مرتبہ: نازیہ عبدالستار
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ ﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
(یونس، 10: 62)
دائرہ ولایت میں مرکز و محور حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ ہیں، ائمہ اہل بیت اطہار کے بعد دائرہ ولایت میں سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مقام مرکز کا ہے۔ ولایت کا سارا دائرہ آپ کی ولایت عظمیٰ اور غوثیت کبریٰ کے گرد گھومتا ہے۔ آپ کی ولایت سیدنا علی شیر خدا کے فیوضات ولایت کی نمائندگی کرتی ہے۔ آپ کا قدم ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر ہے۔ حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’جتنے اولیاء ہو گزرے ہر ولی کی ولایت کے لیے ایک قدم ہوتا ہے ہر ولی پیروکار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوتا ہے‘‘۔
حضور علیہ السلام کی امت میں جتنے اولیاء کرام آئے اور جتنے قیامت تک ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع ہوں گے۔ آپ ہی کی نسبت اور اتباع کے فیض سے انہیں ولایت ملی اور ان کی ولایت کو ترقی ملی پھر ہر ولی کی ولایت کے لیے انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نہ کسی نبی کا قدم یعنی اس کی ولایت کے لیے کوئی رستہ ہوتا ہے جس کو قدم کہتے ہیں۔
گویا اس نبی کا مزاج اس ولی کی ولایت میں داخل ہوتا ہے۔ اس نسبت کی وجہ سے کسی نبی کی ولایت عیسوی کہلاتی ہے اور کسی نبی کی ولایت موسوی کہلاتی ہے۔ اس نبی کی نبوت کے احوال کا رنگ، مقامات، کیفیات اور جو واردات انہیں نصیب ہوئیں اس ولی کی ولایت میں منتقل ہوتا ہے۔
حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہر ولی کے لیے جدا جدا قدم ہے مگر میری ولایت کے لیے قدم قدمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں نے دیکھا کہ بہت سے انوار میری طرف چلے آرہے ہیں اور مجھے اپنے گھیرے میں لے رہے ہیں۔ میں نے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ یہ انوار کیسے ہیں؟ مجھے پتہ چلا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے جو فتوحات مجھے نصیب ہوئیں۔ ان پر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس مبارکباد دینے کے لیے تشریف لارہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اتنے میں میرے سامنے ایک نورانی منبر بچھ گیا۔ اس منبر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہوگئے۔ اس کے بعد مجھے اپنا ہوش نہ رہا۔ مجھے آقا علیہ السلام نے اپنی بارگاہ میں طلب کیا اور مجھے حکم دیا کہ بیٹے عبدالقادر تو وعظ کیا کر لوگوں کے احوال بدلنے کے لیے سلسلہ دعوت اور تبلیغ کا آغاز کر تاکہ تیرے ذریعے دین کی تجدید ہو۔ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عجمی ہوں۔ (آپ کیونکہ ایران کے گاؤں گیلان میں پیدا ہوئے پھر عراق میں منتقل ہوئے وہاں سے تعلیم حاصل کی پھر اس کو مسکن بنایا۔ اس وقت عراق عجم میں تھا) عرض کیا آقا میری زبان عربی نہیں۔ میں دنیا کو کس طرح بات پہنچاؤں کہ میری بات ان کے باطن میں اتر جائے یہ بالکل اسی طرح کی درخواست تھی جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بلایا جہاں اللہ کا نور چمک رہا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کے اندر گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ گھبراؤ نہیں میں تیرا رب ہوں۔ غالب و حکمت والا ہوں قریب آجا۔ وحی فرمائی کہ اے موسیٰ! تو فرعون کے پاس جا تجھے منصب رسالت پر فائز کیا جاتا ہے۔
اس ظالم کو پیغام سنادے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلا اور مصر کی سرزمین پر انقلاب بپا کر۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ میری زبان میں طاقت نہیں، روانی نہیں میری زبان اتنی کھلتی نہیں کہ موثر اور بلیغ طریقے سے تیرا پیغام پہنچاؤ کہ اگلوں کے دل میں میری بات اتر جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو طاقت نسانی عطا فرمائی اور اپنے فیض الوہیت کے ساتھ نوازا۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ. وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ.
