اینٹی کرپشن ڈے پر خصوصی تحریر
سر زمینِ حجاز پر مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گلیوں میں عمیق خامشی چھائی ہوئی ہے۔ خلیفتہ المسلمین عوام کے حقوق کے امین ان الحق علی لسان عمر و قلبہ کی شان کے حامل عادلِ اکبر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ خراماں خراماں گشت فرما رہے ہیں مبادا کہیں کوئی حاجت مند مدد کا طلبگار نہ ہو، کہیں کوئی مستحق اپنے حق سے محروم نہ ہو۔ آپ اپنے معمول کے مطابق مشاہدہ فرما رہے ہیں کوئی شہری کسی ابتلاء کا شکار تو نہیں، کوئی ذمی کسی ظلم کا شکار تو نہیں۔ ایسے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کسی خاتون کے رونے کی آواز نے چونکا دیا۔ آپ نہایت سرعت سے اس گلی کی طرف دوڑے جہاں سے آواز آ رہی تھی نا گاہ دیکھا کہ ایک خاتون بوتل پکڑے زمین کو گھورتے ہوئے مسلسل اشک فشاں ہے۔ آ پ فوراً گویا ہوئے: معزز خاتون کیا ہوا؟ کوئی مشکل آن پڑی؟ کوئی مسئلہ ہوگیا ہے؟ مجھے بتلائیے! خاتون نے ہمت کرکے عرض کیا: گھر میں چراغ جلانے کیلئے تیل لیکر جا رہی تھی کہ اچانک پاؤں پھسلنے سے سارا تیل گر گیا تو زمین نے میرا تیل جذب کر لیا ہے۔ اب روتی ہوں کہ گھر خالی ہاتھ جاؤں گی تو اجالا کیسے ہوگا اور پیسے بھی نہیں کہ دوبارہ تیل خرید لوں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا جلالِ فاروقی رضی اللہ عنہ جوش مارنے لگا آپ نے اپنا قدم مبارک زور سے زمین پر مارا اور فرمایا: اے زمین ! کیا عمر نے تجھ پر عدل کرنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا عمر تجھے تیرا حق نہیں دیتا جو تو نے دوسروں کا حق مارنا شروع کر دیا ہے؟ اس بارعب فرمان کا جاری ہونا تھا کہ زمین لرزی اور اس نے سارا تیل اگل دیا۔ آ پ نے فرمایا: اے معزز خاتون! لیجیے اپنا تیل ڈال لیجیے۔ خاتون نے ایسے تیل اٹھا لیا جیسے ایک برتن سے دوسرے برتن میں انڈیلا جاتا ہے۔ آپ نے لب مبارک وا کیے، فرمایا: بہن، آ ئیندہ بھی کوئی مشکل آن پڑے تو عمر حاضر ہے۔ سبحان اللہ!
تاریخ عدلِ فاروقی رضی اللہ عنہ ا ور ہیبت و جلالِ عمر رضی اللہ عنہ کی ایسی بیشمار مثالوں سے بھر ی پڑ ی ہے کیونکہ جب بندہء مومن حکمرانی کے ایسے انداز اپناتا ہے کہ انسان تو انسان بہائم چرند و پرند شجر و حجر خشک و تر سب کوان کے حقوق عطا ہوتے ہوں تو سب مخلوقات بھی پھر اس کے حکم کی پابند ہو جاتی ہیں۔ حکم عدولی کی مجال نہیں رہتی سب اطاعت کی پیکر ہو جاتی ہیں۔
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
قارئین! آ جکل پوری دنیا میں ا نسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والے چھوٹے بڑے تمام ادارے اینٹی کرپشن ڈے کو منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی اقوام متحدہ کے ذ یلی ادارہ برائے منشیات اور جرائم کے تحت مختلف میٹنگز، کانفرنسز کے اعلامیے اور مذمتی قرار دادیں پاس کروانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں۔ 9 دسمبر کو پورے عالم میں موجود کارکن انسانی حقوق کو ضبط کرنے والی ان کالی بھیڑوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جو معاشرے کی بنیادوں میں گھسں کر انہیں کھوکھلا کرنے کی ناپاک کو شش کرتی ہیں۔ اسکے لیے وہ طرح طرح کے انداز اپناتے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں حد سے گذر جانے والے غیر مہذب افراد کی حوصلہ شکنی کے لیے وہ سکوت، چہل قدمی، پیغام رسانی غرض تمام آڈیو، ویڈیو مواد کے ذریعے بھرپور طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔
