اللہ رب العزت کی شان کریمی نے ہر دور میں بنی نوع انسان کی رشدوہدایت اوراصلاح و فلاح کے لیے ایسی عظیم المرتبت ہستیاںپیدا کیں جن کے افکار ونظریات نے نہ صرف اقوام ِعالم کومتاثر کیا بلکہ آج بھی وہ طالبانِ ہدایت کے لیے چشمہ ِفیض کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شیخ جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہُ، سید قطب شہید،فارابی، ابن سینا، امام غزالی اس کارواںکے وہ نمایاں نام ہیں جنہوں نے اپنے افکار و اعمال سے امت کو حیاتِ جاوداں دینے کی سعی کی اور قوم میں شعوری انقلاب اور اصلاح احوال امت کو اپنی فکر کا لازمی حصہ بنایا۔ انہی روشن ستاروں میں تین ایسے روشن ستارے ہیں جو آسمانِ دنیا پر ماہتاب کی مانند ہیں اور جن کی کاوشوں کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔ عالمِ اسلام کے دانا و بینا اور ملتِ اسلامیہ کے بیدار کنندہ کی حیثیت سے مولانا جلال الدّین رومی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے معاصر مسلم دنیا کے افکار کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ مولانا رومی،علامہ اقبال اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہی وہ روشن ستارے ہیں جن کی فکرِلازوال نے ملتِ اسلامیہ پر انقلابی اثرات مرتب کیں۔ وہ اس کلیہ سے بخوبی واقف تھے کہ جب تک کسی قوم کے شعور اور فکر میں تبدیلی پیدا نہ کی جائے اس قوم کو کسی عملی تبدیلی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا۔جس بڑے کام کی پیش بینی مولانا رومی نے ساتویں صدی میں کی تھی، عملی و فکری سطح پر اس کی تشریح و توضیح اور سمت نمائی کا اہم فریضہ بیسویں صدی میںعلامہ اقبال اورڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انجام دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے فکری اثاثے کو جاننے اور پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور جانچ پرکھ کر عمل کو اصولی بنیادوں پر استوار کیا۔ الغرض تینوں ایک دوسرے کے علمی وفکری معاون و مددگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں کے فکری گوشے کئی پہلوں سے ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔
وہ گہری مقصدیت جس کے بغیر فردیا معاشرہ بے روح ہو کر ساکن اور انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں رومی، اقبال اور طاہر کی فکر کے رھینِ منت ہے۔ انھی تفکرات میں سے ایک فکر من عرف نفسه فقد عرف ربه کی مصداق ہے۔ یہ فکر ایسی معرفت عطا کرتی ہے جو خصائص رذیلہ اور سیئات سے بچا کر وہ ا علــیٰ و ارفع مقام عطا کرتی ہے جہاں خدا بندے سے خود پوچھے کہ تیری رضا کیا ہے؟ اور انسان کو ایک طرف خلیفۃ اللّٰہ فی الارض اور دوسری طرف قرب ِالٰہی کا مستحق ٹھہرا کر مسجود ملائک ثابت کرتی ہے۔ وہ ایسی معرفت ہے جو شرق تا غرب سلطنت و بادشاہت عطا کرتی ہے۔یہ ایسی آتش ِ رفتہ ہے جو ریگ زاروں میں شعلہ ِتخلیق کی طرح بھڑکتی ہے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس تابانی میں بدل جاتی ہے جس نے بدوؤ ں کو تہذیب اور تہذیبوں کے چہرے کو آئین جہاں داری کا جمال عطا کیا۔ یہ معرفت جسمِ بے جاں میں نئی روح پھونک کر اسے اپنے تابناک اور قریب الواقع مستقبل کا یقین دلاتی ہے۔ رومی کے نزدیک "تعین ذات"، "خود شناسی" اقبال کے نزدیک "خودی "اور طاہرالقادری کے نزدیک "بیداری ِشعور "اسی معرفت کے تین نام ہیں اور ایک ہی شراب کے تین جام ہیں۔مولانا روم خودی کے شیطانی تصور کے خلاف ہیں لیکن متعدد مواقع پر معرفت نفس اور تعین ذات کی تلقین و تاکید کرتے ہیں اور خودی کے یزدانی تصور کی تائید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
بر ایں پیغمبر آں را شرح ساخت
کانکہ خود بشناخت یزداں راشناخت
"اس لیے پیغمبر نے اسکی شرح کی ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا"۔
علاوہ ازیں فرماتے ہیں:
در دروں یک زرہ نور عارضی
بہ بود از صد معرف، اے صفی
’’باطن میں معرفت کے نور کا ایک ذرہ، اے برگزیدہ سو تعارف کرانے والوں سے بہتر ہے۔‘‘
مولانا رومی محض فرد اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے معلم و مبلغ نہیں بلکہ انفرادی زندگی اور معاشرتی نظام سے گزر کر اِرتقائے انسانی کے شارح اور َ علم بردار ہیں۔اپنی ایسی اقدار کے سبب وہ جدید و قدیم کی تفریق سے ماورا ٹھہرتے ہیں اور جدید ترین انسانی ترقیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔یہ ہی جرات وہ انسان میں معرفت اور خود شناسی کے ذریعے پیداکرناچاہتے ہیں۔ ان کے افکار اس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کہ انسان لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے مرتبے تک فقط خود شناسی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ ان کے نزدیک زوال امت کا علاج، اصلاحِ احوالِ امت، فروغ ِاسلام اور اسلامی حکومت کا قیام اسی خود شناسی میں مضمر ہے۔
اقبال کا فلسفہ ِخودی جو ان کی تمام تعلیمات کی اساس ہے۔ من عرف نفسه فقد عرف ربه ہی سے عبارت ہے۔ ان کے تصورِ خودی نے فلسفیانہ اور مذہبی افکار کو نہ صرف جہت عطا کی بلکہ اس کے ساتھ آیندہ نسلوں کو عملی اندازِ نظر سے بھی نوازا ہے۔اقبال نے خودی کے ذریعے مسلمانوں میں روبہ زوال انسانی معاشرت کو تعمیر نو اور انسان کے اخلاقی انداز نظر میں بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوں میں’’انا‘‘ خودی بیدار ہو جائے تو انسان آسمانوں، سمندروں اور پہاڑوں پر بغیر کسی اسباب کے سفر کرے۔ وہ کئی جہانوں کو فتح کر سکتا ہے وہ اس معرفت سے بادشاہوں کا بھی بادشاہ بن جاتا ہے۔اقبال کے نزدیک خودی کے بغیر جسم بے روح،آفتاب بے نور اورسُر بے سرور ہے۔گویا اقبال کے فلسفہ کے پیشِ نظر قوم کے ارتقاء کی بنیادی شرط خودی کا صحیح ادراک ہے۔اسرار خودی کے دیباچہ میں اقبال خودی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تیری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
میری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا
وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود تیرا
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
شیخ الاسلام کے نزدیک انسان میں شعوری انقلاب دائمی، تخلیقی اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کے نزدیک بیداری شعور کے ذریعے مسلمانوں میں روبہ زوال انسانی معاشرت کی تعمیر نو کی جا سکتی ہے۔اسی بیداریِ شعور کے ذریعے پسماندہ اور مائل بہ ظلم معاشرے کو روحانی الذہن افراد پر مشتمل معاشرے میں بدلا جا سکتا ہے۔بیداری شعور نوع انسان کی وحدت، امن و آشتی، محبت و مودت، فروغ امن، اصلاح احوال ا مت، ایثار، البغض للہ و الحب للہ، تزکیہ وتصیفہ نفس،معرفت نفس،ادب وعشقِ مصطفـٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فنا فی اللہ کا درس دیتی ہے۔
شیخ الاسلام نے ورکرز کنونشن 2008ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ ذہن نشین کر لیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے؟اللہ نے تجدید دین اسلام کا فریضہ آپ کے ذمہ کیا ہے۔ اس لیے آپ اس تحریک کا پیغام گھرگھر تک پہنچائیں۔ آپ شعور کو بیدار کرنے کا فریضہ ادا کریں۔ دینی قدروں کے فروغ اور لوگوں کے اعمال و اخلاق، احوال اور عبادات و معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اولاً اپنے اندر سے تحریک شروع کریں۔اور پھر اس صدی کی تجدیدی تحریک کا پیغام قوم کے ہر فرد تک پہنچائیں۔ آخری بات یہ ہے کہ حق کی نصیحت پہلے اپنی ذات کو کریں۔رذائل اخلاق سے بچیں۔ روز اپنا محاسبہ کریں اوردیکھیں کے گزرے ہوئے کل کی نسبت آج کے دن اللہ تعالیٰ کے کتنے نزدیک ہوئے ہیں۔‘‘
