وقت یا سال کہنے کو سہ حرفی لفظ ہیں مگر ان کے دامن میں کئی نسلوں اور تہذیبوں کے تذکرے ہیں۔ وقت ایک بہتا دھارا ہے جسے ماپنے کے لیے کوئی مخصوص آلہ نہیں۔ اقوام عالم میں اسے مختلف انداز سے متعین کیا گیا مثلاً زمین پر آدم علیہ السلام کی آمد سے، طوفان نوح علیہ السلام سے، نار خلیل اللہ سے، یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، موسیٰ علیہ السلام کے خروج مصر سے، حضرت داؤد علیہ السلام سے، حضرت سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے گویا ہر قوم اپنے اپنے علاقے میں کسی اہم واقعے کا سن کا نام دیتی رہی یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سال ہجرت سے ہجری سال کا آغاز ہوا۔
گذرے زمانے کے حالات و واقعات کو محفوظ رکھنے اور آئندہ زمانے کے لین دین اور معاملات کی تاریخ متعین کرنے کے لئے سالوں کا گوشوارہ یعنی کیلینڈر نہایت ضروری ہے۔ ماضی اور مستقبل کے حساب کتاب کی ان تاریخوں کو تقویم کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں جن کا دارومدار تین چیزوں پر ہے جن میں نمایاں سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ گویا شمسی قمری اور نجومی تین بنیادی تقاویم ہیں۔ ہمارے ہاں عیسوی اور ہجری دو سنین چلتے ہیں۔ عیسوی انگریزی اور ہجری اسلامی مہینوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
وقت انسانی مٹھی میں تھامی خشک ریت کی مانند ہے اسے جتنا مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کریں اتنا تیزی سے پھسلتا ہے ایسے میں عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ مٹھی کھول کر ہاتھ کو پیالے کی طرح اس عظیم رب کے سامنے دعائے خیر کے لیے پھیلادیں جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا میں اپنے نائب کے درجے پر فائز کردیا مگر اس انسان نے بچپن کے ابتدائی سال تو کم علمیوں اور نادانیوں کی نظر کردیئے۔ لیکن جوانی میں اپنے مقصد تخلیق سے ناآشنائی گذرتے ہوئے ماہ و سال کو لوٹا نہیں سکتی اگر ایسا ہی رہا تو بڑھاپے میں متعدد بیماریوں کا شکار ہوکر باقی ماندہ سال پچھتاوؤں کی نظر ہوجائے گا۔ بقول امجد اسلام امجد
سہمے سمندر کہا تو نے جو بھی سنا، ہر نہ سمجھے
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا
شیخ سعدی نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے:
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار
جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے۔
وقت کا پہیہ دن، ماہ و سال کی شکل میں رواں دواں ہے تقریباً 40 ہزار سال قبل سے دنیا کی تمام تہذیبوں میں ہر نئے سال کو بطور جشن منایا جاتا رہا ہے۔ 31 دسمبر کو نئے سال کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو پورا دسمبر نئے سال کے جشن کے پروگراموں کی ترتیب و تنظیم میں گذرتا ہے۔
گریگورین کیلنڈر کے مطابق یکم جنوری سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے قبل از مسیح روم میں جو لین کیلنڈر کے تحت یہ دن جنیس نامی دیوتا (جو شروعات اور گذرگاہوں کا خدا مانا جاتا تھا) کے نام پر پہلے مہینے کا نام جنوری رکھا گیا۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح ہم بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں۔ عیش و نشاط کی محفلوں اور رنگ برنگے سے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں۔
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی
ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اے فانی بشر! کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالق جہاں نے اس سارے سال میں تجھے کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور تو پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوا؟ تیرا ہر آنے والا سال تجھے ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں تیرا پور پور کا حساب لیا جائے گا۔ اس جہان انتظار میں قدم قدم پر دفاتر شمار و ماہ و سال و یوم و ہفت کھل جائیں گے، کتاب عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے تمہیں بچا پائیں گے۔
عمر رواں کے بیتے سالوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے ہم تہی دامن ہیں۔ یقین و گماں یا امید و خوف کے وسوسوں کے سوا کچھ نہیں۔ اب کے دسمبر ماہ ربیع الاول میں آکر ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کرلو خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی بخشش کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا اس کی بارگاہ میں یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ یعنی ذرا برابر نیکی کا عمل بھی رائیگاں نہیں جاتا۔ آج ہی اپنی زندگی کے باقی ماندہ سالوں کی منصوبہ بندی اچھے طریقے سے کرلو۔ آنے والے سال کا تخمینہ لگا کر جدول تیار کرو اور اپنی منزل کے اہداف متعین کرکے نئے سال کے سفر کا آغاز کرو کیونکہ
رو میں ہے خش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں