بعد از حمد و صلوۃ یہ سوچتا رہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کو اپنے مشاہدے کے تناظر میں بیان کروں یا اپنے تجربے کی روشنی میں ذکرکروں، ان کو ان کی مجالس کی رو سے لکھوں یا ان کے خطابات لیکچرز کی تہوں میں اتر کر رقم کروں یا ان کی سینکڑوں تصانیف میں ان کی قلم سے نکلے ہوئے موتیوں میں تلاش کروں پھر یہ خیال آیا ان کو ان کے دنیا بھر کے اسلامک سینٹرز، دعوتی و تبلیغی اور فلاحی، رفاعی مراکز اور تنظیمی دفاتر میں ڈھونڈوں یا پاکستان بھر میں تعلیمی، دعوتی اور تنظیمی نیٹ ورک میں غورکروں پھر دفعتاً اس خیال کو بھی ترک کیا اس لئے کہ خیال کو بھی کوئی سمت اور جہت ہی نہیں مل رہی اس بناء پر کہ خیال کو بھی ایک بحرے بے کنار سے واسطہ پڑا ہے۔ پھر اچانک اسی بحرے بے کنارے کے فیض سے ایک موج ذہن کی سطح پر تیرتی ہوئی آئی اور وہ یہ پیغام لائی انسان کی فضیلت اور فوقیت اور شرف و عزت اور انفرادیت و علوت وہی ہے جسے زمانے کے معاصرین، موافقین، مخالفین، ناقدین اور عدوین مانیں، جانیں، اعتراف کریں اور تسلیم کریں۔
اس لئے پھر دیکھا کہ کس کس نے انہیں کیا کہا ہے اور کیا لکھا ہے کیسے انہیں پرکھا ہے کیسے انہیں جانا ہے، کیسے انہیں دیکھا ہے اور کیسے انہیں محسوس کیا ہے، ان ساری ادراکی کیفیات کو بطور ٹائٹل یہ نام دیا ہے۔ کہتی ہے خلق خدا تجھے: کیا؟ کیا؟
اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ خلق خدا کے حوالے سے کس کس کی بات نقل کی جائے اور کس کی بات کو اظہار میں لایا جائے اس بارے میں عربی کا یہ مشہور مقولہ راہنمائی کرتا ہے۔
والفضل ماشهدت به الاعداء.
حقیقی فضل و کمال وہ ہے جسے دشمن و مخالفین بھی مانیں اور گواہی دیں اس قول کی بناء پر ڈاکٹر طاہرالقادری کو ان کے معاصرین کس کس نگاہ اور زاویے سے دیکھتے ہیں ان کی آراء و افکار کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے اس سارے مواد کا ماخذ مجلہ منہاج القرآن کے دو شمارے سلور جوبلی نمبر2005ء اور خصوصی اشاعت دسمبر2014ء ہیں، مجلے کی انتظامیہ کا بھی شکریہ اور ان تمام شخصیات کا بھی جن کے خیالات سے ہزاروں مستفید ہوں گے، مجھے امید ہے ان شاء اللہ یہ کاوش عصر حاضر کی اس عظیم اور نابغہ عصر شخصیت کی جان و پہچان کے لئے ایک کتاب کے مقدمے کی اولین چند سطور کی حیثیت ضرور حاصل کرے گی۔ باری تعالیٰ راقم و مولف کو اپنی اور اپنے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا عطا فرمائے اور اپنے صالحین کی خوشنودی عنایت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
1۔ علماء و مشائخ عظام کی رائے
1۔ اس بچے سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔ شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے 1966ء میں سید ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ ، پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ غلام محی الدین بابو جی رحمۃ اللہ علیہ گولڑہ شریف، خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ تونسہ شریف کی موجودگی میں جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی عمر پندرہ سال تھی، دارالعلوم سیال شریف کی تقریب میں خواجہ صاحب کے حکم کے مطابق دس منٹ خطاب کیا اس کے بعد شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی پیشانی چومتے ہوئے فرمایا:
’لوگو! آپ نے اس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے، میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں ہمیں اس بچے پر فخر ہے، ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی بچہ عالم اسلام اور اہلسنت کا قابل فخر سرمایہ ہوگا۔ میں تو شاید زندہ نہ ہوں لیکن آپ میں سے اکثر لوگ دیکھیں گے کہ یہ بچہ آسمانِ علم وفن پر نیر تاباں بن کر چمکے گا۔ اس کے علم و فکر اور کاوش سے عقائد اہلسنت کو تقویت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا۔ اہلسنت کا مسلک اس نوجوان کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی کاوشوں سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔
2۔ اس نوجوان سے ایک عالم فیضیاب ہوگا۔ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
اللہ پاک نے انہیں بہت صلاحیتیںعطا کررکھی ہیں، مجھے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ سب لوگ گواہ ہوجائیں اور میری یہ بات غور سے سن لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں فیوضاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو، اللہ کرے ان کے اس علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہوگا۔
3۔ یہ نوجوان ہمارا سہارا ہے۔ ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
خدائے قدوس کا ہم پہ احسان ہے کہ اس نے آج کے دور میں اس مرد مجاہد (ڈاکٹر طاہرالقادری) کو حسنِ بیان اور دردِ دروں کے ساتھ سوچ، ذہن اور دل کی وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ جن کی بدولت سب طلسم پارہ پارہ ہوجائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں کامیابی کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔
اس دور پرفتن میں جب میں اس نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کے حضور احساس تشکر سے بھرجاتا ہے۔ میری زبان پر بے ساختہ آتا ہے کہ مولا ہماری دولت، ہمارے نوجوان ہم سے چھن گئے تھے۔ یہ تیرا کرم ہے کہ تو نے اس مرد مجاہد سے ہمیں سہارا عطا کیا۔ نوجوانوں کو اس کے بیانات و خطبات سننے اور اس کی تحریریں پڑھنے سے تسکین ملتی ہے ہمارے دلوں سے دعا نکلتی ہے کہ اے خدا! اس مرد مجاہد کو عمر خضر عطا فرما۔
2۔ عالمی شخصیات کی رائے
1۔ منہاج القرآن دنیا کی بہترین تنظیم ہے۔ شیخ احمد دیدات۔ سائوتھ افریقہ
میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی احیائے اسلام اور دین مبین کی سربلندی کے لئے کی جانے والی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے دنیا بھر میں کوئی بھی تنظیم یا تحریک، تحریک منہاج القرآن سے بہتر منظم اور مربوط نہیں دیکھی۔
2۔ ان کا علم و فکر پھلدار درخت کی مانند ہے۔ الشیخ السید محمد الیعقوبی۔ محدث شام
مجھے ڈاکٹر صاحب کے آثار علمی جن میں ان کی کتب اور ان کے اداروں سے فارغ ہونے والے کثیر طلباء ہیں، دیکھ کر دلی اطمینان اور خوشی ہوئی۔ اس ادارے، کی مرکزی لائبریری، دفاتر اور تمام شعبے قابل تقلید اور قابل رشک انداز سے خدمت دین میں محو ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں ڈاکٹر صاحب کے علم وفکر کو قد آور و مفید پھلدار درخت کی طرح دیکھا ہے جس پر ہمہ وقت اللہ کے فضل وکرم سے فصلِ بہار کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
3۔ میں انہیں دیکھ کر ورطہ حیرت میں ہوں۔ ڈاکٹر عبدالرحیم علی۔ رکن مجلس شوریٰ سوڈان
مجھے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے جب ان کی تصانیف، دعوتی، علمی اور فکری مواد اور ان کی دیگر Productions دیکھیں اور پھر ان کی معلومات کی وسعت اور مختلف زبانوں میں ان کی مہارت کو ملاحظہ کیا تو ایک شخص میں اتنی زیادہ خوبیاں دیکھ کر میری عقل ورطہ حیرت میں گم ہوگئی ہے۔
4۔ وہ قابل رشک شخصیت ہیں۔ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی ۔ فقیہ دمشق
ہم نے منہاج القرآن کے مختلف شعبہ جات اور سرگرمیاں دیکھیں تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ خاص طور پر اس تحریک کا دینی نیٹ ورک اور انتظام و انصرام جس کی سرپرستی اور دیکھ بھال خود شیخ الاسلام فرمارہے ہیں۔ یقینا قابل رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو عمر دراز عطا فرمائے اور انکے وجود مسعود سے مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچائے ہم یہ تمنا کرتے ہیں کہ منہاج القرآن کی پوری دنیا میں شاخیں ہوں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم بھی اس تحریک کے سپاہی بن کر خدمت دین کا فریضہ سرانجام دیں۔
5۔ طاہرالقادری کی مثال مسلم دنیا میں کوئی نہیں۔ شیخ محمد ابوالخیر الشکری۔ شام
ہم نے منہاج القرآن کے تمام شعبہ جات دیکھے جن کے مشاہدے نے ہمارے سینوں کو ٹھنڈا اور ہمارے دلوں کو فرحت بخشی ہے اور ہمیں منہاج القرآن کے اس تمام نیٹ ورک کے پیچھے بہت زیادہ کاوشیں کارفرما نظر آئیں جس کی مثال عالم اسلام میں نہیں ملتی۔ہمارے اس دورے کا ماحصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیارت ہے۔ ان کی شکل میں ہم نے ایک سچے عالم اور ایک عظیم لیڈر کی جھلک دیکھی ہے۔ وہ ایک ایسے محقق ہیں جن کی مثال آج کی مسلم دنیا میں یقینا نہیں ملتی۔
6۔ وہ جدید و قدیم علوم کے جامع ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین احمد۔ شام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی تحریک منہاج القرآن آج کے دور میں علوم عصریہ اور علوم دینیہ کو یکجا کررہے ہیں اور شریعت و حقیقت اور عقل و قلب کو بھی اس طرح جمع کر رہے ہیں جس سے انسان کو کمال نصیب ہوتا ہے اور یہ کمال اس زمانے میں ختم ہورہا ہے۔ جسے منہاج القرآن نے اب زندہ کردیا ہے اور شیخ الاسلام، امت محمدیہ کے اسی فرض کفایہ کو ادا کررہے ہیں۔
3۔ اہل قانون کی رائے
1۔ تم نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اے کے بروہی۔ نامور ماہر قانون
پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں اجتہاد کے موضوع پر آپ کا لیکچر سننے کے بعد اے کے بروہی نے کہا:
بروہی اتنی آسانی سے کسی سے متاثر نہیں ہوتا لیکن
Gentleman you have realy impressed me
آج آپ کی گفتگو سے میں بہت خوش اور متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ کے علمی مستقبل سے پرامید ہوں، آپ نے جس Depth میں باتیں کیں ہیں میں نے انہیں پا لیا ہے، بہر حال میں آپ کے ان خیالات کے شائع ہونے کا انتظار کروں گا اور اس کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کرنا چاہوں گا۔
ii۔ کاش لوگ تمہاری قدر کریں اور ساتھ دیں۔ اے کے بروہی
کراچی کے میریٹ ہوٹل میں Islamic Concept of State کے موضوع پر ہمدرد ملت حکیم محمد سعید مرحوم نے سیمینار کرایا۔ پروگرام کے اختتام پر اے کے بروہی بار بار ڈاکٹر طاہرالقادری کو کہہ رہے تھے۔
’’You have to protect your self in this country‘‘
ڈاکٹر صاحب اس ملک میں اپنی حفاظت خود کرنا۔ اس لئے کہ آپ کے خلاف بڑا حسد ہوگا۔ People will jalous، اہل علم حسد کریں گے اور عوام ناقادری کریں گے (الا ماشاء اللہ)، وقت کے ساتھ حسد اور عداوت بڑھتی جائے گی، دشمنی کا وطیرہ عام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت علم وفکر آپ کو دے رکھی ہے اسے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، کاش دوسرے لوگ بھی اسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے آپ کے مقام و مرتبے کا اندازہ کریں اور آپ کا ساتھ دیں۔
2۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی ہے۔ جسٹس انوارالحق۔ سابق چیف جسٹس پاکستان
مجھے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملنے اور ان کے خیالات اور تصورات سے زبانی اور تحریری صورت میں مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گہرے علم اور منفرد حکمت سے نوازا ہے اور انہیں ایسی صلاحیت حوصلہ اور عزت عطا کی ہے جس کا ایک ہی شخصیت میں پایا جانا آج کے دور میں نایاب ہے۔ عصر حاضر میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے بڑی حکمت و دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں اسلام کی شمع کو فروزاں کردیا ہے اور امت کی ہمہ گیر اصلاح کرنے کی صورت میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی ہے۔
3۔ طاہرالقادری کو جدید و قدیم علوم پر عبور حاصل ہے۔ جسٹس غلام مجدد مرزا۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذاتی عظمت، انتھک جدوجہد، ان کے افکار و کردار کی خوبصورتی، ان کی پاکیزگی اور ان کا نیک سیرت کردار ہونا یہ سب چیزیں مل کر ان کو گلشن اسلام کا ایک منفرد پھول بنادیتی ہیں، ان کی زندگی کا مشن اسلام کی خدمت ہے، اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کا ابلاغ و فروغ ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کو علوم جدیدہ و قدیمہ دونوں پر عبور اور ملکہ حاصل ہے۔ انہوں نے جس انداز اور طریق پر ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباع و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ اس نے انسانیت کی قلب و روح کو ایک نئی خوبصورتی عطا کی ہے اور اللہ کے بندوں کو ایک نئی خوشبو سے معطر کردیا ہے۔
4۔ ہر موضوع پر گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ جسٹس سید سجاد علی شاہ۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عظیم اور ذہین انسان ہیں اور ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ اپنی تنظیم کو نہایت ہی منظم انداز میں لیکر رواں دواں ہیں، سب سے اہم بات جو میں نے ان میں دیکھی ہے وہ وسیع المطالعہ ہیں۔ وہ ہر موضوع پر بغیر جھجک کے کئی کئی گھنٹے گفتگو کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کو بڑے اچھے انداز میں آرگنائز کیا ہوا ہے، نہ صرف پورے ملک میں ان کی شاخیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کے بڑے بڑے اسلامک سنٹرز ہیں۔ جہاں مثبت انداز میں اسلام کو پیش کیا جارہا ہے اور تعلیم کو فروغ فروغ دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بہت بڑی منہاج یونیورسٹی بھی قائم کی ہے جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوںنے دین اسلام کی وسیع پیمانے پر خدمت کی ہے اور بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
3۔ آرمی جرنیلوں کی رائے
1۔ طاہرالقادری ہمہ جہت رہبر و راہنما ہیں۔ مرزا اسلم بیگ۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف
میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکری مقام اور علمی وسعت کو ناپنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک منفرد بات اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک شخص اتنے مختصر عرصہ میں وہ سب کچھ کر ڈالے جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا ہے۔ 1951ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری پیدا ہوئے اور اب اتنا بڑا علمی نام، بے شمار تصانیف اور اتنی زیادہ زمین پر نظر آنے والی عملی خدمات اور اتنے زیادہ ادارے اور دنیا کے بے شمار ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک اور وہ بھی اتنے کم اور انتہائی مختصر عرصے میں یہ سب کچھ دیکھ کر انسان محو حیرت ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری روایتی علماء سے کلیتاً مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ تنگ نظر نہیں ہیں اور ایک ہی سمت نہیں سوچنے ہیں، درحقیقت ڈاکٹر طاہرالقادری ایک متبحر عالم دین بھی ہیں، ایک مفکر بھی ہیں، ایک روحانی رہنما بھی ہیں، ایک معاشرتی مصلح بھی ہیں، ایک سیاسی مدبر بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک عظیم قائد بھی ہیں۔
2۔ اسباب کو موافق بنانے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ جنرل (ر) حمید گل۔ سابق سربراہ آئی ایس آئی
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک (God Gifted) انسان ہیں آپ عظیم سکالر اور بہترین مقرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کے پاس نہ صرف دینی علوم کا خزانہ موجود ہے بلکہ دنیاوی و سائنسی علوم پر بھی کامل دسترس ہے۔ نوجوان نسل ڈاکٹر طاہرالقادری سے اسی بناء پر بہت متاثر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو یہ کمال بھی حاصل ہے کہ آپ اسباب (Create) کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ کی شخصیت میں (Diversity) اور تنوع ہے جس سے نوجوان نسل آپ کی جانب مائل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نوجوانوں کی علمی، فکری اور عملی، فکری تربیت کررہے ہیں۔ آپ کا علمی مقام مستند ہے جو اتحاد امت مسلمہ کا تصور دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دی ہے جس کی وجہ سے وہ آپ کی شخصیت سے Inspire ہیں۔ بہر حال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ:
He is an Intelligent, energetic, Honest, Honourable and Hardworking Leader.