اصلاحِ عقائد ہی پر ملت اسلامیہ کے قیام، بقاء اور ارتقا کا انحصار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عقائد کی اصلاح کے لیے ہر دور کے مجدد، فقیہ، عالم، صوفی اور انقلابی نے کما حقہ ُ کوشش کی۔ ان میں مولانا روم، علامہ ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر محمد طاہرالقادر ی نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اور ان کے افکار لوگوں کے عقائدکی اصلاح کا باعث ہیں۔ فلسفہِ توحید میں مولانا روم کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں۔
’’توحید کا فلسفہ اسلامی افکار کا مرکزی نکتہ ہی نہیں، اسلامی عظمت کا مینارہ نور بھی ہے۔ اور یہ نور وجود کو جلا کر فنا کر دینے سے حاصل ہو تا ہے۔توحید کامل اس وقت ہو گی جب ھو الاول و الآخر و الظاہر و الباطن کی تعبیر کماحقہ ہو جائے۔‘‘
مولانا روم وحدت الوجود کے قائل ہیں اور ان کا خیال ہے ہمارے وجود نے ہمیں دوئی کا مرتکب بنایا۔ فرماتے ہیں:
چست توحید آموختن
خویش را پیش واحد سوختن
’’اللہ تعالیٰ کی واحدانیت سکھاتا کیا ہے؟۔ اپنے آپ کو واحد کے سامنے فنا کر دے۔‘‘
صوفیا ئے اسلام کا سب سے بڑا گروہ جس میں شیخ محی الدین ابن عربی شامل ہیں عالم کو فریب نظریا معدوم نہیں جانتے بلکہ ان کے خیال میں عالم اور انسان عین حق یا مظہر حق ہیں اور یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن نے وضاحت سے کہا ہے کہ موجودات خار ج اورظاہر میں ہوں یا باطن میں زمانی ہوں یا مکانی، سب کی حقیقت اللہ ہے۔ هوالاول والآخر والظاهرو الباطن. مولانا رومی کے نزدیک توحید تب کامل ہو گی جب وجود ذات، خودی فنا ہو جائے اور اسکا درس وہ اپنے شعرمیں بحر اور قطرہ کی تمثیل سے دیتے ہیں۔
جوئے دیدی کوزہ اندر جوئے ایر
آب را از جوئے بشد گریز
"ہوش کرنے والے نے دیکھا کہ کوزہ کا پانی نہر میں مل جاتا ہے پانی نہر سے الگ کس طرح رہ سکتا ہے"۔
مولانا رومی فنا فی اﷲ کو ہی اصل توحید اور خودی کو دوئی اور وجود انسانی کو شرک فی الالوہیت گردانتے ہیں اور یہی انکی فکر ِ توحید ہے۔قاری کے قلوب و اذہان میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بات تو مصنفہ مماثل پہلوں کی کر رہی ہے جبکہ مولانا رومی کو اقبال کے مخالف کھڑا کردیا یہ کہتے ہوئے کہ مولانا رومی خودی کو شرک فی الالوہیت اور دوئی تصور کرتے ہیں جبکہ اقبا ل کی فکر کی اساس خودی پر ہے۔آج یہ بات واضح کرتی چلوں کہ اقبال بھی درحقیقت وحدت الوجود کے قائل ہیں۔یہ بات اور ہے کہ ا قبال نے توحید کو صرف وحدت الوجود میں ہی نہیں بلکہ مختلف پہلوں سے ثابت کیا۔ تاریخ ِفکر اقبال میں یہ غلطی ہے کہ اقبال وحدت الوجود کے قائل نہ تھے۔ بات یہ ہے اقبال وحدت الوجود کے قائل تھے مگر تصور خودی کو جاگزیں کرنا اُس وقت کی عین ضرورت اور آب ِحیات تھی۔ ایک خاص حکمت کے تحت اقبال نے تصور "فکر وحدت الوجود "کو عوام الناس کے سامنے نہ رکھا۔ اقبال کی قوم غلام تھی وہاںنفی خودی کا درس دینا قوم کے حق میں مضر تھا۔لوگ دنیا سے کنارہ کش ہو کر بیٹھ جاتے تو آزادی کا سورج نہ دیکھ سکتے۔مسلمان پہلے ہی احساس کمتری کا شکار تھے۔رہبانیت کا یہ تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام و مرتبہ، جاہ و جلال، اخلاقی قدریں،اسلامی تمد ن و اتباع اسلاف پیدانہ کرنے دیتا۔لیکن اگر بصیرت قلب اور نور نظر سے دیکھا جائے تو اقبال انہی اشعار میں جنہیں حافظ عباد اللہ فاروقی دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ ’’اقبال تصورِوحدت الوجود کو غیر اسلامی جان کر اِس سے گریزاں ہیں‘‘اُسی میں عقیدہ وحدت الوجود مضمر ہے۔مورخین اور شارح فکر اقبال کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کے ایک حصّہ سے اقبال متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ساری چیزیںخدا سے پیدا ہوتی ہیں لیکن وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ انسان مٹ کر خدا میں مل جائے گا۔چناچہ وہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح’’ سمندر اور قطرہ‘‘ کی تمثیل استعمال نہیں کرتے بلکہ’’ سمندر اور موتی‘‘ کی تشبیہ کو پسند کرتے ہیں۔
نمی دانم کہ این تابندہ گوھر
کجا بودی اگر دریا نہ بودی
مجھے نہیں معلوم کہ تابندہ گوھر کہا ں ہوتااگر دریا نہ ہوتا۔اقبال انسان کو بحر’’وحدت‘‘ کا ایک ناچیز قطرہ قرار نہیں دیتے بلکہ اس کو ایک ایسا قطرہ قرار دیتے ہیں جو اپنے اندر گوہر ِتابندہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقبال یہ نہیں چاہتے کہ قطرہ دریا میں مل کر فنا ہوجائے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا اپنے فضل سے اسے گوہرِتابندہ بنا دے۔ چناچہ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں:
میں ہوں صدف تیرے ہاتھ میں میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
میں یہاں مورخیں اور شارحین فکر اقبال سے سوال کرتی ہوں کہ آخر اقبال نے موتی (صدف) ہی کی تمثیل کیوں استعمال کی؟
اگر ہم سمندر کی حقیقت یعنی اجزاء (chemical composition) کو حقیقی نظر سے دیکھیں تو سمندر مختلف نمکیات salt ،element and compounds کا مجموعہ ہے۔ جن میں(sodium(Na) ،hydrogen(H2) ،oxygen(O2) phosphorus(P) ،calcium(Ca) ،chlorine(Cl اور (copper (Cu، کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
اور جب ہم موتی(Pearl) کی(chemical composition) اجزائے ترکیبی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موتی calcium carbonate 86% کا مجموعہ ہوتا ہے جو اصلاً سمندر کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ یعنی سمندر کے کچھ اجزاء مل کر موتی بنتے ہیں۔معلوم ہوا کہ اصل دونوں کی ایک ہے۔یہاں دوئی کا تصور ختم ہوا اور وحدت الوجود کا تصور ثابت ہوا۔
شیخ الاسلام بھی وحدت الوجود کو اصلاً توحید گردانتے ہیں۔اپنی شہرہ آفاق کتاب "سلوک و تصوف کا عملی دستور" میں سات نسبتوں کے باب میں ساتویں نسبت نسبتِ توحید بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان نسبتوں میں سے ایک نسبت نسبتِ توحید بھی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص اپنی سوچ وبچارسے یا عارفوں کی تقلید سے اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام اشیاء ایک وجود میں فنا پذیر ہیں اور یہ وجود تمام اشیاء میں جاری و ساری ہے۔ وہ بار بار اس نتیجے کو اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے اور اس طرح سالک توحید علمی سے گزرتے ہوئے توحید حالی تک پہنچتا ہے۔ جہاں نظر سے تعینات کے سب پردے اٹھا لیئے جاتے ہیں۔ بندے کے حال میں توحید کے اس اثر اور کیفیت کے جاگزیں ہونے کو نسبتِ توحید کہا جاتا ہے۔ تب سالک کل شی ھالک الا وجھہ کا راز پا لیتا ہے"۔
کوئی ذی شعور انسان اس حقیقت سے انکا ر نہیں کر سکتا کہ کسی ملت کا شباب اور عروج و کمال نوجوانان ِملت کے پاکیزہ، متحرک اور انقلابی کردار کا نتیجہ ہوتا ہے اور نوجوانوں کی گمراہی بد عملی اور اضطراب کے سبب ’’اجڑتے دیکھے ہیں گردوں نے امتوں کے شباب‘‘۔ آج نوجوانانِ ملت اسلام سے دور ہیں اور ہمارے دینی زوال کی سب سے بڑی وجہ ہماری نوجوان نسل کی کمزوری ہے۔ اگر ہم تینوں مردان ِحق کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں تو تینوں کے افکار اس بات کی ترجمان ہیں۔
’’دینی زوال کے تدارک کا منہاج صرف نسل کی اصلاح میں مضمر ہے اور نوجوان نسل کی اصلاح صرف حصول ِ علم ہے۔‘‘
رومی اس علم کو ’’ علم نافع‘‘ کہتے ہیں اور مثنوی معنوی میں اس تعلیم کی حقیقت سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں
علم را برتن زنی مارے بود
علم را من زنی یارے بود
اقبال بھی نوجوانان ملت کو لاالہ الا اﷲ کے وارث کا خطاب دیتے ہوئے جس خودی سے غافل نہ ہونے کی تعلیم دے رہے ہیں، وہ علم ہے۔ فرماتے ہیں۔
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اے لاالٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ
شیخ الاسلام حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ضرورت اس امرکی ہے کہ علم و تحقیق میں محنت کی جائے اور علم کو اکیسویں صدی کے ساتھ لے کر چلیں۔امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کئے ہوئے علم کو اتنی ترقی دی کہ وہ کئی صدیاں آگے چلا۔یہ آپ کا ہی کمال تھا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کئے ہوئے علم کو صدیوں کے قابل بنایا۔ اس کے پیچھے قوت قرآن و سنت ہی کارفرما ہے مگر محنت و تحقیق سے روشنی حاصل کی۔ ہر کوئی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نہیں بنتا۔ہم تو انہی کے دسترخوان کے خوشہ چین ہیں مگر آپ کو امام اعظم کی مثال دے کر نقش قدم بتا رہا ہوں کہ جو علم لیں اس کو اگلی صدیوں کے قابل بنائیں۔ آج اگر علماء اورطلباء یہ ٹارگٹ پورا نہیں کرتے تو ہم اگلی جنگ ہار جائیں گے۔‘‘
(خطاب شیخ الاسلام بعنوان جمہوریت اور وسعت ظرفی، مئی 2009)
کائنات میں واقع ہونے والے حوادث و واقعات کے اسباب و علل کے بارے میں سائنسدان، فلاسفہ اور حکماء کی رائے یہ ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ قائم ہے۔ اور معلول کبھی علت اور مسبب کبھی سبب سے الگ نہیں ہو سکتے۔ جدید دنیا اور اکیسویں صدی جسے سائنسی صدی کہا جاتا ہے ہر چیز کو Logic اور منطق سے ثابت کرتی ہے۔ سائنس کی "The Theory of Cause and Effect " نے اس قدر ترقی کی کہ معجزہ جو خلافِ عادت اور خرقِ عادت ہے اسے بھی logic اورFacts and Figure سے ثابت کیا۔ سائنس نے نہ صرف معجزہ کو اسباب کے ما تحت ثابت کیا بلکہ مسبب اور اسباب اور علت و معلول کا محتاج قرار دیا۔ آج دنیا ہر شے کو ظاہرکی آنکھ سے دیکھنا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے معلمینِ اسلام اور علمبردارِ دین الٰہی کے فہم وفراست نے اس بات کو محسوس کیا کے اگر اسلامی تصورات کو سائنسی اصطلاحات اور منطق کے ذریعے جدید دنیا کے سامنے نہ رکھا گیا تو تعلیماتِ اسلام جمود اور بے عملی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ساتویں صدی میں جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ واقعہ معراج (بنی اسرائیل :1) کو Theory of relativity، علم الجنین (المومنون :12-14) کو Embryology، تخلیقِ کائنات (الانبیاء :30) کو The big Bang Theory، سبز مابہ Chloroplast کو الخضراء (الانعام:99) دور آب (الاعراف :57)کو The Theory of Water Cycle، اور تسخیر ماہتاب(الانشقاق:20-18) کوMoon Landing سے ثابت نہیں کیا تھا مولانا رومی سائنس کی اہمیت سے ناواقف نہ تھے۔ مولانا ہوا میں تیر چلانے کے قائل نہ تھے بلکہ ان کے افکار اِس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کے کہ اسلامی تصوارات زندہ و جاوید ہیں ان کی جامعیت کی انتہاء یہ ہے کہ ہر پہلو سے احاطہ کیے ہوئے ہیں۔مولانا روم کی سائنسی فکر اس بات کی عکاس ہے کہ ہر شہ کو علمی، عملی اور منطقی بنیادوں پر رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ "the theory of cause and effect" کے حمایتی نظر آئے۔ مولانا فرماتے ہیں۔
بشرت احوال ہر سنت رود
گاہ قدرت خارق سنت شود
بالعموم احوال، سنت و طریقہ الٰہی کے مطابق ہی انجام پاتے ہیں مگر کبھی کبھی طریقہ سے ہٹ کر بھی ہوتا ہے۔
بے سبب گر عزیما موصول نیست
قدرت از غزل مسبب معزول نیست
کسی وجہ سے اگر یہ شرف ہمیں نصیب نہ ہوا تو مطلب یہ نہیں ہے کہ سبب نہ ہونے کی وجہ سے مسبب نہیں ہوا۔یہ ہی وجہ ہے کہ اہل حق نے مولانا رومی کی اس بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو سائنس سے جدانہ کیا اور آنے والے دور نے ہمیں جابر بن حیان (721ء تا 815ء) عبدالملک افمعی (741ء)، محمد بن موسٰی الخوارزمی، یعقوب کندی علی ابن الطہری (775 ء تا 870ء)، علی ابن عیسٰی، ابو علی حسن بن حسین ابن الہیثم، شیح الرئیس بو علی سینا (980ء تا 1037ء) جیسے عظیم مسلمان سائنسدان دیے۔ مگر افسوس غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور تمام مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و انکشافات پر سے ان موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ علامہ اقبال اس غم کو یوں بیاں کر تے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنے ماضی اور اسلاف کی روایت کی طرف ترغیب دلائی ہے اور انھیں سائنسی علوم حاصل کرنے کی طرف مائل کیا جو انکی کھوئی ہوئی میراث ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب
( بال جبریل:623)
شیح الاسلام فرماتے ہیں:
’’اشاعت و تبلیغ دین کے ذریعے نئی نسل کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے بعض کج فکر نام نہاد مبلغین اسلام قرآن وحدیث ہی کے ناقص استنباط واستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے ان کو دین سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تعلیماتِ اسلام کا سائنسی استنباط وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے‘‘۔
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام بعنوان مقام وشانِ اولیاء، مئی 2007)
حکمت وہ خاصہ ہے جسے اﷲرب العزت نے قرآن حکیم میں خیر کثیر کہا ہے۔ اور حکمت کی ناگزیریت سے اہل علم ناواقف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رومی، اقبال اور طاہر کے افکار حکمت کی اہمیت پر دال ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں۔
معدہ را خوکن ریحان وگُل
تابیانی حکمت وقوت رسل
معدہ کو ریحان وگُل یعنی ذکر حق واطاعت کی غذا کا عادی بناؤ تاکہ انبیاء علیہم السلام کی اتباع میں تمھارے باطن پر علوم و معرفت کا فیضان ہو۔
بال جبریل میں اقبال کچھ یوں ارشاد کرتے ہیں۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تیری رضا ہو تو
کر کہ مجھے تو پسند نہ آیا یہ نظام ِ خانقاہی
تو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے عاری یہ جہانِ مرغ و ماہی
اور شیخ الاسلام بھی کچھ ان ہی افکار سے مزین فرماتے ہیں:
’’اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے فقط علم ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے حکمت کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک اسلام کی تبلیغ اور دعوت حکمت پر مبنی رہی تو اس وقت تک اس دعوت و تبلیغ کے صحیح نتائج پیدا ہوتے رہے، اور اسلام کی تعلیمات کے مقاصد کماحقہُ حاصل ہوتے رہے۔ مگر جب سے حکمت اہل علم کے پیشِ نظر نہ رہی اور دعوت وتبلیغ کا مرکز ومحور حکمت کی بجائے فقط علم بن گیا تو اس وقت سے تبلیغ اپنی افادیت کھو بیٹھی، تبلیغ کی مقصدیت فوت ہوگئی۔ تبلیغ کی موثریت ختم ہوگئی۔‘‘
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام بعنوان، دور حاضر میں دعوت دین کی حکمت عملی، مئی 2009)
ساتویں صدی عیسوی میں علم الکلام اور عقلیت کی جو سرد ہوا عالم اسلام میں شرق تک چلی تھی اس سے دل کی انگیٹھیاں سرد ہوگئی تھیں۔ اگر کہیں عشق کی چنگاریاں تھیں تو راکھ کے ڈھیر کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔ اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک افسردہ دلی بلکہ مردہ دلی چھائی ہوئی تھی اور کہنے والا کہ رہا تھا:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں خاک کا ڈھیر ہے
