{فرمان الہٰی}
وَاﷲُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ج فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَآءٌ ط اَفَبِنِعْمَةِ اﷲِ يَجَْحَدُوْنَ. وَاﷲُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ط اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اﷲِ هُمْ يَکْفُرُوْنَ.
(النحل،16: 71، 72)
’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالاں کہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (یعنی بیویوں) سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے/نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا، تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں‘‘۔
(ترجمہ عرفان القرآن)
{فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم}
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الإِيْمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اﷲَ حَتَّی قُتِلَ، فَذَالِکَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَکَذَا وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّی وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَ قَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم… الحديث. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَلَفْظُهُ: وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّی سَقَطَتْ قَلَنْسُوَةُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ رضی الله عنه.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: شہداء کی چار اقسام ہیں: وہ مومن شخص جس کا ایمان مضبوط ہو، وہ دشمن سے مقابلہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرے یہاں تک کہ شہید ہو جائے۔ یہی وہ شخص ہے کہ قیامت کے دن لوگ اس کی طرف آنکھ اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آپ نے سر مبارک اوپر اٹھایا، یہاں تک کہ آپ کی ٹوپی گر گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹوپی مراد ہے یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی۔‘‘
’’امام احمد بن حنبل کی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور اتنا اوپر اٹھایا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹوپی گر گئی یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی۔‘‘
(المنهاج السوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم، ص840)