آپ نوجوانوں کے لئے Absorbing شخصیت کے مالک ہیں اور آپ ایک عظیم معلم، اعلیٰ مربی ہیں اور نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
3۔ طاہرالقادری کی کال پر لاکھوں لوگ آگئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف۔ سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو دھرنا دیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ان کی ایک کال پر لاکھوں لوگ آگئے ہیں۔ اس لئے کہ لوگ موجودہ لیڈر شپ سے تنگ ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہئے پہلی بات تو یہ ہے ان کا لانگ مارچ ایک بہت بڑا انقلاب مارچ ہے، قابل دید ڈسپلن ان کے ہاں دیکھنے کو ملا ہے میں نے آج تک اتنا منظم اور ڈسپلن سے بھرپور دھرنا پاکستان کی دھرتی میں نہیں دیکھا ہے۔
یہ تاثر قطعاً غلط ہے کہ طاہرالقادری کسی غیر ملکی ایجنڈے اور پیسے کے سہارے پاکستان میں آئے ہیں۔ اس دھرنے سے قبل ان کی کارکردگی دیکھیں ان کی تقاریر اور لیکچرز کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد سنتی ہے۔ وہ مکمل تیاری اور ہوم ورک کے بعد پاکستان میں آئے ہیں اور ان کو دنیا بھر سے عام لوگ تحریک کے لئے عطیات دیتے ہیں جو کہ کروڑوں میں ہیں اس لئے میری رائے ہے ان کو کوئی غیر ملکی امداد نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی ان کی مالی سپورٹ کرتا ہے۔
4۔ اہل سیاست کی رائے
1۔ چوٹی کے سیاستدان ہیں اور مخالفین ان سے خائف ہیں۔ فاروق احمد لغاری۔ سابق صدر پاکستان
ڈاکٹر طاہر القادری بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاستدان ان سے خائف بھی رہتے ہیں کیونکہ تقریر و تحریر اور مدلل گفتگو میں وہ چوٹی کے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست، دھن‘ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ طاہر القادری نہ جاگیردار ہیں نہ سرمایہ دار ہیں دنیا ان کو ایک نامور سکالر، سیاستدان اور عالمی شخصیت کے روپ میں دیکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر طاہر القادری ایک کامیاب سیاستدان اور زیرک انسان ہیں۔ مستقبل میں ان کی حکمت عملی بجا طورپر انہیں عزت افزائی سے سر فراز کریگی۔
2۔ اسلام کو بطور رول ماڈل پیش کیا ہے۔ معراج خالد۔ سابق وزیراعظم
ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کتنی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑا تعلیمی اور تنظیمی نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ وہ اپنی تحریک کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک اسلام کو ایک بہترین رول ماڈل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تعلیمی میدان میں جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے جو سلیبلس و کورس متعارف کرایا ہے وہ آج کی علمی اور عصری ضرورتوں کو پورا کررہا ہے۔ ان کی کامیابیاں قابل تحسین ہیں اور دنیا بھر میں منہاج القرآن کے بہت بڑے تنظیمی نیٹ ورک کا تمام تر کریڈٹ ان ہی کو جاتا ہے۔
3۔ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ میاں محمد اظہر۔ سابق گورنر پنجاب
میں ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت سے گذشتہ20سالوں سے واقف و متعارف ہوں اب یہ واقفیت ایک خوشگوار تعلق میں بدل چکی ہے۔ جہاں تک ان کی شخصی خوبیوں کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ آج کے دور میں جتنی محنت اور لگن سے انہوں نے اپنا نیٹ ورک بنایا ہے۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میری ان سے شناسائی ایک جید عالم اور عظیم مفکر کے طور پر تھی مگر اب اس کے ساتھ ساتھ میں ان کی سیاسی بصیرت کا بھی قائل ہوچکا ہوں اور میں ہمیشہ ان سے احترام اور محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔
5۔ اہل صحافت کی رائے۔ انقلاب مارچ اور دھرنے کے تناظر میں
i۔طاہرالقادری میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ تنویر قیصر شاہد۔ روزنامہ ایکسپریس
سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف، سیرت نگار اور یورپ و شمالی امریکہ اور ساری دنیا میں دہشت گردی اور خونخوار دہشت گردوں کے خلاف پہلی بار باقاعدہ فتویٰ مرتب اور پیش کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان بھر کے میڈیا پر آج کل چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا نمایاں نجی ٹی وی نہیں ہے جس نے ان کا انٹرویو نشر نہ کیا ہو۔ ان کے مصاحبوں کے مندرجات سے اتفاق یا عدم اتفاق کرنا سننے والوں کا بنیادی حق ہے لیکن اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت اور ان کے افکار کو نظر انداز کرنااور ان سے اغماض برتنا ہمارا میڈیا افورڈ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہا اور لکھا گیا کتاب ہے۔ ان کے دلائل کا جواب کوئی بھی مخالف دے نہیں پارہا ہے۔ البتہ وہ ان کو مشتعل اور بے توقیر کرنے کی ناکام کوشش ضرور کررہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دین کی خدمت میں لاریب بے مثل کام کیا ہے۔ اب ڈاکٹر طاہرالقادری دلیل و برہان کی طاقت سے عوام کو زبان دینے کے لئے نکلے تو سٹیٹس کو کی حامی قوتیں چاروں اطراف سے ان پر حملہ آور ہونے لگی ہیں۔ لٹھ بازوں کا گروہ ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے باہر نکل آیا ہے۔ مستقبل کے احوال تو صرف خدا کی بابرکت ذات ہی بہتر جانتی ہے لیکن اتنا ضرور نظر آرہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا قافلہ اب رکنے اور تھمنے والا نہیں ہے۔
ii۔ طاہرالقادری کا دھرنا پاکستان کا منفرد اور طاقتور احتجاج تھا۔ تنویر قیصر شاہد۔ روزنامہ ایکسپریس
تقریباً پانچ ہفتوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے چودہ مقتول ساتھیوں کے لئے انصاف کے حصول میں حکمرانوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ساڑھے چھ عشروں پر محیط پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے منفرد اور طاقتور احتجاج ہے۔ اس نے اہل زر اور اہل اقتدار کے قلعے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ دونوں قائدین کے دھرنوں سے قبل اس قلعے کو ناقابل تسخیر اور ناقابل شکست کہا جاتا تھا مگر کپتان، ڈاکٹر قادری اور ان کے پیروکاروں نے کمٹمنٹ، جگرداری اور عزم کا ایسا متحدہ اور مستحکم مظاہرہ کیا ہے کہ قلعہ ہی اپنی بنیادوں تک لرز گیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے پیروکار پوری قوم کی شاباشی کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی انقلابی تحریک نے پاکستانی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان کی کوششوں، اعلانات اور خطابات نے ثابت کیا ہے کہ ان کی جماعت، پاکستان عوامی تحریک، صحیح معنوں میں عوام کی نمائندہ جماعت ہے انہوں نے آئین کی پہلی شق سے لے کر چالیسویں شق تک سب عوام کو یاد کرادی ہیں۔
طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ ہیں۔ حسن نثار۔ روزنامہ جنگ
ابھی کل تک طاہرالقادری اور منہاج القرآن، سب کچھ یہیں تھا لیکن ’’بدنیتی‘‘ کو نہ ’’ٹیکس‘‘ یاد آیا نہ وہ مبینہ منی لانڈرنگ جس کی تلاش میں حکومتی گھوڑے دوڑائے گئے اور غیر ملکی حکومتوں نے انہیں بتایا کہ طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ ہیں۔ کمال ہے کہ جب تک ان کی دم پر پائوں نہ آیا انہیں کسی ٹیکس اور منی لانڈرنگ کا خیال تک نہ آیا کہ پاکستان کے ساتھ جو مرضی ہوتا رہے، چند خاندان ہر قیمت پر محفوظ رہیں لیکن انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
طاہرالقادری پر مقدموں کی یلغار ہے ٹیکس چوری سے غداری تک کے الزام اس بات کا اہتمام ہیں کہ عوام اس درویش کی طرف مزید متوجہ نہ ہوں جو سردھڑ کی بازی لگاچکا ہے۔
i۔ پاکستان کی بقاء، طاہرالقادری کے لبرل اسلام میں ہے۔ ایاز امیر روزنامہ جنگ
