قسط نمبر17
منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔
- ضالاً کو مفعول مقدم ماننے سے نہ معنی میں خرابی لازم آتی ہے اور نہ ہی ترکیب
آیت میں، تو پھر اس پر واویلا کیوں؟ ہاں اگر تقدیم مفعول میں یہاں کوئی مانع ہے تو
اس کی
نشاندہی کرنا غامدی صاحب کی ذمہ داری تھی لیکن شاید ان کی نظر میں وہ موانع ہی نہ ہوں۔ بس اتنا ہی اسباق النحو کی صورت میں پڑھ لیا ہو اور اسی پر شور مچانے کو کافی سمجھا ہو کہ مفعول ہمیشہ فعل کے بعدہی آتا ہے۔ حالانکہ سورۃ فاتحہ پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاکَ نَسْتَعِيْنo (الفاتحه،1: 4) دونوں جگہ ایاک مفعول مقدم ہے اور ایک اہم فائدہ کے پیش نظر اسے مقدم کیا گیا ہے۔
علماء نحاۃ نے یہ تصریح کی ہے کہ فاعل پر مقدم نہیں کیا جا سکتا مگر مفعول کو عامل (فعل) پر مقدم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں بعض صورتوں میں تقدیم واجب اور بعض میں ممنوع ہے اور ان دونوں کے علاوہ تقدیم و تاخیر دونوں جائز ہیں۔
بقيت مسئلة الترتيب بينهما و بين عاملهما و ملخص القول فيها: انّ الفاعل لا يجوز تقديمه علی عامله وان المفعول به يجب تقديمه علی عامله فی صورو يمتنع فی اخریٰ و يجوز فی غير هما.
(عباس حسن،الاستاذ السابق بکلية دارالعلوم جامعة الازهر،النحو الوافی،القاهره، مصر،دارالمعارف، ج 2، ص87)
’’باقی رہ گئی بات فاعل، مفعول اور ان دونوں کے عامل کے درمیان ترتیب کی تو اس کاخلاصہ یہ ہے کہ فاعل کی تقدیم اس کے عامل پر جائز نہیں۔ ہاں مفعول بہ کی تقدیم ہو سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں یہ تقدیم واجب ہوتی ہے اور بعض میں ممنوع ہے اور ان کے علاوہ بقیہ صورتوں میں تقدیم و تاخیر دونوں جائز ہیں۔‘‘
تقدیم و تاخیر کے تقاضے بیان کرنے کے بعد انہوں نے لکھا ہے:
و فی غير مواضع التقديم الواجب والتاخير الواجب
(عباس حسن،الاستاذ السابق بکلية دارالعلوم جامعة الازهر،النحو الوافی،القاهره، مصر،دارالمعارف، ج 2، ص90)
’’تقدیم واجب اور تاخیر واجب کی مذکورہ صورتوں کے علاوہ دیگر مقامات پر دونوں صورتیں جائز ہوتی ہیں( یعنی مفعول کو عامل پر مقدم کرنا یا موخر کرنا دونوں جائز ہیں)‘‘۔
اس تفسیر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں ضلالت کی ظاہری نسبت حضور نبی کریم اکی طرف ہے جبکہ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر حضور علیہ السلام کے بارے میں خود فرمایا:
وَمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo
(النجم، 53: 2 )
’’تمہارا رہبر نہ گمراہ ہوا اور نہ بھٹکا ‘‘
اگر یہاں بھی وہی معروف معنی لیا جائے تو آیات قرآنی میں تضاد لازم آتا ہے اور حضور علیہ السلام کے مقام و منصب کی تنقیص بھی جو قرآن کا منشا ء نہیں ہو سکتا۔ اسے غامدی صاحب نے خود بھی تسلیم کیا ہے۔اس لئے امام شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ معنی پر یہ نوٹ لکھا ہے:
والحامل عليه ان وصف النبی صلی اللّٰه عليه وسلم بالضلال بحسب معناه المشهور غير ظاهر فلذا صرفه عن ظاهره.