علم الکلام کے ٹھنڈے پانی نے عشق کی آگ پر قطرہ قطرہ ڈال کر اسے ٹھنڈا کر دیا اور دنیا عقل وعشق کے نہ ختم ہونے والی بحث میں ڈوبنے لگی اور حیات کی کوئی راہ نہ بچی۔ مگر اہل حق اور عارف ہمیشہ سے مقام عشق سے روشناس تھے،ہیں اور ہوں گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے افکار رومی و اقبال کی طرح تصور عشق میں یکساں ہیں۔
مولانارومی عشق کو عقل سے برتر تسلیم کر تے ہیں اور عشق کا حقیقی تصور بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عشق میں سب کچھ فنا کردو یہاں تک کے معشوق کے سواء کچھ بھی باقی نہ رہے۔ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ کو چوں بر فروخت
ھرچہ معشوق باقی جملہ سوخت
اقبال کہتے ہیں :
تیرے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
اور کچھ یوں بھی کہتے ہیں :ـ
عشق سلطان است و برہان مبین
ہر دو عالم عشق را زیرنگین
شیخ الاسلام عشق پر عقل کی برتری کے خلاف ہیں اور عشق کا صحیح تصور پیش کرتے ہوئے معروف قول نقل کرتے ہیں:
العشق نار يحرق ما سوا المحبوب
"عشق وہ آگ ہے جو ما سوا معشوق کے سب کچھ جلا دیتی ہے"۔
رومی، اقبال و طاہر جس عشق کی دعوت دے رہے ہیں اس کا تعلق عالمِ آب و گل سے نہیں۔ یہ وہی لم یزل کا عشق ہے، وہ عشقِ حقیقی ہے جس کی تازگی اور آبیاری سدا بہار پھولوں کی طرح ہے۔ موجودہ دورِ فتن میں بحث ِعقل وعشق، عشق کی کیاری میں نرم و نازک پھولوں کی آبیاری لہو سے کر رہی ہے۔ مگر مردانِ حق کے افکار عقل پر عشق کی برتری کو تسلیم کر تے ہیں لیکن عقل کے مخالف بھی نہیں ہیں۔
معرفتِ الہٰی اور روحانی ترقی کا راز کیا ہے؟ اگر ہم تینوں شخصیات کے افکار کا باریک بینی، بصیرت اور نور ِنظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تینوں کے نزدیک معرفت حق، قرب ِ الہٰی، روحِ ایمان، مقصود الہٰی اور رضائے الہٰی کا راز اتباعِ مرشد اور بیعتِ حق ہے۔ مولانا رومی، شمس تبریزی کو اپنا مرشد کامل تسلیم کرتے ہیں۔
چوں شوی دور از حضور اولیاء
درحقیقت گستہ دور از خدا
مولانا رومی صحبت ِ مرشد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اﷲ والوں کی جانوں کو نورِ فراست عطا ہوتا ہے۔ جو قیل و قال اور کتب خانوں سے نہیں ملتا۔ بلکہ کسی اﷲ والے کی صحبت میں ایک عمر محنت اور مجاہدہ سے ملتا ہے۔
علامہ اقبال بھی انہی افکار کی حامل شخصیت ہیں اور اپنے فکری ورحانی پیر و مربی مولانا رومی کو کہتے ہیں۔ کتاب جاوید نامہ کی نظم خطاب با جاوید نامہ میںاقبال اپنے بیٹے اور در حقیقت تمام انسانیت کو کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے ہیں اور صحبت صالحہ کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’تو کسی ہمنشین حق (یعنی مردِ حق جو خدا کا راز دار ہو)کو تلاش کر اور اس کی صحبت اختیار کر چاہے تیری راہ میں سینکڑوں الجھنے اور مشکلیں آئیں مگر تو اس کی طلب کا ذوق ہاتھ سے نہ جانے دے لیکن اگر تجھے ایسے باخبر مردِ حق کی صحبت میسر نہ آئے تو پھر جو کچھ میں نے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہے تو وہ لے لے تو پیر رومی کو اپنے راستے کا ساتھی بنا لے تاکہ تجھے خدا سوز و گداز عطا فرمائے‘‘۔
شیخ الاسلام مرشد کامل کی صحبت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ کے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’بے شک محبت الہی، خشیت الہی اور معرفت ِ الہی میں اہل اﷲکے دلوں کو تینوں حال اور تینوں کیفیات بدرجہ اتم نصیب ہوتی ہیں اور وہ نہ صرف خود سیرابی پاتے ہیں بلکہ افراد امت میں بھی روحانی شادابی کا باعث بنتے ہیں۔ آؤ ان کا تذکرہ کریں اور ان کی صحبت میں جا بیٹھیں تا کہ ان کی بات سن کر ہماری بات بن جائے ان کاحال جان کر ہمارا حال سنور جائے ان کی بیداریاں دیکھ کر کچھ ہماری غفلت دور ہو، ان کی گریہ و زاریاں دیکھ کر کچھ ہمیں رونے کا طریقہ آئے اور ان کی مستیاں اور مشاہدے دیکھ کر کچھ ہم لذتِ دید کے طالب بنیں‘‘۔
(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تذکرے اور صحبتیں: 32)
رومی کے عہد میں مسلمان سیاسی طور پر صلیبی یلغار اور شورش تاتار سے تہہ و بالا ہو گئے تھے ایسی صورت حال میں سیاسی سطح پر دین کی سربلندی کرنے والا دین کو طاغوتی یلغار سے بچانے والا اور دین کی شمع کو روشن کرنے والا ہی انقلابی لیڈر اور سیاست دان ہوسکتاہے۔
مولانا ابو الحسن ندوی لکھتے ہیں کہ:
’’مثنوی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ 20 ویں صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر دوبارہ مادیت کا حملہ ہوا اور یورپ میںفلسفہ اور سائنس نے قلوب میں شکوک و شبہات کی تخم ریزی کی اور ایمانیات و غیبات کی طرف سے ایک عام بے اعتمادی پیدا ہونے لگی۔ اس کا رجحان بڑھنے لگا کہ ہر وہ چیز جو مشاہدے اور تجربے کے ما تحت نہ آسکے اور حواسِ ظاہری اس کی گرفت نہ کر سکیں وہ موجود نہیں۔ عقائد کی قدیم کتابیں اور قدیم طرز ِ استدلال وعلم کلام نے اس کا مقابلہ کرنے سے معذوری ظاہر کی تو مثنوی نے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کا جو یورپ کی مادی اور سیاسی فتوحات سے کم نہ تھا کامیاب مقابلہ کیا۔‘‘
ثابت ہوا کہ مولانا رومی کے افکارِ سیاست نے بھی اپنا لوہا منوایا اور قلم کی تلوار سے ارضی فتوحات کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاست کے اصل مقصود کو سمجھ گئے تھے۔ ان کے نزدیک اقتدار اﷲ کے دین کو عام کر نے کا نام ہے۔
علامہ اقبال بھی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی کو کہتے ہیں۔اور اس میں نبوی مقصدِ سیاست کا رازمضمر ہے۔فرماتے ہیں:
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماںمیں اسی لیے ہوں نمازی
شیخ الاسلام بھی انھی افکار کے مبلغ نظر آتے ہیں۔فرماتے ہیں:
’’یہ اذان گواہ ہے کہ طاہرالقادری نہ صدارت لے گا نہ وزارت۔ طاہرالقادری کی ساری لڑئی ساری کوشش ساری جنگ نظام مصطفوی کو دوسرے نظام پر غالب لانے کی جنگ ہے۔ باطل کو مٹانے کی جنگ، روس اور امریکہ کے سامراجی ہتھکنڈوں کو نیست و نابود کرنے کی جنگ ہے۔طاہرالقادری غریبوں کی ہڈیوں پر محلات اور کارخانے تعمیر کرنے والے سرمایہ داروں کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے۔ ان شاء اللہ غریب کو اس کا حق اور اسکا جائز حصہ لے کر دے گا۔خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔‘‘
بیسویں اور اکیسویں صدی میں اقبال اور طاہر نے رومی کی اہمیت اور ان کی فکر سے زمانہ کو بلند آہنگی کے ساتھ روشناس کرایا ہے۔ اقبال ااور طاہر نے مغرب اور مشرق کے کئی سرچشموں سے استفادہ کیا ہے اور اپنے افکار کی اساس قرآن کریم پر رکھی۔ انہوں نے قوم میں انقلابی شعور بیدار کیا اور افراد میں نظم و ضبط،جانفشانی و قربانی اور منظم جدوجہد کا شعور پیدا کیا۔ انھوں نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ امراض ملت کی دوا اور خون فاسد کے لیے مثل تبشیر ہے۔ان کے افکار عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور ہیں جو عوام کے افکار کو مظہری جہت اور جمالیاتی تجسم عطا کرتے ہیں۔ان کے افکار و وسعت نظری، اعلیٰ ظرفی اور بصیرت قلبی عطا کرکے انسان کو مقام انسانیت تک پہنچا دیتے ہیں۔
آپ نے ملاحظہ کیا کے تینوں مردان حق کے افکار ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔ایسی فکر کو متعارف کروانے میں ایک نام ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی ہے۔
تیری ہستی کو چند لفظوں میں سمیٹوں کیسے
تیرا کردار تو لگتا ہے مجھے آکاش کی مانند