دہشت گرد صرف ایک فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک نظریئے کا بھی نام ہے۔ ان کے خلاف فوج اپنی توپوں اور بندوقوں سے کارروائی کرسکتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کے نظریئے کو بھی مٹانے کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری ادارے اس بات کو سمجھ لیں تو یقین کرلیں کہ پاکستان کو عراق یا شام بننے سے روکنے کا واحد طریقہ فوجی طاقت اور وہ لبرل اسلام ہے جس کا پرچار ڈاکٹر طاہرالقادری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سرزمین سے کوئی تکفیری فتنہ سر اٹھا ہی نہیں سکتا۔ ان کی کاوشوں کے بعد ہمارے ہاں چھ دہائیوں کے بعد تبدیلی و انقلاب کی لہر چل پڑی ہے۔
ii۔عوامی تحریک کی خواتین کارکن بے مثال ہیں۔ ایاز امیر روزنامہ جنگ
جب پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال پر نظر پڑتی ہے تو ان میں زیادہ تر لڑکیوں کے سر پر دوپٹہ ہے اور کچھ نے نقاب بھی پہنا ہوا ہے ان کی آنکھوں سے ہویدا عزم کی چمک دیکھنے کے لئے بہت بڑا دیدہ ور ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف سیاسی تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی طاقت، کوئی تنظیم، کوئی جماعت عوامی تحریک کی ان خواتین کارکنوں کی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتی، میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے بذات خود انہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جب وہ مصطفوی انقلاب کے لئے مکہ بلند کرکے نعرے لگاتی ہیں ان کے ہمالیہ جیسے عزم کے سامنے کنٹینر خس و خاشاک کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ یقینا پاکستان کے سامنے ایک مستقبل ہے اور ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
iii۔ طاہرالقادری کی آمد کا سن کر حکومت لرز اٹھی۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان میں اپنی آمد کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا گئی۔ ذرا تصور کریں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ایک شخص کی آمد کے اعلان سے لرز اٹھی۔ اس وقت پنجاب کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے لیکن سبق کی تکلیف دہ دھول چھٹی تو ماڈل ٹائون سانحہ اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ حکمرانوں کے گلے کا پھندا بن چکا تھا۔ طاہرالقادری کے پیروکاروں نے استقامت اور نظم و ضبط کی مثال قائم کی ہے دھوپ اور بارش میں بھی وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود رہے ہیں۔
iv۔ طاہرالقادری آئین کا پاسباں ہے۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
طاہرالقادری کوئی فاشسٹ، انارکسٹ یا نظام کو ختم کرنے والی، کوئی تباہ کن قوت نہیں بلکہ وہ آئین اور قانون کو سمجھنے اور اس کی پاسداری کرنے والے رہنما ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو سماجی انصاف اور زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کئے بغیر جمہوریت صرف کاغذی کارروائی ہے کیونکہ یہ عوام کی بجائے صرف مراعت یافتہ طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے۔ طاہرالقادری کا تصور سیاست اسلامی فلاحی ریاست کے قریب تر ہے۔ اور اس کا اظہار اقبال کے ان اشعار کے ذریعے کرتے ہیں۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
v۔ طاہرالقادری اولوالعزم لیڈر ہیں۔ ایاز میر روزنامہ جنگ
سیاست میں گفتار کے غازی طبقے جو خود کو سیاست میں اتھارٹی سمجھتے ہیں ان کے لئے طاہرالقادری کو برداشت کرنا بہت مشکل سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت ملک بھر میں پھیلے ہوئے سامعین و ناظرین کو سیاسی اقدار کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک فطرتی مقرر ہیں اور سامعین کو گھنٹوں تک سحر زدہ کرسکتے ہیں لیکن اپنے روزانہ کے ٹی وی خطاب کے لئے تیار ہوکر آتے ہیں۔ ان کے پاس ضروری نوٹس اور حوالہ جات موجود ہوتے ہیں۔ شروع میں بہت سے سیاسی مبصرین ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن طاہرالقادری بہت اولوالعزم نکلے اور انکے پیروکار ان سے بھی بڑھ کر بے خوف دکھائی دیئے جو پنجاب پولیس کا بے جگری سے سامنا کرتے ہوئے اب تک ایک تاریخ رقم کرچکے ہیں۔ (جاری ہے)