پاکستان میں ہر دس میں سے 8 خواتین ہڈیوں کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ہڈیوں کی کمزوری ہمارے ملک کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا ابھرتا ہوا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ خواتین ایک خاص عمر کے بعد اس مسئلے سے زیادہ دوچار ہوتی ہیں جس کی وجہ جسم میں ہونے والے ہارمونل تبدیلیاں ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ مرد حضرا ت ہڈیوں کی کمزوری یعنی کے Osteoporosis کا شکار نہیں ہوتے۔ عموماً خواتین 40 کی عمر کے بعد اور مرد حضرات 45-40 سال کی عمر کے دوران اس کا شکار ہوتے پائیں گئے ہیں۔
بلاشبہ عمر بذات خود ہڈیوں کی کمزوری میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ جوان لوگ اس سے محفوظ ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ یا ہم میں سے کوئی بھی ہڈیوں کی کمزوری کو نظر انداز کرنے کے لیے بہت جوان یا بوڑھا نہیں ہے۔ ہماری نوجوان نسل جس قسم کی غذا کھا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے آج کے دور میں وہ بھی ہڈیوں کی کمزوری کا اسی حد تک شکار ہے جتنا کہ کوئی 50 سال کا بوڑھا شخص اس کا شکار ہے۔
وجوہات
ہڈیوں کی کمزوری میں جہاں بہت سے نیوٹرینٹس (Nutrients) کا کردار ہے۔ ان میں سے سب سے اہم Calcium اور Vitamin D ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے ہڈیوں کی کمزوری کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریض کی زبانوں پر یہ بات عام ہے کہ ہم دودھ پیتے ہیں پھر بھی ہڈیاں کمزور ہیں۔ یہاں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ دودھ میں موجود Calcium، دودھ کے ذریعے آپ کی خوراک کا حصہ تو بن رہا ہے مگر اس کا آپ کی ہڈیوں کا حصہ بننے کے لیے جسم میں Vitamin D کا ہونا لازمی ہے۔ Vitamin D کے بغیر Calcium جسم کے لیے ایک ایکسٹرا اجزاء ہے جس کو وہ اسی طرح جسم سے خارج کردے گا۔
ہمارے جسم کو روزانہ Calcium 1200mg چاہئے ہوتا ہے اور Vitamin-D 800-1000 1U۔ اگر ہم اپنی خوراک کے ذریعے جسم کو Calcium نہیں فراہم کریں گے تو وہ ہڈیوں میں پہلے سے موجود Calcium کو ہڈیوں سے نکال کر جسم کو فراہم کرے گا۔ جس کے نتیجے میں ہماری ہڈیاں کمزور ہوتی چلی جائیں گی۔
جہاں Calcium کے بہت سے غذائی ذرائع موجود ہیں مثلاً دودھ، دہی، چیز، انجیر سی فوڈ، سویا اور دیگر اشیاء وہی Vitamin-D کے غذائی ذرائع بہت کم ہیں۔ ان میں سے بھی ہمارے ہاں عموماً وہ خوراک نہیں کھائی جاتی اور اس کی اہم وجہ ان کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونا ہے۔
قدرتی طور پر اللہ نے انسانی جسم میں Vitamin-D بنانے کی صلاحیت ضرور رکھی ہے۔ ہماری جلد سورج کی روشنی کے ساتھ مل کر Vitamin-D بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر عمر کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور یہ وقت اور موسم پر بھی منحصر ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ڈاکٹر کے مشورے سے Vitamin-D کے کیپسول کا بروقت استعمال کیا جائے۔
خوراک کے علاوہ جو عناصر ہڈیوں کی کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں ان میں ورزش نہ کرنے کی روٹین، فیملی ہسٹری، وزن کی انتہائی کمی، کچھ ایسی ادویات کا دیرپا استعمال جو ہڈیوں پر اثر انداز ہوں، سیگریٹ کا استعمال، رجونورتی، رحم برادی اور ہارمونل تبدیلیاں شامل ہیں۔
احتیاط
بلاشبہ بہت سے ایسے عناصر بھی ہیں جن کا کنٹرول کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مگر کافی حد تک ہڈیوں کی کمزوری سے بچنا ہمارے اپنے ہاتھ میں بھی ہے۔ ہر بیماری کے آنے پر یہ سوچ لینا یا ہر بیماری کا جواز بڑھتی عمر اور وقت کو بنالینا محض آپ کی جہالت ہے۔ دراصل یہ آپ کی اپنی لاپرواہی اور اپنی جان کو اہمیت نہ دینے کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔
اپنی زندگی میں معمولی تبدیلیاں لانے سے ہی آپ بڑھتی عمر کے اس مسئلے کو ختم نہ سہی مگر کافی حد تک ملتوی ضرور کرسکتے ہیں۔
ورزش ہڈیوں کو مضبوط کرنے کا اہم ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ورزش کرنے کے لیے آپ کا جوان ہونا ضروری نہیں۔ اگر جوانی میں ہی آپ نے اپنے جسم کو ورزش کی عادت ڈالی ہوگی تو آپ کا جسم آپ کی عمر کے حساب سے اس کو تسلیم کرنے میں کامیاب رہے گا۔ مضبوط ہڈیوں کے لیے ضروری ہے کہ آپ کسی پروفیشنل کی نگرانی میں لچک (Flexibility)، مزاحمت (Resistance) اور طاقت کی ورزش کریں۔ اس کے علاوہ آپ سائیکلنگ، یروبکس، مرسک واک بھی کرسکتی ہیں۔
ورزش کے ساتھ اپنی خوراک کا بھی خیال رکھنا اہم ہے۔ تھوڑا کھائیں مگر اچھا کھائیں۔ یہ یاد رکھیں آپ کی شخصیت کافی حد تک اسی کا عکس ہے جو آپ کھاتے ہیں۔
خواتین کو چاہئے کہ 25 سال کی عمر سے ہی اپنی ہڈیوں کا سالانہ چیک اپ کروائیں تاکہ بروقت تشخیص کے ساتھ، بروقت علاج کروایا جاسکے۔ ابھی وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت کے چلے جانے کے بعد کاش میں پہلے ایسا کرلیتی کا سوچنا بے کار ہے۔ یہ جسم یہ ہڈیاں آپ کی ہیں۔ آپ کے علاوہ اس کا خیال رکھنا کسی دوسرے کا فرض نہیں۔ اگر اللہ نے آپ کو یہ جان دی ہے تو اس کو باقی نعمتوں کی طرح ہی نعمت سمجھیں اور اس کا خیال رکھ کر ہی آپ اپنے رب کا شکر ادا کرسکتی ہیں۔
اگر آپ اپنی عزت کرتی ہیں تو یہ فیصلہ بھی آپ کو ہی کرنا ہے کہ آپ نے اپنی جان کو کوڑے کا ڈھیر سمجھ کر گندبلا کھلانا ہے یا پھولوں کا گلدستہ سمجھ کر اس کی نشوونما کرنی ہے۔ آج کے بعد کوئی بھی خوراک کھاتے ہوئے ایک لمحے کے لیے سوچئے گا ضرور کہ وہ آپ کے اندر جاکر آپ کو کس حد تک فائدہ دے رہی ہے اور نقصان، خوراک کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ آپ کے لیے آسان ہوجائے گا۔