پینل: ڈاکٹر فوزیہ سلطانہ
نازیہ عبدالستار
ظفراللہ خان کا شمار ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے قائداعظم کے ساتھ نوجوانی میں جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔ دختران اسلام کی ٹیم ظفراللہ خان صاحب کی بے حد مشکور ہے جنہوں نے اپنے قیمتی وقت سے نوازا اور ان کی قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے حوالے سے نادر گفتگو نذرِ قارئین کی جارہی ہے:
چوہدری ظفراللہ خان 14 جنوری 1933ء کو گوجرانوالہ کے گاؤں نت کلاں میں پیدا ہوئے۔ 1954ء میں انہوں نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی تعلیم امریکہ سے حاصل کی۔ ان کی اہلیہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ انہوں نے تہران سے Ph.D کی تھی۔ اس وقت محترم ظفر اللہ خان لاہور میں مقیم ہیں۔ آپ نے تحریک آزادی کی روداد جو بڑی الم ناک ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
پوری دنیا پر انگریزوں کی حکومت تھی جب انہیں جاپان نے شکست دی تو وہ سمٹنے لگے پھر برما بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ متفکر ہوگئے۔ ان کا انڈیا سے بھی جانے کا وقت آگیا۔ دوسری طرف انڈیا ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا تھا۔ قائداعظم نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہندو اور مسلمانوں کی بودوباش میں فرق ہے لہذا الیکشن کے ذریعے فیصلہ کیا جائے کہ مسلمان کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ 1940ء کو مسلمانوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دے کر یہ ثابت کردیا کہ مسلمان الگ قوم ہیں۔ اس کے علاوہ پیدائش سے لے کر مرنے تک مسلمانوں کے رسم و رواج بھی الگ ہیں۔ ہندو اور مسلم کا الگ الگ نظریہ حیات ہے۔ لہذا اس نظریہ پر پاکستان قائم کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان 27رمضان المبارک، 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آگیا۔ پاکستان دنیا کے خطے پر اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
جب پاکستان بنا اس وقت میری عمر 15 سال تھی۔ اس وقت قائداعظم نے جیل بھرو تحریک شروع کی۔ میں اور 10، 15 لڑکے اکٹھے ہوکر سنٹرل جیل گوجرانوالہ گئے۔ انہوں نے پولیس والوں سے کہا کہ ہمیں گرفتار کرو۔ پولیس والوں نے کہا کہ ابھی قائداعظم نے بڑوں کے لیے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ہے جب بچوں کے لیے کریں گے تو آپ پھر آجانا۔ یہ کہہ کر ہمیں لوٹادیا۔ مزید وہ تحریک پاکستان کے حوالے اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں وہ ہندو سکول میں پڑھتے تھے جس میں 95% بچے ہندو کے تھے۔ ہر لحاظ سے ہندو مسلمانوں سے آگے تھے۔ لیکن مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوؤں سے ڈرتے نہیں تھے۔ ہندؤں کو آتا دیکھتے ایک دوسرے کو سلام نہیں کہتے تھے بلکہ ان کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ ایک کہتا پاکستان دوسرا جواب دیتا زندہ آباد۔ بچوں اور بوڑھوں میں بھی یہی جذبہ تھا۔ یہ قائداعظم کی شخصیت کا کمال تھا۔
