشتوں کی کہکشاں میں زندہ رہیں اور آج جب وہ ہم میں موجود نہیں تو ان کے ذکر کو کرنے اور ان کی تذکیر سے جڑنے ان کے اخلاص کی ڈور سے مضبوطی سے بندھے اس کہکشاں کے چاند اور ستارے آج کی نشست میں شریک ہیں۔
ڈاکٹر نوشابہ حمید ہماری وہ عظیم بہن ہیں جو ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں: محترمہ آسیہ سیف قادری
آج جہاں ہمارے لیے بہت ہی غم و الم کا وقت ہے وہاں ہمارے لیے مرغوبیت کا بھی موقع ہے۔ ڈاکٹر نوشابہ حمید کی پوری زندگی مشن تحریک کے لیے قائد تحریک کے لیے، منہاج القرآن کے لیے خدمات میں گزری۔ کس قدر شاندار انداز میں اس کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ بلا اختیار دل سے دعا نکلتی ہے۔ اللہ رب العزت جس طرح ان کو دنیا میں خوبصورت زندگی دی اللہ رب العزت اخروی زندگی کی منزلیں بھی اعلیٰ اور آسانیاں پیدا فرمائے۔ میں باجی جان فضہ حسین قادری کی موجودگی میں اپنے قائد سے بھی اظہار تعزیت کرتی ہوں کیونکہ وہ قائد محترم کی بہت ہی مخلص پرانے ساتھیوں میں سے عظیم بہن ہیں۔ وہ جب سٹیج پر بیٹھی نظر آتیں تو دل کو سکون ملتا تھا ان کا حسین سراپا ان کی خوبصورتی پروقار شخصیت اللہ تعالیٰ نے ان کو شفقت عطا کی ایک شفیق انداز تھا کہ دل خود بخود چاہتا تھا وہ جہاں نظر آتیں اٹھ کر ان کو سلام کریں۔ ان کی دعائیں لیں، میں نے منہاج القرآن ویمن لیگ میں اتنی شفیق ہستی کسی کو نہیں پایا۔ شاید ہی سینئر، جونیئر منہاجینز میں سے کسی کو ان سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ ان کو دیکھ کر دل کلی کی طرح خوش ہوجاتا تھا۔ اتنی محبت سے ملنا جیسے بچھڑے ہوئے پیار سے ملتے ہیں۔ یقین کریں کہ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی وہ ان عظیم شخصیات میں ہیں جو ہمارے لیے سرمایہ افتخار تھیں جو منہاج القرآن ویمن لیگ کی پہچان تھیں۔ وہ بہت اچھی شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ پیکر عظمت و استقامت تھیں۔ وہ ہر پروگرام میں خواہ اس کی نوعیت مذہبی ہو سیاسی ہو وہ شانہ بشانہ مردوں کے ساتھ نظر آئیں۔ اعتکاف میں میڈیکل کی طبی خدمات سرانجام دیتے نظر آتی تھیں انہوں نے کبھی اپنی صحت کی پرواہ نہیں کی۔ ان کی زندگی ان کا اوڑھنا، بچھونا اور ان کا عشق منہاج القرآن تھا۔ شیخ الاسلام کی محبت و عقیدت ان کے دل میں ایسی رچی بسی تھی کہ کسی اور چیز کا تصور ہی نظر نہیں آتا۔
محترمہ شفق مزمل (فیملی ممبر ڈاکٹر نوشابہ حمید): ڈاکٹر نوشابہ حمید نے ساری زندگی تحریک منہاج القرآن کے نام وقف کردی
ڈاکٹر نوشابہ نے اپنی ساری زندگی تحریک منہاج القرآن کے لیے وقف کردی۔ میری شادی کو 23 سال ہوئے ہیں۔ تب سے دیکھ رہی ہوں انہوں نے نہ دن دیکھا نہ رات ہم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک عورت کا گھر سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ واقعی ان کے کردار کی پختگی تھی ان کی فیملی کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط تھا کہ وہ دن رات مشن کے لیے نکلتی تھیں دوسرے شہروں میں تھی وزٹ کرتی تھیں۔ وہ بے لوث ہوکر مشن کے کام میں لگی رہتی تھیں۔ میرے سسر ضیاء الدین ضیاء صاحب ان کو بھابھی عارفہ صاحبہ انہوں نے ان کو بہت سپورٹ کی کہ وہ اس مقام پر آئیں کہ گھریلو ذمہ داریاں ان پر نہیں ڈالی گئی ہمیں علم تھا کہ وہ دین کے کام میں مصروف ہیں وہ کردار کی اتنی مضبوط تھیں کہ فیملی میں بھی کسی نے بھی انگلی نہیں اٹھائی۔ ساری فیملی کے لیے وہ رول ماڈل رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت محبت دی۔ میری بچوں سے اتنی محبت کی میرے بچوں کو کبھی ڈانٹنے نہیں دیتی تھیں مجھے نصیحت کرتیں کہ ان کو پیار سے سمجھاؤ۔ نماز کے لیے بھی پیار سے کہو بچے ان کی کمی کو محسوس کررہے ہیں۔ یہ ہماری فیملی کے لیے بہت بڑا خلا ہے اور تحریک منہاج القرآن کے لیے بھی اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کے لیے آسانیاں فرمائے۔ آمین