’’(موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ اور میرا کارِ (رسالت) میرے لیے آسان فرما دے‘‘۔
(طه، 20: 25-26)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا کام جو تونے مجھے سونپا ہے کہ فرعون کا تخت اُلٹ جائے اور بنی اسرائیل کو آزادی مل جائے۔ تیرا پیغام مصر کی سرزمین پر گونج اٹھے یہ کام بہت مشکل ہے آسان کردے۔ میری زبان کی جو لکنت ہے اس کو دور کردے تاکہ زبان میں روانی آجائے، پر تاثیر ہوجائے جو بات زبان سے کہوں بڑے سے بڑے کند دماغوں میں اتر کر ان کی روح تک پہنچ جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فیض الوہیت سے نوازا اور اپنے فیض سے آپ کے سینے کو منور کردیا اور آپ کی زبان کو پر تاثیر کردیا۔
اسی طرح جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالقادر کو حکم دیا کہ میرے دین کو زندہ کر اللہ کی مخلوق تک میرے دین کا پیغام پہنچا، دین کی دعوت پیش کر اور لوگوں کے احوال میں انقلاب پیدا کر اسی طرح آپ نے درخواست کی کہ آقا علیہ السلام میں عجمی ہوں میری زبان اتنی نہیں کھلتی۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے تو اپنا فیض بھی عطا کردیں کہ میں بولوں تو لوگوں کی روحوں میں ہل چل مچ جائے۔ ان کے سینوں میں میری بات اتر جائے اور ان کے احوال بدلنے لگیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے قریب کیا۔ فرمایا اے عبدالقادر اپنا منہ کھولو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا منہ مبارک کھولا حضور علیہ السلام نے سات مرتبہ اپنا لعاب دہن مبارک آپ کے منہ میں ڈالا اور جب فارغ ہوئے تو پھر سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ آگے بڑھے انہوں نے فرمایا: عبدالقادر پھر منہ کھولو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے چھ مرتبہ اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا حضور غوث پاک نے عرض کیا حضور علیہ السلام نے سات مرتبہ ڈالا ہے آپ نے ایک بار کم ڈالا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں یہ بے ادبی نہیں کرسکتا۔ عدد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر نہیں کرسکتا۔
اس سے پتہ چلا کہ سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کو نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضان بھی عطا ہوا اور علوی رضی اللہ عنہ فیضان بھی عطا ہوا۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لعاب دہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے اندر جانے کی دیر تھی کہ میرے سینے میں معرفت کے سمندر ابل پڑے اور ایسی زبان گویا ہوئی کہ پھر ایک مجلس میں سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ وعظ فرماتے ستر ستر جنازے اٹھ جاتے۔ روحوں میں ہلچل مچ جاتی، ایک اضطراب پیدا ہوجاتا۔ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
قدمی هذه علی رقبة کل ولی الله. (بحجة الاسرار)
میرا یہ قدم کائنات کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔
بعض نے اس دور کے اولیاء کرام سے پوچھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اتنی بڑی بات کیسے فرمائی؟ اولیاء کرام نے جواب دیا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں فرمائی جب وہ منبر پر کھڑے فرمارہے تھے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم تھا کہ بیٹے عبدالقادر یہ کہہ دو کہ میرا قدم تیری گردن پر ہے اور تیرا قدم سب ولیوں کی گردن پر ہے۔
حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ فیضان رسالت اور فیضان علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے امین ہیں۔