اللہ رب العزت کی شان کریمی نے ہر دور میں بنی نوع انسان کی رشدوہدایت اوراصلاح و فلاح کے لیے ایسی عظیم المرتبت ہستیاںپیدا کیں جن کے افکار ونظریات نے نہ صرف اقوام ِعالم کومتاثر کیا بلکہ آج بھی وہ طالبانِ ہدایت کے لیے چشمہ ِفیض کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شیخ جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہُ، سید قطب شہید،فارابی، ابن سینا، امام غزالی اس کارواںکے وہ نمایاں نام ہیں جنہوں نے اپنے افکار و اعمال سے امت کو حیاتِ جاوداں دینے کی سعی کی اور قوم میں شعوری انقلاب اور اصلاح احوال امت کو اپنی فکر کا لازمی حصہ بنایا۔ انہی روشن ستاروں میں تین ایسے روشن ستارے ہیں جو آسمانِ دنیا پر ماہتاب کی مانند ہیں اور جن کی کاوشوں کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔ عالمِ اسلام کے دانا و بینا اور ملتِ اسلامیہ کے بیدار کنندہ کی حیثیت سے مولانا جلال الدّین رومی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے معاصر مسلم دنیا کے افکار کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ مولانا رومی،علامہ اقبال اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہی وہ روشن ستارے ہیں جن کی فکرِلازوال نے ملتِ اسلامیہ پر انقلابی اثرات مرتب کیں۔ وہ اس کلیہ سے بخوبی واقف تھے کہ جب تک کسی قوم کے شعور اور فکر میں تبدیلی پیدا نہ کی جائے اس قوم کو کسی عملی تبدیلی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا۔جس بڑے کام کی پیش بینی مولانا رومی نے ساتویں صدی میں کی تھی، عملی و فکری سطح پر اس کی تشریح و توضیح اور سمت نمائی کا اہم فریضہ بیسویں صدی میںعلامہ اقبال اورڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انجام دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے فکری اثاثے کو جاننے اور پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور جانچ پرکھ کر عمل کو اصولی بنیادوں پر استوار کیا۔ الغرض تینوں ایک دوسرے کے علمی وفکری معاون و مددگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں کے فکری گوشے کئی پہلوں سے ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔
وہ گہری مقصدیت جس کے بغیر فردیا معاشرہ بے روح ہو کر ساکن اور انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں رومی، اقبال اور طاہر کی فکر کے رھینِ منت ہے۔ انھی تفکرات میں سے ایک فکر من عرف نفسه فقد عرف ربه کی مصداق ہے۔ یہ فکر ایسی معرفت عطا کرتی ہے جو خصائص رذیلہ اور سیئات سے بچا کر وہ ا علــیٰ و ارفع مقام عطا کرتی ہے جہاں خدا بندے سے خود پوچھے کہ تیری رضا کیا ہے؟ اور انسان کو ایک طرف خلیفۃ اللّٰہ فی الارض اور دوسری طرف قرب ِالٰہی کا مستحق ٹھہرا کر مسجود ملائک ثابت کرتی ہے۔ وہ ایسی معرفت ہے جو شرق تا غرب سلطنت و بادشاہت عطا کرتی ہے۔یہ ایسی آتش ِ رفتہ ہے جو ریگ زاروں میں شعلہ ِتخلیق کی طرح بھڑکتی ہے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس تابانی میں بدل جاتی ہے جس نے بدوؤ ں کو تہذیب اور تہذیبوں کے چہرے کو آئین جہاں داری کا جمال عطا کیا۔ یہ معرفت جسمِ بے جاں میں نئی روح پھونک کر اسے اپنے تابناک اور قریب الواقع مستقبل کا یقین دلاتی ہے۔ رومی کے نزدیک "تعین ذات"، "خود شناسی" اقبال کے نزدیک "خودی "اور طاہرالقادری کے نزدیک "بیداری ِشعور "اسی معرفت کے تین نام ہیں اور ایک ہی شراب کے تین جام ہیں۔مولانا روم خودی کے شیطانی تصور کے خلاف ہیں لیکن متعدد مواقع پر معرفت نفس اور تعین ذات کی تلقین و تاکید کرتے ہیں اور خودی کے یزدانی تصور کی تائید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
بر ایں پیغمبر آں را شرح ساخت
کانکہ خود بشناخت یزداں راشناخت
"اس لیے پیغمبر نے اسکی شرح کی ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا"۔
علاوہ ازیں فرماتے ہیں:
در دروں یک زرہ نور عارضی
بہ بود از صد معرف، اے صفی
’’باطن میں معرفت کے نور کا ایک ذرہ، اے برگزیدہ سو تعارف کرانے والوں سے بہتر ہے۔‘‘
مولانا رومی محض فرد اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے معلم و مبلغ نہیں بلکہ انفرادی زندگی اور معاشرتی نظام سے گزر کر اِرتقائے انسانی کے شارح اور َ علم بردار ہیں۔اپنی ایسی اقدار کے سبب وہ جدید و قدیم کی تفریق سے ماورا ٹھہرتے ہیں اور جدید ترین انسانی ترقیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔یہ ہی جرات وہ انسان میں معرفت اور خود شناسی کے ذریعے پیداکرناچاہتے ہیں۔ ان کے افکار اس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کہ انسان لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے مرتبے تک فقط خود شناسی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ ان کے نزدیک زوال امت کا علاج، اصلاحِ احوالِ امت، فروغ ِاسلام اور اسلامی حکومت کا قیام اسی خود شناسی میں مضمر ہے۔
اقبال کا فلسفہ ِخودی جو ان کی تمام تعلیمات کی اساس ہے۔ من عرف نفسه فقد عرف ربه ہی سے عبارت ہے۔ ان کے تصورِ خودی نے فلسفیانہ اور مذہبی افکار کو نہ صرف جہت عطا کی بلکہ اس کے ساتھ آیندہ نسلوں کو عملی اندازِ نظر سے بھی نوازا ہے۔اقبال نے خودی کے ذریعے مسلمانوں میں روبہ زوال انسانی معاشرت کو تعمیر نو اور انسان کے اخلاقی انداز نظر میں بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوں میں’’انا‘‘ خودی بیدار ہو جائے تو انسان آسمانوں، سمندروں اور پہاڑوں پر بغیر کسی اسباب کے سفر کرے۔ وہ کئی جہانوں کو فتح کر سکتا ہے وہ اس معرفت سے بادشاہوں کا بھی بادشاہ بن جاتا ہے۔اقبال کے نزدیک خودی کے بغیر جسم بے روح،آفتاب بے نور اورسُر بے سرور ہے۔گویا اقبال کے فلسفہ کے پیشِ نظر قوم کے ارتقاء کی بنیادی شرط خودی کا صحیح ادراک ہے۔اسرار خودی کے دیباچہ میں اقبال خودی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تیری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
میری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا
وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود تیرا
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
شیخ الاسلام کے نزدیک انسان میں شعوری انقلاب دائمی، تخلیقی اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کے نزدیک بیداری شعور کے ذریعے مسلمانوں میں روبہ زوال انسانی معاشرت کی تعمیر نو کی جا سکتی ہے۔اسی بیداریِ شعور کے ذریعے پسماندہ اور مائل بہ ظلم معاشرے کو روحانی الذہن افراد پر مشتمل معاشرے میں بدلا جا سکتا ہے۔بیداری شعور نوع انسان کی وحدت، امن و آشتی، محبت و مودت، فروغ امن، اصلاح احوال ا مت، ایثار، البغض للہ و الحب للہ، تزکیہ وتصیفہ نفس،معرفت نفس،ادب وعشقِ مصطفـٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فنا فی اللہ کا درس دیتی ہے۔
شیخ الاسلام نے ورکرز کنونشن 2008ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ ذہن نشین کر لیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے؟اللہ نے تجدید دین اسلام کا فریضہ آپ کے ذمہ کیا ہے۔ اس لیے آپ اس تحریک کا پیغام گھرگھر تک پہنچائیں۔ آپ شعور کو بیدار کرنے کا فریضہ ادا کریں۔ دینی قدروں کے فروغ اور لوگوں کے اعمال و اخلاق، احوال اور عبادات و معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اولاً اپنے اندر سے تحریک شروع کریں۔اور پھر اس صدی کی تجدیدی تحریک کا پیغام قوم کے ہر فرد تک پہنچائیں۔ آخری بات یہ ہے کہ حق کی نصیحت پہلے اپنی ذات کو کریں۔رذائل اخلاق سے بچیں۔ روز اپنا محاسبہ کریں اوردیکھیں کے گزرے ہوئے کل کی نسبت آج کے دن اللہ تعالیٰ کے کتنے نزدیک ہوئے ہیں۔‘‘
