ٹھہرے پانی میں بھاری پتھر۔۔۔۔۔
میمو ایشو حسین حقانی کو امریکہ سے واپس لے آیا مگر ابھی یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا اس لئے اقتدار کے ایوانوں میں اندر خانے ہلچل موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے این آر او کے حوالے سے فیصلہ دے کر مقتدر پارٹیوں کے لئے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ سیاسی گرما گرمی کا گراف بڑھ رہا ہے۔ مختلف پارٹیوں کے جلسے تواتر سے جاری ہیں۔ ایک پارٹی میں ایسوں کو بھی جمع کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے جو مقتدر پارٹیوں میں بوجوہ جگہ نہ بناسکے اور اب دانے دُنکے کی آس پر ’’محفوظ‘‘ چھتری تلے آن بیٹھے ہیں تاکہ سیاسی تنہائی کی ژالہ باری سے محفوظ رہ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ سکیں۔ اس گہما گہمی میں 19 نومبر کو ناصر باغ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے موجودہ نظام انتخاب کے خلاف بغاوت کی کال دے کر سیاسی جغادریوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کا خطاب ٹھہرے پانی میں بھاری پتھر سے کم نہ تھا۔ انہوں نے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے بیداری شعور طلبہ اجتماع سے کینیڈا سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کیا۔ بلاشبہ ناصر باغ میں طلباء و طالبات کا اتنا بڑا اجتماع اس سے قبل نہیں دیکھا گیا اردگرد کی شاہراہیں طلباء اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے باعث جام ہوچکی تھیں اور داتا صاحب اور چوبرجی تک بسوں کی لائنیں لگی تھیں جو اس بات کی چغلی کھارہی تھیں کہ پورے پاکستان سے ایک لاکھ کے قریب علم کے پیاسے شیخ الاسلام کو سننے آئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ ملک و قوم کا دشمن کرپٹ اور اجارہ دارانہ نظام انتخاب ہے اور پاکستان کی سیاست اس کے قیام سے اب تک چند خاندانوں سے باہر نہیں آسکی۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی فوج کے ذریعے آئے گی اور نہ موجودہ نظام انتخاب کے تحت ہونے والے الیکشنوں سے۔ موجودہ نظام کے تحت قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 10 سے 25 کروڑ روپے سے لڑا جاتا ہے۔ ایک جلسے پر بھی کروڑوں کا بجٹ صرف ہوتا ہے جب تک موجودہ انتخابی نظام موجود ہے تبدیلی کبھی نہیں آئے گی بلکہ ریاست مفلوج ہوتی چلی جائے گی۔ انتخابات کی رسم کو جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان میں Fair and free الیکشن تو ہوتے نہیں ہیں اب قوم کے پاس دو چوائسز ہیں موجودہ نظام کو بچالے یا ریاست کو۔ اگر ریاست بچانی ہے تو موجودہ انتخابی نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی۔ عوام موجودہ نظام انتخاب کو مسترد کردیں کیونکہ تبدیلی کا یہ واحد راستہ ہے، بندوق سے بھی کبھی تبدیلی نہیں آسکتی اس راستے سے انارکی پھیلے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اب جمہوریت صرف گڈ گورنس کا نام نہیں بلکہ اسے جمہوری حکمرانی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت بنانے کا پراسس بھی جمہوری ہے اور انداز حکمرانی بھی جمہوری ہے۔ وہاں عوام کو کسی سطح پربھی نظر انداز نہیں کیا جاتا اور جمہوری سسٹم کے اندر احتساب کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ہمارے یہاں تو قومی اداروں کے ذمہ داران کو حکومت بدلتے ہی بدل دیا جاتا ہے اور سیاسی تعیناتیاں کردی جاتی ہیں جبکہ UK، امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، وہاںطویل مدتی، وسط مدتی اور مختصر مدتی پالیسیاں حالات کے مطابق تشکیل دی جاتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری پراسس اور گورننس دونوں نہیں ہیں۔ یہاں کرپٹ سسٹم کو بچانے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ ہم نظام بچانے کے لئے ایک ہیں۔ یہ مفادات کی سیاست کو بچانے کے لئے اقدامات ہیں اور کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگلے الیکشن میں تھوڑا اوپر نیچے ہوگا۔ پنجاب میں ایک چھوٹا گروپ اور آجائے گا۔ بلوچستان سندھ میں پوزیشن تقریباً وہی رہے گی تھوڑے فرق کے ساتھ خیبر پختونخواہ میں بھی ایسے ہی ہوگا۔ کسی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ ہوگی حتی کہ دو پارٹیاں مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آئیں گی۔ 5، 6، 7 پارٹیوں کو ملا کر پارلیمنٹ بنے گی۔ کمزور حکومت ہوگی نہ منشور ایک اور نہ نظریات، صرف اقتدار کا مفاد انہیں جوڑے رکھے گا۔ اتحادی جماعتیں اقتدار بچانے کی جدوجہد اور اپوزیشن انہیں گراکر اگلے الیکشن کے مطالبے پر لگی رہے گی۔ یہ کھیل تماشا طویل مدت سے جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گا۔
قوم اگر نظام کے خلاف بغاوت نہیں کرتی تو یہ سب کچھ الیکشن کے بعد آنکھوں سے دیکھ لے گی۔ مغربی ممالک میں تو پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت اور خود احتسابی کا نظام ہے، پاکستان میں پارٹیاں افراد اور خاندانوں کی گرفت میں ہیں۔ قوم موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کردے کیونکہ پارٹیاں بغاوت نہیں کریں گی۔ ان کے سیاسی مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں۔ عوام مصر اور تیونس کے لوگوں کی طرح باہر نکل آئیں اور نظام کوٹھکرادیں۔ موجودہ انتخابی نظام حسنی مبارک، شاہ تیونس اور رضا شاہ پہلوی ہے۔ پاکستان میں اس نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی۔ قوم جب باہر نکل آئے گی تو اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ ابھی صرف طلبہ کو کال دی ہے قوم کو مینار پاکستان کی کال بھی دونگا اور وقت آنے پر ملک میں آ کر عوامی انقلاب کی قیادت کروں گا۔
موجودہ نظام کے تحت سپریم کورٹ فیصلے دینے میں تو آزاد ہے مگر عمل درآمد کرانے میں مقید ہے۔ایک وقت میں تو سپریم کورٹ پر حملے بھی ہوئے ہیں۔
موجودہ نظام کے تحت منتخب ہونے والوں نے اس قوم کو خودکشیاں، بیروزگاری اور ملک و قوم کے وقار کی بربادی دی ہے۔اس ملک کی نہ کوئی خارجہ پالیسی ہے نہ داخلہ ہماری خود مختاری کو گرہن لگ چکا ہے۔مغرب میں 2پارٹی سسٹم اس لئے کامیاب ہے کہ وہاں مواخذے کا نظام سخت ہے مگر ہمارا الیکشن کمیشن تو نابینا ہے۔
موجودہ انتخابی نظام میں ووٹر کی رائے کا احترام نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کے کلچر میں منشور اور جمہوری روح موجود نہیں ہے۔یہاں مقتدر طبقہ عوام کے ووٹ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
پاکستان بیرونی ممالک کی کالونی بنا دیا گیا ہے۔پارلیمنٹ کل بھی ربڑ سٹیمپ تھی آج بھی وہی حال ہے۔ایک ایشو پکڑ کر سیاست کا گھنائونا کھیل اس لئے کھیلا جاتا ہے کہ موجودہ نظام اسے سپورٹ کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے واشگاف الفاظ میں طلبہ کے ذریعے پوری قوم کو بتادیا ہے کہ الیکشن کی رسم کے سراب کے پیچھے نہ بھاگیں کچھ نہیں ملے گا۔ اگر عوام ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو نظام کے خلاف بغاوت کردیں۔ انہوں نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کہا کہ وہ نظام کے خلاف ان کی آواز کو عوام تک پہنچانے میں ذمہ دارانہ اور مخلصانہ کردار ادا کرے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سیاست کے ایوانوں میں سسٹم کے خلاف جو طبل بجایا ہے اس نے یقینا اس نظام کے محافظوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔ اسی تسلسل میں وہ لیاقت باغ میں بیدارئ شعور عوامی ریلی سے 18 دسمبر کو خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ یہ جلسہ عوام پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے لئے ایک بنیاد ثابت ہوگا۔ سیاست کی گرما گرمی میں ایک آواز ایسی بھی شامل ہوگئی ہے جو روایتی الیکشن کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسارہی ہے۔ عوام کو اس آواز کو نہ صرف سننا ہوگا بلکہ اس پر عمل درآمد کرکے ملک میں حقیقی تبدیلی کی منزل کو حاصل کرنا ہوگا۔