ان تمام احتجاجی سرگرمیوں کا ماحصل یہ ہوا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے کسی بھی معاشرے کے مقہور و مظلوم طبقات کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی نہ صرف جرات نصیب ہو ئی ہے بلکہ وہ فخر سے ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں جو انکے مقصد کو پانے کا وسیلہ بن سکتی ہیں۔ اب ہر طرف مواخذے کی ایسی تحریک چل پڑی ہے جس نے عام آدمی کو بھی اس قابل کر دیا ہے کہ وہ منفی کاروائیاں کرنے والے عوام و خواص سب کا گریبان پکڑ سکے، یقینا یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔
قانونیت و لاقانونیت کی ٹکر تو ازل سے اس صفحہ ہستی پر موجود انسانوں میں جاری رہی ہے مگرعصر حاضر میں عالمی سطح پر سماجی اور سیاسی کرپٹ عنا صر سے نپٹنے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کا عوامی شعور بھی بلاشک و شبہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیے ہوئے اسلامی معا شرے کا قانون ہے۔
ہر معاشرے میں کرپٹ افراد قومی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ذاتی مفاد کی خاطر انفرادی اور اجتماعی ہوا و ہوس کی تسکین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصی طور پر اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد بظاہر جمہوریت کا لبادے اوڑھے ہوتے ہیں اور بڑی مہارت و مکاری سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے بنیادی حقوق تک ضبط کرلیتے ہیں۔ باطن کا بوجھ ایسے لوگوں سے ایسی ایسی بھونڈ ی حرکات کرواتا ہے جو آخری حد تک غیرانسانی ہوتی ہیں۔ رشوت، چوری، ڈاکہ زنی، غبن، کالا دھن، اسمگلنگ حتی کہ ذاتی مفاد کے لیے انسانی قتل جیسا مکروہ فعل بھی کر گزرتے ہیں۔ یوں جرائم کی ایک طویل فہرست اپنے کھا تے میں لکھواتے چلے جاتے ہیں۔ ان منفی کاموں کے لیے وہ دور جدید کی تمام مشنریز اور تکنیکوں کو اس طریقے سے بروئے کار لاتے ہیں کہ پکڑے جانے کا کوئی امکان تک نہیں رہتا۔ مگر قدرت خود ایسے اسباب ضرور پیدا کرتی ہے کہ ظالموں اور جابروں تک عوام اور قانون کی رسائی ہوسکے۔ لکل سوء حد کرپشن کے ماسٹرز اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے اپنے مکر و فریب کے ذریعے ایسا مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیتے ہیں کہ جس تک پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا لیکن ڈھونڈنے والے بھی غضب کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ بھی بڑی تندہی کے ساتھ ایسی مہارت استعمال کرتے ہیں کہ خود اپنے ہی جال میں صیاد آ جائے۔
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
یورپ سے لیکر تیسری دنیا کے ممالک تک شاید ہی کوئی قوم ملک یا جزیرہ کرپشن کی لعنت سے بچا ہو، بہر حال ہر جگہ اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں تو عوام نے خود ہی کرپشن کے بڑے لٹیروں کی اچھی خاصی دھلائی کر دی جیسے یوکرائن کے کرپٹ ایم پی اے کو عوام نے خود اٹھا کر کوڑا کرکٹ میں ڈال دیا۔ چین کا ایکتکون مسٹر Liu Han بڑے بڑے کرپشن کیسز میں ملوث نکلا جن میں انسانی قتل جیسا درد ناک فعل بھی شامل تھا۔ چین نے اس کے لیے سزا ئے موت کا حکم جاری کیا۔ ایک اور ٹائیکون مادام Wu Ying کو بھی یہی سزا ملی۔ اگر بات سر برا ہان مملکت کی کی جائے تو بڑے بڑے ممالک کے صاحبان اقتدار پر کرپشن کے الزامات لگے۔ جن میں سے کئی ثابت بھی ہوئے اور سزا بھی ملی۔ کئی ابھی بھگت رہے ہیں۔ ان ممالک میں روس، فرانس، برازیل، ترکی، ساؤتھ کوریا اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ یہاں اگر تھوڑا سا فرق کرلیا جائے تو مدعا تک پہنچنا یقیناً آسان ہوگا۔ میرے ناقص خیال کے مطابق غیرمسلم برادری اور ممالک میں تو جزا و سزا کے انسان کے تجویز کردہ قانون ہیں جہاں ضرور سقم موجود ہیں، مگر اسلامی ممالک کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پا س صحیفۂ انقلا ب قرآن مجید اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صو رت میں مکمل قانون موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ الوہی ہدایت نے انہیں مکمل ضابطہ حیات دیا ہے۔ مسلم دنیا کے خواص و عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ معا شرے میں کسی بھی شخص یا ادارے کے حسن عمل یا سوئے عمل پر نہ صرف د نیاوی جزا و سزا ہے بلکہ اخروی منزلوں کا انحصار بھی انہیں اعمال پر ہے۔ لہذا انہیں ہر قدم پھو نک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے اسلامی دنیا میں بھی کرپشن بڑی کرو فر کثرت کے سا تھ موجود ہے۔ نتیجتاً کہیں انتظامی بدنظمی کی وجہ سے اعلی منصب داروں، جاگیر داروں، جرائم پیشہ گروہوں اور کاروباری افراد کی شرانگیزیوں سے وحشت زدہ لوگ ہیں تو کہیں نیم آمروں کے ستائے اور سہمے ہوئے لوگ اور کہیں محض نام کی جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے والے اشرافیہ کے مظالم کا شکار مظلوم عوام بکثرت موجود ہیں۔ اگر بات کی جائے وطن عزیز پاکستان کی تو الامان الحفیظ۔ جو ملک مدینہ ثانی کے لقب سے ملقب ہوا تھا اسے خدا جانے اغیار کی نظر لگ گئی یا اشرار کی فتنہ پروری کا شکار ہوا، پچھلی کئی دہائیوں سے اس معصوم ملک کے معصوم عوام پر نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے اپنا تسلط جما رکھا ہے۔ محتاط اندازے کے مطا بق 20 سے 30 اشرافیہ کے خاندانوں نے بڑی صفائی سے اندرونی کو سسٹم کے طو ر پر رائج کیا ہے جو پروان چڑھ کر اب بیرونی میں بدل چکی ہے۔ سو پڑھے لکھے مہذب عوام کئی نسلوں سے زندگی کے ہر شعبے میں اس سے نبرد آزما ہیں۔ شرفاء کے ان خاندانوں میں ایک جانا پہچانا نام خاندان شریفیہ بھی ہے جو بدقسمتی سے گذ شتہ 30 برس سے مملکتِ خداداد کو مملکتِ شریفیہ بنانے کے ناپاک منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اس خواہش کو پانے کے لیے سب سے پہلے انہوں نے سیاست کو ذاتی کاروبار بنایا پھر ملک کے وسائل کو ہتھیا لیا۔ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو اس طرح ٹھکانے لگایا کہ دنیائے کرپشن کے نہاد لٹیرے بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ نتیجے کے طو ر پر قوم کو جہالت بے روزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بدامنی، رشوت، سفارش، بددیانتی، بدمعاشی، بدنیتی، ظلم، فساد، غنڈہ گردی اور دہشتگردی کے تحفے عنائیت ہو ئے۔ اس خا ندان میں دو نامی گرامی بھائی ہیں: نواز شریف اور شہباز شریف۔
سب جا نتے ہیں کہ ان دو نوں بھائیوں نے پچھلے کئی سالوں سے وزارت عظمی اور وزارت اعلی کے مزے کو برقرار رکھنے کے لیے کرپشن کی سب شکلوں کو اپنے لیے جا ئز اور حلا ل کیا۔ دو نوں اپنی اپنی ذا ت میں تنہا ہو کر بھی پو را پو را مافیا ہیں۔
17 جو ن 2014 سے پہلے تک دونوں بھائیوں کے سیاہ کرتوت در پر دہ جاری و ساری رہتے تھے، مگر خدا کی شان 17 جون 2014 کو انہوں نے اپنی ایماء پہ منہا ج القرآن ماڈل ٹاؤن پر ظلم و بربریت کی ایسی قیا مت ڈھائی جس نے انکے مکروہ چہروں پر پڑی طنابوں کو کھینچ کر رکھ دیا۔ ساری دنیا نے انکی سفاکیت کو کئی گھنٹوں تک ٹی وی سکرین پر دیکھا۔ بھلا ہو پاکستانی میڈیا کا جس نے بڑی جواں مردی سے براہ راست دی۔ درد دل رکھنے والے پاکستانیوں نے ظلم و ستم کے اس انوکھے واقعہ کوجس میں معصوم نہتے شہر یوں، معزز خوا تین اور بچوں کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا نام دیا) یقینا اس دن ہلاکو خان و چنگیز خان کی روحیں بھی عرق ندامت سے بھیگ گئی ہوں گی، بس تب سے اب تک انکا ہر دن زوال کا دن ثا بت ہو رہا ہے!