انہوں نے قائداعظم کی زندگی کے کچھ واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں قائداعظم کی تقریر تھی وہ عام طور پر انگریزی میں تقریر کرتے تھے۔ یونیورسٹی گراؤنڈ میں ہونے کی وجہ سے زیادہ تعداد طلبہ کی تھی وہاں ایک بابا جی سر دھن رہے تھے۔ واہ واہ، پوچھا بابا جی سمجھ بھی آرہی ہے کہا نہیں لیکن ایک بات کا یقین ہے جو کہہ رہے ہیں وہ سچ کہہ رہے ہیں پھر قائداعظم نے یہ ثابت بھی کیا جب لارڈ ماونٹ بیٹن کراچی آئے۔ انہوں نے قائداعظم سے کہا کہ امید ہے کہ آپ اپنی اقلیتوں کے ساتھ اکبر اعظم کا سا انصاف رکھیں گے۔
قائداعظم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے مطابق اقلیتوں کے ساتھ سلوک روا رکھا جائے گا‘‘۔ انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھایا جب انہوں نے کیبنٹ بنائی ایک وزیر ہندو کا بھی رکھا قائداعظم نے فرمایا: یہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہوگا بلکہ ہر ایک پاکستانی کا ملک ہوگا۔ انہوں نے ایمانداری پر جو مثالیں قائم کی ہیں وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔
جب وہ گورنر جنرل بنے تو ایک مرتبہ گورنر ہاؤس کا بل 38 روپے آیا۔ قائداعظم نے بل منگوایا کچھ چیزوں پر نشان لگائے اور کہا کہ یہ چیزیں فاطمہ جناح کی ذات کے لیے استعمال ہوئی ہیں ان کے پیسے فاطمہ جناح کے اکاؤنٹ سے لیں۔ کچھ چیزیں میری ذاتی استعمال کی ہیں۔ اس کا بل میرے اکاؤنٹ سے لیا جائے۔ باقی رقم گورنر جنرل ہاؤس کے اکاؤنٹ سے ادا کی جائے گی۔
ایک میٹنگ کے لیے قائداعظم سے پوچھا گیا کہ وزیروں کے لیے چائے کا بندوبست کرنا ہے یا کافی کا۔ فرمایا وزیر چائے یا کافی گھر سے پی کر نہیں آتے۔ ان سے کہو کہ چائے یا کافی پی کر آئیں یا گھر جاکر پیئں۔ یہ پیسہ عوام اور غریبوں کا ہے۔ یہ وزیروں کی چائے، کافی کے لیے نہیں ہے۔
تحریک پاکستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب تحریک کا آغاز ہوا تو پولیس اور فوج نے مل کر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ انہوں نے اپنے عزیزوں کا واقعہ بتایا کہ ایک گاؤں سنگھانوالہ تھا اس میں زیادہ آبادی سکھوں کی تھی۔ پانچ چھ گھر راجپوتوں کے تھے وہ مسلمان تھے۔ ہر گھر میں پانچ چھ لوگ جوان تھے۔ وہ لڑائی میں پورے گاؤں پر بھاری تھے۔ جب حملہ ہوا تو انہوں نے اپنی ساری خواتین کو جمع کیا ان سے کہا کہ دست بدست لڑائی میں تو ہم پورے گاؤں پر بھاری تھے لیکن اب پولیس، فوج اور اسلحہ ہے۔ اگر ہم ایک دو گھنٹے میں آگئے تو سمجھ لینا کہ ہم زندہ ہیں۔ ورنہ گھر میں کنواں ہے اس میں چھلانگنے لگادینا۔ ایسا ہی ہوا۔ وہ دو گھنٹے میں نہ آئے۔ خواتین نے ایک ایک کرکے کنویں میں چھلانگ لگادی۔ یہ واقعہ ان کی خادمہ نے بتایا جو پاکستان آگئی تھی۔ ان کا آبائی گاؤں جلال آباد تھا۔ ان کے تایا جان کے کچھ دوست سکھ تھے وہ ان کو صورتحال کے بارے میں بتادیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جلال آباد میں عید کے اگلے روز جب سب لوگ عید کی نماز کے لیے آئیں گے تو قتل عام کیا جائے گا اس لیے سب گھر والوں نے فیصلہ کرلیا کہ تالے لگاکر یہاں سے چلے جاتے ہیں جب شور ختم ہوگا، دو چار دن کے بعد واپس آجائیں گے پھر سارا گاؤں اٹھ گیا، سب لوگ گھوڑے اور گدھوں پر سوار ہوگئے اور چل پڑے۔ میرے ماموں بھاری بھر کم تھے۔ چلتے چلتے ان کے پاؤں میں چھالے پڑگئے۔ انہوں نے جوتے اتار دیئے، جب چھالے خراب ہوگئے تو انہوں نے کپڑا باندھ لیا۔
