اسلام دین رحمت ہے اس میں جہاں عبادات کا جامع تصور موجود ہے وہیں معاملات کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ معاملات میں حقوق فرائض شامل ہیں۔ دنیا بھر میں 10 دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کی اہمیت اجاگر کرنا ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ واضح قوانین کے باوجود انسانی حقوق کی پامالی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ انسانی حقوق میں والدین کا مقام سب سے قابل احترام ہے چاہے مغربی معاشرہ ہو یا اسلامی والدین کے حقوق کو پورا کرنے پر زور دیتا ہے مگر موجودہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دونوں معاشروں میں دن بدن والدین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین اور اولاد کے تعلقات مغربی معاشرے کے زیرِ اثر تلخیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہ شیلٹر ہومز جو مغرب میں نظر آتے تھے وہ اب پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں اور ان ماں باپ کے لیے جن کو اولاد کی طرف سے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے لیے شیلٹر ہومز کے قیام میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں والدین اور اولاد کے تعلقات اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں رہے۔
ذیل میں لاہور میں واقع ایک شیلٹر ہوم میں چند ایسے ہی والدین سے گفتگو کی گئی جو اپنی اولاد کے ناروا سلوک کا شکار ہوئے۔ یہ گفتگو درج ذیل ہے:
- سلطانہ بیگم: میرا تعلق لاہور سے ہے اور میں 5 سال سے ادارہ عافیت میں رہ رہی ہوں شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور بچے نافرمان ہیں اس لیے انہوں نے گھر سے نکال دیا ہے جبکہ میں بیمار بھی ہوں مجھے ہارٹ کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے مجھے بولنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ میری اولاد میری دیکھ بھال نہیں کرتی اس لیے میں یہاں رہنے پر مجبور ہوں۔
- روبینہ بی بی: میں لاہور سے ہوں 4 سال سے یہاں رہ رہی ہوں میرے بچے امریکہ میں رہتے ہیں انہوں نے ہم دونوں میاں بیوی کی دیکھ بھال سے انکار کردیا ہے۔ اس لیے مجبوراً ہم میاں بیوی کو اس شیلٹر ہوم میں آنا پڑا۔
- جاوید اختر: میں سکھر کا رہنے والا ہوں اور 26 سال سے یہاں مقیم ہوں بیوی وفات پاچکی ہے بچے نافرمان ہیں میری دیکھ بھال اور اخراجات اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ اس لیے میں یہاں آگیا ہوں کہ چلو اللہ کا شکر ہے یہاں کھانا کھانے کو ملتا ہے اور اولادکی طعنہ زنی بھی نہیں سننی پڑتی۔
- میاں شیراز: میں پہلے دبئی میں رہتا تھا جبکہ میرے بچے ابھی بھی دبئی میں رہتے ہیں اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے یہاں آگیا ہوں میں اپنا دکھ کسی سے کہنا پسند نہیں کرتا مگر اولاد کی نافرمانی مجھے اکثر دکھی کردیتی ہے۔
درج بالا والدین کے علاوہ سینکڑوں ماں، باپ شیلٹر ہومز میں اپنی اولاد کے ناروا سلوک کا شکار ہوکر رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا انتہائی المناک پہلو ہے اسلام نے تو والدین کا رتبہ سب سے بلند قرار دیا۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا.
(النساء، 4: 36)
اسلام نے بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا حقیقی مسلمان ہے اور وہ ان کے ساتھ خوش معاملگی سے پیش آتا ہے والدین کے ساتھ حسن سلوک ان جلیل القدر کاموں اور عظیم کاموں میں سے ہے۔ جس کی اسلام نے ترغیب دی ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍط وَلَـلْاٰخِرَةُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلًا.
’’دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے، اور یقینًا آخرت (دنیا کے مقابلہ میں) درجات کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے‘‘۔
(بنی اسرائیل، 17: 21 )
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناًط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ کِلٰهُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا.
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’اُف‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو‘‘۔
(بنی اسرائیل، 17: 23)
مزید ارشاد فرمایا:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِج حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ. وَ اِنْ جَاهَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِهٖ عِلْمٌلا فَـلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّج ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھے طریقے سے ساتھ دینا، اور (عقیدہ و امورِ آخرت میں) اس شخص کی پیروی کرنا جس نے میری طرف توبہ و طاعت کا سلوک اختیار کیا۔ پھر میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کر دوں گا جو تم کرتے رہے تھے‘‘۔
(لقمان، 31: 14-15)
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کی خدمت کرنی چاہئے اور ان کی نافرمانی سے بچنا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
الجنت تحت اقدام الامهات.