بڑے بھائی کو پانامہ کیس کے سلسلے میں پاکستان کی سب سے اعلی عدلیہ نے کذب و بد دیانتی کا سرٹیفیکیٹ دیکر گھر روانہ کر دیا ہے۔ اسطر ح بڑے میاں صاحب کو وزارت عظمی سے ہا تھ دھونے پڑے، جسکی ہر طر ف خوب جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ بڑے میاں بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ! میاں شہباز شریف صاحب، جو خود کو خادمِ اعلی کہلوانا پسند فرما تے تھے، مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد عوام الناس نے ان کی اس خواہش کا احترام کرنے کی بجائے انہیں قاتلِ اعلی کے لقب سے یاد کرنا شروع کر دیا ہے۔ ویسے تو دونوں بھائی ٹیکس چوری، غبن، دھاندلی، بلاوجہ قرض معافی، غنڈہ گردی اور رشوت خوری جیسے بیشمار کیسز میں مطلوب ہیں۔ ان کیسز سے جان چھڑانے کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں جس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں، مگر ماڈل ٹاؤن سانحہ ایسا کیس ہے جس کے مدعی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور انکے کارکنان ہیں، جن کے عزم و ہمت، جرات و بیبا کی، حمیت و غیرت اور استقلال و استقامت کا زمانہ معترف ہے، ایسے مدعیان سے تو جان چھڑائے نہ چھوٹے۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ بارہا دونوں بھائی بمعہ اہل و عیال نو رانی پوشاک پہنے، معصوم چہرے بنائے، حرم پاک کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ اقبال نے یقینا ایسے ہی بے ضمیر وں کے لیے کہا ہے :
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
پھر جب انیس الغریبین، محب الفقرا والغر باء، یتیموں کے ملجا و ماوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضو ر حا ضری دیتے ہیں تو حریم ناز سے یہ آ واز
ضرور انکے مردہ ضمیروں پر تا زیانہ بن کرگر تی ہو گی:
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بےپرواہ تیرا
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر مغل پبلشنگ ہاؤس کی چھپی ہوئی فوزیہ مغل صاحبہ کی کتاب ’’امیرِ شہر‘‘ کے دوسرے ایڈیشن پر بہت احتجاج ہوا۔ اس کتاب کے سرورق پر جلی حروف سے لکھا ہوا ہے: ’امیرِ شہر عہد حا ضر کا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہباز شریف‘
استغفر اللہ !!! پناہ یزداں !!! ان محترمہ کی اسلامی تاریخ سے لاعلمی یا بےاعتنائی پر شدید دل کڑھا۔ چاپلوسی اور کاسہ لیسی کے اور بھی بڑے طریقے ہیں۔ ضروری نہیں کہ فصل ایمان کو ہی جلایا جائے۔ بہر حال سید نا عمر فا روق رضی اللہ عنہ کی شان میں یہ بیباکانہ گستا خی ارباب فکر ونظر سے تقا ضا کرتی ہے کہ اس کتا ب کا تیسرا ایڈیش نہ چھپنے پائے۔
امید ہے کہ پوری دنیا کے تکون کی طرح کرپشن کے پہاڑ شریف برادران بھی جلد دھر لیے جائیں گے کیونکہ مواخذے کا عمل جاری ہے اور امھلھم رویدا کا پیریڈ بھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس وقت کرپٹ عناصر کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں قانونی چارہ جوئی ہورہی ہے محب وطن عوام کی نظریں عدالتی کارروائی پر ہیں اگر 21 کروڑ عوام کے حقوق سلب کرنے والے استحصالی طبقہ کے خلاف بلاخوف و خطر فیصلے آئے تو ان شاءاللہ پاکستان ترقی کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا کیونکہ اب کرپشن اور پاکستان کسی صورت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
قصرِ شاہی لرزہ براندام ہے منظور قدرت کو اس کا انہدام ہے