اصلاحِ عقائد ہی پر ملت اسلامیہ کے قیام، بقاء اور ارتقا کا انحصار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عقائد کی اصلاح کے لیے ہر دور کے مجدد، فقیہ، عالم، صوفی اور انقلابی نے کما حقہ ُ کوشش کی۔ ان میں مولانا روم، علامہ ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر محمد طاہرالقادر ی نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اور ان کے افکار لوگوں کے عقائدکی اصلاح کا باعث ہیں۔ فلسفہِ توحید میں مولانا روم کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں۔
’’توحید کا فلسفہ اسلامی افکار کا مرکزی نکتہ ہی نہیں، اسلامی عظمت کا مینارہ نور بھی ہے۔ اور یہ نور وجود کو جلا کر فنا کر دینے سے حاصل ہو تا ہے۔توحید کامل اس وقت ہو گی جب ھو الاول و الآخر و الظاہر و الباطن کی تعبیر کماحقہ ہو جائے۔‘‘
مولانا روم وحدت الوجود کے قائل ہیں اور ان کا خیال ہے ہمارے وجود نے ہمیں دوئی کا مرتکب بنایا۔ فرماتے ہیں:
چست توحید آموختن
خویش را پیش واحد سوختن
’’اللہ تعالیٰ کی واحدانیت سکھاتا کیا ہے؟۔ اپنے آپ کو واحد کے سامنے فنا کر دے۔‘‘
صوفیا ئے اسلام کا سب سے بڑا گروہ جس میں شیخ محی الدین ابن عربی شامل ہیں عالم کو فریب نظریا معدوم نہیں جانتے بلکہ ان کے خیال میں عالم اور انسان عین حق یا مظہر حق ہیں اور یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن نے وضاحت سے کہا ہے کہ موجودات خار ج اورظاہر میں ہوں یا باطن میں زمانی ہوں یا مکانی، سب کی حقیقت اللہ ہے۔ هوالاول والآخر والظاهرو الباطن. مولانا رومی کے نزدیک توحید تب کامل ہو گی جب وجود ذات، خودی فنا ہو جائے اور اسکا درس وہ اپنے شعرمیں بحر اور قطرہ کی تمثیل سے دیتے ہیں۔
جوئے دیدی کوزہ اندر جوئے ایر
آب را از جوئے بشد گریز
"ہوش کرنے والے نے دیکھا کہ کوزہ کا پانی نہر میں مل جاتا ہے پانی نہر سے الگ کس طرح رہ سکتا ہے"۔
مولانا رومی فنا فی اﷲ کو ہی اصل توحید اور خودی کو دوئی اور وجود انسانی کو شرک فی الالوہیت گردانتے ہیں اور یہی انکی فکر ِ توحید ہے۔قاری کے قلوب و اذہان میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بات تو مصنفہ مماثل پہلوں کی کر رہی ہے جبکہ مولانا رومی کو اقبال کے مخالف کھڑا کردیا یہ کہتے ہوئے کہ مولانا رومی خودی کو شرک فی الالوہیت اور دوئی تصور کرتے ہیں جبکہ اقبا ل کی فکر کی اساس خودی پر ہے۔آج یہ بات واضح کرتی چلوں کہ اقبال بھی درحقیقت وحدت الوجود کے قائل ہیں۔یہ بات اور ہے کہ ا قبال نے توحید کو صرف وحدت الوجود میں ہی نہیں بلکہ مختلف پہلوں سے ثابت کیا۔ تاریخ ِفکر اقبال میں یہ غلطی ہے کہ اقبال وحدت الوجود کے قائل نہ تھے۔ بات یہ ہے اقبال وحدت الوجود کے قائل تھے مگر تصور خودی کو جاگزیں کرنا اُس وقت کی عین ضرورت اور آب ِحیات تھی۔ ایک خاص حکمت کے تحت اقبال نے تصور "فکر وحدت الوجود "کو عوام الناس کے سامنے نہ رکھا۔ اقبال کی قوم غلام تھی وہاںنفی خودی کا درس دینا قوم کے حق میں مضر تھا۔لوگ دنیا سے کنارہ کش ہو کر بیٹھ جاتے تو آزادی کا سورج نہ دیکھ سکتے۔مسلمان پہلے ہی احساس کمتری کا شکار تھے۔رہبانیت کا یہ تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام و مرتبہ، جاہ و جلال، اخلاقی قدریں،اسلامی تمد ن و اتباع اسلاف پیدانہ کرنے دیتا۔لیکن اگر بصیرت قلب اور نور نظر سے دیکھا جائے تو اقبال انہی اشعار میں جنہیں حافظ عباد اللہ فاروقی دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ ’’اقبال تصورِوحدت الوجود کو غیر اسلامی جان کر اِس سے گریزاں ہیں‘‘اُسی میں عقیدہ وحدت الوجود مضمر ہے۔مورخین اور شارح فکر اقبال کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کے ایک حصّہ سے اقبال متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ساری چیزیںخدا سے پیدا ہوتی ہیں لیکن وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ انسان مٹ کر خدا میں مل جائے گا۔چناچہ وہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح’’ سمندر اور قطرہ‘‘ کی تمثیل استعمال نہیں کرتے بلکہ’’ سمندر اور موتی‘‘ کی تشبیہ کو پسند کرتے ہیں۔
نمی دانم کہ این تابندہ گوھر
کجا بودی اگر دریا نہ بودی
مجھے نہیں معلوم کہ تابندہ گوھر کہا ں ہوتااگر دریا نہ ہوتا۔اقبال انسان کو بحر’’وحدت‘‘ کا ایک ناچیز قطرہ قرار نہیں دیتے بلکہ اس کو ایک ایسا قطرہ قرار دیتے ہیں جو اپنے اندر گوہر ِتابندہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقبال یہ نہیں چاہتے کہ قطرہ دریا میں مل کر فنا ہوجائے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا اپنے فضل سے اسے گوہرِتابندہ بنا دے۔ چناچہ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں:
میں ہوں صدف تیرے ہاتھ میں میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
میں یہاں مورخیں اور شارحین فکر اقبال سے سوال کرتی ہوں کہ آخر اقبال نے موتی (صدف) ہی کی تمثیل کیوں استعمال کی؟
اگر ہم سمندر کی حقیقت یعنی اجزاء (chemical composition) کو حقیقی نظر سے دیکھیں تو سمندر مختلف نمکیات salt ،element and compounds کا مجموعہ ہے۔ جن میں(sodium(Na) ،hydrogen(H2) ،oxygen(O2) phosphorus(P) ،calcium(Ca) ،chlorine(Cl اور (copper (Cu، کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
اور جب ہم موتی(Pearl) کی(chemical composition) اجزائے ترکیبی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موتی calcium carbonate 86% کا مجموعہ ہوتا ہے جو اصلاً سمندر کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ یعنی سمندر کے کچھ اجزاء مل کر موتی بنتے ہیں۔معلوم ہوا کہ اصل دونوں کی ایک ہے۔یہاں دوئی کا تصور ختم ہوا اور وحدت الوجود کا تصور ثابت ہوا۔
شیخ الاسلام بھی وحدت الوجود کو اصلاً توحید گردانتے ہیں۔اپنی شہرہ آفاق کتاب "سلوک و تصوف کا عملی دستور" میں سات نسبتوں کے باب میں ساتویں نسبت نسبتِ توحید بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان نسبتوں میں سے ایک نسبت نسبتِ توحید بھی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص اپنی سوچ وبچارسے یا عارفوں کی تقلید سے اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام اشیاء ایک وجود میں فنا پذیر ہیں اور یہ وجود تمام اشیاء میں جاری و ساری ہے۔ وہ بار بار اس نتیجے کو اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے اور اس طرح سالک توحید علمی سے گزرتے ہوئے توحید حالی تک پہنچتا ہے۔ جہاں نظر سے تعینات کے سب پردے اٹھا لیئے جاتے ہیں۔ بندے کے حال میں توحید کے اس اثر اور کیفیت کے جاگزیں ہونے کو نسبتِ توحید کہا جاتا ہے۔ تب سالک کل شی ھالک الا وجھہ کا راز پا لیتا ہے"۔
کوئی ذی شعور انسان اس حقیقت سے انکا ر نہیں کر سکتا کہ کسی ملت کا شباب اور عروج و کمال نوجوانان ِملت کے پاکیزہ، متحرک اور انقلابی کردار کا نتیجہ ہوتا ہے اور نوجوانوں کی گمراہی بد عملی اور اضطراب کے سبب ’’اجڑتے دیکھے ہیں گردوں نے امتوں کے شباب‘‘۔ آج نوجوانانِ ملت اسلام سے دور ہیں اور ہمارے دینی زوال کی سب سے بڑی وجہ ہماری نوجوان نسل کی کمزوری ہے۔ اگر ہم تینوں مردان ِحق کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں تو تینوں کے افکار اس بات کی ترجمان ہیں۔
’’دینی زوال کے تدارک کا منہاج صرف نسل کی اصلاح میں مضمر ہے اور نوجوان نسل کی اصلاح صرف حصول ِ علم ہے۔‘‘
رومی اس علم کو ’’ علم نافع‘‘ کہتے ہیں اور مثنوی معنوی میں اس تعلیم کی حقیقت سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں
علم را برتن زنی مارے بود
علم را من زنی یارے بود
اقبال بھی نوجوانان ملت کو لاالہ الا اﷲ کے وارث کا خطاب دیتے ہوئے جس خودی سے غافل نہ ہونے کی تعلیم دے رہے ہیں، وہ علم ہے۔ فرماتے ہیں۔
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اے لاالٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ
شیخ الاسلام حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ضرورت اس امرکی ہے کہ علم و تحقیق میں محنت کی جائے اور علم کو اکیسویں صدی کے ساتھ لے کر چلیں۔امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کئے ہوئے علم کو اتنی ترقی دی کہ وہ کئی صدیاں آگے چلا۔یہ آپ کا ہی کمال تھا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کئے ہوئے علم کو صدیوں کے قابل بنایا۔ اس کے پیچھے قوت قرآن و سنت ہی کارفرما ہے مگر محنت و تحقیق سے روشنی حاصل کی۔ ہر کوئی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نہیں بنتا۔ہم تو انہی کے دسترخوان کے خوشہ چین ہیں مگر آپ کو امام اعظم کی مثال دے کر نقش قدم بتا رہا ہوں کہ جو علم لیں اس کو اگلی صدیوں کے قابل بنائیں۔ آج اگر علماء اورطلباء یہ ٹارگٹ پورا نہیں کرتے تو ہم اگلی جنگ ہار جائیں گے۔‘‘
(خطاب شیخ الاسلام بعنوان جمہوریت اور وسعت ظرفی، مئی 2009)
کائنات میں واقع ہونے والے حوادث و واقعات کے اسباب و علل کے بارے میں سائنسدان، فلاسفہ اور حکماء کی رائے یہ ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ قائم ہے۔ اور معلول کبھی علت اور مسبب کبھی سبب سے الگ نہیں ہو سکتے۔ جدید دنیا اور اکیسویں صدی جسے سائنسی صدی کہا جاتا ہے ہر چیز کو Logic اور منطق سے ثابت کرتی ہے۔ سائنس کی "The Theory of Cause and Effect " نے اس قدر ترقی کی کہ معجزہ جو خلافِ عادت اور خرقِ عادت ہے اسے بھی logic اورFacts and Figure سے ثابت کیا۔ سائنس نے نہ صرف معجزہ کو اسباب کے ما تحت ثابت کیا بلکہ مسبب اور اسباب اور علت و معلول کا محتاج قرار دیا۔ آج دنیا ہر شے کو ظاہرکی آنکھ سے دیکھنا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے معلمینِ اسلام اور علمبردارِ دین الٰہی کے فہم وفراست نے اس بات کو محسوس کیا کے اگر اسلامی تصورات کو سائنسی اصطلاحات اور منطق کے ذریعے جدید دنیا کے سامنے نہ رکھا گیا تو تعلیماتِ اسلام جمود اور بے عملی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ساتویں صدی میں جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ واقعہ معراج (بنی اسرائیل :1) کو Theory of relativity، علم الجنین (المومنون :12-14) کو Embryology، تخلیقِ کائنات (الانبیاء :30) کو The big Bang Theory، سبز مابہ Chloroplast کو الخضراء (الانعام:99) دور آب (الاعراف :57)کو The Theory of Water Cycle، اور تسخیر ماہتاب(الانشقاق:20-18) کوMoon Landing سے ثابت نہیں کیا تھا مولانا رومی سائنس کی اہمیت سے ناواقف نہ تھے۔ مولانا ہوا میں تیر چلانے کے قائل نہ تھے بلکہ ان کے افکار اِس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کے کہ اسلامی تصوارات زندہ و جاوید ہیں ان کی جامعیت کی انتہاء یہ ہے کہ ہر پہلو سے احاطہ کیے ہوئے ہیں۔مولانا روم کی سائنسی فکر اس بات کی عکاس ہے کہ ہر شہ کو علمی، عملی اور منطقی بنیادوں پر رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ "the theory of cause and effect" کے حمایتی نظر آئے۔ مولانا فرماتے ہیں۔
بشرت احوال ہر سنت رود
گاہ قدرت خارق سنت شود
بالعموم احوال، سنت و طریقہ الٰہی کے مطابق ہی انجام پاتے ہیں مگر کبھی کبھی طریقہ سے ہٹ کر بھی ہوتا ہے۔
بے سبب گر عزیما موصول نیست
قدرت از غزل مسبب معزول نیست
کسی وجہ سے اگر یہ شرف ہمیں نصیب نہ ہوا تو مطلب یہ نہیں ہے کہ سبب نہ ہونے کی وجہ سے مسبب نہیں ہوا۔یہ ہی وجہ ہے کہ اہل حق نے مولانا رومی کی اس بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو سائنس سے جدانہ کیا اور آنے والے دور نے ہمیں جابر بن حیان (721ء تا 815ء) عبدالملک افمعی (741ء)، محمد بن موسٰی الخوارزمی، یعقوب کندی علی ابن الطہری (775 ء تا 870ء)، علی ابن عیسٰی، ابو علی حسن بن حسین ابن الہیثم، شیح الرئیس بو علی سینا (980ء تا 1037ء) جیسے عظیم مسلمان سائنسدان دیے۔ مگر افسوس غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور تمام مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و انکشافات پر سے ان موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ علامہ اقبال اس غم کو یوں بیاں کر تے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنے ماضی اور اسلاف کی روایت کی طرف ترغیب دلائی ہے اور انھیں سائنسی علوم حاصل کرنے کی طرف مائل کیا جو انکی کھوئی ہوئی میراث ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب
( بال جبریل:623)
شیح الاسلام فرماتے ہیں:
’’اشاعت و تبلیغ دین کے ذریعے نئی نسل کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے بعض کج فکر نام نہاد مبلغین اسلام قرآن وحدیث ہی کے ناقص استنباط واستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے ان کو دین سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تعلیماتِ اسلام کا سائنسی استنباط وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے‘‘۔
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام بعنوان مقام وشانِ اولیاء، مئی 2007)
حکمت وہ خاصہ ہے جسے اﷲرب العزت نے قرآن حکیم میں خیر کثیر کہا ہے۔ اور حکمت کی ناگزیریت سے اہل علم ناواقف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رومی، اقبال اور طاہر کے افکار حکمت کی اہمیت پر دال ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں۔
معدہ را خوکن ریحان وگُل
تابیانی حکمت وقوت رسل
معدہ کو ریحان وگُل یعنی ذکر حق واطاعت کی غذا کا عادی بناؤ تاکہ انبیاء علیہم السلام کی اتباع میں تمھارے باطن پر علوم و معرفت کا فیضان ہو۔
بال جبریل میں اقبال کچھ یوں ارشاد کرتے ہیں۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تیری رضا ہو تو
کر کہ مجھے تو پسند نہ آیا یہ نظام ِ خانقاہی
تو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے عاری یہ جہانِ مرغ و ماہی
اور شیخ الاسلام بھی کچھ ان ہی افکار سے مزین فرماتے ہیں:
’’اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے فقط علم ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے حکمت کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک اسلام کی تبلیغ اور دعوت حکمت پر مبنی رہی تو اس وقت تک اس دعوت و تبلیغ کے صحیح نتائج پیدا ہوتے رہے، اور اسلام کی تعلیمات کے مقاصد کماحقہُ حاصل ہوتے رہے۔ مگر جب سے حکمت اہل علم کے پیشِ نظر نہ رہی اور دعوت وتبلیغ کا مرکز ومحور حکمت کی بجائے فقط علم بن گیا تو اس وقت سے تبلیغ اپنی افادیت کھو بیٹھی، تبلیغ کی مقصدیت فوت ہوگئی۔ تبلیغ کی موثریت ختم ہوگئی۔‘‘
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام بعنوان، دور حاضر میں دعوت دین کی حکمت عملی، مئی 2009)
ساتویں صدی عیسوی میں علم الکلام اور عقلیت کی جو سرد ہوا عالم اسلام میں شرق تک چلی تھی اس سے دل کی انگیٹھیاں سرد ہوگئی تھیں۔ اگر کہیں عشق کی چنگاریاں تھیں تو راکھ کے ڈھیر کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔ اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک افسردہ دلی بلکہ مردہ دلی چھائی ہوئی تھی اور کہنے والا کہ رہا تھا:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں خاک کا ڈھیر ہے