ایک چھوٹی بچی کا واقعہ بیان کیا کہ جو ہجرت کے دوران فوت ہوگئی تھی اس کی ماں کو کہا گیا کہ اس کو یہاں دفن کردیتے ہیں لیکن اس نے کہا میں اس کو پاکستان لے کر جاؤں گی۔ وہ اپنے گلے لگاکر میری بچی کو پاکستان لے آئی۔ لوگ پاکستان کو بہت ہی مقدس جگہ سمجھتے تھے۔ بڑی امیدیں لے کر پاکستان آئے تھے۔ سڑک پر گلہ پھاڑ کر کہتے تھے پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔
اب نوجوان نسل میں حب الوطنی کے جذبات مفقود ہونے کی وجہ ہمارے حکمرانوں کا تاجر ہونا جبکہ سابقہ حکمران کاروباری آدمی نہیں تھے۔ قائداعظم بھی عظیم آدمی تھے۔ انہوں نے بڑی دولت کمائی مگر اپنی دولت کا ٹرسٹ بناکر قوم کو دے گئے۔ ان کی تربیت یافتہ ٹیم تک کام ٹھیک رہا۔ گورنر عبدالرب نشتر کا معمول تھا وہ اکیلے چھڑی پکڑ کر باغ جناح آجایا کرتے تھے۔ لوگوں کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے۔ ان کے بیٹے جمیل جو FC کالج میں پڑھتے تھے، وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ایک دن میں سرکاری گاڑی لے کر کالج چلا گیا۔ واپسی پر میرے والد صاحب نے مجھے ڈانٹا کہ یہ گاڑی تمہارے باپ کی نہیں اور میں بھی سرکاری گاڑی استعمال کرنے کا مجاز اس وقت ہوں جب سرکاری کام ہو لہذا تم اپنی سائیکل پر کالج جایا کرو۔
اب تو حالات یہ ہیں کہ چھوٹے آفیسر کے پاس بھی تین گاڑیاں ہوتی ہیں۔ اپنے ذاتی استعمال بیوی اور بچوں کے لیے الگ الگ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ملکی خزانے کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک فاضل، عالم سیاسی بصیرت رکھنے والے آدمی ہیں۔ قوم کو ان جیسا باکردار اور مرد مومن کی ضرورت ہے۔ ظفر اللہ خان صاحب نے ایک نعتیہ کلام بھی چھپوایا ہے جس کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کی تحریر کردہ حمد ’’اے چارہ گرے شوق‘‘ بھی شامل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کے مواقع بہتر ہونے کے باوجود سیاست میں بہتری نہ آنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پڑھائی کا مقصد فوت ہوگیا ہے۔
تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے۔ طالب علم اس لیے نہیں پڑھتے کہ میں نے علم حاصل کرنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے فیس دی اور سرٹیفیکیٹ لینا ہے۔ ان حالات کے ہم سب ذمہ دار ہیں اس کا آغاز گھر سے شروع ہوجاتا ہے۔ والدین بچوں کو تعلیم و تربیت اور اخلاق سکھانے کی بجائے تین سال کے بچے کو سکولز میں بھیج دیتے ہیں۔ سکول والوں کا مقصد ہوتا ہے کہ ہمارے پاس پیسہ آئیں جیسے کہ ٹیوشن سنٹر بن گئے اگر ٹیچر پڑھائیں تو ٹیوشن سنٹر میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ماضی میں جو بچہ کمزور ہوتا ماسٹر چھٹی کے بعد اس کو ٹائم دیتے تھے لیکن اب مادیت کا دور دورہ ہے صرف پیسہ ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔
آخر میں انہوں نے اپنے قارئین کو پیغام دیا کہ وقت کی قدر کریں۔ آج اگر پیسہ نہیں ہے کل کمالیں گے۔ لیکن وقت دوبارہ نہیں آتا۔ جو شخص وقت کا صحیح استعمال کرتا ہے وہی کامیاب ہے اگر صحیح استعمال نہیں کیا تو وہ ناکام ہے پس کامیابی اور ناکامی وقت کے صحیح استعمال میں ہے۔ پیسے کے استعمال سے نہیں ہے۔