سانحہ ماڈل ٹاؤن پر حکومت نے ابتدائی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے انکار کردیا کیونکہ اس تحقیقاتی جوڈیشل کمیشن نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کردیا تھا۔ PAT کی طرف سے کوئی گواہیاں نہیں دی گئیں اسکے باوجود ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حقائق واضح کردئیے۔ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ اس رپورٹ سے وزیراعلیٰ کا قاتل ہونا ثابت ہوچکا تھا۔ شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں پولیس کو واپس بلانے کیلئے Disengagement کا لفظ استعمال کیا، یہ دہشت گردی کی اصطلاح ہے جس کے تحت صفایا کرو اور واپس آجاؤ کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ لہذا 14 لاشیں اور 14 گھنٹے کی یہ طویل کارروائی ان کے حکم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
وزیر اعلی اور اس کے کارندوں نے جب انگلی کے بجائے اپنی طرف پورا ہاتھ اٹھتا دیکھا تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بجائے یہ کہہ کر کہ یہ رپورٹ درست تحقیقات پر مبنی نہیں، ایک نئی جے آئی ٹی بنا ڈالی اور پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اس رپورٹ کو شائع کرنے سے فرقہ وارنہ فسادات کا خطرہ ہے۔
پاکستان عوامی تحریک نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع کی جائے مگر ان حکمرانوں نے جوڈیشل کمیشن بنتے ہی اپنے کسی عام شہری سے جوڈیشل کمیشن کی قانونی حیثیت کو چیلنج کروا دیا تھا تا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تواسے چیلنج کیا جا سکے۔ بالکل ایسا ہی ہوا کہ رپورٹ لکھے جانے کے بعد جب حکمرانوں کو پتہ چلا کہ ذمہ دار انھیں ٹھہرایا گیا ہے تو اس درخواست پر سماعت شروع کروا دی تا کہ کمیشن کو ہی ختم کر دیا جائے جس نے یہ رپورٹ لکھی ہے۔
٭ اس جوڈیشل کمیشن کو از خود تحلیل کرنے کے بعد اس سانحہ پر حکومت نے اپنی مرضی کی ایک اور JIT (تحقیقاتی ٹیم) بنا ڈالی۔ اس JIT پر بھی PAT نے عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ JIT ہمیں اعتماد میں لئے بغیر بنائی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ایک ایسی JIT بنائی جائے جس میں ISI، MI، IB اور KPK کا کوئی پولیس افسر شامل ہو تاکہ آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات عمل میں آئیں جبکہ حکومت اس طرح کی JIT بنانے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی تھی اور نہ ہی شہباز شریف کا استعفیٰ آرہا تھا۔ حکومت نے اپنی مرضی کی JIT بنائی جس میں سربراہ کی ذمہ داری اپنے معتمد خاص عبدالرزاق چیمہ کو سونپی گئی۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تفتیش کے لئے JIT بنانے کا اختیار بھی نامزد ملزمان جو پنجاب و وفاق حکمران ہیں، ان کے پاس ہو۔ پاکستان عوامی تحریک اور جملہ شہداء کے لواحقین نے اس سرکاری JIT کو ماننے سے انکار کردیا اور اعلان کردیا کہ ہم اس JIT پر اعتماد نہیں کرتے۔
اس JIT نے اپنے متعدد اجلاس کئے، مگرجن پر ظلم ہوا، جن کے افراد شہید و زخمی ہوئے، جو متاثر ہوئے ان کی کوئی شنوائی تاحال نہ ہوسکی اور اس سانحہ کے دوران شہید و زخمی ہونے والے انصاف کی تلاش میں ہیں۔
اگر یہ سانحہ حکمرانوں کی مرضی سے نہ ہوا ہوتا تو حکمران غیر جانبدار تفتیش کروا کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر یہاں پر کچھ الٹا ہی دکھائی دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو پنجاب حکومت کی طرف سے سزا دینے کی بجائے نوازا گیا۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدے سے ہٹا کر عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بعد ڈبلیو ٹی او میں سفیر مقرر کر دیا گیا، جس پر پاکستان عوامی تحریک نے شدید احتجاج کیا اور ہزاروں لوگوں کے دستخطوں سے ڈبلیو ٹی او کو ایک یادداشت بھیجی کہ 14 انسانوں کے قاتل کو بطور سفیر قبول نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر توقیر کو اس عہدے سے ڈبلیو ٹی او نے ہٹا دیا۔
اسی طرح رانا ثناء اللہ کو وزیر قانون کے عہدے سے ہٹانے کے بعد پہلے سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے۔ اس سانحہ میں ملوث کئی پولیس افسران کو ترقیاں دے دی گئیں اور کئی کو بیرون ملک کورسز پر بھجوا دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ردعمل میں کم و بیش پاکستان کی تمام جماعتوں نے نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کیا لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور اب وہ اپنی سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد موجودہ حکمرانوں پر ماڈل ٹاؤن واقعہ کا الزام ہی نہیں بلکہ جرم ثابت ہوچکا۔ یہ بات واضح ہے کہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کا قیام حکمرانوں کیلئے پھانسی کا پھندا ہے۔اگر حکمران قاتل نہیں تو غیر جانبدار جے آئی ٹی کیوں نہیں بناتے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل محرکات کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جدوجہد جن کرپٹ ظالم حکمرانوں کے خلاف تھی وہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل مجرم ہیں۔قائد انقلاب کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے اپنے کارکنان کی جانیں پیش کر کے پاکستانی عوام کے سامنے سیاسی شعبدہ بازوں کے راز کھول دئیے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے والے، دنیا دار اور دین کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کو خطرے پہنچتے دیکھ کر آپس میں مک مکا کرلیتے ہیں۔ ان تمام حکمران طاقتوں کیلئے پاکستان عوامی تحریک کا پیغام ہے کہ ’’ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘ حکمران طاقت کے زور سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شواہد کو جتنا بھی مسخ کر لیں مگر ایک نہ ایک دن ان کو اس ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ وقت بدلتا ہے، ایام گردش کرتے ہیں۔ اللہ کی صفتِ عدل یہ ہے کہ وہ اسی دنیا میں حساب برابر کر دیتا ہے۔ تم دنیا کے عدالتی نظام پر اثر انداز تو ہو سکتے ہو مگر خدائی نظام عدل میں مکافاتِ عمل سے کوئی راہ فرار نہیں۔