علم الکلام کے ٹھنڈے پانی نے عشق کی آگ پر قطرہ قطرہ ڈال کر اسے ٹھنڈا کر دیا اور دنیا عقل وعشق کے نہ ختم ہونے والی بحث میں ڈوبنے لگی اور حیات کی کوئی راہ نہ بچی۔ مگر اہل حق اور عارف ہمیشہ سے مقام عشق سے روشناس تھے،ہیں اور ہوں گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے افکار رومی و اقبال کی طرح تصور عشق میں یکساں ہیں۔
مولانارومی عشق کو عقل سے برتر تسلیم کر تے ہیں اور عشق کا حقیقی تصور بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عشق میں سب کچھ فنا کردو یہاں تک کے معشوق کے سواء کچھ بھی باقی نہ رہے۔ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ کو چوں بر فروخت
ھرچہ معشوق باقی جملہ سوخت
اقبال کہتے ہیں :
تیرے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
اور کچھ یوں بھی کہتے ہیں :ـ
عشق سلطان است و برہان مبین
ہر دو عالم عشق را زیرنگین
شیخ الاسلام عشق پر عقل کی برتری کے خلاف ہیں اور عشق کا صحیح تصور پیش کرتے ہوئے معروف قول نقل کرتے ہیں:
العشق نار يحرق ما سوا المحبوب
"عشق وہ آگ ہے جو ما سوا معشوق کے سب کچھ جلا دیتی ہے"۔
رومی، اقبال و طاہر جس عشق کی دعوت دے رہے ہیں اس کا تعلق عالمِ آب و گل سے نہیں۔ یہ وہی لم یزل کا عشق ہے، وہ عشقِ حقیقی ہے جس کی تازگی اور آبیاری سدا بہار پھولوں کی طرح ہے۔ موجودہ دورِ فتن میں بحث ِعقل وعشق، عشق کی کیاری میں نرم و نازک پھولوں کی آبیاری لہو سے کر رہی ہے۔ مگر مردانِ حق کے افکار عقل پر عشق کی برتری کو تسلیم کر تے ہیں لیکن عقل کے مخالف بھی نہیں ہیں۔
معرفتِ الہٰی اور روحانی ترقی کا راز کیا ہے؟ اگر ہم تینوں شخصیات کے افکار کا باریک بینی، بصیرت اور نور ِنظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تینوں کے نزدیک معرفت حق، قرب ِ الہٰی، روحِ ایمان، مقصود الہٰی اور رضائے الہٰی کا راز اتباعِ مرشد اور بیعتِ حق ہے۔ مولانا رومی، شمس تبریزی کو اپنا مرشد کامل تسلیم کرتے ہیں۔
چوں شوی دور از حضور اولیاء
درحقیقت گستہ دور از خدا
مولانا رومی صحبت ِ مرشد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اﷲ والوں کی جانوں کو نورِ فراست عطا ہوتا ہے۔ جو قیل و قال اور کتب خانوں سے نہیں ملتا۔ بلکہ کسی اﷲ والے کی صحبت میں ایک عمر محنت اور مجاہدہ سے ملتا ہے۔
علامہ اقبال بھی انہی افکار کی حامل شخصیت ہیں اور اپنے فکری ورحانی پیر و مربی مولانا رومی کو کہتے ہیں۔ کتاب جاوید نامہ کی نظم خطاب با جاوید نامہ میںاقبال اپنے بیٹے اور در حقیقت تمام انسانیت کو کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے ہیں اور صحبت صالحہ کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’تو کسی ہمنشین حق (یعنی مردِ حق جو خدا کا راز دار ہو)کو تلاش کر اور اس کی صحبت اختیار کر چاہے تیری راہ میں سینکڑوں الجھنے اور مشکلیں آئیں مگر تو اس کی طلب کا ذوق ہاتھ سے نہ جانے دے لیکن اگر تجھے ایسے باخبر مردِ حق کی صحبت میسر نہ آئے تو پھر جو کچھ میں نے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہے تو وہ لے لے تو پیر رومی کو اپنے راستے کا ساتھی بنا لے تاکہ تجھے خدا سوز و گداز عطا فرمائے‘‘۔
شیخ الاسلام مرشد کامل کی صحبت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ کے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’بے شک محبت الہی، خشیت الہی اور معرفت ِ الہی میں اہل اﷲکے دلوں کو تینوں حال اور تینوں کیفیات بدرجہ اتم نصیب ہوتی ہیں اور وہ نہ صرف خود سیرابی پاتے ہیں بلکہ افراد امت میں بھی روحانی شادابی کا باعث بنتے ہیں۔ آؤ ان کا تذکرہ کریں اور ان کی صحبت میں جا بیٹھیں تا کہ ان کی بات سن کر ہماری بات بن جائے ان کاحال جان کر ہمارا حال سنور جائے ان کی بیداریاں دیکھ کر کچھ ہماری غفلت دور ہو، ان کی گریہ و زاریاں دیکھ کر کچھ ہمیں رونے کا طریقہ آئے اور ان کی مستیاں اور مشاہدے دیکھ کر کچھ ہم لذتِ دید کے طالب بنیں‘‘۔
(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تذکرے اور صحبتیں: 32)
رومی کے عہد میں مسلمان سیاسی طور پر صلیبی یلغار اور شورش تاتار سے تہہ و بالا ہو گئے تھے ایسی صورت حال میں سیاسی سطح پر دین کی سربلندی کرنے والا دین کو طاغوتی یلغار سے بچانے والا اور دین کی شمع کو روشن کرنے والا ہی انقلابی لیڈر اور سیاست دان ہوسکتاہے۔
مولانا ابو الحسن ندوی لکھتے ہیں کہ:
’’مثنوی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ 20 ویں صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر دوبارہ مادیت کا حملہ ہوا اور یورپ میںفلسفہ اور سائنس نے قلوب میں شکوک و شبہات کی تخم ریزی کی اور ایمانیات و غیبات کی طرف سے ایک عام بے اعتمادی پیدا ہونے لگی۔ اس کا رجحان بڑھنے لگا کہ ہر وہ چیز جو مشاہدے اور تجربے کے ما تحت نہ آسکے اور حواسِ ظاہری اس کی گرفت نہ کر سکیں وہ موجود نہیں۔ عقائد کی قدیم کتابیں اور قدیم طرز ِ استدلال وعلم کلام نے اس کا مقابلہ کرنے سے معذوری ظاہر کی تو مثنوی نے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کا جو یورپ کی مادی اور سیاسی فتوحات سے کم نہ تھا کامیاب مقابلہ کیا۔‘‘
ثابت ہوا کہ مولانا رومی کے افکارِ سیاست نے بھی اپنا لوہا منوایا اور قلم کی تلوار سے ارضی فتوحات کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاست کے اصل مقصود کو سمجھ گئے تھے۔ ان کے نزدیک اقتدار اﷲ کے دین کو عام کر نے کا نام ہے۔
علامہ اقبال بھی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی کو کہتے ہیں۔اور اس میں نبوی مقصدِ سیاست کا رازمضمر ہے۔فرماتے ہیں:
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماںمیں اسی لیے ہوں نمازی
شیخ الاسلام بھی انھی افکار کے مبلغ نظر آتے ہیں۔فرماتے ہیں:
’’یہ اذان گواہ ہے کہ طاہرالقادری نہ صدارت لے گا نہ وزارت۔ طاہرالقادری کی ساری لڑئی ساری کوشش ساری جنگ نظام مصطفوی کو دوسرے نظام پر غالب لانے کی جنگ ہے۔ باطل کو مٹانے کی جنگ، روس اور امریکہ کے سامراجی ہتھکنڈوں کو نیست و نابود کرنے کی جنگ ہے۔طاہرالقادری غریبوں کی ہڈیوں پر محلات اور کارخانے تعمیر کرنے والے سرمایہ داروں کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے۔ ان شاء اللہ غریب کو اس کا حق اور اسکا جائز حصہ لے کر دے گا۔خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔‘‘
بیسویں اور اکیسویں صدی میں اقبال اور طاہر نے رومی کی اہمیت اور ان کی فکر سے زمانہ کو بلند آہنگی کے ساتھ روشناس کرایا ہے۔ اقبال ااور طاہر نے مغرب اور مشرق کے کئی سرچشموں سے استفادہ کیا ہے اور اپنے افکار کی اساس قرآن کریم پر رکھی۔ انہوں نے قوم میں انقلابی شعور بیدار کیا اور افراد میں نظم و ضبط،جانفشانی و قربانی اور منظم جدوجہد کا شعور پیدا کیا۔ انھوں نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ امراض ملت کی دوا اور خون فاسد کے لیے مثل تبشیر ہے۔ان کے افکار عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور ہیں جو عوام کے افکار کو مظہری جہت اور جمالیاتی تجسم عطا کرتے ہیں۔ان کے افکار و وسعت نظری، اعلیٰ ظرفی اور بصیرت قلبی عطا کرکے انسان کو مقام انسانیت تک پہنچا دیتے ہیں۔
آپ نے ملاحظہ کیا کے تینوں مردان حق کے افکار ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔ایسی فکر کو متعارف کروانے میں ایک نام ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی ہے۔
تیری ہستی کو چند لفظوں میں سمیٹوں کیسے
تیرا کردار تو لگتا ہے مجھے آکاش کی مانند