’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔
(شعب الایمان، رقم الحدیث: 370، ص: 132)
ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اچھے برتائو کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ اس شخص نے کہا پھر پوچھا؟ فرمایا تمہاری ماں اس شخص نے کہا، پھر فرمایا تمہاری ماں اس شخص نے کہا پھر فرمایا تمہارا باپ۔
(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب البر والصلة والادب، باب برالوالدین، رقم: 5971، ص: 1186)
صحابہ اور تابعین کا کردار:
ایک شخص نے سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا۔ جس آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا اسے میں سمجھ گیا ہوں مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا.
(بنی اسرائیل، 17: 23)
سمجھ میں نہیں آیا ہے کہ قول کرم (نیک بات) کا کیا مطلب ہے؟ حضرت سعید نے جواب دیا اس کا مطلب ہے کہ ان سے اس طرح بات کرو جس طرح غلام اپنے آقا سے کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان سے اس طرح بات کرو جس طرح غلام اپنے آقا سے کرتا ہے یہ بات انہوں نے دو مرتبہ دہرائی۔
حضرت اویس قرنی کا اپنی والدہ کی خدمت کا واقعہ:
امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا:
ان خیرالتابعین رجل یقال له اویس وله والدة وکان به بیاض فمروة فلیستغفرلکم.
’’بہتر تابعین میں سے ایک شخص ہے جس کو اویس قرنی کہتے ہیں اس کی ماں ہے اور اس کو (اویس قرنی) ایک سفیدی تھی تم اس کو کہنا کہ تمہارے لیے دعا کرے‘‘۔
حضرت سعید بن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے اپنے والد گرامی سے سنا وہ فرماتے ہیں۔
شهد ابن عمر رجل یمانیا یطوف بالبیت حمل امه وراه ظهره بقول.
حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک یمنی آدمی کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کررہا ہے اور اپنی پیٹھ پر اپنی والدہ محترمہ کو اٹھائے ہوئے ہے اور یہ شعر پڑھتا جاتا ہے:
انی لها بعرها المذلل
ان اذ عرت رکابها لم اذعر
میں اس کے لیے سواری کا اونٹ ہوں جب سواروں کو ڈرایا جائے تو میں ڈرتا نہیں۔
پھر اس نے کہا اے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا نہیں اے میرے پیارے دوست تو کس غلط فہمی میں مبتلا ہے تیری والدہ نے تقریباً نو ماہ تک تجھے اپنے پیٹ میں رکھا اور قدم قدم پر آہیں بھرتی رہی ابھی تو ایک آہ کا حق بھی ادا نہیں ہوا۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ طواف میں مصروف ہوگئے اور مقام ابراہیم پر دو رکعتیں ادا فرمائیں اور پھر فرمایا! اے ابن موسیٰ مقام ابراہیم پر دو رکعتیں اس سے قبل کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ انسان جتنی بھی کوشش کرلے اپنے والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا خواہ ساری عمر بھی ان کی خدمت میں لگا رہے۔
والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لیے وعید:
وعن ابوبکرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کل الذنوب یغفر الله منها ماشاء الله الاعقوق والدین فانه یعجل لصاحبه فی الحیوة قبل الممات.
’’اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں جس قدر چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے مگر نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا بلکہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد سزا دیتا ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کرتا ہے اسے اپنے اس گناہ کی سزا اپنی موت سے پہلے اسی زندگی میں بھگتنی پڑتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا تعلق ماں باپ سے ہو یعنی جو والدین اپنی اولاد کی طرف سے نافرمانی کا دکھ سہتے ہیں اپنی زندگی میں اس اولاد کو اپنے گناہ کی نافرمانی کی سزا بھگتتے دیکھ لیتے ہیں۔ تاہم دونوں صورتوں میں آخرت کا عذاب بدستور باقی رہتا ہے کہ نافرمان اولاد محض اس دنیا میں سزا نہیں پائے گی بلکہ آخرت میں بھی عذاب کی مستوجب ہوگی۔
درج بالا آیات و احادیث والدین کے مقام کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ لہذا ہر مسلمان والدین کے حقوق کی بجا آوری میں اپنے آپ کو جوابدہ تصور کرتے ہوئے ان احکامات پر عمل پیرا ہو۔