(خفاجی،ابو عباس احمد بن محمد بن عمر، نسيم الرياض فی شرح شفاء)
(القاضی عياض، بيروت، لبنان، دارالکتب العلمية، ج 1، ص 112)
’’اس معنی کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ضلالت کے مشہور معنی کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف درست ہی نہیںاسی لئے معنیِ ظاہر سے اعراض کیا گیا ہے۔‘‘
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان ادب و تعظیم نبوت کا نام ہے، محض قواعد نحو کا نہیں، وہ تو یقینا اس فکر میں ہوں گے کہ اس کا کوئی ایسا معنی تلاش کیا جائے جو اوّلاً آپ اکے مقام و منصب اور عظمت کے لائق ہو۔ ثانیاً نحو و ادب کے قواعد اس کی تائید کریں ورنہ قران ان قواعد کا تابع نہیں، خود قواعد قرآن اس کے منشا ء کے تابع ہیں۔اور جن کے ذہن تعظیم و احترامِ نبوت اسے خالی ہیں ان کو محض قواعد و اصول ہی کی فکر رہتی ہے۔ قواعد سلامت رہیں منشائے قرآن اور ایمان ہاتھ سے جاتا ہے تو جاتا رہے۔
- غامدی صاحب کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ (معاذاللہ) حضورعلیہ السلام کو’’ اے محبوب‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا فرد تر، غیر ثقہ اور ناموزوں ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حضور علیہ السلام کو جہاں بھی مخاطب کیا ہے آپ کے منصبِ نبوت و رسالت کے حوالے سے مخاطب کیا ہے جیسے یاا یھاالنبی اور یایھاالرسول۔ ہر صاحبِ ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کے اندر اسالیب تخاطب کے مقابلے میں’’ اے محبوب‘‘ کا یہ اسلوب کس قدر فروتر اور غیر ثقہ ہے اسے ناموزوں قرار دینے کے لیے تنہا یہی کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے التفات کے مواقع پر بھی اپنی کتاب میں یہ اسلوب اختیار نہیں کیا۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اسلوبِ تخاطب اور دوسرے کا تخاطب یہ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی یہ کسی کا دعویٰ ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اے محبوب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاسکتا ہے یا نہیں اور کیا یہ طریقہ فرو تر اور ناموزوں ہے؟
- یہ بات مسلّمہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ دیگرانبیاء
علیھم السلام کے لحاظ سے جو امتیازی اوصاف آپ اکو حاصل ہیں ان میں سے نمایاں وصف
خود حضورعلیہ السلام نے اسی درجہِ محبوبیت کو قرار دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے سابقہ انبیاء کے درجات کے بارے میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو’’کلیم‘‘ کا درجہ عطا فرمایا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ قرار پائے۔ سیدنا آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے صفی ہیں اتنے میں حضورا تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’قدسمعت کلامکم وعجبکم ان ابرا هيم خليل اللّٰه و هو کذلک و موسیٰ نجی اللّٰه و هوکذلک عيسٰی روح اﷲ و کلمته وهوکذٰلک واٰدم اصطفاه. اللّٰه وهوکذلک الاوانا حبيب اللّٰه ولا فخر.
(ترمذی،ابوعيسیٰ محمد بن عيسیٰ،السنن الترمذی،بيروت،لبنان،داراحياء التراث العربی،ج 5، ص587)
’’میں نے تمہارے کلام او تعجب کو سنا ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل تھے وہ واقعۃً ایسے ہی تھے۔ موسٰی علیہ السلام اللہ کے نجی تھے،واقعۃًایسے ہی تھے۔ عیسٰی علیہ السلام اللہ کی روح اور اس کے کلمہ تھے۔واقعۃً ایسے ہی تھے۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا صفی بنایا۔ وہ ایسے ہی تھے لیکن سن لو، مَیں اللہ کا محبوب ہوں اور اس پر فخر نہیں۔‘‘
اہل محبت جب بھی سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرنے لگتے ہیں تو ان کے کانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد الا وانا حبیب اللّٰہ کے الفاظ ہی گونجتے ہیںلہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نمایاںوصف کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (م 4101ھ/6061ء) اس فرمان نبوت کے تحت لکھتے ہیں:
وانا حبيب اللّٰه ای محبه و محبوبه.
(القاری،ملا علی نورالدين بن سلطان محمد،المرقاة المفاتيح شرح المشکاة المصابيح، ملتان، پاکستان، مکتبه امداديه، ج 11، ص 16)
’’میں اللہ کا حبیب ہوں یعنی میں اس کا محب بھی ہوں اور محبوب بھی‘‘
لیکن جن کے کانوں پر بغض اور تعصب کی وجہ سے وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا. (الاعراف،7: 791) ’’ان کے کان ہوتے ہیں مگر سنتے نہیں‘‘ کے مصداق پردے پڑ چکے ہوں وہ اس آواز کو کیسے سن سکتے ہیں؟افسوس ایسے نام نہاد امتی جو اپنے آقا کے بارے میں اے محبوب خدا کے الفاظ کو فروتر اور نا مناسب تصور کرتے ہیں۔ خدا جانے ان کا اپنا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ کے حضور کیا ہوگا؟
- اللہ رب العزت کے اپنے پیارے محبوب پر اتنا خصوصی کرم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آ جانے والے ہر فرد کو اپنا محبوب بنا لینے کا مژدہ سناتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3: 13)
’’اے محبوب: فرما دو اے لوگو! اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے واقعۃً محبت ہے تو میری اتباع کرو،اللہ تعالیٰ تمہیںاپنا محبوب بنا لے گا‘‘
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ظهرفی الاستدلال علی ان مرتبةمحبوبيته فی درجة الکمال قول ذی الجلال والجمال قل ان کنتم تحبون اللّٰه فاتبعونی يحببکم اللّٰه.
(القاری،ملا علی نورالدين بن سلطان محمد،المرقاة المفاتيح شرح المشکاة المصابيح، ملتان، پاکستان، مکتبه امداديه، ج 11، ص 62)
’’آپ اکو اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کمال درجہ کا مقام محبوبیت حاصل ہے اس پر صاحب جلال و جمال باری تعالیٰ کا یہ ارشاد شاہد ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ‘‘
اللہ رب العزت کا کرم بھی ملاحظہ ہو کہ وہ اپنے محبوب کے ساتھ رشتہ اتباع میں وابستہ ہونے والے ہر شخص کو محبوب کہہ کر بلاتا ہے لیکن غامدی صاحب کو حضور علیہ السلام کے لیے ایسے محبوب کا طرزتخاطب نہیں بھاتاصرف اس لیے کے اس طرز تخاطب سے حضور علیہ السلام کی شان محبوبیت ظاہر ہوتی ہے۔