اس دور میں حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان کے امین آپ کے بیٹے حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی تھے۔ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پردادا حضرت سیدنا علی نقیب الاشراف رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت غوث علی شاہ صاحب قلندر پانی پتی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مکہ معظمہ حج کے لیے گئے۔ پہلے زمانوں میں اولیاء اللہ کا طریقہ تھا کہ وہ پوچھتے اس شہر میں کوئی اللہ والا ہے۔ اس سے ملاقات کے لیے جاتے اس میں عار محسوس نہ کرتے کہ میں ولی ہوکر ایک ولی کے پاس جارہا ہوں۔ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عمر بھر سینکڑوں، ہزاروں اولیاء کرام کی مجلسوں اور صحبتوں میں جاتے۔ فیض لیتے فیض دیتے۔
پوچھا کوئی اللہ والا ہے کسی نے بتایا ہاں مکہ معظمہ کے قریب پہاڑی پر ایک مجذوب ہے۔ آپ ان کے پاس گئے۔ وہ بڑے صاحب جلال درویش تھے سید محمد ان کا نام تھا۔ مولانا غوث علی شاہ صاحب پانی پتی فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے خاص انداز میں ان کو چھیڑا اور پوچھا کوئی رنگ تو دکھائیں اپنی جذب کا انہوں نے کہا کیسا رنگ دیکھنا چاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا کوئی دکھائیں انہوں نے سامنے اس پہاڑ پر توجہ کی۔ اس پہاڑ کا بہت بڑا ٹکڑا آپ کی نگاہ سے ریزہ ریزہ ہوکر نیچے گرگیا۔ آپ نے پوچھا آپ نے یہ توجہ کہاں سے لی۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ اور دربار کے سجادہ نشین سید محمود رزاقی رحمۃ اللہ علیہ سے لی۔ مولانا غوث علی شاہ صاحب قلندر فرماتے ہیں کہ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ہم خود بھی جاکر زیارت کریں گے اور ان سے اکتساب فیض کریں گے۔ ہندوستان واپس آئے کچھ عرصہ کے بعد تیاری کرکے بغداد پہنچے جب بغداد شریف پہنچے تو سید محمود رزاقی وفات پاچکے تھے۔ ان کے بعد معلوم کیا اب حضور غوث پاک کا جانشین کون ہے؟ تو پتہ چلا حضرت سیدنا علی نقیب الاشراف غوث پاک کے جانشین ہیں۔ حضرت علی نقیب الاشراف حضور کے پرداداد ہیں میں ان کے پاس گیا۔
حضرت مولانا غوث علی شاہ قلندر پانی پتی وہاں رہے۔ فرماتے ہیں: کچھ دنوں کے بعد میرے وفد کو واپس بھیج دیا۔ مجھے روک لیا۔ 6 مہینے تک میں ان کی صحبت میں رہا۔ فرماتے ہیں آپ نے توجہ دی جب رخصت کیا تو حضرت سیدنا علی نقیب الاشراف کی توجہ سے عالم یہ ہوگیا۔ دن رات جب نگاہ کرتا پانچ پانچ سو میل تک کشف رہتا تھا۔ ان کے صاحبزادے اور حضرت قدوۃ الاولیاء کے دادا سیدنا عبدالرحمن نقیب ہوئے۔ جب ان کا زمانہ آیا حضور سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کے دادا کا حضرت شیخ عبدالرحمن کا، اس وقت کے اولیاء بیان کرتے ہیں روحانی طور پر حضور سیدنا غوث الاعظم تشریف لائے۔ فرمایا: بیٹا عبدالرحمن میں اپنے طریقہ ولایت کی تجدید کے لیے اپنی خلافت دیتا ہوں تو سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے حضور کے دادا سیدنا عبدالرحمن کو اپنی خلقت ولایت دی پھر سے اپنے سلسلہ ولایت، طریقت اور روحانیت کا جانشین بناکر اس کی تجدید کی۔ حضور سیدنا شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ جنہیں روحانی طور پر سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے براہ راست اپنی خلقت خلافت عطا کی۔ اس کے بعد صرف ایک پشت درمیان میں حضور کے والد گرامی کی حضرت سیدنا محمود حسام الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور پھر ان کے امین سیدنا حضرت طاہر علاؤالدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ کے دادا حضرت شیخ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ کی بارگاہ میں محبوبیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے زمانے میں بغداد شریف سے میاں بیوی آپ کی خدمت میں آئے۔ عرض کیا حضرت گھر میں بڑی غربت ہے کھانے کو کچھ نہیں کاروبار بیٹھ گیاہے۔ حالات دگرگوں ہیں۔ کوئی تعویذ دے دیں ہمارے لیے دعا کریں۔ آپ مسکرائے مزاحاً فرمایا: اچھا تمہیں تعویذ بناکر دیتا ہوں بولو: ہمیں کیا دو گے انہوں نے کہا جو فرمائیں گے، دیں گے۔ فرمایا تم تو کہہ رہے ہو تمہارے پاس تو کچھ نہیں۔ کہنے لگے ہمارے پاس ایک مرغی ہے۔ وہ مرغی دے دیں گے۔ فرمایا مرغی لے آؤ مرغی منگوالی۔ حکم دیا اس کو لنگر میں ڈال کر کھلادو۔ ایک کاغذ منگوایا اس پر تعویذ لکھ دیا اور شرط لگادی اس کو کھولنا نہیں۔ مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے انقلاب آگیا۔ وہ گھرانہ جو غریب ترین محلہ میں تھا وہ محلے کا امیر ترین گھرانہ بن گیا۔ اللہ نے رزق کے دروازے کھول دیئے۔ علاقے کے اردگرد کے جو پیر تھے وہ پریشان ہوگئے یہ کون سا تعویذ بڑے پیروں سے لے آئے ہیں کہ مہینوں میں انقلاب آگیا ہے اس تعویذ کا ہمیں بھی پتہ چلنا چاہئے تاکہ ہماری دکان بھی چل پڑے۔ پیچھے پڑھ گئے یہ تعویذ کہیں سے چرا کر پڑھنا چاہئے۔ بڑی کوششیں ہونے لگیں بڑے بڑے پیروں کے حملے ہونے لگے، پڑھیں تو سہی اس میں لکھا کیا ہے؟ بالآخر بی بی کو ورغلایا گیا کہ آپ کا کام تو بن گیا ہمیں پڑھنے کو دے دیں۔ کسی سبیل سے تعویذ لے لیا اور کھولا کہ پڑھنے کے لیے کون سی آیت اور دعا ہے کونسا مبارک کلمہ لکھا ہے۔
غوث پاک کا خاندان محبوبوں کا خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی باتیں پیار سے منواتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جو میرے ناز پر قسم کھاتے ہیں تو ان کے کہنے کو اپنی تقدیر بنادیتا ہوں لوگوں نے جب تعویذ کھولا اس پر لکھا تھا اے باری تعالیٰ مرغی میں نے لے لی ہے تیری مرضی ان کا کام کر یا نہ کر۔ محلے کے پیروں نے پڑھا تو سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہے؟ اب ہم کیا لکھیں کیا نہ لکھیں مگر یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ بات تو اس تعلق میں ہے جو مولا کی ذات سے ہے جب تعلق بن جاتا ہے تو معاملہ ہی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ اگر ساری رات کھڑے رہیں، عبادتیں کرتے رہیں، ساری رات تسبیح پڑھتے رہیں لیکن اس سے چھوٹا سا چراغ بھی نہیں چلتا۔ جب تعلق بن جاتا ہے تو بندہ ایک بار اللہ کہے تو ستر بار اللہ کا جواب آتا ہے میرے بندے۔
مگر طریقت اور تصوف میں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مدار شریعت پر ہے۔ حضور غوث پاک سے آپ کی اولاد نے پوچھا ابا جان کوئی وصیت فرمادیں تو آخری وصیت جو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوح الغیب میں درج ہے۔ شریعت کے ظاہری احکام کی پابندی، تقویٰ اختیار کرنا، روزہ، حج، زکوٰۃ، حلال و حرام اور امر ونہی کی پابندی اسی کے اندر ولایت کا سارا راز ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سیدنا طاہر علاؤالدین کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
1967یا 1968ء کے زمانے کی بات ہے قدوۃ الاولیاء طاہر علاؤالدین کی بارگاہ میں ، میں اکیلا تھا اس وقت میں طالب علم تھا مجھے ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارتے۔ ایک دن میں نے عرض کیا حضور میں کس چیز کا ڈاکٹر ہوں ابھی نہ پی ایچ ڈی ہوں، ڈاکٹر کیسے بن گیا۔ فرمانے لگے آج ہمارا کاتب نہیں ہے ہم آپ کو تکلیف دیتے ہیں میں نے عرض کیا حضور فرمائیں۔ حضور فرمانے لگے ہمارے کچھ خط لکھ دو میں نے عرض کیا حضور اس سے بڑھ کر کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے ان خطوں میں سے ایک خط آیا کسی نے لکھا تھا کہ ایک شخص ولایت کا دعویٰ کرتا ہے، اپنی کرامتیں بیان کرتا ہے، کہتا ہے کہ میں ولی ہوں۔ میرے فلاں فلاں کمالات ہیں مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتا ا سکے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضور نے مجھے فرمایا: طاہر لکھو! جو شخص چاہے جتنے کمال رکھے مگر شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پابند نہیں ہے تو لکھو وہ شیطان ہے، شیطان ہے شیطان ہے۔ اس کا شریعت اور ولایت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
شریعت، روحانیت، تصوف اور ولایت کی راہ پر چلنے کا ہمارے مرشد نے سبق دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