ہر دور میں اولیاء کاملین اور رجال صالحین کے تذکرے مرتب ہوتے رہے ان تذکروں سے محبت و خشیت، زہدو ورع، صبرو رضا اور اخلاص و توکل جیسے اوصاف پیدا کرنے کی تحریک جنم لیتی ہے۔ تاریخ اسلام کے ہر دورمیں صحابہ کرام سے لے کر آ ج تک اللہ والوں کا تذکرہ کرنا، ان کے حالات و واقعات، احوال و کیفیات، ریاضات و مجاہدات، مشاہدات و کمالات اور اقوال و فرمودات کا بیان کرنا ہر صاحب ایمان و محبت کا محبوب عمل رہا ہے۔
یہ مقبولان الٰہی و قوع قیامت تک اپنی روحانی برکات سے اہل عالم کو متمتع کرتے رہیں گے۔
حضور ﷺ نے انہی کی شان میں ارشاد فرمایا ہے
’’میری امت کے علماء ربانین (من وجہ) بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں‘‘۔
بے شک امت مسلمہ میں کچھ نفوس قدسیہ ایسے ہیں جنہیں:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
(آل عمران، 3: 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
کے راز محبت نے سراپا اتباع بنا دیا جنہیں
یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ.
(آل عمران، 3: 114)
کی خبر نے اعمال صالحہ کی لذت و حلاوت سے آشنا کیا جنہیں
وَجَاهِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِهَادِہٖ.
(الحج، 22: 78)
’’اور (خاتمۂ ظلم، قیامِ اَمن اور تکریمِ اِنسانیت کے لیے ) اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔‘‘
کی نگاہ نے اطاعت الہی میں ریاضیات و مجاھدات کے لئے منتخب کر لیا، جن کے دلوں میں
اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ.
(الانفال، 8: 2)
’’جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔‘‘
کے سرور آفریں کلام نے احوال و کیفیات کے دریا موجزن کر دیئے ۔ جن سے
تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.
(السجدة، 32: 16)
’’ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔‘‘
کی لذت آ فریں ندا نے رات کے بستر چھین لیے ۔ جنہیں
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا.
(آل عمران، 3: 191)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔‘‘
کے پر کیف بیان نے ہر گھڑی یاد محبوب میں مستقرق کردیا ۔ جنہوں نے
هَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ.
(الصف، 61: 10)
’’کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتادوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟۔‘‘
کی خوشخبری سن کر اپنی جان و مال، راحت و آرام الغرض ہر چیز کا اللہ سے سودا کرلیا۔
ایسی بہت کم شخصیات ہوتی ہیں جو اس مادیت پرستی کے دور میں درج بالا صفات کی حامل رہی ہوں۔ انہی میں سے ایک ایسی شخصیت صاحبزادہ مسکین فیض الرحمٰن درانی مدظلہ العالی رحمتہ اللہ تعالی کی ہے جنہوں نے ہر غیر کی طرف سے منہ موڑ لیا اور توکل و رضا کے کوہ گراں بن گئے۔ آپ کو تصوف پر بے حد عبور حاصل تھا۔ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ آ پ کی وابستگی 1983ء سے تا وصال تک رہی آپ کی خدمات تحریک منہاج القرآن کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہیں آپ کا تقویٰ و پرہیز گاری کی مثالیں تحریک کا ہر بندہ دیتا ہے آ پ جیسا با عمل انسان جس کے قول و فعل، علم و عمل میں تضاد نہ ہو شاید ہی کوئی ہو آ ج بھی جب آ پ کا نام لیا جاتا ہے تو ادب و احترام سے لوگوں کی نظروں سے ادب و احترام جھلکتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ آپ کی محبت فقیدالمثال تھی۔
آپ شخصیت کے اعتبار سے انسان دوست بھی تھے آپ کے پاس لوگ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی لیے گھنٹوں آپ کی صحبت میں بیٹھے رہتے مردہ دلوں کے لیے آ پ کی مثال ایسی تھی کہ گویا وہ دور دور تک زمینوں کو سیراب تو نہیں کرپاتے تھے مگر جو پیاسا آپ کے پاس آتا اسے ضرور سیرابی نصیب ہو جاتی تھی اور ان کے گردو نواح میں ہریالی اور شادابی آجاتی ان کے دل خشیت الہیٰ سے لرز جاتے تھے۔ آپ اخلاص، محبت، امن، بقائے باہمی اور انسان دوستی جیسی خصوصیات آپ کے سیرت و کردار کے نمایاں پہلو ہیں۔ سیرت وکردار کا یہی بے لو ث اور محبت بھرا انداز انہیں رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ کے قریب کر دیتا تھا اور لوگ آپ سے عزت و احترام سے پیش آتے۔
آپ مسکنت کو دولت او غربت کے پیمانوں سے نہیں جانچتے تھے بلکہ دل کی کیفیات کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ آپ مسکینیت کے وصف کو حضور ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کے مطابق بیان کرتے ہیں۔
’’رسول ﷺ کی دعا: اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکینی کی حا لت میں اپنے پاس بلا اور قیامت کے دن مجھے مسکینوں کے ساتھ اٹھا ۔‘‘
مسکین صاحب نے تحریک کی خدمات کو جتنے خلوص اور شفقت سے سر انجام دیا اور جس وسیع پیمانے پر اس کام کی انجام دہی میں لوگوں کی مدد اور رہنمائی کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان کے کارناموں سے ان کے مجاھدات، ان کی خدمات اور ان کی تعلیمی و تربیتی کوششوں سے واقفیت آج بھی شخصیت کی تعمیر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی تحریک میں خدمات کے اعزاز میں آپ کو روضۃ المخلصین میں دفن کیا گیا۔ اتباع رسول ﷺ میں ڈوب کر زندگیاں گزارنے والے یہ جلیل القدر لوگ اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین شخصیات ہوتی ہیں جن کی رضا کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا سے تعبیر فرماتا ہے۔ آپ کی برسی کے موقع پر دعا ہے کہ اللہ پاک مسکین فیض الرحمن درانی کو جنت کے باغوں میں جگہ دیں اور آپ کا فیض اسی طرح آپ کے لواحقین کو عطا ہوتا رہے۔ آمین۔